Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 110
وَ نُقَلِّبُ اَفْئِدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ نَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۠   ۧ
وَنُقَلِّبُ : اور ہم الٹ دیں گے اَفْئِدَتَهُمْ : ان کے دل وَاَبْصَارَهُمْ : اور ان کی آنکھیں كَمَا : جیسے لَمْ يُؤْمِنُوْا : ایمان نہیں لائے بِهٖٓ : اس پر اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّنَذَرُهُمْ : اور ہم چھوڑ دیں گے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے رہیں
اور ہم ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار ایمان نہیں لائے اور ان کو ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیں گے۔
وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ ، یہ اس سنت اللہ کا بیان ہے جس کے تحت کسی کو ایمان نصیب ہوتا ہے اور کوئی اس سے محروم رہتا ہے، اس سنت اللہ کی وضاحت اس کتاب میں مختلف مقامات میں ہوچکی ہے۔ اس کائنات میں بھی اور انسان کے اپنے وجود کے اندر بھی خالق کائنات نے اپنی جو ان گنت نشانیاں پھیلا دی ہیں جو لوگ ان پر غور کرتے اور اس غور و فکر سے جو بدیہی نتائج ان کے سامنے آتے ہیں ان کو حرز جاں بناتے ہیں، ان کو ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ یہ تمام نشانیاں دیکھنے کے باوجود انھدے بہرے بنے اور اپنی خود پرستیوں میں مگن رہتے ہیں، قرآن اور پیغمبر کی بار بار تذکیر کے بعد بھی اپنی آنکھیں نہیں کھولتے، اللہ ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو الٹ دیا کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صحیح فکر و نظر کی صلاحیت سے محروم ہوجایا کرتے ہیں۔ پھر بڑی سے بڑی نشانی اور بڑے سے بڑا معجزہ بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو لوگ سیدھے دیکھنے کے بجائے الٹے دیکھتے اور سیدھی راہ اختیار کرنے کے بجائے الٹی راہ چلتے ہیں ان کے دل اور ان کی فکر بھی کج کردی جاتی ہے۔ پھر وہ احول کی طرح ہر چیز کو بس اپنے مخصوص زاویہ ہی سے دیکھتے ہیں۔ اسی سنت اللہ کی طرف فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبہم میں اشارہ فرمایا ہے۔ یہاں اسی معروف سنت اللہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ کیسے باور کرتے ہو کہ اگر ان کو ان کی طلب کے کے مطابق کوئی معجزہ دکھا دیا تو یہ مومن بن جائیں گے۔ آخر وہ تمام نشانیاں جو آفاق وانفس میں موجود ہیں، جن کی طرف قرآن نے انگلی اٹھا اٹھا کر اشارہ کیا اور ان کے مضمرات و دلائل واضح کیے جب ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کے زاویے کو درست کرنے میں کارگر نہ ہوسکی تو آخر کوئی نئی نشانی کس طرح ان کی کا یا کلپ کردے گی ؟ جو حجاب آج ہے وہ کل کس طرح دور ہوجائے گا اور جو اندھا پن آج دیکھنے سے مانع ہے وہ اس نشانی کے ظہور کے وقت کہاں چلا جائے گا، جس طرح آج تک وہ ساری نشانیوں کو جھٹلا رہے ہیں اسی طرح اس نشانی کو بھی جھٹلا دیں گے اور جو قلب ماہیت ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کی آج دیکھتے ہو وہ قلب ماہیت اس وقت بھی اپنا عمل کرے گی۔ یہ قلب ماہیت چونکہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سنت کے نتیجہ کے طور پر ظہور میں آتی ہے اس وجہ سے جس طرح بعض مواقع میں فعل، اضلال، کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اسی طرح یہاں تقلیب قلوب و ابصار کو اپنی طرف منسوب فرمایا، بہ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ، اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز جو ان کے ایمان نہ لانے کا سبب ہے وہ ان کا طغیان اور ان کی سرکشی ہے۔ وہ اللہ کی نعمتوں کو اپنی قوت و قابلیت کا کرشمہ سمجھے بیٹھے ہیں اور پیغمبر کی دعوت ان کے غرور و نفس اور ان کے پندار سیادت پر شاق گزر رہی ہے۔ ان کے اس غرور کی سزا ان کو یہ ملی ہے کہ ان کے دل اور ان کی آنکھیں خدا نے الٹ دی ہیں اور ان کو اسی غرور میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔
Top