Tadabbur-e-Quran - Al-Waaqia : 11
اُولٰٓئِكَ الْمُقَرَّبُوْنَۚ
اُولٰٓئِكَ الْمُقَرَّبُوْنَ : یہی نزدیکی حاصل کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ قرب حاصل کرنے والے ہیں
وہی لوگ مقرب ہوں گے۔
(سالقون کا صلہ)۔ چونکہ گل سر سبد اور سر خیل قافلہ کی حیثیت انہی (سابقون) کو حاصل ہوگی اس درجہ سے انہی کا مرتبہ اور صلہ سب سے پہلے بیان فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ انہی لوگوں کو مقربین کا درجہ حاصل ہوگا۔ ’ مقربین ‘ سے مراد ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقربین ہیں لیکن ان مقربین کا ٹھکانہ (جنت النعیم) ہی بتایا ہے، دربار الٰہی کے قسم کی کسی چیز کا کوئی تصور نہیں دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقربین الٰہی کے لیے خاص ان کے درجے و مرتبے کے لحاظ سے جنتیں ہوں گی جن میں وہ رکھے جائیں گے آگے ان کی جنت سے متعلق بعض ارشادات آ رہے ہیں۔ (ثلثۃ من الاولین و قلیل من الاخرین)۔ اب یہ واضح فرمایا کہ اس مبارک گروہ میں شامل ہونے کی سعادت کن لوگوں کو حاصل ہوگی۔ فرمایا کہ ان میں زیادہ تعداد تو اگلوں کی ہوگی اور ایک قلیل تعداد پچھلوں کی بھی ہوگی۔ (ثلثۃ) کے اصلمعنی تو گروہ اور جماعت کے ہیں لیکن اس کے مقابل میں چونکہ لفظ قلیل استعمال ہوا ہے اس وجہ سے یہاں قرینہ دلیل ہے کہ اس کو گروہ کثیر کے مفہوم میں لیا جائے۔ (اولین اور آخرین سے مراد)۔ اولین اور آخرین سے مراد ہمارے نزدیک اسی امت کے اولین و آخرین ہیں اوپر ہم نے سورة حدید کا حوالہ دیا ہے جس سے واضح ہوا کہ ان لوگوں کے انفاق اور جہاد کا درجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اونچا ہے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے جہاد و اتفاق کی سعادت حاصل کی۔ بعد والوں کے جہاد و انفاق کا درجہ وہ نہیں ہوگا تاہم اللہ تعالیٰ کا وعدہ دونوں ہی سے اچھا ہے، یعنی بعد والے اگرچہ من حیث العموم اگلوں کے مرتبہ کو تہ نہ پہنچ سکیں گے تاہم اپنے اخلاص و حسن عمل سے ان کے لیے (اصحب الیمین) میں جگہ حاصل کرنے کی راہ کھلی ہوگی۔ (ثلثۃ من الاولین)۔ کے الفاظ سے یہ بات بھی نکلی کہ اگلوں میں سے لازماً سب ہی متقربین کا درجہ حاصل نہیں کرلیں گے بلکہ ان کی اکثریت کو یہ مقام حاصل ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس درجے کا تعلق مجرد زمانے ہی سے نہیں ہے بلکہ اس میں اصلی دخل اوصاف و اعمال کو ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے تو اولین میں ہو لیکن اپنی عزیمت، رسوخ اور قربانیوں کے اعتبار سے مقربین کا درجہ نہ حاصل کرسکا بلکہ (اصحب الیمین) ہی کے درجے تک رہ گیا۔ (ایک خاص نکتہ) اسی طرح (قلیل من الاخرین) کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس امت کے پچھلوں میں سے بھی ایسے لوگ نکلیں گے جو سابقون الالون کے زمرے میں شامل ہونے کا شرف حاصل کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو فتنوں کے زمانے میں بھی حق پر قائم رہیں گے، حق ہی کی دعوت دیں گے، اور حالات خواہ کتنے ہی صبر آزما ہوجائیں اور ان کی تعداد خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو لیکن وہ ہمت نہیں ہاریں گے۔ اس قسم کا ایک گروہ اس امت میں، جیسا کہ احادیث میں بشارت ہے، ہر دور میں پیدا ہوتا رہے گا۔ یہ لوگ زمانے کے اعتبار سے تو آخرین میں ہوں گے لیکن اپنی خدمات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ہاں اولین کے زمرے میں جگہ جگہ پائیں گے۔ اسی حقیقت کی طرف سیدنا مسیح ؑ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ کتنے پیچھے آنے والے ہیں جو آگے ہوجائیں گے۔ یہاں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی کی ہے کہ ہرچند ان آیات کا تعلق اسی امت سے ہے لیکن اصولی طور پر یہ بات ہر نبی و رسول کی امت پر منطبق ہوتی ہے، چناچہ قرآن مجید میں دوسری جگہ یہی بات ایک عام کلیہ کی حیثیت سے ارشاد ہوئی ہے۔ فرمایا ہے (۔۔ فاطر : 32، 35) (پھر ہم نے کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو اپنے بندوں میں سے اس کا یہ خاص کے لیے منتخب کیا تو ان میں کچھ تو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے نکلے، کچھ میانہ رو ہوئے اور کچھ اللہ کی توفق سے بھلائیوں کی راہ میں سبق کرنے والے ہوئے)۔ اس آیت پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو معلومہو گا کہ الفاظ بدلے ہوئے ہیں لیکن اس میں بھی انہی تین گروہوں کا ذکر ہے جن کا ذکر اوپر (اصحب المیمنۃ، اصحب المشئۃ اور سابقون) کے الفاظ میں ہوا ہے۔
Top