Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 78
فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍۙ
فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں مَّكْنُوْنٍ : محفوظ
ایک محفوظ کتاب میں
فِیْ کِتٰبٍ مَّـکْنُوْنٍ ۔ لاَّیَمَسُّہٗٓ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ ۔ (الواقعۃ : 78، 79) (ایک محفوظ کتاب میں۔ اسے پاکیزہ لوگوں کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا۔ ) قرآن کریم کی عظمت کا بیان اس میں قرآن کریم کی عظمت و جلالت کا بیان بھی ہے اور مخالفین کے رویئے پر ملامت بھی۔ عظمت و جلال کا بیان ان معنوں میں ہے کہ یہ قرآن کریم ایک کتاب مکنون میں محفوظ ہے۔ اس سے مراد ہے لوح محفوظ۔ یعنی ایسا نوشتہ جو نگاہوں سے اتنا بلند اور مخلوق کے احساس سے اس قدر ماورا کہ کسی کی رسائی اس تک نہیں ہوسکتی۔ وہ لوح محفوظ جس میں اس کتاب کو محفوظ رکھا گیا ہے اس قدر پاکیزہ ہے کہ پاکیزہ فرشتوں کے سوا کوئی اسے چھو نہیں سکتا۔ اور انھیں پاکیزہ اس لیے کہا گیا ہے کہ کوئی برا خیال ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ کسی برائی کی پرچھائیں بھی ان تک نہیں پہنچ سکتی۔ وہ ظاہری اور معنوی ہر طرح کی گندگیوں سے معرا ہیں۔ مخالفین کے رویئے پر ملامت اس طرح کی گئی ہے کہ جو کتاب لوح محفوظ میں رکھی گئی ہو اور جس تک فرشتوں کے سوا کسی کی رسائی نہ ہو، تم اس کے بارے میں یہ سمجھتے ہو کہ اسے شیطان نبی کریم ﷺ کریم پر القاء کرتا ہے۔ اسی لیے سورة شعراء میں ارشاد فرمایا گیا : وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہٖ الشِّیَاطِیْنُ ، وَمَا یَنْبَغِیْ لَھُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ۔ ” اس کو لے کر شیاطین نہیں اترے ہیں، نہ یہ کلام ان کو سجتا ہے، اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں، وہ تو اس کی سماعت تک سے دور رکھے گئے ہیں۔ “ مسِّ قرآن کا مفہوم لاَ یَمَسُّہٗٓمیں ضمیر کا مرجع اگر مَکْنُوْنِکو بنایا جائے تو پھر تو بحث ہی کوئی نہیں۔ لیکن اگر اس کا مرجع قرآن کو بنایا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ سیاق کلام سے تو صاف معلوم ہورہا ہے کہ قرآن کریم ایسی بلند پایہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ کے محفوظ نوشتے میں ثبت ہے، جس میں کسی مخلوق کی دراندازی کا کوئی امکان نہیں اور فرشتوں کے سوا کوئی اسے چھو نہیں سکتا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اس بات کا کوئی دخل نہیں کہ ناپاکی کی حالت میں انسان اس کو چھو سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ جب فرشتے اسے اس لیے چھو سکتے ہیں کہ وہ پاکیزہ ہیں اور طہارت ان کی اصل صفت ہے تو فحوائے کلام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا میں جو لوگ اس کلام پر ایمان رکھتے ہیں انھیں بھی ناپاکی کی حالت میں اسے چھونے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ البتہ ان لوگوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیت کریمہ میں لاَ یَمَسُّہُٓپر جو لا آیا ہے وہ نفی کے معنی میں ہے یا نہی کے معنی میں۔ اکثر اہل علم اسے نفی کا لا قرار دیتے ہیں لیکن یہ نہی کے معنی میں ہے۔ جس طرح آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد المسلم اخوالمسلم لایظلمہ ” مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا۔ “ اس میں لَآ اگرچہ نفی کے لیے ہے اور اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ مسلمان، مسلمان پر ظلم نہیں کرتا۔ لیکن اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ مسلمان، مسلمان پر ظلم نہ کرے۔ اسی طرح یہاں بھی اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو بھی ناپاکی کی حالت میں قرآن کو نہیں چھونا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فحوائے کلام سے یقینا اس بات کی طرف اشارہ تو ملتا ہے۔ لیکن اس آیت سے ایک حکم استنباط کرنا اور اسے اس آیت کی تفصیل قرار دینا مناسب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اہل علم نے قرآن پاک کو ناپاکی کی حالت میں چھونے کا عدم جواز ثابت کرنے کے لیے اس آیت سے نہیں بلکہ احادیثِ صحیحہ سے استدلال کیا ہے۔ اور اس بارے میں ایک سے زیادہ احادیث موجود ہیں۔ اور پھر ان ہی احادیث کی بنیاد پر فقہاء نے اپنے اپنے مسالک مدون کیے ہیں اور یہی صحیح رویہ ہے۔
Top