Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 98
ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
ذٰلِكَ : یہ جَزَآؤُهُمْ : ان کی سزا بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ كَفَرُوْا : انہوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کا وَقَالُوْٓا : اور انہوں نے کہا ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہوجائیں گے ہم عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم لَمَبْعُوْثُوْنَ : ضرور اٹھائے جائیں گے خَلْقًا : پیدا کر کے جَدِيْدًا : از سر نو
یہ ان کی سزا ہوئی اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا تھا اور کہا تھا بھلا جب ہم محض ہڈیاں ہوگئے اور ریزہ ریزہ تو ایسا ہوسکتا ہے کہ از سر نو پیدا کر کے اٹھائے جائیں ؟
ان کے اعمال کا بدلہ ان کو پورا پورا دیا جائے گا کمی و زیادتی نہیں ہوگی : 116۔ ہاں ! اس دنیا میں ضلالت وگمراہی پر صبر کرنے والوں کا جی آخرت میں ہدایت کا ثمرہ چاہے تو اب ان کی چاہت کے مطابق معاملہ نہیں ہوگا بلکہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ان کو چکایا جائے گا اور ان کو مجبور کردیا جائے گا کہ وہ اپنے کئے کا بدلہ اٹھائیں اگر وہ نہیں چاہیں گے اور یقینا نہیں چائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اوندھے منہ اس طرف پھیر لائے گا کیونکہ یہ بھی وہی قانون خداوندی ہے جس اپنے قانون کے مطابق دنیا میں ان کو ڈھیل دی تھی کہ وہ آزادی سے جو کچھ کرنا چاہیں کریں کیونکہ وہ دارالعمل تھا اور یہ دارالجزاء ہے اب وہ اپنی چاہت سے نہیں بلکہ اپنے اعمال کی جزاء حاصل کرنے کے لئے مجبور محض ہوں گے ، دنیا میں انہوں نے اندھے ‘ بہرے اور گونگے ہو کر اللہ کی ہدایت کو ٹھکرایا اور اب وہ اندھے بہرے اور گونگے کرکے اپنے اعمال کے بدلے مین جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے اور پھر ایسے بھی ہوں گے جو ایندھن کا کام دیں گے کہ جلنے والوں پر جب آگ مدھم پڑے گی تو ان کو آگ میں جھونک کر اس کو مزید بھڑکا دیا جائے گا اور یہ انہی کے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ہوگا ۔ جس طرح وہ دنیا میں بن کر رہے کہ نہ حق دیکھتے تھے ‘ نہ حق سنتے تھے اور نہ حق بولتے تھے ویسے ہی قیامت کے روز ناحق دیکھنے ‘ ناحق سننے اور ناحق بولنے کے نتیجہ پر مجبور محض کردیئے جائیں گے ، اسی طرح ان کے ساتھ جو کچھ ہوگا انہی کے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ہوگا ۔ ہاں ! دنیا میں وہ جس چیز کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور مذاق کیا کرتے تھے کہ جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا ، اس وقت ان کا مذاق جب حقیقت کا روپ دھارے گا اور واقعتا ان کو اٹھا کر کھڑا کیا جائے گا تو وہ اس سے انکار کیونکر کریں گے اسی طرح ان کا اپنا ہی مذاق کیا ہوا ان کے سامنے لایا جائے گا تو آخر وہ کیونکر آنکھ اٹھا سکیں گے ظاہر ہے کہ اس وقت ان کی حالت دیدنی ہوگی ، خیال رہے کہ یہ مادیت جس کا چرچا آج ہے کوئی نوزائیدہ نہیں اس وقت بھی موجود تھی جس وقت قرآن کریم کا نزول ہوا یونان قدیم میں بڑے بڑے ” روشن خیال “ پیدا ہوچکے تھے اور اس کی صدائے بازگشت عرب میں بھی پہنچ چکی تھی ۔ عرب ظہور اسلام سے قبل جس طرح یہودیت ‘ نصرانیت ‘ مجوسیت ‘ صابئیت اور بت پرستی ہر مذہب وملت کا نمائندہ تھا اس طرح مذہب مادیت اور روشن خیالی کے نمائندے بھی موجود تھے اور اسی طرح کی کج بحثیاں اس گروہ کے لوگ کیا کرتے تھے اور اپنے زعم میں روشن خیالی کی کوڑی بہت دور سے لا کر کہتے تھے کہ یہ ممکن کیونکر ہے کہ جب ہڈیاں تک چور چور اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گی اور سارے جسم سڑ گل چکیں گے اس کے بعد از سر نو پیدا کئے جائیں گے ، ایک بڑ نہیں تو آخر اور کیا ہے ؟ قرآن کریم میں ان کی اس ” روشن خیالی “ نہیں بلکہ خبث کا بار بار ذکر کیا گیا ہے لیکن تعجب ہے کہ آج بھی ان لوگوں کی کوئی کمی موجود نہیں اور خصوصا مسلمانوں کے اندر اس وقت یہ لوگ کثرت سے موجود ہیں اگرچہ وہ اس کا اقرار نہ کرتے ہوں لیکن ان اعمال ان کے اس عقیدہ کی مکمل تصدیق کر رہے ہیں اور عمل کی تصدیق بعض اوقات اقرار باللسان کو بہت پیچھے چھوڑ جاتی ہے بلکہ اس کو دوہرا مجرم بنا دیتی ہے ، اللہ تعالیٰ اس سے بچائے ۔
Top