Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 105
وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِيَقُوْلُوْا : اور تاکہ وہ کہیں دَرَسْتَ : تونے پڑھا ہے وَلِنُبَيِّنَهٗ : اور تاکہ ہم واضح کردیں لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
اور اسی طرح ہم اپنی دلیلیں مختلف اسلوبوں سے پیش کرتے ہیں تاکہ ان پر حجت قائم ہو اور تاکہ وہ بول اٹھیں کہ تم نے اچھی طرح پڑھ کر سنا دیا اور تاکہ ہم اس کو اچھی طرح واضح کردیں ان لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں
وَكَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ۔ تصریف آیات کی وضاحت مختلف مقامات میں ہوچکی ہے یعنی اللہ کی نشانیوں کو مختلف پہلووں اور گوناگوں اسلوبوں سے واضح کرنا، یہاں کذالک کا اشارہ توحید، معاد اور رسالت کے انہی دلائل کی طرف ہے جو اوپر تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ۔ دَرَس، کے اصل معنی تو گھنے اور ہٹانے کے ہیں۔ دَرَسَ الرَّسو کے معنی ہوں گے، محاہ، نشان کو مٹا دیا۔ آدمی جب کسی چیز کو کثرت سے بار بار پڑھتا ہے، بالخصوص جب اس پر انگلی رکھ کے ایک ایک حرف کو متعین کرتے ہوئے پڑھتا ہے جیسا کہ مذہبی صحیفوں کی تلاوت کے لیے رواج ہے تو بالعموم وہ نسخے گھس جاتے ہیں۔ اس وجہ سے لفظ درس کی کتاب کو اچھی طرح بار بار کر ات و مرات پڑھنے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ لغت میں اس بات کو یوں تعبیر کرتے ہیں۔ دَرَسَ الکتاب، اقبل علیہ یحفظہ۔ کسی کتاب کو پڑھنا خود اپنے لیے بھی ہوسکتا ہے اور دسروں کو سنانے کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ چناچہ قرآن میں قراءت اور تلات کے الفاظ بھی ان دونوں ہی مفہوموں میں استعمال ہوئے ہیں۔ وَلِيَقُوْلُوْا کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ اس قسم کے حذف کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنی آیتیں مختلف اسلوبوں اور پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں تاکہ وہ سمجھنا چاہیں تو سمجھیں اور اگر اپنی روش پر اڑے رہنا چاہیں تو کم از کم اس بات کے تو وہ قائل ہوجائیں کہ تم نے اچھی طرح پڑھ کے سنا دیا، نیز اس لیے ہم ان کی اچھی طرح وضاحت کر رہے ہیں کہ جو علم کے طالب ہیں وہ ان سے علم حاصل کریں۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنا کوئی رسول بھیجتا ہے تو اس کے ذریعے سے وہ مخاطب قوم پر اپنی حجت تمام کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے دل پکار اٹھتے ہیں کہ رسول نے احقاقِ کا حق ادا کردیا، زبان سے وہ اس کا اقرار کریں یا نہ کریں۔ یہاں وَلِيَقُوْلُوْا سے یہی دل کا اقرار مراد ہے۔ دل کے اقرار کے باوجود زبان و عمل سے جو قوم رسول کی تکذیب پر اڑی رہتی ہے، سنتِ الٰہی یہی ہے کہ وہ قوم ہلاک کردی جاتی ہے۔
Top