Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 99
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَ جَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا
اَوَ
: کیا
لَمْ يَرَوْا
: انہوں نے نہیں دیکھا
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
الَّذِيْ
: جس نے
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
قَادِرٌ
: قادر
عَلٰٓي
: پر
اَنْ يَّخْلُقَ
: کہ وہ پیدا کرے
مِثْلَهُمْ
: ان جیسے
وَجَعَلَ
: اس نے مقرر کیا
لَهُمْ
: ان کے لیے
اَجَلًا
: ایک وقت
لَّا رَيْبَ
: نہیں شک
فِيْهِ
: اس میں
فَاَبَى
: تو قبول نہ کیا
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم (جمع)
اِلَّا كُفُوْرًا
: ناشکری کے سوا
کیا ان لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے یہ تمام کائنات پیدا کردی ہے ضرور اس پر قادر ہے کہ ان کی موجودہ زندگی کی طرح ایک دوسری زندگی پیدا کر دے ؟ اس نے ان کے لیے ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے جس میں کسی طرح کا شک نہیں ، اس پر بھی دیکھو ظالموں نے کفر ہی اختیار کیا
کیا پہلی بار پیدا کرنے والا دوسری بار پیدا نہیں کرسکتا ؟ آخر اس کی وجہ ؟ 117۔ زیرنظر آیت اور قرآن کریم کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست ونابود نہیں ہوجائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظام طبعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا اور اس کے بعد نفخ صدر اول اور نفخ صدر دوم کے درمیان ایک خاص مدت میں جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے زمین و آسمان کی موجودہ ہئیت بدل جائے گی اور ایک دوسرا نظام طبیعت دوسرے قانون فطرت کے ساتھ بنادیاجائے گا اور وہی عالم آخرت ہوگا چناچہ زیر نظر آیت میں فرمایا ” کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ (ان کو تباہ کر کے) پھر پیدا کر دے اور بلاشبہ اس نے ان کے لئے ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں ہے ۔ “ اور سورة ابراہیم میں ارشاد فرمایا کہ ” وہ دن جب کہ زمین و آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کردیئے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد وقہار کے سامنے بےنقاب حاضر ہوجائیں گے ۔ “ (ابراہیم 14 : 48) اس بحث پر بھی لوگوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے کہ یہ دوبارہ زندگی اسی گوشت و پوست کے ساتھ ہوگی یا صرف روحانی ہوگی جہاں جسم وجسمانیت کا مطلق گزر نہ ہوگا ؟ قرآن کریم کی مختلف آیتیں ، مختلف پہلوؤں کو پیش کرتی ہیں جن میں اشارتا ہر قسم کی باتیں آجاتی ہیں تاہم قیامت کے متعلق ان آیتوں میں سے ہر ایک پر غور کرو تو تم دیکھو گے کہ کفار کو تعجب ہے کہ کیا ہمارا یہ جسم مر کر پھر جئے گا ؟ کیا ہماری ان گلی سڑی ہڈیوں میں دوبارہ جان پڑے گی ؟ کیا ہم قبروں سے اٹھ کر دوبارہ نکل کھڑے ہوں گے ؟ ان سوالات اور ان جیسے سارے دوسرے سوالات سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی زندگی کے علاوہ زندگی کا کوئی دوسرا مفہوم ان کے حاشیہ خیال میں موجود ہی نہیں ہے مگر ان سوالات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم تعجب نہ کرو اور انکار پر آمادہ نہ ہو کہ تمہارے یہ فنا شدہ جسم نہیں اٹھائے جائیں گے اور نہ تمہاری ان بوسیدہ ہڈیوں میں روح پھونکی جائے گی بلکہ وہ تو سراسر روحانی زندگی ہوگی کیونکہ جب دوبارہ جسمانی زندگی کا تخیل ان کے لئے ناقابل فہم تھا تو خالص روحانی زندگی کا تخیل تو اور بھی ان کے فہم سے بالاتر تھا اور اب بھی ہے کہ ہم اس مادی زندگی کے جاننے والے سرتاپا روحانی زندگی سے بالکل عاجز ہیں ، اس لئے مصلحت الہی اس کی مقتضی تھی کہ وہ اصل واقعہ پر زور دے اور کیسے اور کیوں سے تعرض نہ کرے اور صاحب فہم کو اس کے فہم کے مطابق اس راز کو سمجھنے دے ، چناچہ قرآن کریم کے اس اسلوب بیان کو اگر سمجھنا ہے تو ان آیتوں پر غور کرنا چاہئے : (آیت) ” وقالواء اذا ضللنا فی الارضء انا لفی خلق جدید بل ھم بلقآء ربھم کفرون “۔ (السجدہ 32 : 10) اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں کھو جائیں گے کیا ہم نئی پیدائش میں پھر ہوں گے (خدا فرماتا ہے یہ کچھ نہیں بلکہ) یہ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں۔ غور کرو کہ ان کی مادی معدومیت کے بعد مادی پیدائش کے پر تعجب انکار پر اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ یہ شکوک و شبہات اس لئے ان کو پیش آتے ہیں کہ مرنے کے بعد اللہ کی ملاقات اور اس کے سامنے ہونے سے ان کو انکار ہے اور حواشی کو چھوڑ کر اصل مقصود یہی ہے کہ موت کے بعد اور آخرت میں اللہ کے سامنے حاضر ہونے پر یقین رکھا جائے اس سے ان کو کیا مطلب کہ وہ کس طرح ہوگا ؟ چناچہ اس کے بعد فرمایا : (آیت) ” قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون “۔ (السجدہ 32 : 11) جواب میں کہہ دے کہ ملک الموت جو تم پر متعین ہے وہ تم کو موت دے گا پھر تم اپنے پروردگا کی طرف لوٹا دیئے جاؤ گے ۔ یہی ملاقات اور رجوع الی اللہ ‘ اس عقیدہ حشر کی اصل روح ہے ۔ بات یہ ہے کہ ہم انہی باتوں کو سمجھ بوجھ سکتے ہیں ، جن کی مثالیں اور نظریں اس مادی دنیا میں ہماری نگاہوں سے گزرتی رہتی ہیں اور وہ عالم جو نگاہوں سے مستور بلکہ تصور سے بھی دور ہے ‘ اس کی باتوں کو اس طرح سمجھنا کہ ہر سوال اور تکرار سوال سے ہم بےنیاز ہوجائیں ، تقریبا ناممکن ہے ‘ ان کے متعلق جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دیدہ شہرستان وجود یعنی دنیا کے قیاس پر اس نادیدہ شہرستان بقا یعنی آخرت کا ہر نقشہ اور خاکہ بتایا اور سمجھایا جائے اور یہی محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم نے کیا ہے ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی قدرت پر یقین رکھتے ہیں ان سے تو کچھ کہنا ہی نہیں لیکن جو شخص جسمانی حشر کا تصور اس لئے محال سمجھتا ہے کہ عام انسانوں نے کسی مردہ جسم کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا تو اس کے نزدیک تنہا روحانی زندگی کا تخیل تو اور بھی زیادہ محال ہونا چاہئے کیونکہ کسی انسانی زندگی کا تصور کرے گا تو جسم وشکل واعضاء کے ساتھ ہی کرے گا ‘ ان سے مجرد ہو کر نہیں کرے گا ۔ موت جسم سے روح کی مفارقت کا نام ہے اس لئے اگر یہ سچ ہے کہ قیامت میں نئی زندگی ملے گی تو ظاہر ہے کہ موت کے بعد کی کیفیت اور صورت سے کوئی الگ صورت اور کیفیت ہوگی جس کا نام حات ثانیہ رکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ روح کا دوبارہ تعلق جسم کے ساتھ تسلیم کیا جائے ورنہ غیر جسمانی زندگی تو قیامت کے پہلے بھی تھی اب نئی بات کیا بڑھ گئی جس کا نام حیات ثانیہ رکھ دیا گیا ۔ گو روح انسانی جسم کے اندر ہر فعل کی فاعل ہے ، مگر فاعل کے فاعل بننے کے آلات اور اوزار کی بھی ضرورت ہوتی ہے جن کے بغیر وہ اپنے فعل کے بجا لانے سے مجبور رہتا ہے ‘ اسی طرح روح اپنے فعل لذت والم کے انجام دینے لئے جسمانی آلات اور اوزار کی محتاج ہے کہ لذت والم کا کوئی روحانی احساس ‘ جسمانیت کے شائبہ سے مبرا ہو کر ہو ہی نہیں سکتا ‘ اس بناء پر روح محض کا جنت کی لذتوں سے متمتع یا دوزخ کی تکلیفوں سے متالم ہونا ، کسی جسمانی وساطت کے بغیر تصور میں نہیں آتا ‘ خواب میں دیکھو کہ روح کو جو لذت یا تکلیف پہنچتی ہے اس میں بھی جسمانی پیکروہیکل کی صورت نمودار ہوتی ہے ۔ جسم وجسد : حشر جسمانی ماننے کے بعد یہ بحث بےسود ہے کہ آیا وہی جسم دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ‘ جس کے قابل میں وہ روح پہلے دنیا میں رہی تھی یا کسی دوسرے نئے جسمانی پیکر میں وہ روح پھونکی جائے گی یا یہ کہ آئندہ جسم اپنی مادیت اور ترکیب میں سای دنیاوی جسم کے مماثل ہوگا جبکہ یہ حقیقت ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اعمال کی ذمہ داری روح پر ہے جسم پر نہیں اور اسی طرح جزا وسزا کی راحت و تکلیف کا اصلی مورد روح ہے جسم نہیں تو پھر اب وہ کسی قالب میں بھی ہو اور کسی رنگ میں بھی ہو روح پر مواخذہ اور ثواب و عذاب کی لذت والم کا احساس یکساں ہوگا ‘ البتہ یہ ضروری ہے کہ جو جسم ہم کو دوسری دنیا میں ملے گا اس کی خصوصیات ولوازم اس خاکی جسم کے خصوصیات ولوازم سے بالکل الگ ہوں گے ‘ چناچہ خود ہمارے تخیل اور تصور اور نیز خواب ورؤیا میں جو جسم ہم کو نظر آتا ہے وہ جسم ہو کر نظر آنے کے باوجود مادی جسمانیت سے سراسر پاک ہوتا ہے اس لئے لفظ جسم کے بولنے سے ان ہی خصوصیات کا جسم سمجھ لینا ضروری نہیں ہے اور نہ اس جسم پر قیاس کرکے اس جسم پر اشکالات وارد کئے جاسکتے ہیں ۔ خلق جدید : چناچہ جو جسم قیامت میں عنایت ہوگا وہ نئی خلقت اور نئی آفرنیش کا ممنون ہوگا ‘ اسی لئے قرآن نے منکروں کے جواب میں یہ کہا ہے کہ : (آیت) ” بل ھم فی لبس من خلق جدیدہ “۔ (ق 50 : 15) بلکہ یہ لوگ نئی آفرنیش سے شک میں ہیں۔ منکرین کی زبان سے کہلوایا : (آیت) ” انا لمبعوثون خلقا جدیدا “۔ (بنی اسرائیل 17 : 49) کیا ہم درحقیقت نئی آفرنیش کرکے اٹھائے جائیں گے ۔ ایک دوسری سورة میں یہ تلقین ہے : (آیت) ” انکم لفی خلق جدید “۔ (سباء 34 : 7) بیشک تم ایک نئی آفرنیش میں ہونے والے ہو ۔ پھر تمثیل دے کر فرمایا : (آیت) ” کما بدانا اول خلق نعیدہ “۔ (الانبیاء : 21 : 104) جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز کیا ‘ اسی طرح ہم اس کو دوبارہ بنائیں گے ۔ اسی لئے اس عالم کی اس نئی خلقت وپیدائش والے جسم کو بعینہ اسی جسم کے مطابق سمجھنا صحیح نہیں ہے اور نہ اس خاکی جسم کی تمام خصوصیات کا بعینہ اس جسم میں ہونا ضروری ہے اس کو اگر اس عالم کے لفظ ” جسم “ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو اس لئے کہ ہماری زبان میں روح کے غلاف و قالب کے لئے جسم سے بہتر ‘ قریب تر اور مشابہ تر کوئی دوسرا لفظ نہیں ۔ یہ بات کہ حشر میں بعینہ گزشتہ گوشت و پوست کا ہونا اس لئے ضروری سمجھا جائے کہ وہ بھی عذاب وثواب میں شریک ہوں ‘ تصریح قرآنی پر اضافہ ہے ‘ قرآن میں تو یہ تصریح ہے کہ : (آیت) ” ان الذین کفروا باتینا سوف نصلیھم نارا کلما نضجت جلودھم بدلنھم جلودا غیرھا لیذوقوا ال عذاب ان اللہ کان عزیزا حکیما “۔ (النسآء 4 : 56) بلاشبہ جو لوگ ہماری آیتوں کے منکر ہوئے ‘ ہم ان کو آگ میں ڈالیں گے ‘ جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کو اور کھالیں دیں گے ‘ جو پہلی کھالوں کی غیر ہوں گی تاکہ وہ عذاب چکھیں بیشک اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۔ جب کھالیں یکے بد دیگرے بدلتی جائیں گی تو پہلا حصہ جسم جو گناہ میں شریک تھا ‘ کہاں باقی رہا ؟ اسی طرح یہ تصریح ہے کہ انسان کے ہاتھ ‘ پاؤں اور کھالیں اس کے اعمال پر شہادت دیں گی ‘ اس سے معلوم ہوا کہ وہ اصلی مجرم جو ان اعمال کا ذمہ دار اور اس مقدمہ کا مدعا علیہ ہے ‘ ان جسمانی اعضاء کے علاوہ ہے اور وہ روح انسانی ہے ۔ ذمہ داری روح پر ہے : یہی سبب ہے کہ موت وحیات ‘ عذاب وثواب کے مواخذہ کا اسلام نے جس سے تعلق بنایا ہے وہ نفس یعنی روح ہے ۔ (آیت) ” ان تقول نفس یحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ “۔ (الزمر 39 : 56) تو (قیامت میں) کوئی نفس یہ کہنے لگے کہ اے افسوس اس پر کہ میں نے اللہ کے پہلو میں کمی کی ۔ (آیت) ” ولتنظر نفس ما قدمت لغد “۔ (الحشر 59 : 18) اور چاہئے کہ ہر نفس دیکھے کہ اس نے کل (قیامت) کے لئے کیا آگے بھیجا ۔ (آیت) ” علمت نفس ما احضرت “۔ (التکویر 81 : 14) (اس دن) ہر نفس جان لے گا جو اس نے حاضر کیا ۔ (آیت) ” علمت نفس ما قدمت واخرت “۔ (الانفطار 82 : 5) (اس دن) ہر نفس جان لے گا جو اس نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا۔ (آیت) ” فلا تظلم نفس شیئا “۔ (الانبیآء 21 : 47) (تو اس دن) کسی نفس پر کوئی ظلم نہ ہوگا ۔ جنت کی نسبت ہے : (آیت) ” فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین “۔ (السجدہ 32 : 17) کوئی نفس نہیں جانتا کہ ان کے لئے (جنت میں) کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے ۔ ان آیتوں میں دیکھو کہ علم کی ذمہ داری اور اس کے اچھے اور برے نتیجوں کا بار جسم پر نہیں بلکہ روح اور نفس پر ڈالا گیا ہے اور اسی کو تکلیف ولذت سے آشنا کیا گیا ہے ، جنت میں داخلہ کی خوشخبری بھی اسی کو دی گئی ہے ۔ (آیت) ” فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی “۔ (الفجر 89 : 29 ، 30) اے مطمئن روح ! میرے بندوں میں شامل اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ دنیاوی جسم بدلتے رہنے پر بھی وہی جسم رہتا ہے : غرض اعمال اور ان کے نتائج کے اصل ذمہ دار اور جنت و دوزخ کی لذت والم کی اصل احساس کرنے والی ہستی صرف روح ہے اور جسم کی حیثیت صرف ایک لباس وآلہ احساس کی ہے ‘ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں یہ جسم لاکھ بار بدلے مگر روح اگر وہی ہے تو وہ انسان وہی ہے اور اس کو اپنی ذمہ داری کی جزا وسزا مل رہی ہے ۔ لوگ اپنی ظاہر بنی سے اصل زور جسم پر دیتے ہیں حالانکہ اس مٹی کے ڈھیر میں اگر روح کا خزانہ چھپا نہ ہو تو پھر اس مشت خاک میں دھرا کیا ہے دیکھو انسان بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہی ایک شخص ہے جو پہلے تھا حالانکہ اس کی جسمانی ہئیت اور اس کے جسم کا مادہ ہر آن اور ہر لمحہ فنا ہو کر بدلتا رہتا ہے ‘ بیماریوں میں وہ سوکھ کر کانٹا ہوگیا ، پھر تندرستی کے بعد نئے ذرات داخل ہو کر لہلہائے ‘ تم غلطی سے یہ سمجھتے ہو کہ ہر حال میں وہی جسم یکساں طور پر قائم ہے حالانکہ حکیم سے پوچھو تو وہ بتائے کہ اس کے ذرے کیونکر ہر آن جھڑتے اور گھستے رہے اور جو خوراک وہ کھاتا رہا وہ خون ہو کر کیونکر بدل ما یتحلل بنی ‘ ان کی جگہ لیتی رہی ‘ پھر کیا ایسے ہر آن فنا ہوتے رہنے والے اور چند سال کے بعد بالکل بدل جانے والے کو دائم الوجود اعمال کا ذمہ دار اور ان کے نیک وبد کی اصلی جزا یا سزا پانے کا مستحق ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟ لیکن جس طرح دنیا میں اگر کوئی مجرم آج بھاگ گیا اور چند سال کے بعد پکڑ کر جب لایا گیا تو یہ عذر نہیں کرسکتا کہ چونکہ وہ ہاتھ جس سے اس نے چوری کی تھی اور وہ پاؤں جن سے وہ مال لے کر بھاگا تھا اس عرصہ دراز میں بدل گئے ہیں اس لئے وہ لائق تعزیر نہیں کیونکہ وہ روح جس نے اپنے ارادہ ونیت سے اس کام کو اس کے ہاتھوں اور پاؤں کے ذریعہ کرایا تھا جس طرح کل تھی بعینہ آج بھی ہے اور جو تکلیف اس کو اپنے پہلے جسم کے ذریعہ کل پہنچ سکتی تھی بعینہ آج بھی پہنچ سکتی ہے اور اس جسمانی تغیر سے اس کی روحانی شخصیت میں اصلا کوئی فرق نہیں پیدا ہوتا ، اس لئے پہلے ہی جسم کے ضروری ہونے پر زور دینا بےسود ہے ‘ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ جسم اگر بدل بھی جائے تو اعضاء کی شہادت کا مسئلہ اپنی جگہ پر صحیح ہوگا ، جسم کے اعضاء دنیا میں بدلتے جاتے ہیں مگر جو بیماری اگلے اجزاء میں پیدا ہوگئی تھی وہ ان کے فنا ہوجانے کے بھی قائم رہتی ہے ‘ مٹ نہیں جاتی بلکہ وہی ان کے بعد کے آنے والے اجزاء میں برابر سرایت کرتی رہتی ہے ۔ اخروی جسم کیسا ہوگا ؟ روحوں کو آخرت میں جو جسم ملیں گے وہ حقیقت میں ان کے اعمال ہی کے ظل وعکس ہوں گے یعنی جیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی ان کو جسم عنایت ہوں گے ‘ چناچہ اس دنیا کے جسمانی رنگ کے لحاظ سے خواہ کوئی کالا ہو یا گورا مگر اس دنیا میں اس کا یہ کالا پن اعمال کی سیاہی وسپیدی کی صورت میں بدل جائے گا اللہ نے فرمایا : (آیت) ” وجوہ یومئذ مسفرۃ ضاحکۃ مستبشرۃ ووجوہ یومئذ علیھا غبرۃ ترھقھا قترۃ “۔ (عبس 80 : 38 تا 41) کتنے چہرے اس دن روشن ہنستے اور شاد ہوں گے اور کتنے چہروں پر اس دن کدورت ہوگی اور ان پر سیاہی چھائی ہوگی ۔ (آیت) ” یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَأَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوہُہُمْ أَکْفَرْتُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ فَذُوقُواْ الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُونَ (106) وَأَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوہُہُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّہِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (107) (آل عمران 3 : 106) جس دن کتنے چہرے سپید ہوں گے اور کتنے کالے لیکن جن کے چہرے کالے ہوئے کیا تم وہ ہو جو ایمان کے بعد پھر کافر ہوگئے تھے ‘ تو اپنے کفر کرنے کے بدلہ عذاب کا مزہ چکھو اور جن کے چہرے سپید ہوئے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے اسی میں سدا رہیں گے ۔ صحیح حدیثوں میں ہے کہ جنت میں سب لوگ جوان بن کر داخل ہوں گے اور جسم پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا ، ان کا قدم حضرت آدم (علیہ السلام) کے اولین بہشتی قد کے مطابق ہوگا ‘ دوزخیوں میں سے کسی کا سر پہاڑ کے برابر ہوگا ‘ کسی کا ایک پہلو مفلوج ہوگا ‘ کسی کے ہونٹ لٹکے ہوں گے ‘ دل کے اندھے ‘ آنکھوں کے اندھے بن کر اٹھیں گے ‘ سزاؤں کے بعد جب ان کے جسم چور چور ہوجائیں گے ‘ تو پھر صحیح وسالم نئے جسم نمودار ہوں گے اور پھر ان کی وہی کیفیت ہوگی ‘ یہ بھی آیا ہے کہ جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں ‘ وہ چیونٹی بن کر قیامت میں اٹھیں گے ‘ ان تمام شواہد سے ہویدا ہے کہ اس دنیا کے جسمانی قالب ہمارے اس دنیاوی جسم کے مطابق نہیں بلکہ ہمارے دنیاوی اعمال کے مطابق ہوں گے ۔
Top