Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 103
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
لَا تُدْرِكُهُ : نہیں پاسکتیں اس کو الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ يُدْرِكُ : پاسکتا ہے الْاَبْصَارَ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ اللَّطِيْفُ : بھید جاننے والا الْخَبِيْرُ : خبردار
نہیں پا سکتیں اس کو آنکھیں اور وہ پاسکتا ہے آنکھوں کو اور نہایت لطیف اور خبردار ہے
خلاصہ تفسیر
اور اس کے علیم ہونے کی اور اس میں منفرد ہونے کی یہ کیفیت ہے کہ) اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہوسکتی (دنیا میں تو اس طرح کہ کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا، جیسا کہ دلائل شرعیہ سے ثابت ہے، اور آخرت میں اس طرح کہ اہل جنت کو دیکھیں گے جیسا کہ یہ بھی دلائل شرعیہ سے ثابت ہے لیکن احاطہ محال رہے گا اور جس محسوس بالبصر کے ظاہر کا احاطہ احساس بصری سے محال ہو تو اس کی حقیقت باطنی کا کہ ظاہر کے مقابلہ میں بدرجہا خفی تر ہے، احاطہ کرنا عقل سے جو کہ احساس سے بدرجہا زیادہ محتمل خطا ہے بدرجہ اولیٰ محال ہوگا) اور وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) سب نگاہوں کو (جو کہ اس کے احاطہ سے عاجز تھیں وجوباً) محیط ہوجاتا ہے (اسی طرح اور چیزوں کو بھی علماً محیط ہے، (آیت) (وھو بکل شیء علیم) اور (اس امر سے کہ وہ سب محیط ہے اور اس کو کوئی محیط نہیں لازم آگیا کہ) وہی بڑا باریک ہیں، باخبر ہے (اور کوئی دوسرا نہیں، اور یہ وہ کمال علم ہے جس میں اللہ تعالیٰ یکتا ہے، آپ ﷺ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع (یعنی توحید و رسالت کے حق ہونے کے دلائل عقلیہ و نقلیہ) پہنچ چکے ہیں سو جو شخص (ان کے ذریعہ سے حق کو) دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا، اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا اور میں تمہارا (یعنی تمہارے اعمال کا) نگران نہیں ہوں (یعنی جیسا نگرانی کرنے والے کے ذمہ ہوتا ہے کہ ناشائستہ حرکت نہ کرنے دے، یہ میرے ذمہ نہیں، میرا کام صرف تبلیغ ہے) اور (دیکھئے) ہم اس (عمدہ) طور پر دلائل کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ آپ ﷺ سب کو پہنچا دیں، اور تاکہ یہ (منکرین تعصب سے) یوں کہیں کہ آپ ﷺ نے کسی سے (ان مضامین کو) پڑھ لیا ہے (مطلب یہ کہ تاکہ ان پر اور زیادہ الزام ہو کہ ہم تو اس طرح واضح کرکے حق کو ثابت کرتے تھے اور تم پھر لغو بہانے تراشتے تھے) کہ ہم اس (قرآن کے مضامین) کو دانشمندوں کے لئے خوب ظاہر کردیں (یعنی قرآن کے نازل کرنے کے تین فائدے ہیں، ایک یہ کہ آپ کو اجر تبلیغ ملے، دوسرے یہ کہ منکرین پر زیادہ جرم قائم ہو، تیسرے یہ کہ دانشمند و طالبانِ حق کو حق ظاہر ہوجاوے پس) آپ (یہ نہ دیکھئے کہ کون مانتا ہے اور کون نہیں مانتا) خود اس طریق پر چلتے رہئے جس (پر چلنے) کی وحی آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے (اور اس طریق میں بڑی چیز یہ اعتقاد ہے کہ) اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (اور اس طریق میں تبلیغ کا حکم بھی داخل ہے) اور (اس پر قائم رہ کر) مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے (کہ افسوس انہوں نے قبول کیوں نہ کیا) اور (وجہ خیال نہ کرنے کی یہ ہے کہ) اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو یہ شرک نہ کرتے (لیکن ان لوگوں کی بدعنوانیوں سے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ ان کو سزا دیں، اس لئے ایسا ہی سامان جمع کردیا، پھر ان کو آپ ﷺ کیا مسلمان بنا سکتے ہیں) اور (آپ ﷺ اس فکر میں پڑے ہی کیوں) ہم نے آپ ﷺ کو ان (کے اعمال) کا نگراں نہیں بنایا اور نہ آپ (ان اعمال پر عذاب دینے کے ہماری طرف سے) مختار ہیں (پس جب آپ ﷺ کے متعلق نہ ان کے جرائم کی تفتیش ہے اور نہ ان کی سزا کا حکم ہے، پھر آپ ﷺ کو کیوں تشویش ہے)۔

معارف و مسائل
سورة انعام کی ان پانچ آیات میں سے پہلی آیت میں ابصار، بصر کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نگاہ اور دیکھنے کی قوت، اور ادراک کے معنی پالنا، پکڑ لینا، احاطہ کرلینا ہیں، حضرت ابن عباس ؓ نے اس جگہ ادراک کی تفسیر احاطہ کرلینا بیان فرمائی ہے (بحر محیط)
معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ ساری مخلوقات جن و انس و ملائکہ اور تمام حیوانات کی نگاہیں مل کر بھی اللہ جل شانہ کو اس طرح نہیں دیکھ سکتیں کہ یہ نگاہیں اس کی ذات کا احاطہ کرلیں، اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کی نگاہوں کو پوری طرح دیکھتے ہیں اور ان کا دیکھنا ان سب پر محیط ہے، اس مختصر آیت میں حق تعالیٰ کی دو مخصوص صفتوں کا ذکر ہے، اول یہ کہ ساری کائنات میں کسی کی نگاہ بلکہ سب کی نگاہیں مل کر بھی اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکیں۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر جہان کے سارے انسان اور جنّات اور فرشتے اور شیطان جب سے پیدا ہوئے، اور جب تک پیدا ہوتے رہیں گے وہ سب کے سب مل کر ایک صف میں کھڑے ہوجائیں تو سب مل کر بھی اس کی ذات کا اپنی نگاہ میں احاطہ نہیں کرسکتے۔ (مظہری بحوالہ ابن ابی حاتم)
اور یہ خاص صفت حق جل شانہ کی ہی ہو سکتی ہے، ورنہ نگاہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت بخشی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے جانور کی چھوٹی سے چھوٹی آنکھ دنیا کے بڑے سے بڑے کُرّے کو دیکھ سکتی اور نگاہ سے اس کا احاطہ کرسکتی ہے، آفتاب و ماہتاب کتنے بڑے بڑے کُرّے ہیں کہ زمین اور ساری دنیا کی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے، مگر ہر انسان بلکہ چھوٹے سے چھوٹے جانور کی آنکھ ان کُرّوں کو اسی طرح دیکھتی ہے کہ نگاہ میں ان کا احاطہ ہوجاتا ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ نگاہ تو انسانی حواس میں سے ایک حاسّہ ہے، جس سے صرف محسوس چیزوں کا علم حاصل ہوسکتا ہے، حق تعالیٰ کی ذات پاک تو عقل و وہم کے احاطہ سے بھی بالاتر ہے، اس کا علم اس حاسہ بصر سے کیسے حاصل ہو
تو دل میں آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
حق تعالیٰ کی ذات وصفات غیر محدود ہیں، اور انسانی حواس اور عقل و خیال سب محدود چیزیں ہیں، ظاہر ہے کہ ایک غیر محدود کسی محدود چیز میں نہیں سما سکتا، اسی لئے دنیا کے عقلاء و فلاسفر جنہوں نے عقلی دلائل سے خالق کائنات کا پتہ لگانے اور اس کی ذات وصفات کے ادراک کے لئے اپنی عمریں بحث و تحقیق میں صرف کیں، اور صوفیائے کرام جنہوں نے کشف و شہود کے راستہ سے اس میدان کی سیاحت کی، سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ اس کی ذات وصفات کی حقیقت کو نہ کسی نے پایا نہ پاسکتا ہے، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا
دور بینان بارگاہ الست
غیر ازیں پے نہ بردہ اندکہ ہست
اور حضرت شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا
چہ شبہا نشستم دریں سیر گم
کہ حیرت گرفت آستینم کہ قم
رُویت باری تعالیٰ کا مسئلہ
انسان کو حق تعالیٰ کی زیارت ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں تمام علماء اہلسنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اس عالم دنیا میں حق تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ اور زیارت نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے جب یہ درخواست کی کہ رَبِّ اَرِنِی ”اے میرے پروردگار مجھے اپنی زیارت کرا دیجئے“۔ تو جواب میں ارشاد ہوا کہ لَن تَرَانِی ”آپ ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے“۔ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کو جب یہ جواب ملتا ہے تو پھر اور کسی جن و بشر کی کیا مجال ہے، البتہ آخرت میں مؤمنین کو حق تعالیٰ کی زیارت ہونا صحیح و قوی احادیث متواترہ سے ثابت ہے، اور خود قرآن کریم میں موجود ہے
(آیت (وجوہ یومئذ الناضرہ)
”قیامت کے روز بہت سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے“۔
البتہ کفار و منکرین اس روز بھی سزا کے طور پر حق تعالیٰ کی رویت سے مشرف نہ ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے(آیت)
کلا انہم عن ربھم یومئذ لمحجوبون)
”یعنی کفار اس روز اپنے رب کی زیارت سے محجوب و محروم ہوں گے“۔
اور آخرت میں حق تعالیٰ کی زیارت مختلف مقامات پر ہوگی، عرصہ محشر میں بھی، اور جنت میں پہنچنے کے بعد بھی، اور اہل جنت کے لئے ساری نعمتوں سے بڑی نعمت حق تعالیٰ کی زیارت ہوگی۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو حق تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ جو نعمتیں جنت میں مل چکی ہوں ان سے زائد اور کچھ چاہئے تو بتلاؤ کہ ہم وہ بھی دیدیں، یہ لوگ عرض کریں گے، یا اللہ ! آپ نے ہمیں دوزخ سے نجات دی، جنت میں داخل فرمایا، اس سے زیادہ ہم اور کیا چاہیں ؟ اس وقت حجاب درمیان سے اٹھا دیا جائے گا، اور سب کو اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوگی، اور جنت کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہوگی، یہ حدیث صحیح مسلم میں حضرت صہیب ؓ سے منقول ہے۔
اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات چاند کی چاندنی میں تشریف فرما تھے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا مجمع تھا، آپ ﷺ نے چاند کی طرف نظر فرمائی اور پھر فرمایا کہ (آخرت میں) تم اپنے رب کو اسی طرح عیاناً دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔
ترمذی اور مسند احمد کی ایک حدیث میں بروایت ابن عمر ؓ منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو جنت میں خاص درجہ عطا فرمائیں گے، ان کو روزانہ صبح وشام حق تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی۔
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں کسی کو حق تعالیٰ کی زیارت نہیں ہو سکتی، اور آخرت میں سب اہل جنت کو ہوگی، اور رسول کریم ﷺ کو جو شب معراج میں زیارت ہوئی وہ بھی درحقیقت عالم آخرت ہی کی زیارت ہے، جیسا شیخ محی الدین ابن عربی نے فرمایا کہ دنیا صرف اس جہان کا نام ہے جو آسمانوں کے اندر محصور ہے، آسمانوں سے اوپر آخرت کا مقام ہے، وہاں پہنچ کر جو زیارت ہوئی اس کو دنیا کی زیارت نہیں کہا جاسکتا۔
اب سوال یہ رہتا ہے کہ جب آیت قرآنی لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَار سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رویت ہو ہی نہیں سکتی تو پھر قیامت میں کیسے ہوگی ؟ اس کا جواب کھلا ہوا یہ ہے کہ آیت قرآنی کے یہ معنی نہیں کہ انسان کے لئے حق تعالیٰ کی رویت وزیارت ناممکن ہے، بلکہ معنی آیت کے یہ ہیں کہ انسانی نگاہ اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی، کیونکہ اس کی ذات غیر محدود اور انسان کی نظر محدود ہے۔
قیامت میں بھی جو زیارت ہوگی وہ اسی طرح ہوگی کہ نظر احاطہ نہیں کرسکے گی، اور دنیا میں انسان اور اس کی نظر میں اتنی قوت نہیں جو اس طرح کی رویت کو بھی برداشت کرسکے، اس لئے دنیا میں رویت مطلقًا نہیں ہو سکتی، اور آخرت میں قوت پیدا ہوجائے گی، تو رویت وزیارت ہوسکے گی، مگر نظر میں ذات حق کا احاط اس وقت بھی نہ ہو سکے گا۔
دوسری صفت حق تعالیٰ شانہ کی اس آیت میں یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کی نظر ساری کائنات پر محیط ہے، دنیا کا کوئی ذرہ اس کی نظر سے چھپا ہوا نہیں، یہ علم مطلق اور احاطہ علمی بھی حق تعالیٰ شانہ کی ہی خصوصیت ہے، اس کے سوا کسی مخلوق کو تمام اشیاء کائنات اور ذرہ ذرہ کا علم نہ کبھی حاصل ہوا نہ ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ مخصوص صفت ہے رب العزت جل شانہ کی۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ، لطیف، عربی لغت کے اعتبار سے دو معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، ایک معنی مہربان، دوسرے بمقابل کثیف یعنی وہ چیز جو حواس کے ذریعہ محسوس وہ معلوم نہیں کی جاسکتی۔
اور خبیر کے معنی ہیں باخبر، معنی اس جملہ کے یہ ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ لطیف ہیں، اس لئے حواس کے ذریعہ ان کا ادراک نہیں کیا جاسکتا، اور خبیر ہیں، اس لئے ساری کائنات کا کئی ذرہ ان کے علم و خبر سے باہر نہیں، اور اگر لطیف کے معنی اس جگہ مہربان کے لئے جاویں تو اشارہ اس طرف ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اگرچہ ہمارے ہر قول وفعل بلکہ ارادہ اور خیال سے بھی باخبر ہیں، جس کا اقتضاء یہ تھا کہ ہم ہر گناہ پر پکڑے جایا کرتے، مگر چونکہ وہ لطیف و مہربان بھی ہیں، اس لئے ہر گناہ پر مواخذہ نہیں فرماتے۔
Top