Tafseer-al-Kitaab - Al-Baqara : 256
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ : نہیں زبردستی فِي : میں الدِّيْنِ : دین قَدْ تَّبَيَّنَ : بیشک جدا ہوگئی الرُّشْدُ : ہدایت مِنَ : سے الْغَيِّ : گمراہی فَمَنْ : پس جو يَّكْفُرْ : نہ مانے بِالطَّاغُوْتِ : گمراہ کرنے والے کو وَيُؤْمِنْ : اور ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَقَدِ : پس تحقیق اسْتَمْسَكَ : اس نے تھام لیا بِالْعُرْوَةِ : حلقہ کو الْوُثْقٰى : مضبوطی لَا انْفِصَامَ : لوٹنا نہیں لَهَا : اس کو وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
دین (کے بارے) میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے۔ ہدایت (کی راہ) گمراہی سے الگ کردی گئی ہے، پھر جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (سب کچھ) سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔
[174] دین کا تعلق دل کے اعتقاد سے ہے اس لئے کسی کو اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ [175] یعنی اب دونوں راہیں لوگوں کے سامنے ہیں، جسے چاہیں اختیار کریں۔ [176] قرآن کی اصطلاح میں طاغوت اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ کی بندگی و اطاعت سے نکل جائے اور لوگوں سے اپنی بندگی اور اطاعت کرائے یا اللہ کے حکم کی جگہ اپنا حکم نافذ کرے۔
Top