Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 48
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَرْسَلَ الرِّيٰحَ : بھیجیں ہوائیں اس نے بُشْرًۢا : خوشخبری بَيْنَ يَدَيْ : آگے رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً طَهُوْرًا : پانی پاک
اور وہی ہے جو اپنے باران رحمت سے پہلے ہوائوں کو خوش خبری بنا کر بیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاکیزہ پانی اتارتے ہیں
آیت 49-48 بارش کی نشانیوں کی طرف اشارہ رحمۃ یہاں بارش کے مفہوم میں ہے اور یہ لفظ اس معنی میں جگہ جگہ قرآن میں استعمال ہوا ہے رات اور دن کی آمد و شد کے اندر اللہ تعالیٰ کی جن صفات کا مشاہدہ ہو رہا ہے ان کی طرف توجہ دلانے کے بعد یہ بارش کی رحمت کی طرف توجہ دلائی جو ہرچند روز تو نہیں آتی لیکن اس زمین کا ہر جاندار اس کا محتاج ہے جب آتی ہے تو ہمیں پروردگار کی ان تمام صفات اور شانوں کا مشاہدہ کرا دیتی ہے جس پر قرآن کی دعوت کی بنیاد ہے۔ فرمایا کہ وہی خدا تمہارا رب ہے جو باران رحمت سے پہلے موسمی ہوائوں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے جو مختلف اطراف سے بادلوں کو ہانک کر لاتی ہیں، پھر ان کو تہ بہ تہ اکھٹا کرتی ہیں، پھر جہاں کے لئے رب کا حکم ہوتا ہے وہاں وہ بادل پاکیزہ اور پاکیزگی تیش پانی برسا دیتے ہیں جس سے مردہ زمین از سر نو حیات تازہ حاصل کرلیتی ہے اور خدا کی مخلوقات میں سے بیشمار چوپائے اور انسان اس سے سیراب ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ غور کرو، کیا یہ دنیا جس کے ہر گوشے میں اتنی حکمتیں اور قدرتیں نمایاں ہیں بغیر کسی خالق کے وجود میں آگئی ہے۔ یہ سب کچھ محض کسی اندھی بہری علت العل کا کرشمہ ہے ؟ آسمان سے لے کر زمین تک ابر، ہوا، بارش اور انسان و حیوانات کی مالیتحاج میں یہ ربط آپ سے آپ پیدا ہوگیا ہے ؟ کیا اضداد کی اس باہمی ہم آہنگی کے مشاہدہ کے بعد یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر مختلف ارادے کار فرما ہیں ؟ کیا رحمت و ربوبیت کا یہ اہتمام انسان پر رب رحمان و رحیم کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں کرتا ؟ کیا ہر بارش کے بعد زمین کی از سر نو زندگی اس حقیقت کی یاد دہانی نہیں کر رہی ہے کہ جو حکیم و قدیر اپنی قدرت و حکمت کا یہ مشاہدہ برابر کرا رہا ہے اس کے لئے لوگوں کے مرنے اور مٹی میں مل جانے کے بعد ان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے ؟ انسانوں اور چوپایوں کے ساتھ کثیر کی صفت لانے سے مقصود یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں ایسی مخلوقات بھی ہیں جن کو اس نے پانی کا محتاج نہیں بنایا ہے لیکن بہت سی مخلوقات ایسی ہیں جو اپنی زندگی کے لئے پانی کی محتاج ہیں۔ ان میں سے خاص طور پر چوپایوں اور انسانوں کا ذکر فرمایا جو نمایاں اور برتر ارضی مخلوقات میں سے ہیں۔ ان کے ذکر کے ساتھ ان کے توابع اور دوسری مخلوقات آپ سے آپ ان کے تحت آگئے۔
Top