Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 21
وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنا لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارے گئے عَلَيْنَا : ہم پر الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ نَرٰي : یا ہم دیکھ لیتے رَبَّنَا : اپنا رب لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا : تحقیق انہوں نے بڑا کیا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں وَعَتَوْ : اور انہوں نے سرکشی کی عُتُوًّا كَبِيْرًا : بڑی سرکشی
اور کہتے ہیں وہ لوگ پوری ڈھٹائی اور بےباکی سے جو امید و اندیشہ نہیں رکھتے ہمارے حضور پیشی کا کہ کیوں نہیں اتر دئیے گئے ہم پر فرشتے یا ہم خود اپنی آنکھوں دے سیکھ لیتے اپنے رب کو سو ان لوگوں نے بڑی چیز سمجھا اپنے آپ کو اپنے دلوں میں اور انہوں نے ارتکاب کیا ایک بہت بڑی سرکشی کا1
26 عقیدئہ آخرت سے محرومی، محرومیوں کی محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جو لوگ ہمارے حضور پیشی کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتار دیئے گئے "۔ یعنی بشر کی بجائے نوری فرشتوں کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوتا یا یہ کہ اس رسول کے ساتھ فرشتے اتار دئیے جاتے تاکہ وہ نہ ماننے والوں کو ڈراتے، دھمکاتے اور خبردار کرتے رہتے۔ جیسا کہ پہلے اسی سورة کریمہ کی آیت نمبر 7 میں فرمایا گیا ۔ { فَیَکُوْنَ مَعَہ نَذِیْرًا } ۔ اور منکروں کی طرف سے یہ سب ہی باتیں کہی جاتی تھیں جیسا کہ دوسرے مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے۔ کبھی وہ کہتے کہ کیا ایک بشر ہی کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجنا تھا ؟ اور کبھی کہتے کہ جو فرشتے پیغمبر پر نازل ہوتے ہیں وہ ہم پر کیوں نہیں آتے ؟ اور کبھی کہتے کہ ان صاحب کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں موجود نہیں جو خبردار کرتا رہتا ؟۔ سو یہ سب کچھ ایمان آخرت سے محرومی کا نتیجہ تھا۔ پس عقیدئہ آخرت سے محرومی، محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ محرومیوں اور ان کے جملہ شوائب سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 27 استکبار یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ محرومی اور فساد کی جڑ بنیاد ۔ والعیاذ باللہ : سو منکرین نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونے کے باعث کہا کہ " یا ہم خود دیکھ لیں اپنے رب کو "۔ یعنی وہ بےحجاب ہو کر خود ہمارے سامنے آجائے اور ہم اس کو کھلی آنکھوں دیکھ لیں۔ اور وہ ہم سے خود ان صاحب کو رسول ماننے کے بارے میں کہتا یا یہ کہ جو پیغام ان رسولوں کے ذریعے ہمیں دیا جا رہا ہے وہ براہ راست خود ہمیں دیا جائے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ان کا یہ قول اس طرح نقل فرمایا گیا ہے ۔ { لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَا اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ } ۔ (الانعام : 124) ۔ سو جب انسان پیغام حق کو سننے اور اس کے ماننے کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتا تو اس کا زاویہ نگاہ اسی طرح الٹا ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ ان لوگوں کا یہ مطالبہ چونکہ محض کبر و غرور اور ان کی حماقت و سفاہت پر مبنی تھا اس لیے قرآن حکیم نے ان کی اس احمقانہ بات کا جواب دینے کی بجائے ان کے اسی کبر و غرور پر ضرب لگائی اور فرمایا کہ ان لوگوں نے اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھ لیا جو خدا اور فرشتوں کو دیکھنے کا مطالبہ لیکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ سو استکبار یعنی اپنی بڑائی کا زعم اور گھمنڈ منبع شر و فساد اور محرومی کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو بندے کی اصل کامیابی اور حقیقی عزت و عظمت اس کے کمال عبدیت و عبودیت میں ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 28 استکبار کا نتیجہ محرومی و سرکشی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " انہوں نے بہت بڑی سرکشی کا ارتکاب کیا " اور اس سے بڑھ کر سرکشی اور حد سے بڑھ جانے کی صورت اور کیا ہوگی کہ کوئی بندہ عام اور عاجز بندہ ہونے کے باوجود حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی ذات اقدس واعلیٰ کو اپنی ان مادی، مخلوق اور قاصر آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ کرے جس کے نور بےکیف کی ایک جھلک نے کوہ طور کو ریزہ ریزہ کردیا تھا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) جیسے اولوا العزم رسول اور جلیل القدر پیغمبر بھی بےہوش ہو کر گرگئے تھے۔ اور جس کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی مرفوع روایت کے مطابق ارشاد فرمایا گیا کہ اگر وہ اپنے نور مطلق سے پردہ اٹھا دے تو سب کچھ جل جائے ۔ " لَاَحْرَقَتْ سُبْحَاتُ وَجْہِہٖ کُلَّ شَیْئٍ ۔ " یعنی اس کے وجہ انور کی تجلیات سے ہر چیز جل کا راکھ ہوجائے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ { فَتَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا } ۔ سو اس کو ظاہری اور مادی آنکھوں کی بجائے دل کی اور باطنی آنکھوں سے دیکھا جائے اور اس کو ویسے مانا جائے جیسا کہ وہ اپنے بارے میں خود بتائے یا اس کے وہ رسول بتائیں جن کے پاس اس کی طرف سے وحی آتی ہے۔ یہی صحیح راستہ اور سلامتی والا طریقہ ہے معرفت خداوندی سے سرفرازی کا۔ اور یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا۔ اور اسی کی تا یید و تلقین عقل و نقل دونوں سے ہوتی ہے۔ ورنہ اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ۔ والعیاذ باللہ -
Top