Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 56
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا
قُلِ : کہ دیں ادْعُوا : پکارو تم الَّذِيْنَ : وہ جن کو زَعَمْتُمْ : تم گمان کرتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَلَا يَمْلِكُوْنَ : پس وہ اختیار نہیں رکھتے كَشْفَ : دور کرنا الضُّرِّ : تکلیف عَنْكُمْ : تم سے وَ : اور لَا : نہ تَحْوِيْلًا : بدلنا
(ان سے) کہو کہ تم لوگ پکار دیکھو اپنے ان (خود ساختہ) معبودوں کو جن کا تم گھمنڈ رکھتے ہو، اس (معبود حق) کے سواء وہ نہ تمہاری تکلیف کو دور کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کو کچھ پھیر سکتے ہیں،
101۔ ابطال شرک کیلئے مشرکوں سے خطاب :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” ان سے کہو کہ پکارو دیکھو تم لوگ (اے مشرکو ! ) اپنے ان خود ساختہ معبودوں کو جن کا تم گھمنڈ رکھتے ہو۔ “ یعنی ان کے بارے میں تم یہ زعم اور گھمنڈ رکھتے ہو کہ یہ اللہ کے پیارے ہیں اس کی صفات کے اوتار اور مظہر ہیں۔ انکو خاص اختیارات حاصل ہیں۔ اس لئے یہ ہماری بگڑی بنادیں گے اور ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ سو اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ مقبول اور پیارے بندے ہیں جن کو ایسے مشرک لوگوں نے از خود حاجت روا ومشکل کشا قرار دے کر پوجا پکارا۔ جیسے حضرت عزیر (علیہ السلام) ، اور حضرت مریم وغیرہ۔ جملہ ثقہ اور معتبر مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ نمونہ کیلئے ملاحظہ ہو۔ روح المعانی مدارک، قرطبی، صفوۃ التفاسیر، محاسن التاویل، جامع البیان اور تفسیر المراغی وغیرہ وغٰیرہ۔ اور جیسا آیات کریمہ کا سیاق وسباق بھی اس پر صریح دلالت کررہا ہے اور خود اہل بدعت کے بعض بڑوں نے بھی یہاں پر اس آیت کریمہ اولئک الذین یدعون، کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ” وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں “ اور اگر کسی تفسیر میں اس موقع پر بت وغیرہ کا ذکر کیا بھی گیا ہے تو وہ بھی اس لئے کہ ان مشرک لوگوں نے اپنے ایسے ہی مشرکانہ تصورات اور فلسفوں کی بناء پر ان پاکیزہ ہستیوں کے ناموں پر ان کے مجسمے اور ان کی مورتیاں بنا کر اپنے عبادت خانوں میں رکھ دی تھیں۔ جیسا کہ آج تک ان کے گرجاؤں وغیرہ میں جابجا ایسا موجود ہے۔ سو من دون اللہ اور من دونہ کے کلمات کا عموم ہر معبود من دون اللہ کو شامل ہے۔ پس اس سب سے واضح ہوگیا کہ اہل بدعت کے بعض بڑے تحریف پسندوں کا آیت کریمہ کا مصداق صرف بتوں کو قرار دینا حقیقت کے خلاف اور ان لوگوں کی اپنی جہالت یا تجاہل عارفانہ کا غماز و آئینہ دار ہے تاکہ اس طرح کلمہ گو مشرکوں کیلئے اس طرح کی شرکیات کا دروازہ کھلا رہے۔ والعیاذ باللہ۔ سو اللہ وحدہ لاشریک کے سوا نہ کوئی ہستی مافوق الاسباب طور پر حاجت روا ومشکل کشا ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی کو حاجت رواومشکل کشا قرار دے کر اس طرح غائبانہ طور پر یا اس کی موت کے بعد اس کا پکارنا جائز ہے۔ ایسی پاکیزہ ہستیوں میں سے کسی سے زندگی بھر میں ایسی کوئی بات ثابت نہیں جس سے ان کے حاجت روا ومشکل کشا ہونے کا عندیہ ملتاہو۔ بلکہ یہ سب کچھ بعد کے لوگوں کے مشرکانہ خیالات کی فتنہ سامانیاں ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ ورنہ یہ تمام ہستیاں زندگی بھر خود اپنی مشکلوں اور مصیبتوں میں اللہ وحدہ لاشریک ہی کو اپنی حاجت روائی ومشکل کشائی کیلئے نہ پکارتی رہتیں۔ جیسا کہ ظاہر اور واضح ہے کہ یہ سب حضرات اپنی نمازوں میں دست بستہ کھڑے ہو کر اپنے رب کے حضور اس طرح عرض کرتے تھے۔ ایاک نعبد وایاک نستعین۔ اور یہ حضرات اگر حاجت رواومشکل کشا ہوتے تو خود بیماریوں وغیرہ مشکلات اور پریشانیوں میں کبھی نہ پھنستے کہ مشکل کشا وہی ہوتا ہے جو خود کبھی کسی مشکل میں نہ پھنسے اور حاجت روا وہی ہی سکتا ہے جس کو خود بھی کوئی حاجت پیش نہ آئے اور وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے اور اگر یہ ہستیاں حاجت روا ومشکل کشا ہوتیں تو خود موت کے ہاتھوں میں عاجز آکر اس دنیا سے رخصت نہ ہوتیں۔ سو غلط کہتے اور شرکیہ بات کرتے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں ” یاعلی مدد “ ،” یاحسین “ اور ” یا پیر دستگیر “ وغیرہ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top