Mafhoom-ul-Quran - Al-Furqaan : 21
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنا لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارے گئے عَلَيْنَا : ہم پر الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ نَرٰي : یا ہم دیکھ لیتے رَبَّنَا : اپنا رب لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا : تحقیق انہوں نے بڑا کیا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں وَعَتَوْ : اور انہوں نے سرکشی کی عُتُوًّا كَبِيْرًا : بڑی سرکشی
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں یہ اپنے خیال میں بڑائی رکھتے ہیں اور اسی لیے بڑے سرکش ہو رہے ہیں۔
سر کش اور نیک لوگوں کا انجام تشریح : یہاں پھر میدان حشر کا نقشہ اور گنہگاروں کے تکبر کا انجام بڑے صاف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ وہ اس قدر غرور اور لاپرواہی میں بدمست ہوچکے تھے کہ مطالبہ کرتے کہ یا تو فرشتے یا خود اللہ ان سے بات کرے تو مانیں گے۔ تو فرشتے تو قیامت کے دن ہی دکھائی دیں گے تب توبہ کر اٹھیں گے اور اعمال بد تو ان کے ویسے ہی برباد ہوچکے ہوں گے تب ان کو اصل حقیقت کا یقین آئے گا۔ مگر اس وقت کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ ان کو اعمال بد کے نتیجہ میں بد ترین ٹھکانا مل چکا ہوگا۔ اور ان کے مقابلے میں نیک ‘ متقی ‘ پرہیزگار اور مقبول الٰہی لوگوں کو بہترین آرام دہ اور پر آسائش ٹھکانا جنت میں ملے گا۔ بار بار جنت اور دوزخ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ غیب کی بات ہے لوگوں کو اس کا یقین اور سمجھ مشکل سے آتی ہے۔ مسلمان تو خیر اس پر فوراً یقین کرلیتا ہے۔ کیونکہ اس پر یقین کیے بغیر تو ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا۔ مسئلہ تو کفار و مشرکین کا ہے بلکہ کئی کمزور ایمان والے بھی یوں کہہ دیتے ہیں ” دیکھا جائے گا۔ “ ان کو اتنی بھی عقل نہیں آتی کہ یہ سراسر کفر کا کلمہ ہے۔ اور اس کی سزا ان کو بہت بڑی ملے گی۔ اس بات کو پکا اور یقینی بنانے کے لیے قرآن پاک میں 115 مقامات پر الآخرۃ کا لفظ آیا ہے۔
Top