Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 48
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ
وَهُوَ
: اور وہی
الَّذِيْٓ
: جس نے
اَرْسَلَ الرِّيٰحَ
: بھیجیں ہوائیں اس نے
بُشْرًۢا
: خوشخبری
بَيْنَ يَدَيْ
: آگے
رَحْمَتِهٖ
: اپنی رحمت
وَاَنْزَلْنَا
: اور ہم نے اتارا
مِنَ السَّمَآءِ
: آسمان سے
مَآءً طَهُوْرًا
: پانی پاک
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت کے (مینہ کے) آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک (اور نتھرا ہوا) پانی برساتے ہیں
( وھو الذی ارسل۔۔۔۔۔ ) وَھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًام بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ ج سورة اعراف میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً طَھُوْرًا۔ اس میں پندرہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 :۔ ماء طھورا جس کے ساتھ طہارت حاصل کی جاتی ہے، جس طرح کہا جاتا ہے : اس سے مراد ایسا پانی ہے جس کے ساتھ وضو کیا جاتا ہے ہر طہور، طاہر تو ہوتا ہے مگر ہر طاہر، طہور نہیں ہوتا۔ طہور جب طاء کے فتحہ کے ساتھ ہو تو اسم ہوتا ہے اسی طرح وضو اور وقود، ضمہ کے ساتھ مصدر ہوتا ہے، لغت میں یہی معروف ہے : یہ ابن انباری کا قول ہے۔ یہ واضح کیا کہ آسمان سے جو پانی نازل ہوتا ہے وہ فی نفسہ ظاہر ہوتا ہے اور غیر کے لیے مطہر ( پاک کرنے والا) ہوتا ہے کیونکہ طاہر کی بنسبت طہور میں مبالغہ ہے کیونکہ یہ اسم مبالغہ کا صیغہ ہے یہ مبالغہ کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ پانی طاہر و مطہر ہو، جمہور علماء اسی طرف گئے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : طہور، طاہر کے معنی میں ہے : یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے، آپ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان :” وسقھم ربم شرابا طھورا۔ “ (الانسان) سے استدلا کیا ہے جس میں طہور، طاہر کے معنی ہے، اسی طرح شاعر کے قول سے استدلال کیا اس میں شاعر نے عورتوں کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا : ریقھن طہور، لعاب کی صفت طہور سے لگائی حالانکہ تھوک پاک کرنے والا نہیں۔ عرب کہتے ہیں : رجل نووم، اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ کسی اور کو سلانے والا ہے یہ اس کے اپنے فعل کی طرف راجع ہے۔ ہمارے علماء نے اس کا یہ جواب دیا ہے : جنت کی شراب کی صفت طہور سے لگائی گئی ہے کیونکہ وہ گناہوں کی غلاظتوں، خسیں صفامت جیسے کینہ اور حسد سے پاک کرنے والی ہے جب وہ یہ مشروب پئیں گے اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں کی آلودگیوں اور مذموم اعتقادات کی غلاظتوں سے پاک کر دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سلیم دل کے ساتھ آئیں گے اور سلامتی کی صفات کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے اس موقع پر انہیں کہا گیا : ” سلم علیکم طبتم فادخلوھا خلدین۔ “ ( الزمر) جب دنیا میں اس کا حکم یہ ہے کہ جب پانی اعضاء پر جاری ہوتا ہے تو آخرت میں بھی اس کی حکمت یہی ہوگی۔ جہاں تک شاعر کے قول کا تعلق ہے ریقھن طھور اس میں مبالغہ کا ارادہ کیا ہے کہ طھوریۃ کے ساتھ ریق کی صفت لگائی کیونکہ اس میں مٹھاس ہے اور دلوں کے ساتھ اس کا تعلق ہے اور نفوس میں اس کی خوشبو پائی جاتی ہے۔ اس کے چوسنے کے ساتھ محب کی پیاس کی سکون حاصل ہوتا ہے گیا وہ ماء طہور ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ احکام شرعیہ اشعار میں ایسے الفاظ جو مجازی معنی میں استعمال ہوں ان سے اس کا ثبوت نہیں ہوتا، کیونکہ صدق سے کذب کی طرف تجاوز کر جاتے ہیں اور گفتگو میں اتنی آزادروی اپناتے ہیں، یہاں تک کہ یہ چیز انہیں بدعت و معصیت کی طرف لے جاتی ہے بعض اوقات وہ کفر میں جا پڑتے ہیں کہ انہیں شعور تک نہیں ہوتا۔ کیا تو ان میں سے ایک کے قول کو نہیں دیکھتا ؟ ولو لم تلامس صفحۃ الارض رجلھا لما کنت ادری علۃ للتیم اگر سطح زمین اس کے پائوں سے مس نہ کرتی تو مجھے تمیم کی علت کا علم نہ ہوتا۔ یہ صریح کفر ہے نعوذ باللہ منہ۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : یہ علماء کے کلام کا لب لباب ہے یہ اپنے فن میں بلیغ ترین ہے مگر میں نے عربی لغت کے حوالہ سے غور و فکر کیا تو میں نے اس میں روشن مطلع پایا، وہ یہ ہے کہ فعول کا وزن مبالغہ کا ہے مگر مبالغہ کبھی فعل متعدی میں ہوتا ہے جس طرح شاعر نے کہا : ضروب بنصل السیف سوق سمانھا وہ تلوار کی پھل سے ان میں سے موٹی اونٹنیوں کی پنڈلیوں پر ضرب لگانے والا ہے۔ بعض اوقات فعل لازم میں یہ آتا ہے جس طرح کہا : تتوم الضحا چات کے وقت تک سونے والا۔ پانی کا غیر کو پاکیزگی عطاء کرنا، اسے نظامت کے اعتبار سے لیا جائے تو یہ عمل حسن ہے اور طہارت کے اعتبار سے لیا جائے تو یہ امر شرعی ہوگا جس طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے : لا یقبل اللہ صلاۃ بغیر طھور، اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز کو قبول نہیں فرماتا۔ لغت اور شرع کے اعتبار سے علماء نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ طہورکا وصف پانی کے ساتھ خاص ہے یہ تمام مائع چیزوں کی طرف متعدی نہیں ہوگا جب کہ وہ پاکیزہ ہیں ان کا پانی کے بارے میں یہ حکم محدود کرنا اس امر پر واضح دلیل ہے کہ طھورکا معنی مطھر ہے فعول کا زن کئی اور مقاصد کے لیے بھی آتا ہے۔ یہ اس کی تمام وضاحت نہیں اس سے مراد فعل کا آلہ بھی ہوتا ہے فعل مراد نہیں ہوتا جس طرح وقود، سحور کیونکہ ان سے مراد لکڑی اور وہ کھانا ہے جس کے ساتھ سحری کی جاتی ہے، پانی کی صفت طھور سے لگائی گئی ہے اس سے مراد ایسا آلہ ہوگا جس کے ساتھ طہارت حاصل کی جاتی ہے۔ جب وقود، سحور اور طھور کے فاء کلمہ کو ضمہ دیا جائے تو اس سے مراد فعل ہوگا یعنی یہ مصدری معنی پر دال ہوں گے اور اس کے بارے میں خبر دی جائے گی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ” فعول “ کا وزن یہ بھی مبالغہ کا وزن ہے اس سے مراد آلہ ہوگا۔ حنفیہ کے دل میں یہی بات کھٹکی ہے، لیکن مقصد پورا نہ ہوا۔ اس گفتگو کے بعد اس کے مبالغہ کے وزن اور اسم آلہ کے وزن ہونے کے بارے میں وضاحت دلیل پر موقوف ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وانزلنا من السماء ما طھورا۔ “ (الفرقان) نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : جعلت لی الارض مسجد و طھورا میرے لیے زمین مسجد اور پاکیزگی عطاء کرنے والی بنا دی گئی۔ یہ دونوں دلیلیں مبالغہ اور آلہ کا احتمال رکھتی ہیں۔ اس میں ہمارے علماء کے لیے کوئی حجت نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان لیطھرکم بہ اس میں نص ہے کہ اس کا فعل غیر کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ وہ پانی جو آسمان سے نازل ہوں یا زمین سے ودیعت کیے گئے ہوں وہ طاہر بھی ہوں گے وہ مطہر بھی ہوں گے خواہ انکے رنگ مختلف ہوں، ان کے ذائقے مختلف ہوں اور ان کی بو مختلف ہو، یہاں تک کہ ان کے ساتھ کوئی اور چیز ملی ہوئی ہو۔ پانی کے ساتھ ملنے والی چیز کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں : ایسی قسم جو پانی کی دونوں صفتوں کے موافق ہو۔ جب وہ چیز پانی کے ساتھ مل جائے تو وہ اس کو تبدیل کر دے تو وہ پانی کے کسی وصف کو سلب نہیں کرتی کیونکہ وہ ان دونوں کے موافق ہے، وہ مٹی ہے (2) وہ چیز پانی کی دو صفتوں میں سے ایک کے موافق ہو، وہ طہارت ہے، جب وہ چیز اس پانی کے ساتھ مل جائے جس میں مخالف ہو اس کو تبدیل کردیتی ہے وہ تطہیر کی صفت ہے جس طرح عرق گلاب اور باقی ماندہ پاکیزہ چیزیں (3) ایسی چیز جو دونوں صفتوں میں مخالف ہو وہ چیز اس پانی کے ساتھ مل جائے تو اسے تبدیل کر دے تو اس کی دونوں صفتوں کو سلب کرلیتی ہے کیونکہ وہ ان دونوں کے مخالف ہے وہ ناپاکی ہے۔ مسئلہ نمبر 3 :۔ امام مالک کے مصری اصحاب اس نقطہ نظر کی طرف گئے ہیں کہ تھوڑے پانی کو تھوڑی نجاست ناپاک کردیتی ہے اور زیادہ پانی کو اس وقت تک ناپاک نہیں کرتی جب تک اس کے رنگ، ذائقہ اور بو کو بدل نہ دے جب کہ وہ چیز حرام ہو۔ انہوں نے قلیل اور کثیر میں کوئی حد بیان نہیں کی جس سے یہ معلوم ہو سکے مگر ابن قاسم نے امام مالک سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک جنبی جو ایسے حوض میں عقل کرتا ہے جس سے جانور پانی پیتے ہیں جب کہ اس نے جسم پر لگی ناپاکی کو نہ دھویا ہو تو وہ پانی کو فاسد کر دے گا : یہ قول ابن قاسم، اشہب، ابن عبد الحکم اور مصر میں ان کے پیرو کاروں کا ہے مگر ابن وہب، وہ وہی قول کرتے ہیں جو مدینہ طیبہ کے مالکی علماء کا ہے ان کا قول وہ ہے جو ابو مصعب نے ان سے اور امام مالک سے نقل کیا ہے : پانی میں گری ہوئی نجاست وہ تھوڑی یا زیادہ ہوا سے فاسد نہ کرے گی مگر اس صورت میں کہ اس میں گری ہوئی نجاست ظاہر ہوجائے اور اس سے ذائقہ، بو اور رنگ بدل جائے۔ احمد بن معدل نے ذکر کیا کہ پانی کے بارے میں یہ قول حضرت مالک بن انس کا ہے اسی طرف اسماعیل بن اسحاق، محمد بن بکیر، ابو الفرح، ابہری اور دو سے علماء کا میلان ہے جو بغداد سے تعلق رکھتے ہیں، یہی قول امام اور زاعی، لیث بن سعد، حسن بن صالح اور دائود بن علی کا ہے، یہی اہل بصرہ کا قول ہے، نظر و فکر کے اعتبار سے یہی صحیح ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : جب پانی میں نجاست گر جائے تو پانی کو ناپاک کر دے گی وہ پانی زیادہ ہو یا تھوڑا ہو جب اس میں عموم نجاست متحقق ہوجائے۔ ان کے نزدیک اس کے تحقیق کی صورت یہ ہے کہ ایک تالاب میں پیشاب کا ایک قطرہ گر جائے اگر تالاب کی ایک جانب دوسری جانب کو حرکت دینے سے متحرک ہوجائے تو تمام تالاب ناپاک ہو جاگا۔ اگر اس کی دونوں طرفوں میں سے ایک کو حرکت دینے سے دوسری حرکت نہ کرے تو وہ ناپاک نہیں ہوگا۔ مجموعہ میں امام ابوحنیفہ کے مذہب کی مثل ہے۔ امام شافعی نے قلتین والی حدیث سے استدلال کیا ہے (1) یہ ایسی حدیث ہے جس میں طعن ہے اس کی سند اور متن میں اختلاف ہے، اسے ابو دائود، ترمذی اور دارقطنی نے نقل کیا ہے آپ نے اپنی کتاب کے آغاز میں اس کا ذکر کیا اور اس کے طرق کو جمع کیا ہے۔ ابن عربی نے کہا : دارقطنی نے اپنی امامت کے بل بوتے پر حدیث قلتین کو صحیح قرار دینے کا قصد کیا مگر کامیاب نہ ہوئے۔ ابو عمر بن عبد البر نے کہا : امام شافعی نے حدیث قلتین کی وجہ سے جو نقطہ نظر اپنایا ہے وہ نظر و فکر کے اعتبار سے کمزور نقطہ نظر ہے، اثر میں ثابت نہیں کیونکہ اہل علم کی ایک جماعت نے اس بارے میں گفتگو کی ہے کیونکہ قلتین کی حقیقت کسی اثر میں بھی کوئی آگاہی نہیں اور نہ ہی اجماع میں کوئی بات ثابت ہے اگر یہ لازمی حد ہوتی تو علماء پر لازم تھا کہ اس سے بحث کرتے اور ضرور اس حد پر آگاہ ہوجاتے جو نبی کریم ﷺ نے بیان کی ہوتی کیونکہ یہ ان کے دین اور فرض کی اصل ہے اگر یہ ایسا ہوتا تو وہ اسے ضائع نہ کرتے جب کہ انہوں نے اس سے ادنیٰ درجہ کے مسائل پر گفتگو کی ہے۔ میں کہتا ہوں : ابن منذر نے قلتین کے بارے میں جو اختلاف ذکر کیا ہے اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ان میں کوئی تعیین و تحدید نہ ہوگی۔ سنن دارقطنی میں حماد بن زید، عاصم بن منذر سے روایت نقل کرتے ہیں : یہ قلال سے مراد بڑے مٹکے ہیں۔ عاصم، قلسین والی حدیث کے ایک راوی ہے۔ دارقطنی کے قول سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہجر کے مٹکوں کی مثل ہیں کیونکہ انہوں نے اسراء کی حدیث نقل کی ہے کہ حضرت انس بن مالک نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جب مجھے سدرۃ المنتہیٰ سے ساتویں آسمان کی طرف لے جایا گیا اس کے بیر ہجر کے مٹکوں کی طرح تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے “ اور حدیث ذکر کی۔ ابن عربی نے کہا : ہمارے علماء نے بر بضاعہ کے متعلق حضرت ابو سعید خدری کی حدیث سے استدلال کیا ہے اسے امام نسائی، امام ترمذی، ابو دائود اور دوسرے علماء نے روایت کیا ہے۔ (2) یہ بھی حدیث ضعیف ہے، صحت میں اس کا کوئی مقام نہیں۔ (1 ؎۔ من ابی دائود یہاں ما یتجس الماء حدیث نمبر 58۔ 59۔ ابن ماجہ باب مقدار الماء الذی لاینجس، حدی نمبر 509، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ (2 ؎۔ ابو دائود باب ما جاء فی یتر بضاعۃ، حدی 60۔ 61، ضیاء القرآن پبلی کشنز۔ اس لیے اس پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ میں اس مسئلہ میں طوسی اکبر کا موافق ہوں۔ انہوں نے کہا : اس مسئلہ میں سب سے اچھا مذہب امام مالک کا مذہب ہے پانی مطہرہی رہے گا جب تک اس کا ایک وصف تبدیل نہ ہوجائے کیونکہ اس باب میں کوئی ایسی حدیث نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے۔ اعتماد قرآن کے ظاہر پر کیا جائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :” وانزلنا من السماء ماء طھورا “۔ یہ اس وقت اس حالت پر رہے گا جب تک اس کی صفات باقی رہیں۔ جب ان میں سے کسی چیز سے متغیر ہوجائے تو وہ اس اسم سے خارج ہوجائے گا کیونکہ وہ اس کی صفت سے خارج ہوچکا ہے اسی وجہ سے جب امام بخاری نے جو حدیث و فقہ کے امام ہیں اس باب میں کوئی روایت نہ پائی جس پر اعتماد کرسکیں تو فرمایا : باب اذا تغیر وصف الماء اور حدیث صحیح اس باب میں داخل کی ما من احد یکم فی سبیل اللہ واللہ اعلم بمن یکلم فی سبیلہ الا جاء یوم القیمۃ وجرحہ یثعب وما اللون لون الدم والریح ریح المسک (1) اللہ کی راہ میں جس کو بھی زخم لگایا گیا اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کسے اس کی راہ میں زخم لگایا جاتا ہے وہ قیامت کے روز آئے گا جب کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا رنگ خون کا ہوگا اور خوشبو کستوری کی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ خون اپنی حالت پر رہے گا اور اس پر خوشبو کستوری کی ہوگی، خوشبو اسے خون کی صفت سے خارج نہ کرے گی۔ اسی وجہ سے ہمارے علماء نے ارشاد فرمایا : جب پانی کی بو مردار کی بو سے تبدیل ہوجائے جو اس کی ایک جانب یا ساحل پر پڑا ہے تو یہ اس سے وضو کے مانع نہیں۔ اگر اس کی وجہ سے بو تبدیل ہوچکی ہے جب کہ اسے پانی میں ڈالا گیا تو یہ اس کو ناپاک کرنے کا سبب بن جائے گا کیونکہ وہ آپس میں خلط ملط ہوچکے ہیں پہلی صورت میں تغیر پڑوس کی وجہ سے ہے جس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ میں کہتا ہوں : اس کے برعکس پر استدلال کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ بوکا بدل جانا اسے اصل سے خارج کردیتا ہے اس استدلال کی وجہ یہ ہے کہ خون، جب اس کی خوشبو سے بدل گئی تو وہ ناپاک ہونے سے خارج ہوگیا بلک وہ مسلک ہوگیا اور مسک ( کستوری) بھی بدن کے خون کا بعض ہے۔ اسی طرح پانی ہے جب اس کی بوی تبدیل ہوجائے۔ پانی کے بارے میں اسی تاویل کی طرف جمہور گئے ہیں، پہلے قول کی طرف عبد الملک گئے ہیں۔ ابو عمرو نے کہا : انہوں نے حکم بو کی وجہ سے لگایا، رنگ کی وجہ سے حکم نہیں لگایا، حکم اسی کا ہوگا۔ انہوں نے اپنے گمان کے مطابق اس حدیث سے استدلال کیا ہے، اس سے کوئی ایسا معنی سمجھ میں نہیں آتا جس سے نفس سکون پائے۔ نہ ہی خون میں پانی کا منی ہے کہ اس پر قیاس کیا جاتا اور نہ اس قسم کی چیزوں میں فقہاء مشغول ہوتے ہیں اور نہ ہی علماء کا یہ کام ہے کہ وہ لوگوں کو مشکلات میں ڈالتے رہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ وہ اس کی وضاحت کریں، اسی وجہ سے ان سے عد لیا گیا کہ وہ لوگوں کے سامنے بیان کریں گے، وہ کوئی چیز نہیں چھپائیں گے، پانی تغیر و تبدل سے خالی نہیں وہ نجاست کے ساتھ ہو یا نجاست کے بغیر ہو۔ اگر نجاست کے ساتھ ہو اور اس میں تغیر آجائے تو علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ وہ نہ ظاہر ہوگا اور نہ مطہر ہوگا۔ اور اسی طرح علماء نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ جب وہ نجاست کے بغیر متغیر ہوجائے تو وہ اپنی اصل کے مطابق (1 ؎۔ صحیح البخاری، باب ما یقع من الجاسات لی السمن والماء حدیث نمبر 230، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پاک ہوگا۔ جمہور نے کہا : وہ مطہر نہیں ہوگا ہاں اس صورت میں مطہر ( پاک کرنے والا) ہوگا کہ اس کا تغیر مٹی سے ہو جس پر سب علماء کا اتفاق ہے یہی حق ہے اس میں کوئی اشکال نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ التباس ہے۔ مسئلہ نمبر 4 :۔ ایسا پانی جو ٹھہرنے کی وجہ سے متغیر ہوجائے جس طرح ہڑتال یا گیج جس پر پانی بہتا ہو یا کائی اور درخت کے پتوں کی وجہ سے متغیر ہوجائے جو درخت اس پانی پر اگتا ہے اس سے بچنا ممکن نہیں علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ چیز وضو سے مانع نہیں کیونکہ اس سے بچنا اور اس سے جدا ہونا ممکن نہیں۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے کہ اس کے علاوہ پانی اس سے اولیٰ ہے۔ مسئلہ نمبر 5 :۔ جو ٹھے پانی کے احکام۔ ہمارے علماء نے فرمایا : نصرانی، کفارہمیشہ شراب نوشی کرنے والے، مردار کھانے والے جیسے کتے کا جو ٹھا مکروہ ہے۔ جس نے ان کے جو ٹھے سے ووض کیا تو اس پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی یہاں تک کہ اسے نجاست کا یقین ہوجائے۔ امام بخاری نے کہا : حضرت عمر ؓ نے نصرانی عورت کے گھر سے وضو کیا۔ سفیان بن عینیہ نے ذکر کیا ہے کہ زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت نقل کی : جب ہم شام میں تھے تو میں حضرت عمر بن خطاب کے پاس پانی لایا تو آپ نے اس سے وضو کیا۔ پوچھا : تو یہ پانی کہاں سے لایا تھا ؟ میں نے اس سے زیادہ میٹھا اور پاکیزہ پانی نہیں دیکھا۔ میں نے عرض کی : میں یہ پانی ایک نصرانی بوڑھی عورت کے گھر سے لایا ہوں جب آپ نے وضو کرلیا تو آپ اس عورت کے پاس آئے فرمایا : اے بوڑھی عورت ! اسلام قبول کرلے تو سلامتی پا جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اس بوڑھی عورت نے اپنے سر سے کپڑا ہٹایا تو اس کا سر ثغامہ بوٹی کی طرح سفید تھا۔ اس عورت نے کہا : بہت ہی بڑھیا، میں اس وقت مرنے والی ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ اسے دراقطنی نے نقل کیا ہے۔ حسن بن اسماعیل، احمد بن ابراہیم بوشنجی سے وہ سفیان سے روایت نقل کرتے ہیں اسے حسین بن اسماعیل نے خلاد بن اسلم سے وہ سفیان سے وہ زیدبن اسلم سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطا ب نے نصرانی عورت کے گھر سے وضو کیا آپ اس کے پاس تشریف لائے، فرمایا : اے بڑھیا ! اسلام قبول کرلے، اور پہلی کی مثل حدیث ذکر کی۔ مسئلہ نمبر 6 :۔ جہاں تک کتے کا تعلق ہے جب وہ پانی میں منہ ڈال لے تو اس برتن کو سات دفعہ دھویا جائے گا اس سے وضو نہیں کیا جائے گا اور وہ پانی پاک ہوگا۔ ثوری نے کہا : اس سے وضو کیا جائے گا اور ساتھ ہی تیمم کیا جائے گا : یہ عبد الملک بن عبد العزیز اور محمد بن مسلمہ کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : کتا ناپاک ہے اس کی وجہ سے برتن کو دھویا جائے گا کیونکہ وہ ناپاک ہے۔ امام شافعی، امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے جب کتا کسی برتن میں منہ ڈال جاتا تو امام مالک اس برتن کے دھونے میں فرق کرتے کہ کیا کتا وہ ہے جس کا پکڑنا جائز ہے اور جس کا پکڑنا جائز نہیں۔ آپ کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کے نزدیک کتا پاک ہے جب وہ کسی شے میں منہ ڈال جاتا ہے تو وہ اس چیز کو ناپاک نہیں کرتا وہ چیز کھاناہو یا کوئی اور چیز ہو مگر جب وہ پانی ہو جس میں کتے نے منہ ڈالا ہو تو اس میں مشقت کیونکہ کم ہوتی ہے تو اس کا بہادینا مستحب ہوتا ہے، دیہاتی اور شہری کتا برابر ہیں۔ برتن کو امر تعبدی کے طور پر سات دفعہ دھویا جائے گا۔ ان کے اصحاب میں سے جو مناظر لوگ ہیں یہی وہ نقطہ نظر ہے جس پر ان کے اصحاب کا اتفاق ہے۔ ابن وہب نے ذکر کیا ہے کہ عبد الرحمن بن زید بن اسلم اپنے باپ سے وہ عطاء سے وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ان حوضوں کے بارے میں سوال کیا گیا جو مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے درمیان ہیں آپ ﷺ سے عرض کی گئی : کتے اور درندے ان پر وارد ہوتے ہیں۔ فرمایا :” ان کے لیے وہ کچھ ہے جو ان کے پیٹوں نے لے لیا اور ہمارے لیے وہ کچھ ہے جو باقی ہے، وہ مشروب بھی ہے اور پاکیزگی عطاء کرنے والا ہے “۔ اسے دارقطنی نے نقل کیا ہے، یہ کتوں کی طہارت کے بارے میں اور جن چیزوں میں وہ منہ ڈال جاتے ہیں ان کی طہارت کے بارے میں نص ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں کتے آتے جاتے رہتے تھے وہ ان کی وجہ سے پانی وغیرہ نہیں بہاتے تھے۔ (1) حضرت عمرو بن عاص نے جب حوض والے سے یہ پوچھا : کیا تیرے حوض میں درندے آتے رہتے ہیں ؟ تو حضرت عمر ؓ نے کہا : اے حوض والے ! ہمیں اس کے بارے میں نہ بتاتا، ہم درندوں پر وارد ہوتے ہیں اور وہ ہم پر وارد ہوتے رہتے ہیں۔ امام مالک اور دارقطنی نے اسے نقل کیا ہے۔ امام مالک نے درندوں اور کتوں کے بارے میں کوئی فرق نہیں کیا۔ جس میں کتا منہ ڈال جائے اس پانی کو بہا دینے کے حکم سے مخالف کے لیے کوئی دلیل نہیں اور نہ اس کی دلیل ہے کہ یہ بحانا نجاست کی وجہ سے ہے، امام مالک نے پانی بہانے کا حکم اس لیے دیا کیونکہ نفس اسے ناپسند کرتا ہے اس وجہ سے بہانے کا حکم نہیں دیا کہ وہ ناپاک ہے کیونکہ غلیظ چیزوں سے بچنا مندوب ہے یا ان پر سختی کرنے کے لیے ہے کیونکہ انہیں گھروں میں رکھنے سے منع کیا گیا تھا، جس طرح حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت حسن بصری نے کہا : جب وہ اس سے باز نہ آئے تو پانی کے معاملہ میں ان پر سختی کی گئی کیونکہ باد یہ میں ان کے پاس پانی بہت ہی کم ہوتا ہے ان پر سختی کی جائے تاکہ وہ کتے رکھنے سے باز آجائیں، جہاں تک برتن کو دھونے کا جو حکم ہے یہ عبادت ہے اس کے ناپاک ہونے کی وجہ سے نہیں جس طرح ہم نے دو دلیلیں ذکر ہیں : (1) دھونے میں عدد داخل ہے (2) اس میں مٹی کا عمل دخل رکھ دیا گیا ہے کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان ہے : ” آٹھویں دفعہ اسے مٹی سے ملو “۔ اگر یہ حکم نجاست کی وجہ سے ہوتا تو تعداد اور مٹی کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہوتا جس طرح پیشاب کا معاملہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بلی اور بلی جس میں منہ ڈال جائے اس کو پاک قرار دیا ہے، بلی بھی زندہ ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ وہ چیرتی پھاڑتی ہے اور مردار کھاتی ہے۔ کتا بھی اسی طرح ہے اور درندے بھی اسی طرح ہیں، کیونکہ جب یہ ایک نص ہے تو دوسری میں بھی نص ہے۔ یہ قیاس کی اقسام میں ہے قوی ترین قسم ہے یہ اس صورت میں ہے جب کوئی دلیل نہ ہو۔ ہم نے اس کی طہارت کے بارے میں نص کا ذکر کیا ہے پس مخالف کا قول ساقط ہوگیا۔ الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر 7 :۔ وہ جاندار جس میں خون نہ ہو وہ پانی میں مرجائے تو وہ پانی کو کچھ نقصان نہ دے گا اگر اس کی بو کو نہ بدلے۔ اگر وہ بدبو دار ہوجائے تو وہ اس کے ساتھ وضو نہ کرے، اسی طرح پانی کے جانور جن میں بہنے والا خون نہیں ہوتا ان کا۔ (1 ؎ ابودائود، یایتالی ظھہور الارض اذا یمست، حدیث نمبر 325، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) بھی یہ حکم ہوتا ہے جس طرح مچھلی اور مینڈک، ان چیزوں کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا مگر اس صورت میں کہ بو متغیر ہوجائے۔ اگر بو متغیرہو جائے اور پانی بدبودار ہوجائے تو اس کے ساتھ طہارت حاصل کرنا جائز نہیں ہوتا اور اس سے وضو کرنا بھی جائز نہیں ہوتا۔ امام مالک کے نزدیک یہ ناپاک ہے۔ جس میں بہنے والا خون ہو وہ پانی میں مر جائے اسے نکال لیا جائے اس کا رنگ بو اور ذائقہ نہ بدلا ہو تو وہ طاہر و مطہر رہے گا، خواہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ ہو، یہ مدینہ طیبہ کے علماء کا نقطہ نظر ہے۔ ان میں سے بعض نے اس امر کو مستحب جانا ہے کہ اس پانی سے کچھ ڈول نکال لیے جائیں تاکہ دل کو اطمینان ہوجائے۔ اس میں وہ کسی حد کا تعین نہیں کرتے جس سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ ڈول نکالنے سے پہلے وہ پانی کے استعمال کو مکروہ خیال کرتے ہیں ہیں اگر اس سے نہانے یا وضو کرنے کے لیے اس پانی کو استعمال کیا تو یہ جائز ہوگا جب اس کی حالت وہی ہو جو ہم نے ذکر کی ہے۔ امام مالک کے بعض اصحاب کی رائے ہے : جس نے اس پانی سے وضو کیا اگرچہ اس کا پانی متغیر نہ ہوا ہو تو وہ تیمم کرے گا تو وہ احتیاط کے طریقہ پر دونوں طہارتوں کو جمع کرے گا، اگر اس نے ایسا نہ کیا اور اس پانی سے نماز پڑھ لی تو یہ جائز ہوگا۔ دارقطنی نے محمد بن سیرین سے روایت نقل کی ہے کہ ایک حبشی زمزم کے کنواں میں گرگیا یعنی مرگیا، حضرت ابن عباس ؓ نے اسکے بارے میں حکم دیا اسے باہر نکالا گیا اور آپ نے کنویں کا پانی نکالنے کا حکم دیا۔ کہا : وہ چشمہ ان پر غالب آگیا جو حجر اسود کی جانب سے نکل رہا تھا، اسے قباطی (1) اور معارف (2) سے بند کیا گیا یہاں تک کہ انہوں نے اس پانی کو نکالا، جب وہ ایک دفعہ پانی نکال چکے تو وہ ہمیشہ ان پر پھوٹ پڑا۔ ابو الطفیل سے روایت مروی ہے کہ ایک بچہ بئر زمزم میں گر پڑا تو اس کا سارا پانی نکالا گیا۔ یہ احتمال موجود ہے کہ پانی متغیر ہوچکا ہو۔ اللہ تعالیٰ بہتر جاتا ہے۔ شعبہ نے مغیرہ سے وہ ابراہیم سے روایت نقل کرتے ہیں وہ کہا کرتے تھے : ہر ایسا جانور جس میں بہنے والا خون ہو وہ اگر پانی میں مر جائے تو اس کے ساتھ وضو نہیں کیا جائے گا، لیکن گبریلا، بچھو، مکڑی اور جدید ( جھینگر) جب برتن میں گر جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ شعبہ نے کہا : میرا خیال ہے انہوں نے وزغہ ( چھپکلی) کا ذکر کیا ہے، اسے دارقطنی نے نقل کیا ہے۔ حسین بن اسماعیل، محمد بن ولید سے وہ محمد بن جعفر سے وہ شعبہ سے روایت نقل کرتے ہیں اور اسی چیز کو ذکر کیا۔ مسئلہ نمبر 8 :۔ جمہور صحابہ، مختلف شہروں کے فقہاء، حجاز اور عراق کے تابعین کا نقطہ نظریہ ہے کہ جس پانی میں بلی منہ ڈال جائے وہ پاک ہے اس کے جو ٹھے سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اس کی دلیل حضرت ابو قتادہ ؓ کی حدیث ہے : امام مالک اور دوسرے علماء نے اسے نقل کیا ہے (3) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے اس کے برعکس مروی ہے۔ عطاء بن ابی رباح، سعید بن مسیب اور محمد بن سیرین سے مروی ہے انہوں نے اس پانی کو بہانے کا حکم دیا جس میں بلی نے منہ ڈالا ہو اور اس برتن کو دھونے کا حکم دیا۔ حضرت حسن بصری سے بھی اس بارے میں اختلاف مروی ہے۔ یہ احتمال موجود ہے کہ حضرت حسن نے اس کے منہ میں نجاست دیکھی، تاکہ دونوں روایتیں آپ سے صحیح ہوجائیں۔ (1 ؎۔ تم ان سے بنا ہوا کپڑا جو قبط کی طرف منسوب ہو۔ 2 ؎۔ نقش و نگار والی ریشمی چادر۔ 3 ؎۔ سنن ابی دائود، باب سوز الھرۃ، حدیث نمبر 68، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ امام ترمذی نے جب امام مالک کی حدیث ذکر کی تو کہا : اس باب میں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت مروی ہے، یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ، تابعین اور بعد کے اکثر علماء کا قول ہے، جس طرح امام شافعی، امام احمد اور امام اسحاق وغیرہ۔ انہوں نے بلی کے جو ٹھے میں کوئی حرج نہیں دیکھا : یہ اس باب میں سب سے اچھی چیز ہے۔ امام مالک نے اس حدیث کو اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ سے لیا ہے، امام مالک سے بڑھ کر اسے کسی نے مکمل نہیں لیا۔ حافظ ابو عمرو نے کہا : تنازع اور اختلاف کے وقت دلیل رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، حضرت ابو قتادہ کی حدیث ثابت ہے کہ حضرت ابو قتادہ نے بلی کے لیے برتن کو جھکایا یہاں تک کہ بلی نے پانی پیا۔ ہر شہر کے فقہاء نے اس پر اعتماد کیا ہے مگر امام ابوحنیفہ اور ان کے موافق قول کرنے والوں نے اختلاف کیا ہے وہ بلی کے جو ٹھے کے مکروہ خیال کرتے تھے۔ یہ بھی کہا : اگر کسی نے اس کے ساتھ وضو کیا تو یہ جائز ہوگا۔ میں اس آدمی کے لیے کوئی اس سے اچھی دلیل نہیں پاتا جو بلی کے جو ٹھے کو مکروہ کہتا ہے کہ اسے حضرت ابو قتادہ کی حدیث نہیں پہنچی، اسے کتے کے بارے میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث پہنچی ہے تو اس نے بلی کو بھی اس پر قیاس کرلیا ہو۔ سنت نے دونوں کے درمیان فرق کردیا ہے کہ برتن دھونے کا حکم امر تعبدی ہے دلیل قائم کرنے میں سنت جس سے جھگڑا کرے وہ اس پر غالب آجاتی ہے اور جس کی مخالفت کرے اسے چھوڑ دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی توفیق دینے والی ہے۔ ان کی دلیلوں میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے جسے قرہ بن خالد نے محمد سیرین سے وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں :” جب بلی برتن میں منہ ڈال جائے تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے ایک یاد و بار دھویاجائے “۔ قرہ کو شک ہے۔ اس حدیث کو قرہ بن خالد کے سوا کسی نے بھی مرفوع نقل نہیں کیا۔ قرہ ثقہ اور ثبت ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ وہ حدیث ہے جسے دارقطنی نے نقل کیا ہے اس کا متن یہ ہے :” جب کتا پانی میں منہ ڈال جائے تو برتن کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے سات دفعہ دھویا جائے پہلی دفعہ مٹی سے دھویا جائے، جب بلی منہ ڈال جائے تو ایک یا دو دفعہ دھویا جائے “۔ قرہ کو شک ہوا۔ ابوبکر نے کہا : اسی طرح ابو عاصم نے اسے مرفوع روایت کیا ہے، دوسرے علماء نے قرہ سے کتے کے بارے میں روایت مرفوع اور بلی کے بارے موقوف نقل کی ہے۔ ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے یا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” بلی کے جو ٹھے سے برتن کو دھویا جائے گا جس طرح کتے کے جو ٹھے سے برتن کو دھویا جائے گا “۔ دارقطنی نے کہا : یہ مرفوع ثابت نہیں محفوظ حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول ہے ان سے مختلف روایات منقول ہے۔ معمر اور ابن جریج نے ابو طائوس سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ وہ بلی کو کتے کی مثل قرار دیتے تھے۔ مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں نے اس برتن کے بارے میں کہا جس میں بلی منہ ڈال جاتی ہے : اسے سات دفعہ دھو ڈالو : یہ دارقطنی نے کہا۔ مسئلہ نمبر 9 :۔ جب وضو کرنے والے کے اعضاء پاک ہوں تو ماء مستعمل بھی پاک ہوگا مگر امام مالک اور عظیم فقہاء کی جماعت ایسے پانی کے ساتھ وضو کو پسند کرتی تھی۔ امام مالک (رح) نے کہا : اس میں کوئی بھلائی نہیں، میں کسی کے لیے پسند نہیں کرتا کہ وہ اس کے ساتھ وضو کرے۔ اگر اس نے ایسا کیا اور نماز پڑھی پس اس پر نماز کا اعادہ نہیں دیکھتا اور اگلی نماز کے لیے وہ وضو کرے۔ امام ابوحنیفہ (رح) ، امام شافعی (رح) اور دونوں کے اصحاب نے کہا : اگر پہلے وضو نہ ہوا تو ایسے پانی کا استعمال جائز نہیں جس نے اس کے ساتھ وضو کیا وہ دوبارہ وضو کرے کیونکہ یہ مطلق پانی نہیں، جو آدمی صرف یہی پانی پائے وہ پانی پانے والا نہیں۔ اس بارے میں اصبغ بن فرح نے انہیں جیسا قول کیا ہے، یہ اوزاعی کا قول ہے۔ انہوں نے صنابحی کی حدیث سے استدلال کیا ہے عمرو بن عنبسہ کی حدیث کو امام مسلم نے نقل کیا ہے اس کے علاوہ بھی آثار موجود ہیں۔ انہوں نے کہا : پانی سے جب وضو کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ خطائیں نکل جاتی ہیں، اس سے بچنا واجب ہے کیونکہ یہ گناہوں کا پانی ہے۔ ابو عمرو نے کہا : میرے نزدیک اس کی کوئی توجیہ نہیں کیونکہ گناہ پانی کو آلودہ نہیں کرتے کیونکہ نہ ان گناہوں کی ذاتیں ہیں اور نہ ہی اجسام ہیں جو پانی سے ملیں اور اسے فاسد کردیں۔ خرجت الخطایا مع الماء کا معنی ہے یہ بتایا جائے کہ نماز کے لیے وضو ایسا عمل ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مومن بندوں سے گناہوں کو ختم کردیتا ہے، یہ اس کی جانب سے رحمت اور فضل و احسان کے طور پر ہوتا ہے۔ ابو ثور اور دائود نے امام مالک کے قول کی مثل قول کیا ہے کہ مستعمل پانی کے ساتھ وضو کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ پاک پانی ہے اس کے ساتھ کوئی چیز ملی ہوئی نہیں یہ مطلق پانی ہے۔ اس کے پاکیزہ ہونے پر انہوں نے اجماع امت سے استدلال کیا ہے جب وضو کرنے والے کے اعضاء میں نجاست نہ ہو : ابو عبد اللہ مروزی محمد بن نصر اس طرف گئے ہیں۔ حضرت علی شیر خدا، حضرت ابن عمر، حضرت ابو امامہ ؓ عطاء بن ابی رباح، حضرت حسن بصری، امام نخعی، مکحول اور زہری نے کہا : جو آدمی سر پر مسح کرنا بھول گیا اس نے اپنی داڑھی میں تری پائی اس کے لیے جائز ہے کہ اس تری کے ساتھ اپنے سر کا مسح کرلے۔ ان سب نے مستعمل پانی سے وضو کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ عبد السلام بن صالح، اسحاق بن سوید سے وہ علاء بن زیاد سے وہ نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے آپ ﷺ نے غسل کیا ہوا تھا آپ کے جسم کا ایک حصہ ایسا تھا جس تک پانی نہیں پہنچا تھا۔ ہم نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ وہ حصہ ہے جہاں پانی نہیں پہنچا۔ آپ ﷺ کے لمبے بال تھے تو اس جگہ آپ ﷺ نے اپنے بالوں سے یوں کردیا اور اس حصہ کو تر کردیا : اسے دارقطنی نے نقل کیا ہے۔ عبد السلام بن صالح نے کہا : یہ بصری نے کہا : یہ قوی نہیں ہے۔ کئی اور ثقہ لوگ اسے اسحاق سے اور وہ حضرت علماء سے مرسل روایات نقل کرتے ہیں۔ یہی درست ہے۔ میں کہتا ہوں : ثقہ راوی اسحاق بن سوید عدوی سے وہ علاء بن زید عدوی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل کیا۔ یہ وہ حدیث ہے جسے ہشیم نے ذکر کیا ہے۔ ابن عربی نے کہا : مستعمل پانی کا مسئلہ ایک اور اصل پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ آلہ کے ساتھ جب ایک دفعہ فرض ادا کیا جائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور فرض ادا کیا جاسکتا ہے یا ادا نہیں کیا جاسکتا ؟ مخالف نے غلام پر قیاس کرتے ہوئے اس کا انکار کیا ہے جب اس نے اس کے ساتھ ایک دفعہ غلام آزاد کرنے کا فرض ادا کردیا تو ایک دوسرے فرض کو ادا کرنا صحیح نہ ہوگا، یہ قول باطل ہے، کیونکہ جب اس نے ایک دفعہ غلام آزاد کردیا تو اس کو تلف کردیا تو دوسری دفعہ آزادی کے ساتھ فرض کی ادائیگی کا محل باقی نہ رہا۔ اس کی مثل وہ پانی ہے جو اعضاء پر تلف ہوچکا ہے کیونکہ اس کے ساتھ کسی اور فرض کی ادائیگی صحیح نہیں، کیونکہ اس کا عین تلف ہوچکا ہے جس طرح غلام کو آزاد کرنے کی صورت میں غلام حکما ًتلف ہوچکا ہے، یہ نفیس بحث ہے اس پر غور و فکر کرو۔ مسئلہ نمبر 10 :۔ امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب نے اس پانی میں کوئی فرق نہیں کیا جس میں نجاست گر پڑتی ہے اور جو پانی اس نجاست پر پڑتا ہے وہ پانی کھڑا ہو یا کھڑا نہ ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ” پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر جو پانی پر غالب آجائے اور اس کے ذائقہ، اس کے رنگ اور بو کو بدل دے “۔ امام شافعی نے ان میں فرق کیا ہے انہوں نے کہا : جب نجاست پانی میں گرے تو وہ پانی کو ناپاک کردیتی ہے : ابن عربی نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔ کہا : پانی کے احکام کے بارے میں شریعت کے اصول یہ ہیں کہ پانی کا نجاست پر واردہونا اس طرح نہیں جس طرح پانی نجاست پر واردہو کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد :” تم میں سے جب کوئی نیند سے بیدار ہوتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ برتن میں داخل نہ کرے یہاں تک کہ اسے تین دفعہ دھوئے کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے “ ، ہاتھ کو پانی پر وارد ہونے سے منع کیا اور پانی کو ہاتھ پر وار کرنے کا حکم دیا۔ اس باب میں یہ بہت عمدہ ضابطہ ہے اگر پانی کا درد نجاست پر نہ ہوتا وہ تھوڑا ہوتا یا زیادہ ہوتا تو وہ نجاست پاک نہ ہوتی۔ نبی کریم ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اس بدو کے پیشاب کے بارے میں ارشاد فرمایا جس نے مسجد میں پیش کیا تھا ” اس پر پانی کے ڈول بہا دو “۔ ہمارے شیخ ابو العباس نے کہا : انہوں نے حدی قلتین سے بھی استدلال کیا ہے، انہوں نے کہا : جب پانی دو مٹکوں سے کم ہو اس میں نجاست گر پڑے تو وہ پانی ناپاک ہوجاتا ہے اگرچہ اس میں کوئی تغیر واقع نہ ہو۔ اگر اتنی مقدار یا اس سے کم نجاست پر واقع ہو اور نجاست کے عین کو زائل کر دے تو پانی طہارت پر باقی رہے گا اور نجاست کو زائل کر دے گا۔ نجاست کا پانی پر واقع ہونا یہ صوری فرق ہے اس میں فقہ کا کوئی تعلق نہیں یہ باب امور تعبدیہ سے نہیں بلکہ امور معقولہ میں سے ہیں یہ نجاست کو زائل کرنے اور اس کے احکام سے متعلق ہے، پھر یہ سب ان علماء کی باتیں ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد رو کردیتا ہے : الماء طھور لا ینجسہ شیء الا ما غیر لونہ او طعمہ اور یحہ، پانی پاکیزگی عطاء کرنے والا ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر جب اس کے رنگ، ذائقہ اور بو کو تبدیل کردے۔ میں کہتا ہوں : یہ ایسی حدیث ہے جسے دارقطنی نے اشد بن سعد ابی الحجاج سے وہ معاویہ بن صالح سے وہ راشد بن سعد سے وہ حضرت ابو امامہ باہلی اور حضرت ثو بان ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں اس میں رنگ کا ذکر نہیں۔ کہا : اے رشیدین بن سعد کے سوا کسی نے مرفوع نقل نہیں کیا، اس کی سند یہ ہے کہ وہ معاویہ بن صالح سے روایت نقل کرتے ہیں۔ وہ قوی نہیں استدلال میں جو سب سے اچھا ہے وہ روایت ہے جسے ابو امامہ نے ولید بن کثیر سے وہ محمد بن کعب سے وہ عبد اللہ بن عبد اللہ بن رافع بن خدیج سے وہ حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ہم بئر بضاعہ سے وضو کر لیاکریں، یہ ایسا کنواں تھا جس میں حیض آلود کپڑے، مردہ کتوں اور بد بودار چیزوں کو پھینکا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی “۔ (1) ۔ اسے بابو دائود، ترمذی اور دارقطنی نے اس سند سے روایت کیا ہے۔ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث حسن ہے، ابو امامہ نے اس حدیث کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ کی بئر بضاعہ کے بارے میں جو حدی ہے حضرت ابو امامہ سے بہتر کسی نے اس حدیث کو بیان نہیں کیا۔ یہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ نجاست پانی پر واقع ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طہارت کا حکم دیا ہے اور اس کے مطہر ہونے کا حکم لگایا ہے۔ ابو دائود نے کہا : میں نے قتیبہ بن سعید سے سنا کہا : میں نے بئر بضاعہ کے قیم ( منتظم) سے اس کی گہرائی کے بارے میں سوال کیا میں نے کہا : اس میں زیادہ سے زیادہ کتنا پانی گہرا ہوتا ہے ؟ اس نے جواب دیا : انسان کے خصیتین تک پانی پہنچ جاتا ہے۔ میں نے پوچھا : جب وہ کم ہوتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : انسان جتنے حصہ کو ڈھانپتا ہے اس سے نیچے کے حصے تک۔ ابو دائود نے کہا : میں نے اپنی چادر سے بئر بضاعہ کا اندازہ لگایا میں نے اسے اس کنواں پر لمبا کیا تھا پھر میں نے اسے ماپا تو اس کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی۔ جس نے میرے لیے باغ کا دروازہ کھولا تھا اور مجھے باغ میں داخل کیا تھا میں نے اس سے پوچھا : کیا جتنا یہ کنواں تھا اس میں تبدیلی کی گئی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ میں نے اس میں پانی کو دیکھا جس کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ ہم نے جو ذکر کیا ہے اس پر یہ دلیل ہے، مگر ابن عربی نے کہا : یہ شوریدہ زمین میں تھا اور اپنی اس میں کھڑا ہونے سے متغیر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر 11 :۔ وہ پانی جو طاہر ( پاک) اور مطہر ( پاک کرنے والا) ہوتا ہے جس کے ساتھ وضو کرنا اور نجاستوں کو دھونا جائز ہے وہ خالص صاف پانی ہے یہ بارش کا، دریائوں، سمندروں، چشموں اور کنوئوں کا پانی ہے اور جسے لوگ ماء مطلق پہچانتے ہیں یہ کسی ایسی چیز کی طرف مضاف نہیں ہوتا جو اس کے ساتھ مل جائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے صاف پیدا کیا زمین کا رنگ اسے کوئی نقصان نہیں دیتا، جس طرح ہم نے بیان کیا ہے۔ اس مجموعی صورت میں امام ابو حنیفہ، حضرت عبد اللہ بن عمرو اور حضرت عبد اللہ بن ؓ نے اختلاف کیا ہے، جہاں تک حضرت امام ابوحنیفہ کا تعلق ہے آپ نے حالت سفر میں نبیذ تمر ( کھجور کی نبیذ) سے وضو کرنے کی اجازت دی ہے اور ہر مائع سے نجاست زائل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ جہاں تک تیل اور شوربے کا تعلق ہے ان سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کے ساتھ ازالہ کرنا جائز نہیں مگر ان کے اصحاب کہتے ہیں جب اس کے ساتھ نجاست زائل ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے اسی طرح آگ اور سورج کی شعاع کا مسئلہ ہے یہاں تک کہ مردار کی جلد جب سورج کی تمازت میں خشک ہوجائے تو و باغاغت کے بغیر وہ پاک ہوجاتی ہے اسی طرح ایسی نجاست جو زمین پر واقع ہو جب وہ سورج کی تمازت سے خشک ہوجائے تو وہ جگہ پاک ہوجائے گی اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہوجائے گا، مگر اس مٹی کے ساتھ تیمم کرنا جائز نہیں ہوگا۔ ابن عربی نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے پانی کی صفت بیان کی کہ وہ طہور ہے تو اس کو آسمان سے نازل کرنے پر احسان جتلایا تاکہ اس کے ذریعے ہمیں پاک کرے تو یہ اسی کے ساتھ خاص ہونے پر دال ہے اسی طرح (1 ؎۔ سنن ابن ماجہ، باب مقدار الماء الذی لا ینجس، حدیث 513، سنن ابی دائود، باب ما جاء لی یتریضاعۃ، حدیث 60۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز آقائے دو عالم ﷺ نے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق ؓ سے فرمایا جب انہوں نے اس حیض کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے کو لگ جاتا ہے :” اسے لو پھر انگلیوں کے ساتھ اسے کھرچ دو پھر پانی کے ساتھ اسے مل دو “۔ اس لیے پانی کے علاوہ چیز کو پانی کے ساتھ لا حق نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس میں احسان کا ابطلال ہوتا ہے۔ نجاست کوئی محسوس چیز تو نہیں یہاں تک کہ یہ کہا جائے کہ جو بھی اس کو زائل کر دے تو اس کے ساتھ غرض قائم ہوجائے۔ نجاست حکم شرعی ہے شارع نے اس کے لیے پانی کو متعین کیا اس لیے غیر کو اس کے ساتھ لا حق نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ غیر اس کے معنی میں نہیں کیونکہ اگر یہ اس کے ساتھ لا حق ہو تو اس کو ساقط کر دے جب فرع کا اصل کے ساتھ الحاق اس کے اسقاط میں ہو تو یہ خود ساقط ہوجاتا ہے تاج السنۃ ذوالعز بن المرتضیٰ دبوسی اسے فرخ زنی ( زنا کا چوزہ) کا نام دیتے۔ میں کہتا ہوں : نیند کے استعمال کے بارے میں جن روایات سے استدلال کیا گیا ہے وہ کمزور احادیث ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی اصل پر قائم نہیں۔ دارقطنی نے ان کا ذکر کیا، ان کو ضعیف قرار دیا اور اس پر گفتگو کی۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے جو موقوف روایات مروی ہیں انہیں بھی ضعیف قرار دیا گیا ہے : ” جو آدمی پانی نہ پائے اس کے لیے نبیذ وضو کا پانی ہے “۔ اس کی سند میں ابن محرز متروک ہے، اسی طرح حضرت علی شیر خدا ؓ سے مروی ہے۔ فرمایا : نبیذ کے ساتھ وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حجاج اور ابو لیلیٰ دونوں ضعیف ہیں۔ حضرت ابن مسعود کی حدیث بھی ضعیف قرار دی گئی ہے (1) کہا : ابن لہیعہ اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہیں وہ حدیث میں کمزور ہیں : علقمہ بن قیس سے یہ نقل کیا گیا ہے میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا : کیا تم میں سے کوئی اس رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھا جس رات آپ کے پاس جنوں کا داعی تھا ؟ فرمایا : نہیں۔ میں کہتا ہوں : یہ صحیح سند ہے اس کے راویوں کی عدالت میں کوئی اختلاف نہیں، امام ترمذی نے حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے سوال کیا : ” تیرے مشکیزہ میں کیا ہے ؟ “ میں نے کہا : نبیذ ہے۔ فرمایا : ” پاکیزہ کھجور اور پاکیزگی عطاء کرنے والا پانی “۔ کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس سے وضو کیا۔ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث ابو زید سے مروی ہے وہ اسے حضرت عبد اللہ سے وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں۔ علماء حدیث کے نزدیک ابو زید مجہول ہے، اس حدیث کے علاوہ ہم اس کی کسی روایت کو نہیں جانتے۔ بعض علماء نے نبیذ سے وضو کرنے کی رائے قائم کی ہے، ان میں سفیان اور دو سے علماء بھی ہیں۔ بعض علماء نے کہا : نبیذ سے وضو نہیں کیا جائے گا، یہ امام شافعی، امام احمد اور اسحاق کا نقطہ نظر ہے اگر کسی آدمی کو اس قسم کی صورتحال کا سامناہو تو وہ نبیذ سے وضو کرے اور تیمم کرے یہ مجھے زیادہ محبوب ہے۔ ابو عیسیٰ نے کہا : جو آدمی یہ کہتا ہے نبیذ سے وضو نہیں کیا جائے گا اس کا قول کتاب اور سنت کے زیادہ قریب اور زیادہ مناسب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئًَ فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا “ (النسائ : 43) یہ مسئلہ اختلافی کتب میں بہت طویل بحث کے ساتھ مذکور ہے انحصار لفظ ماء پر ہے اس کی وضاحت سورة مائدہ میں گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ 1 ؎۔ سنن ابن ماجہ باب الوضوء با لنبیذ، حدیث نمبر 377، روایت بالمعنی، ضیاء القرآن پبلی کیشنز مسئلہ نمبر 12 :۔ جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :” وانزلنا من السماء ماء طھورا “ اور فرمایا : لیطھر کم بہ ایک جماعت نے سمندر کے پانی کے بارے میں توقف کیا ہے کیونکہ یہ منزل من السماء کی صفت پر نہیں یہاں تک کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت نقل کی کہ وہ سمندر کے پانی سے وضو نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ آگ ہے اور جہنم کا ایک طبق ہے لیکن نبی کریم ﷺ نے اس کا حکم اس آدمی کے لیے بیان کیا جس نے اس کے بارے میں پوچھا تھا۔ ھوالطھور ماءہ الحل مینتہ، اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے، امام مالک نے اسے روایت کیا ہے اس کے بارے میں ابو عیسیٰ نے یہ کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے : نبی کریم ﷺ کے اکثر صحابہ کا یہی قول ہے، ان میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے وہ سمندر کے پانی میں کوئی حرج نہ دیکھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کے بعض صحابہ نے سمندر کے پانی سے وضو کو مکروہ قرار دیا ہے، ان میں حضرت عبد اللہ بن عمرو اور حضرت عبد اللہ بن عمر ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو نے کہا : وہ آگ ہے۔ ابو عمر نے کہا : امام ترمذی، ابو عیسیٰ سے امام مالک کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو صفوان بن سلیم سے مروی ہے فرمایا : میرے نزدیک وہ حدیث صحیح ہے۔ ابو عیسیٰ نے کہا : میں نے امام بخاری سے پوچھا ہشیم اس کے بارے میں کہتا۔ ابن ابی برزہ، فرمایا : اسے اس میں وہم ہوا ہے وہ مغیرہ بن ابی بردہ ہے۔ ابو عمر نے کہا : میں نہیں جانتا امام بخاری سے یہ کیا واقع ہوا۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو اسے اپنی صحیح میں نقل کرتے انہوں نے ایسا نہ کیا، کیونکہ وہ صحیح میں اسناد پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ حدیث ایسی ہیں جس کی مثل اسناد سے وہ استدلال نہیں کرتے۔ وہ میرے نزدیک صحیح ہے کیونکہ علماء نے اسے قبول کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔ مجموعی طور پر فقہاء میں سے کسی نے ان سے اختلاف نہیں کیا، انہوں نے اس کے بعض معافی میں اختلاف کیا ہے۔ علماء میں سے جمہور اور فقہاء کے ائمہ میں سے ایک جماعت نے یہ اتفاق کیا ہے کہ سمندر کا پانی پاک ہے اس کے ساتھ وضو جائز ہے مگر جو حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے ان دونوں نے سمندر کے پانی سے وضو کو مکروہ قرار دیا ہے زمانہ کے فقہاء نے ان کی موافقت نہیں کی اور اس باب کی حدیث کی وجہ سے کوئی اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ یہ امر تیری رہنمائی اس بات پر کرتا ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک مشہور ہے، ان کا عمل اور ان کا قول کرنا مشہور ہے، یہ ان کے نزدیک اس اسناد سے اولیٰ ہے جس کی سند ظاہری اعتبار سے صحیح ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اصول اس کو رد کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔ ابو عمر نے کہا : صفوان بن سلیم جو حمید بن عبد الرحمن بن عوف زہری کے غلام تھے اور اہل مدینہ کے عبادت گزاروں اور ان میں سے سب سے متقی تھے، عبادت گزار، بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والے جو بھی تھوڑا یا زیادہ پاتے صدقہ کردیتے، بڑے عامل اور اللہ تعالیٰ سے خوف کرنے والے جنہیں ابو عبد اللہ کے نام سے یاد کیا جاتا وہ مدینہ طیبہ میں رہے اس سے نقل مکانی نہ کی اور ایک صدبتیس ہجری میں وہاں ہی فوت ہوئے۔ عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے ذکر کیا : میں نے سنا جب کہ آپ سے صفوان بن سلیم کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا۔ فرمایا : وہ ثقہ تھے، اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے اور فاضل مسلمانوں میں سے تھے، جہاں تک سعید بن سلمہ کا تعلق ہے جس قدر میرا علم ہے صفوان کے علاوہ کسی نے ان سے روایت نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ بہتر جاتا ہے۔ جس کا یہ حال ہوا وہ مجہول ہوتا ہے کسی کے نزدیک بھی حجت نہیں کی۔ جہاں تک مغیرہ بن ابی بردہ کا تعلق ہے موسیٰ بن نصیر نے مغرب میں جو مغازی کیے ان میں، میں نے اس کا ذکر بارہا کیا ہے موسیٰ بن نصیر اسے گھوڑوں پر عامل بناتا۔ بربر کے علاقہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے خشکی اور سمندر میں فتوحات عطاء کیں۔ دارقطنی نے امام مالک کے علاوہ ایک اور سند سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” من لم یطھرہ ماء البحر فلا طھرہ اللہ “ جسے سمندر کا پانی پاک نہ کرے اللہ تعالیٰ اسے پاکیزگی عطاء نہ کرے۔ کہا : اس کی سند حسن ہے۔ مسئلہ نمبر 13 :۔ ابن عربی نے کہا : کچھ لوگوں کا وہم ہے کہ جب پانی جنبی کے غسل سے بچ جائے تو اس سے وضو نہ کیا جائے گا، یہ باطل مذہب ہے حضرت میمونہ ؓ سے یہ ثابت ہے انہوں نے کہا : مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے حقوق زوجیت ادا کیے، میں نے ایک ٹب نما برتن سے غسل کیا اور کچھ پانی بچا دیا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تاکہ اس سے غسل کریں میں نے عرض کی : میں نے اس سے غسل کیا ہے۔ فرمایا :” پانی پر کوئی نجاست نہیں “ یا فرمایا ” پانی جنبی نہیں ہوتا “۔ ابو عمرو نے کہا : اس باب میں ایسے موفوع آثار وارد ہوئے ہیں جن میں یہ نہی کی گئی ہے کہ آدمی عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے۔ بعض نے بعض روایات میں یہ اضافہ کیا ہے ” لیکن وہ دونوں اکٹھے چلو بھریں “۔ ایک جماعت کا قول ہے : یہ جائز نہیں کہ مرت عورت کے ساتھ ایک برتن میں چلو بھرے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر رہا ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : یہ مکروہ ہے کہ عورت تنہاء ایک برتن سے پانی استعمال کرے پھر اس کے بعد اس کے بچے ہوئے پانی سے مرد وضو کرے۔ ہر ایک نے جو نقطہ نظر اپنایا ہے اس کے بارے میں ایک اثرروایت کیا ہے۔ جمہور علماء اور شہروں کے فقہاء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے اور عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے۔ عورت منفرد ہو کر برتن سے پانی لے یا نہ لے۔ اس میں بیشمار آثار ہیں جو صحیح ہیں۔ جس نقطہ نظر کی طرف ہم گئے ہیں کہ پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر جب اس میں نجاست کا اثر ظاہر ہوجائے اس لیے ایسے آثار اور اقوال میں مصروف ہونے کی کوئی ضرورت نہیں جو صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مدد طلب کی جاتی ہے۔ امام ترمذی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت میمونہ ؓ نے مجھے بیان کیا ہے کہ میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل جنابت کیا کرتے تھے۔ کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے (1) امام بخاری نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کی ہے : میں نے نبی کریم ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے جس برتن کو فرق کہا جاتا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت میمونہ ؓ کے بچے ہوئے پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ امام ترمذی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ایک بیوی نے ٹب نما برتن سے غسل کیا رسول اللہ ﷺ نے اس سے وضو کیا۔ اس نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! میں حالت جنابت میں تھی، فرمایا : ’ ’ پانی جنبی نہیں ہوتا “۔ کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ حضرت سفیان ثوری، امام مالک اور 1 ؎۔ سنن الترمذی، باب ما جاء ل وضوء الرجل، حدیث نمبر 57، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ امام شافعی کا نقطہ نظر ہے (1) دارقطنی نے عمرہ سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کرتی ہیں کہا : میں اور نبی کریم ﷺ ایک ہی برتن سے وضو کرتے تھے جبکہ اس سے قبل بلی نے اس برتن سے پانی پیا تھا۔ کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے (2) ۔ بنی غفار کے ایک آدمی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کے بچے ہوئے پانی کے استعمال سے منع کیا ہے (3) اس باب میں حضرت عبد اللہ بن سر جس سے روایت مروی ہے بعض فقہاء نے عورت کے بچے ہوئے پانی کے استعمال کو مکروہ جانا ہے، یہ امام احمد اور اسحاق کا قول ہے (4) مسئلہ نمبر 14 :۔ دارقطنی نے زید بن اسلم جو حضرت عمر بن خطاب ؓ کے غلام تھے سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے لیے برتن میں پانی گرم کیا جاتا جس برتن کو قمقہ کہا جاتا، آپ اس پانی سے غسل کیا کرتے تھے۔ کا : یہ حدی صحیح ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے جب کہ میں نے دھوپ میں پانی کو گرم کیا تھا۔ فرمایا ” اے حمیراء ! ایسانہ کرو کیونکہ یہ برص کا مرض لگا دیتا ہے “۔ اسے خالد بن اسماعیل مخرومی نے ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں۔ خالد بن اسماعیل متروک ہے اسے عمرو بن محمد اعشم و قلیح سے وہ زہری سے وہ عروہ سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں۔ وہ منکر الحدیث ہے کسی اور نے اسے فلیح سے نقل کیا ہے زہری سے صحیح نہیں، یہ دارقطنی نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 15 :۔ ہر وہ برتن جو پاک ہو اس کے ساتھ وضو کرنا جائز ہے مگر سونے اور چاندی کے برتن سے وضو کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے استعمال سے منع کیا ہے اس کی وجہ عجمیوں اور جابروں کے ساتھ مشابہت ہے ان کی نجاست نہیں ہے۔ جس نے ان دونوں سے وضو کیا وہ ان برتنوں کے استعمال کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان میں سے کسی ایک میں وضو کرنا جائز نہیں۔ پہلا قول زیادہ معروف ہے : یہ ابو عمر کا قول ہے۔ ہر جلد جس کے جانور کو ذبح کیا گیا ہو تو اس کا استعمال وضو اور دوسرے امور کے لیے جائز ہے، امام مالک مردار کی جلد کی دباغت کے بعد اس سے وضو کو مکروہ خیال کرتے تھے، امام مالک کا قول اس بارے میں مختلف ہے سورة نحل میں یہ بحث گزر چکی ہے۔
Top