Asrar-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 21
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنا لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارے گئے عَلَيْنَا : ہم پر الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ نَرٰي : یا ہم دیکھ لیتے رَبَّنَا : اپنا رب لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا : تحقیق انہوں نے بڑا کیا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں وَعَتَوْ : اور انہوں نے سرکشی کی عُتُوًّا كَبِيْرًا : بڑی سرکشی
اور جو لوگ ہمارے سامنے پیش ہونے کی امید نہیں رکھتے ، کہتے ہیں ک ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے یا ہم (اپنی آنکھ سے) اپنے پروردگار کو دیکھ لیں یقینا یہ اپنے خیال میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ رہے ہیں اور اسی وجہ سے بڑے سرکش ہو رہے ہیں
(رکوع نمبر 3) اسرارومعارف یہ لوگ صرف اسی پر بس نہیں کرتے کہ آپ ﷺ کی ذات ہی پہ اعتراض کرتے ہیں انہیں آخرت کے انکار اور اللہ جل جلالہ کے روبرو پیشی سے انکار نے اس قدر گستاخ کردیا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ فرشتہ ہمارے پاس کیوں نہیں آتا نبی ہی کے پاس کیوں آتا اور اللہ جل جلالہ ہم سے بات کیوں نہیں کرتا ، اس قدر تکبر اور اپنی بڑائی میں اس قدر بڑھ چڑھ کر بات کر رہے ہیں لیکن ایک روز ایسا بھی ہوگا کہ یہ فرشتوں کو روبرو دیکھیں گے موت کے وقت بھی اور یوم قیامت بھی فرشتے تو ان کے سامنے ہوں گے مگر ایمان لانے اور غور وفکر سے راہ اپنانے کا وقت گذر چکا ہوگا اور ان بدکاروں کے لیے فرشتوں کا سامنے آنا کوئی سامان راحت نہ ہوگا بلکہ عذاب الہی کو دیکھ کر پکاریں گے پناہ ہے اس مصیبت سے کاش ہم اس عذاب سے بچ سکیں اور جن کاموں کو دنیا میں نیکی سمجھ کر اور اپنی پسند سے اختیار کرکے کرتے رہے ان کی طرف متوجہ ہوں گے یعنی اللہ انکو ملاحظہ فرمائیں گے تو انہیں غبار کی طرح اڑا دیں گے کہ اللہ جل جلالہ کے نزدیک ان کی حیثیت کوئی نہ ہوگی نہ اللہ جل جلالہ کا حکم یا اس کے نبی ﷺ کا ارشاد ہوں گے ۔ کفاروملحدین کے اپنے تجویز کردہ ہوں گے کہ آخرت کا منکر اگر کوئی ایسا کام بھی کرے جو واقعی نیکی ہو تو دنیا ہی کے کسی فائدے کے لیے کرتا ہے کہ آخرت کو تو وہ مانتا ہی نہیں لہذا اس کا بدلہ اسے دنیا میں مل جاتا ہے آخرت کے لیے کچھ نہیں بچتا ۔ اس روز تو وہی لوگ مزے میں ہوں گے اور خوب آرام دہ مقامات پہ تشریف فرما ہوں گے جو جن کے مستحق ٹھہرے یعنی ایمان لائے اور اطاعت کی جس روز آسمان پھٹ کر اس میں بادل اترے گا اور مسلسل فرشتے نازل ہو رہے ہوں گے مفسرین کرام کے مطابق آسمان و زمین کی تباہی کے بعد میدان حشر میں جب آسمان و زمین درست کردیے جائیں گے تو آسمان پھٹ کر ایک بادل سا اترے گا جس میں اللہ جل جلالہ کی تجلی ہوگی اور فرشتوں کا نزول ہوگا تو پھر ہر ایک مانے گا کہ حکومت اللہ جل جلالہ ہی کی ہے جو حق ہے اور بہت بڑا رحم کرنے والا ہے اور انکار کرنے والوں کے لیے وہ دن بہت ہی مشکل ہوگا ، اس روز تو کافر اور ظالم کہ کفر خود بہت بڑا ظلم ہے اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا کہ کاش میں نے فلاں شخص کو دوست ہی نہ بنایا ہوتا ۔ (برے لوگوں کی رفاقت) اے کاش میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے آشنائی پیدا کی ہوتی اور آپ کی غلامی اختیار کی ہوتی اے کاش میں اس ظالم سے واقف ہی نہ ہوا ہوتا کہ اس نے قرآن کے نزول کے بعد دین کے ظہور کے بعد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد بھی مجھے گمراہ کردیا اور ان نعمتوں سے دور کردیا اور محروم کردیا اور شیطان واقعی انسان کو ذلیل ورسوا کردیتا ہے اور سخت دھوکا دیتا ہے کہ بدکاروں سے دوستی بھی ایک شیطانی عمل ہے ۔ (ترک قرآن کتنا بڑا جرم ہے) اور اس روز اللہ جل جلالہ کا رسول ﷺ فرما دے گا کہ اے اللہ جل جلالہ ان لوگوں نے قرآن کو بالکل نظر انداز کردیا تھا اور اس پر ایمان نہ لاتے تھے ، آج ان کی کسی فریاد پہ نظر نہ فرمائی جائے ، اس میں جہاں کا فر ومنکر کے لیے وعید ہے وہاں ان مسلمانوں کو بھی خبردار کیا گیا ہے جو قرآن کو مانتے رہے ، تنبیہہ تو ان کے لیے بھی ہے جو یہ مانتے ہیں کہ قرآن حق ہے اگر ہم اس پر عمل نہیں کرتے تو ہمارا قصور ہے ان کے بارے حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ جس نے قرآن پڑھا مگر اس کو بند کرکے طاق میں سجا دیا نہ اس پر غور کیا اور نہ عمل کرنے کی فکر کی خود قرآن بھی اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں ان کی شکایت کرے گا۔ اور یہ بھی اللہ جل جلالہ کا عذاب ہے اور اس کی ایک صورت کہ گناہ کرتے کرتے کوئی ظالم اتنا دور نکل جائے کہ وہ اللہ جل جلالہ کے نبی کا دشمن بن جائے یہ ہر نبی کے عہد میں ہوا اور ایسے ظالم لوگ پائے گئے لہذا فکر کی بات نہیں کہ تیرا پروردگار طالب کو ہدایت دینے والا بھی ہے اور منکرین کے خلاف مدد کرنا بھی اسی کا کام ہے ۔ ّ (انوارات کا تدریجی نزول) یہ کفار کہتے ہیں کہ ان پر سارا قرآن ایک ہی بار کیوں نازل نہ ہوا بھلا انہیں کیا اس میں اللہ جل جلالہ کی کتنی حکمتیں تھیں مثلا یہ کہ اللہ جل جلالہ نے اس سے آپ کے قلب اطہر کو قوت دی کہ انوارات باری یکبارگی آتے تو پاش پاش بھی کرسکتے تھے مگر تدریجا قوت بڑھتی گئی اور نزول انوارات جو الفاظ قرآن سے متعلق تھا ہوتا رہا اور یہی حال طالبان طریقت کا ہوتا ہے کہ یکبارگی کسی کو کھینچ کر منازل پہ لے جایا جائے تو مجذوب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے مگر تدریجا منازل کرائے جائیں تو قوت برداشت پیدا ہوجاتی ہے نیز دوسری حکمت یہ بھی تھی کہ کتاب اللہ کا پڑھنا اور یاد کرنا آسان ہوجائے کہ ہر آیت کسی واقعی پہ نازل ہوئی تو وہ اس کی یاد کا سبب بھی بن گیا اور معنی متعین کرنے کا بھی ، یہ کفار مل جل کر اور مشورے کرکے کتنا بڑا اور کیسا ہی عجیب سوال آپ ﷺ کی بارگاہ میں لائیں تو اللہ کریم بھی اس کا خوبصورت اور مدلل جواب آپ ﷺ کو سمجھا دیتے ہیں ۔ (کرامت) کہ کفار کبھی آپ ﷺ کو لاجواب نہیں کرسکتے اللہ جل جلالہ کے بعض بندوں پر اولیاء اللہ میں سے بھی انعام ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے فیوضات کی برکت سے انہیں اللہ جل جلالہ کی طرف سے علوم کے خزانے نصیب ہوتے ہیں اور یہ الٹے الٹے اعتراضات کرنے والے تو تب جانیں گے جب ان کے الٹے سوالوں اور الٹے کردار کے باعث انہیں الٹا گھسیٹ کر اور منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینکا جائے گا جو بہت ہی بری جگہ ہے ۔ (اعمال اور سزا) کہ یہ بھی راہ سے اور ہدایت سے بہت ہی دور ہیں تو سزا از جنس اعمال ہوتی ہے جتنے راہ حق سے دور تھے اتنے جہنم کے دور دراز گوشوں میں اور جیسے الٹے اعتراض کرتے تھے اسی طرح الٹا کرکے پھینکے جائیں گے ۔
Top