Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 103
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
لَا تُدْرِكُهُ : نہیں پاسکتیں اس کو الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ يُدْرِكُ : پاسکتا ہے الْاَبْصَارَ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ اللَّطِيْفُ : بھید جاننے والا الْخَبِيْرُ : خبردار
اسے نگاہیں نہیں گھیر سکتیں اور وہ نگاہوں کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ بڑا باریک بین ہے بڑا باخبر ہے،151 ۔
151 ۔ وہ مشرکوں کے دیوتاؤں کی طرح ناقص القوی نہیں، اس کا علم ہر کلیہ وجزئیہ کو محیط ہے۔ (آیت) ” لا۔۔۔ الابصار “۔ یعنی وہ کسی کے بھی حواس ظاہری کی گرفت میں اس دنیا میں نہیں آسکتا۔ درآنحالیکہ اس کی گرفت علمی میں سب ہی ہیں۔ ادراک احاطہ وتحدید کے معنی میں ہے۔ اور آیت سے مقصود حق تعالیٰ کی تنزیہ حدوث سے ہے۔ بین سبحانہ انہ منزہ عن سمات الحدود وھنا لاادراک بمعنی الاحاطۃ والتحدید (قرطبی) قال الزجاج ای لایبلغ کنہ حقیقتہ (قرطبی) قال ابن عباس لاتدر کہ الابصار فی الدنیا ویراہ المومنون فی الاخرۃ (قرطبی) اعلم ان الادراک غیر الرؤیۃ لان الادراک ھو الوقوف علی کنہ الشیء والا حاطۃ بہ (معالم) (آیت) ” لا تدرکہ الابصار “۔ الفاظ پر یہ شبہ پیش کیا گیا ہے کہ جب انسانی آنکھیں حق تعالیٰ کی دید کر ہی نہیں سکتیں تو پھر جنت میں اس کی رویت مومنین کو کیسے ہوگی ؟ نیز معراج میں رسول اللہ ﷺ کو کیسے ہوئی ؟ مفسرین محققین نے شبہ کو نقل کرکے مفصل وشافی جوابات دیئے ہیں۔ لیکن اس کم فہم کے نزدیک ایک مختصر اور سیدھی سی بات یہ ہے کہ یہاں ذکر تو اسی مادی وناسوتی دنیا کے قوی کا ہے۔ جنت میں تو قوی ہی دوسرے ہوں گے عالم ناسوت میں نفی دیدار سے جنت کے دیدار کو تعلق ہی کیا ؟ علی ہذا واقعہ معراج میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت حق کا تعلق ہی ان قوائے ناسوتی سے بالکل نہیں، وہ واقعہ تو خودہی عالم آخرت کا ہے جس کا تجربہ ومشاہدہ بہ طور معجزہ کے رسول اللہ ﷺ کو اسی دنیا میں کرا دیا گیا۔ (آیت) ” لا تدرکہ الابصار “ محقق تھانوی (رح) نے فرمایا کہ بصر سے مراد اگر بصارت ہے تو نفی رویت اسی دنیا کے ساتھ محدود رہے گی اور اگر بصارت وبصیرت دونوں مراد ہیں تو نفی ادراک کے معنی نفی ادراک بالکنہ کے لئے جائیں گے۔
Top