Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 21
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنا لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارے گئے عَلَيْنَا : ہم پر الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ نَرٰي : یا ہم دیکھ لیتے رَبَّنَا : اپنا رب لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا : تحقیق انہوں نے بڑا کیا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں وَعَتَوْ : اور انہوں نے سرکشی کی عُتُوًّا كَبِيْرًا : بڑی سرکشی
جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں”کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے  جائیں؟ 33 یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں۔ 34“بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں 35 اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سر کشی میں
سورة الْفُرْقَان 33 یعنی اگر واقعی خدا کا ارادہ یہ ہے کہ ہم تک اپنا پیغام پہنچائے تو ایک نبی کو واسطہ بنا کر صرف اس کے پاس فرشتہ بھیج دینا کافی نہیں ہے، ہر شخص کے پاس ایک فرشتہ آنا چاہیے جو اسے بتائے کہ تیرا رب تجھے یہ ہدایت دیتا ہے۔ یا فرشتوں کا ایک وفد مجمع عام میں ہم سب کے سامنے آجائے اور خدا کا پیغام پہنچا دے۔ سورة انعام میں بھی ان کے اس اعتراض کو نقل کیا گیا ہے وَاِذَا جَآءَتْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اَوْتِیَ رُسُلُ اللہِ ؕ اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ۔ جب کوئی آیت ان کے سامنے پیش ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم ہرگز نہ مانیں گے جب تک کہ ہمیں وہی کچھ نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کا کیا انتظام کرے " (آیت 124)۔ سورة الْفُرْقَان 34 یعنی اللہ میاں خود تشریف لے آئیں اور فرمائیں کہ بندو، میری تم سے یہ التماس ہے۔ سورة الْفُرْقَان 35 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے " بڑی چیز سمجھ لیا اپنی دانست میں انہوں نے اپنے آپ کو "۔
Top