Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 99
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَ جَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین قَادِرٌ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ يَّخْلُقَ : کہ وہ پیدا کرے مِثْلَهُمْ : ان جیسے وَجَعَلَ : اس نے مقرر کیا لَهُمْ : ان کے لیے اَجَلًا : ایک وقت لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں فَاَبَى : تو قبول نہ کیا الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِلَّا كُفُوْرًا : ناشکری کے سوا
کیا ان لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے یہ تمام کائنات پیدا کردی ہے ضرور اس پر قادر ہے کہ ان کی موجودہ زندگی کی طرح ایک دوسری زندگی پیدا کر دے ؟ اس نے ان کے لیے ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے جس میں کسی طرح کا شک نہیں ، اس پر بھی دیکھو ظالموں نے کفر ہی اختیار کیا
کیا پہلی بار پیدا کرنے والا دوسری بار پیدا نہیں کرسکتا ؟ آخر اس کی وجہ ؟ 117۔ زیرنظر آیت اور قرآن کریم کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست ونابود نہیں ہوجائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظام طبعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا اور اس کے بعد نفخ صدر اول اور نفخ صدر دوم کے درمیان ایک خاص مدت میں جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے زمین و آسمان کی موجودہ ہئیت بدل جائے گی اور ایک دوسرا نظام طبیعت دوسرے قانون فطرت کے ساتھ بنادیاجائے گا اور وہی عالم آخرت ہوگا چناچہ زیر نظر آیت میں فرمایا ” کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ (ان کو تباہ کر کے) پھر پیدا کر دے اور بلاشبہ اس نے ان کے لئے ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں ہے ۔ “ اور سورة ابراہیم میں ارشاد فرمایا کہ ” وہ دن جب کہ زمین و آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کردیئے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد وقہار کے سامنے بےنقاب حاضر ہوجائیں گے ۔ “ (ابراہیم 14 : 48) اس بحث پر بھی لوگوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے کہ یہ دوبارہ زندگی اسی گوشت و پوست کے ساتھ ہوگی یا صرف روحانی ہوگی جہاں جسم وجسمانیت کا مطلق گزر نہ ہوگا ؟ قرآن کریم کی مختلف آیتیں ، مختلف پہلوؤں کو پیش کرتی ہیں جن میں اشارتا ہر قسم کی باتیں آجاتی ہیں تاہم قیامت کے متعلق ان آیتوں میں سے ہر ایک پر غور کرو تو تم دیکھو گے کہ کفار کو تعجب ہے کہ کیا ہمارا یہ جسم مر کر پھر جئے گا ؟ کیا ہماری ان گلی سڑی ہڈیوں میں دوبارہ جان پڑے گی ؟ کیا ہم قبروں سے اٹھ کر دوبارہ نکل کھڑے ہوں گے ؟ ان سوالات اور ان جیسے سارے دوسرے سوالات سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی زندگی کے علاوہ زندگی کا کوئی دوسرا مفہوم ان کے حاشیہ خیال میں موجود ہی نہیں ہے مگر ان سوالات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم تعجب نہ کرو اور انکار پر آمادہ نہ ہو کہ تمہارے یہ فنا شدہ جسم نہیں اٹھائے جائیں گے اور نہ تمہاری ان بوسیدہ ہڈیوں میں روح پھونکی جائے گی بلکہ وہ تو سراسر روحانی زندگی ہوگی کیونکہ جب دوبارہ جسمانی زندگی کا تخیل ان کے لئے ناقابل فہم تھا تو خالص روحانی زندگی کا تخیل تو اور بھی ان کے فہم سے بالاتر تھا اور اب بھی ہے کہ ہم اس مادی زندگی کے جاننے والے سرتاپا روحانی زندگی سے بالکل عاجز ہیں ، اس لئے مصلحت الہی اس کی مقتضی تھی کہ وہ اصل واقعہ پر زور دے اور کیسے اور کیوں سے تعرض نہ کرے اور صاحب فہم کو اس کے فہم کے مطابق اس راز کو سمجھنے دے ، چناچہ قرآن کریم کے اس اسلوب بیان کو اگر سمجھنا ہے تو ان آیتوں پر غور کرنا چاہئے : (آیت) ” وقالواء اذا ضللنا فی الارضء انا لفی خلق جدید بل ھم بلقآء ربھم کفرون “۔ (السجدہ 32 : 10) اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں کھو جائیں گے کیا ہم نئی پیدائش میں پھر ہوں گے (خدا فرماتا ہے یہ کچھ نہیں بلکہ) یہ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں۔ غور کرو کہ ان کی مادی معدومیت کے بعد مادی پیدائش کے پر تعجب انکار پر اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ یہ شکوک و شبہات اس لئے ان کو پیش آتے ہیں کہ مرنے کے بعد اللہ کی ملاقات اور اس کے سامنے ہونے سے ان کو انکار ہے اور حواشی کو چھوڑ کر اصل مقصود یہی ہے کہ موت کے بعد اور آخرت میں اللہ کے سامنے حاضر ہونے پر یقین رکھا جائے اس سے ان کو کیا مطلب کہ وہ کس طرح ہوگا ؟ چناچہ اس کے بعد فرمایا : (آیت) ” قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون “۔ (السجدہ 32 : 11) جواب میں کہہ دے کہ ملک الموت جو تم پر متعین ہے وہ تم کو موت دے گا پھر تم اپنے پروردگا کی طرف لوٹا دیئے جاؤ گے ۔ یہی ملاقات اور رجوع الی اللہ ‘ اس عقیدہ حشر کی اصل روح ہے ۔ بات یہ ہے کہ ہم انہی باتوں کو سمجھ بوجھ سکتے ہیں ، جن کی مثالیں اور نظریں اس مادی دنیا میں ہماری نگاہوں سے گزرتی رہتی ہیں اور وہ عالم جو نگاہوں سے مستور بلکہ تصور سے بھی دور ہے ‘ اس کی باتوں کو اس طرح سمجھنا کہ ہر سوال اور تکرار سوال سے ہم بےنیاز ہوجائیں ، تقریبا ناممکن ہے ‘ ان کے متعلق جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دیدہ شہرستان وجود یعنی دنیا کے قیاس پر اس نادیدہ شہرستان بقا یعنی آخرت کا ہر نقشہ اور خاکہ بتایا اور سمجھایا جائے اور یہی محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم نے کیا ہے ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی قدرت پر یقین رکھتے ہیں ان سے تو کچھ کہنا ہی نہیں لیکن جو شخص جسمانی حشر کا تصور اس لئے محال سمجھتا ہے کہ عام انسانوں نے کسی مردہ جسم کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا تو اس کے نزدیک تنہا روحانی زندگی کا تخیل تو اور بھی زیادہ محال ہونا چاہئے کیونکہ کسی انسانی زندگی کا تصور کرے گا تو جسم وشکل واعضاء کے ساتھ ہی کرے گا ‘ ان سے مجرد ہو کر نہیں کرے گا ۔ موت جسم سے روح کی مفارقت کا نام ہے اس لئے اگر یہ سچ ہے کہ قیامت میں نئی زندگی ملے گی تو ظاہر ہے کہ موت کے بعد کی کیفیت اور صورت سے کوئی الگ صورت اور کیفیت ہوگی جس کا نام حات ثانیہ رکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ روح کا دوبارہ تعلق جسم کے ساتھ تسلیم کیا جائے ورنہ غیر جسمانی زندگی تو قیامت کے پہلے بھی تھی اب نئی بات کیا بڑھ گئی جس کا نام حیات ثانیہ رکھ دیا گیا ۔ گو روح انسانی جسم کے اندر ہر فعل کی فاعل ہے ، مگر فاعل کے فاعل بننے کے آلات اور اوزار کی بھی ضرورت ہوتی ہے جن کے بغیر وہ اپنے فعل کے بجا لانے سے مجبور رہتا ہے ‘ اسی طرح روح اپنے فعل لذت والم کے انجام دینے لئے جسمانی آلات اور اوزار کی محتاج ہے کہ لذت والم کا کوئی روحانی احساس ‘ جسمانیت کے شائبہ سے مبرا ہو کر ہو ہی نہیں سکتا ‘ اس بناء پر روح محض کا جنت کی لذتوں سے متمتع یا دوزخ کی تکلیفوں سے متالم ہونا ، کسی جسمانی وساطت کے بغیر تصور میں نہیں آتا ‘ خواب میں دیکھو کہ روح کو جو لذت یا تکلیف پہنچتی ہے اس میں بھی جسمانی پیکروہیکل کی صورت نمودار ہوتی ہے ۔ جسم وجسد : حشر جسمانی ماننے کے بعد یہ بحث بےسود ہے کہ آیا وہی جسم دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ‘ جس کے قابل میں وہ روح پہلے دنیا میں رہی تھی یا کسی دوسرے نئے جسمانی پیکر میں وہ روح پھونکی جائے گی یا یہ کہ آئندہ جسم اپنی مادیت اور ترکیب میں سای دنیاوی جسم کے مماثل ہوگا جبکہ یہ حقیقت ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اعمال کی ذمہ داری روح پر ہے جسم پر نہیں اور اسی طرح جزا وسزا کی راحت و تکلیف کا اصلی مورد روح ہے جسم نہیں تو پھر اب وہ کسی قالب میں بھی ہو اور کسی رنگ میں بھی ہو روح پر مواخذہ اور ثواب و عذاب کی لذت والم کا احساس یکساں ہوگا ‘ البتہ یہ ضروری ہے کہ جو جسم ہم کو دوسری دنیا میں ملے گا اس کی خصوصیات ولوازم اس خاکی جسم کے خصوصیات ولوازم سے بالکل الگ ہوں گے ‘ چناچہ خود ہمارے تخیل اور تصور اور نیز خواب ورؤیا میں جو جسم ہم کو نظر آتا ہے وہ جسم ہو کر نظر آنے کے باوجود مادی جسمانیت سے سراسر پاک ہوتا ہے اس لئے لفظ جسم کے بولنے سے ان ہی خصوصیات کا جسم سمجھ لینا ضروری نہیں ہے اور نہ اس جسم پر قیاس کرکے اس جسم پر اشکالات وارد کئے جاسکتے ہیں ۔ خلق جدید : چناچہ جو جسم قیامت میں عنایت ہوگا وہ نئی خلقت اور نئی آفرنیش کا ممنون ہوگا ‘ اسی لئے قرآن نے منکروں کے جواب میں یہ کہا ہے کہ : (آیت) ” بل ھم فی لبس من خلق جدیدہ “۔ (ق 50 : 15) بلکہ یہ لوگ نئی آفرنیش سے شک میں ہیں۔ منکرین کی زبان سے کہلوایا : (آیت) ” انا لمبعوثون خلقا جدیدا “۔ (بنی اسرائیل 17 : 49) کیا ہم درحقیقت نئی آفرنیش کرکے اٹھائے جائیں گے ۔ ایک دوسری سورة میں یہ تلقین ہے : (آیت) ” انکم لفی خلق جدید “۔ (سباء 34 : 7) بیشک تم ایک نئی آفرنیش میں ہونے والے ہو ۔ پھر تمثیل دے کر فرمایا : (آیت) ” کما بدانا اول خلق نعیدہ “۔ (الانبیاء : 21 : 104) جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز کیا ‘ اسی طرح ہم اس کو دوبارہ بنائیں گے ۔ اسی لئے اس عالم کی اس نئی خلقت وپیدائش والے جسم کو بعینہ اسی جسم کے مطابق سمجھنا صحیح نہیں ہے اور نہ اس خاکی جسم کی تمام خصوصیات کا بعینہ اس جسم میں ہونا ضروری ہے اس کو اگر اس عالم کے لفظ ” جسم “ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو اس لئے کہ ہماری زبان میں روح کے غلاف و قالب کے لئے جسم سے بہتر ‘ قریب تر اور مشابہ تر کوئی دوسرا لفظ نہیں ۔ یہ بات کہ حشر میں بعینہ گزشتہ گوشت و پوست کا ہونا اس لئے ضروری سمجھا جائے کہ وہ بھی عذاب وثواب میں شریک ہوں ‘ تصریح قرآنی پر اضافہ ہے ‘ قرآن میں تو یہ تصریح ہے کہ : (آیت) ” ان الذین کفروا باتینا سوف نصلیھم نارا کلما نضجت جلودھم بدلنھم جلودا غیرھا لیذوقوا ال عذاب ان اللہ کان عزیزا حکیما “۔ (النسآء 4 : 56) بلاشبہ جو لوگ ہماری آیتوں کے منکر ہوئے ‘ ہم ان کو آگ میں ڈالیں گے ‘ جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کو اور کھالیں دیں گے ‘ جو پہلی کھالوں کی غیر ہوں گی تاکہ وہ عذاب چکھیں بیشک اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۔ جب کھالیں یکے بد دیگرے بدلتی جائیں گی تو پہلا حصہ جسم جو گناہ میں شریک تھا ‘ کہاں باقی رہا ؟ اسی طرح یہ تصریح ہے کہ انسان کے ہاتھ ‘ پاؤں اور کھالیں اس کے اعمال پر شہادت دیں گی ‘ اس سے معلوم ہوا کہ وہ اصلی مجرم جو ان اعمال کا ذمہ دار اور اس مقدمہ کا مدعا علیہ ہے ‘ ان جسمانی اعضاء کے علاوہ ہے اور وہ روح انسانی ہے ۔ ذمہ داری روح پر ہے : یہی سبب ہے کہ موت وحیات ‘ عذاب وثواب کے مواخذہ کا اسلام نے جس سے تعلق بنایا ہے وہ نفس یعنی روح ہے ۔ (آیت) ” ان تقول نفس یحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ “۔ (الزمر 39 : 56) تو (قیامت میں) کوئی نفس یہ کہنے لگے کہ اے افسوس اس پر کہ میں نے اللہ کے پہلو میں کمی کی ۔ (آیت) ” ولتنظر نفس ما قدمت لغد “۔ (الحشر 59 : 18) اور چاہئے کہ ہر نفس دیکھے کہ اس نے کل (قیامت) کے لئے کیا آگے بھیجا ۔ (آیت) ” علمت نفس ما احضرت “۔ (التکویر 81 : 14) (اس دن) ہر نفس جان لے گا جو اس نے حاضر کیا ۔ (آیت) ” علمت نفس ما قدمت واخرت “۔ (الانفطار 82 : 5) (اس دن) ہر نفس جان لے گا جو اس نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا۔ (آیت) ” فلا تظلم نفس شیئا “۔ (الانبیآء 21 : 47) (تو اس دن) کسی نفس پر کوئی ظلم نہ ہوگا ۔ جنت کی نسبت ہے : (آیت) ” فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین “۔ (السجدہ 32 : 17) کوئی نفس نہیں جانتا کہ ان کے لئے (جنت میں) کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے ۔ ان آیتوں میں دیکھو کہ علم کی ذمہ داری اور اس کے اچھے اور برے نتیجوں کا بار جسم پر نہیں بلکہ روح اور نفس پر ڈالا گیا ہے اور اسی کو تکلیف ولذت سے آشنا کیا گیا ہے ، جنت میں داخلہ کی خوشخبری بھی اسی کو دی گئی ہے ۔ (آیت) ” فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی “۔ (الفجر 89 : 29 ، 30) اے مطمئن روح ! میرے بندوں میں شامل اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ دنیاوی جسم بدلتے رہنے پر بھی وہی جسم رہتا ہے : غرض اعمال اور ان کے نتائج کے اصل ذمہ دار اور جنت و دوزخ کی لذت والم کی اصل احساس کرنے والی ہستی صرف روح ہے اور جسم کی حیثیت صرف ایک لباس وآلہ احساس کی ہے ‘ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں یہ جسم لاکھ بار بدلے مگر روح اگر وہی ہے تو وہ انسان وہی ہے اور اس کو اپنی ذمہ داری کی جزا وسزا مل رہی ہے ۔ لوگ اپنی ظاہر بنی سے اصل زور جسم پر دیتے ہیں حالانکہ اس مٹی کے ڈھیر میں اگر روح کا خزانہ چھپا نہ ہو تو پھر اس مشت خاک میں دھرا کیا ہے دیکھو انسان بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہی ایک شخص ہے جو پہلے تھا حالانکہ اس کی جسمانی ہئیت اور اس کے جسم کا مادہ ہر آن اور ہر لمحہ فنا ہو کر بدلتا رہتا ہے ‘ بیماریوں میں وہ سوکھ کر کانٹا ہوگیا ، پھر تندرستی کے بعد نئے ذرات داخل ہو کر لہلہائے ‘ تم غلطی سے یہ سمجھتے ہو کہ ہر حال میں وہی جسم یکساں طور پر قائم ہے حالانکہ حکیم سے پوچھو تو وہ بتائے کہ اس کے ذرے کیونکر ہر آن جھڑتے اور گھستے رہے اور جو خوراک وہ کھاتا رہا وہ خون ہو کر کیونکر بدل ما یتحلل بنی ‘ ان کی جگہ لیتی رہی ‘ پھر کیا ایسے ہر آن فنا ہوتے رہنے والے اور چند سال کے بعد بالکل بدل جانے والے کو دائم الوجود اعمال کا ذمہ دار اور ان کے نیک وبد کی اصلی جزا یا سزا پانے کا مستحق ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟ لیکن جس طرح دنیا میں اگر کوئی مجرم آج بھاگ گیا اور چند سال کے بعد پکڑ کر جب لایا گیا تو یہ عذر نہیں کرسکتا کہ چونکہ وہ ہاتھ جس سے اس نے چوری کی تھی اور وہ پاؤں جن سے وہ مال لے کر بھاگا تھا اس عرصہ دراز میں بدل گئے ہیں اس لئے وہ لائق تعزیر نہیں کیونکہ وہ روح جس نے اپنے ارادہ ونیت سے اس کام کو اس کے ہاتھوں اور پاؤں کے ذریعہ کرایا تھا جس طرح کل تھی بعینہ آج بھی ہے اور جو تکلیف اس کو اپنے پہلے جسم کے ذریعہ کل پہنچ سکتی تھی بعینہ آج بھی پہنچ سکتی ہے اور اس جسمانی تغیر سے اس کی روحانی شخصیت میں اصلا کوئی فرق نہیں پیدا ہوتا ، اس لئے پہلے ہی جسم کے ضروری ہونے پر زور دینا بےسود ہے ‘ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ جسم اگر بدل بھی جائے تو اعضاء کی شہادت کا مسئلہ اپنی جگہ پر صحیح ہوگا ، جسم کے اعضاء دنیا میں بدلتے جاتے ہیں مگر جو بیماری اگلے اجزاء میں پیدا ہوگئی تھی وہ ان کے فنا ہوجانے کے بھی قائم رہتی ہے ‘ مٹ نہیں جاتی بلکہ وہی ان کے بعد کے آنے والے اجزاء میں برابر سرایت کرتی رہتی ہے ۔ اخروی جسم کیسا ہوگا ؟ روحوں کو آخرت میں جو جسم ملیں گے وہ حقیقت میں ان کے اعمال ہی کے ظل وعکس ہوں گے یعنی جیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی ان کو جسم عنایت ہوں گے ‘ چناچہ اس دنیا کے جسمانی رنگ کے لحاظ سے خواہ کوئی کالا ہو یا گورا مگر اس دنیا میں اس کا یہ کالا پن اعمال کی سیاہی وسپیدی کی صورت میں بدل جائے گا اللہ نے فرمایا : (آیت) ” وجوہ یومئذ مسفرۃ ضاحکۃ مستبشرۃ ووجوہ یومئذ علیھا غبرۃ ترھقھا قترۃ “۔ (عبس 80 : 38 تا 41) کتنے چہرے اس دن روشن ہنستے اور شاد ہوں گے اور کتنے چہروں پر اس دن کدورت ہوگی اور ان پر سیاہی چھائی ہوگی ۔ (آیت) ” یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَأَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوہُہُمْ أَکْفَرْتُم بَعْدَ إِیْمَانِکُمْ فَذُوقُواْ الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُونَ (106) وَأَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوہُہُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّہِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (107) (آل عمران 3 : 106) جس دن کتنے چہرے سپید ہوں گے اور کتنے کالے لیکن جن کے چہرے کالے ہوئے کیا تم وہ ہو جو ایمان کے بعد پھر کافر ہوگئے تھے ‘ تو اپنے کفر کرنے کے بدلہ عذاب کا مزہ چکھو اور جن کے چہرے سپید ہوئے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے اسی میں سدا رہیں گے ۔ صحیح حدیثوں میں ہے کہ جنت میں سب لوگ جوان بن کر داخل ہوں گے اور جسم پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا ، ان کا قدم حضرت آدم (علیہ السلام) کے اولین بہشتی قد کے مطابق ہوگا ‘ دوزخیوں میں سے کسی کا سر پہاڑ کے برابر ہوگا ‘ کسی کا ایک پہلو مفلوج ہوگا ‘ کسی کے ہونٹ لٹکے ہوں گے ‘ دل کے اندھے ‘ آنکھوں کے اندھے بن کر اٹھیں گے ‘ سزاؤں کے بعد جب ان کے جسم چور چور ہوجائیں گے ‘ تو پھر صحیح وسالم نئے جسم نمودار ہوں گے اور پھر ان کی وہی کیفیت ہوگی ‘ یہ بھی آیا ہے کہ جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں ‘ وہ چیونٹی بن کر قیامت میں اٹھیں گے ‘ ان تمام شواہد سے ہویدا ہے کہ اس دنیا کے جسمانی قالب ہمارے اس دنیاوی جسم کے مطابق نہیں بلکہ ہمارے دنیاوی اعمال کے مطابق ہوں گے ۔
Top