Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ فَالِقُ : چیرنے والا الْحَبِّ : دانہ وَالنَّوٰى : اور گٹھلی يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْحَيَّ : زندہ مِنَ : سے الْمَيِّتِ : مردہ وَمُخْرِجُ : اور نکالنے والا ہے الْمَيِّتِ : مردہ مِنَ : سے الْحَيِّ : زندہ ذٰلِكُمُ : یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ فَاَنّٰى : پس کہاں تُؤْفَكُوْنَ : تم بہکے جارہے ہو
بے شک خدا ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر (ان سے درخت وغیرہ) اگاتا ہے وہی جاندار کو بے جان سے نکالتا ہے اور وہی بےجان کا جاندار سے نکالنے والا ہے۔ یہی تو خدا ہے۔ پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو
ان اللہ فالق الحب والنوی بیشک اللہ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کو۔ حسن قتادہ اور سدی کے نزدیک اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ بالی کے اندر سے دانہ اور درخت کھجور کے اندر سے گٹھلی کو برآمد کرتا ہے۔ زجاج نے کہا خشک دانے اور خشک گٹھلی کو چیر کر سبز کونپل نکالنے والا ہے۔ مجاہد نے کہا اس سے وہ شگاف مراد ہے جو گیہوں کے دانے اور کھجور کی گٹھلی میں ہوتا ہے (یعنی یہ شگاف اللہ نے پیدا کیا ہے) ضحاک نے کہا خالق سے مراد ہے خالق۔ حَبٌّکا واحد حَبَّۃٌہے اس کا اطلاق اس بیج پر ہوتا ہے جو کھانے کے کام میں آتا ہے جیسے گیہوں ‘ جو ‘ چنا ‘ جوار ‘ چاول وغیرہ یعنی ہر قسم کا غلہ اور نویکا واحد نواۃ ہے اس کا اطلاق ان بیجوں پر ہوتا ہے جو کھانے کے کام میں نہیں آتے جیسے کھجور ‘ آڑو ‘ خوبانی انار وغیرہ کی گٹھلیاں۔ یخرج الحی من المیت وہ زندہ کو بےجان سے نکالتا ہے یعنی نامی حیوان اور سبزہ کو غیر نامی (نطفہ دانے اور گٹھلی) سے پیدا کرتا ہے۔ یہ جملہ سابق جملہ کے بیان کے مقام پر آتا ہے اس لئے حرف عطف نہیں لایا گیا۔ ومخرج المیت من الحی اور وہی بےجان یعنی غیر نامی کو جاندار یعنی نامی سے نکالنے والا ہے۔ (نطفہ بیج گٹھلی کو حیوان اور سبزہ سے پیدا کرتا ہے) اس جملہ کا عطف فالق الحب پر ہے اسی لئے مخرج اسم فاعل کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے) ذلکم اللہ یہ ہی۔ زندہ اور مردہ کرنے والا۔ تم سب کا اللہ ہے یعنی معبود ہونے کا مستحق ہے جو خود عاجز ہے وہ مستحق عبادت نہیں وہ تو ہر عمل سے اثر پذیر ہوتا ہے مؤثر نہیں ہوسکتا۔ فانی تو فکون پھر کہاں (اللہ سے دوسروں کی طرف) پھرے جا رہے ہو۔
Top