Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 161
قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ١ۚ۬ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ۚ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنَّنِيْ : بیشک مجھے هَدٰىنِيْ : راہ دکھائی رَبِّيْٓ : میرا رب اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا دِيْنًا : دین قِيَمًا : درست مِّلَّةَ : ملت اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَ : اور مَا كَانَ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ‘ بیشک مجھے ہدایت دی ہے میرے پروردگار نے سیدھے راستے کی۔ وہ دین ہے مستحکم اور ملت ہے ابراہیم (علیہ السلام) کی جو یک سو تھے اور نہیں تھے شرک کرنے والوں میں سے
ربط آیات پہلے شرک اور مشرکین کا رد ہوا ‘ پھر فرقہ بندی کی تردید ہوئی اور نیکی اور بدی کے حوالے سے جزا اور سزا کا ذکر ہوا۔ اب ملت ابراہیمیہ کا خلاصہ بیان کر کے اس کی پیروی کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اس کے علاوہ باقی تمام طریقوں کو ترک کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمیہ کے طریقے کو صراط مستقیم کا لقب دیکر اس کے اتباع کا حکم دیا ہے۔ گویا ملت ابراہیمی ‘ اسلام اور دین حق ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں۔ دین اور شریعت اصل بات یہ ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین کے بنیادی اصولوں میں اتفاق ہے ‘ البتہ مختلف انبیاء کے ادوار میں ہر دور کے تقاضے کے مطابق شریعتیں مختلف رہی ہیں۔ سورة مائدہ میں گزر چکا ہے لکل جعلنا منکم شرعاً و منھاجا “ ہم نے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور الگ راستہ مفرور فرمایا ہے شریعت کا دین کے اصولوں کے ساتھ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ یہ محض فروعات میں زمانے کے مطابق تغیر پذیر ہوتی ہے۔ کوئی چیز ایک نبی کی شریعت میں حرام ہوتی ہے تو دوسرے نبی کی شریعت میں حلال قرار دیدی جاتی ہے بعض اوقات عبادت کے طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں… کسی شریعت میں روزے کی کثرت رہی ہے تو کسی شریعت میں نماز میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلی امتوں میں غنیمت کا مال استعمال کرنا جائز نہیں تھا جب کہ آخری امت کے لئے اسے حلال قرار دیا گیا ہے کسی امت میں دو بہنوں سے بیک وقت نکاح مباح تھا مگر آخری شریعت میں ” ان تجمعوا بین الاختین “ (سورۃ النسائ) کے حکم کے تحت حرام قرار دیدیا گیا ہے۔ بہرحال اصول دین یعنی توحید ‘ ایمانیات اخلاقیات وغیرہ تمام امتوں میں یکساں رہے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا (الشوری) تمہارے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے وہی دین مقرر کیا ہے جو نوع (علیہ السلام) اور ان کے بعد انے والے انبیاء کے لئے مقرر کیا گیا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ 1 ؎ نحن معشر الانبیاء ابناء علات دیننا واحد ہم انبیاء کا گروہ علاقی بھائیوں کی طرح ہیں جس طرح علاقی بھائیوں کا باپ ایک اور مائیں مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہم سب کا دین ایک ہی ہے مگر شریعتیں مختلف ہیں۔ ملت ابراہیمی ملت بھی اصول و کلیات ہی کا نام ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی ملت کا ذکر قرآن پاک میں بکثرت ملتا ہے جس طرح اسلام کا معنی اطاعت اور فرمانبداری ہے اسی طرح ملت سے بھی کمال درجے کی فرمانبرداری مراد ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ لسلام کی اطاعت الٰہی کے متعلق سورة بقرہ میں موجود ہے۔ اذقال لہ ربہ اسلم جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا فرمانبردار بن جائو قال اسلمت لرب العلمین تو انہوں نے عرض کیا میں اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل کے لئے بسر وچشم حاضر ہوں ‘ یعنی میں کمال درجے کا فرمانبردار ہوں۔ ملت ابراہیمی اسی چیز کا نام ہے۔ اور اسی کو اسلام اور صراط مستقیم سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی کا خاص طور پر اس لئے ذکر کیا ہے کہ اہل ایمان کے علاوہ دنیا کی اکثر قومیں آپ کا احترام کرتی ہیں خواہ ان میں بگاڑ ہی کیوں نہ پیدا ہوچکا ہو۔ مثلاً یہودیت تورات کی بگڑی ہوئی سکل ہے اور عیسائیت انجیل کی مسخ شدہ صورت کا نام ہے ان لوگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریف کر کے دین کو بگاڑ دیا اور اصل دین کی بجائے نیا دین کھڑا کرلیا۔ عرب کے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ انہوں نے بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کو مسخ کر کے مشرکانہ اور جاہلانہ رسوم ایجاد کیں اور پھر ان کو دین ابراہیمی کا نام دے دیا۔ مقصد یہ کہ اگرچہ یہ لوگ دین ابراہیمی کو بگاڑنے کے مرتکب ہوئے تاہم یہ آپ کا احترام کرتے تھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایسی ملت کا ذکر کیا ہے جس پر کم از کم زبانی حد تک تو سب کا ایمان تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے متعلق خاص طور پر فرمایا کہ آپ ملت ابراہیمی کے ہیں۔ اور یہود و نصاریٰ کا دعویٰ غلط ہے اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ ملت ابراہیمی اللہ کی خالص اطاعت اور توحید کا نام ہے۔ قرآن پاک نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حنیف کے لقب سے بھی پکارا ہے سورة آل عمران میں موجود ہے۔ ” ما کان ابراہیم یھود یا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ حنیف مسلمان تھے حنیف کا منی ہے ہر طرف سے ہٹ کر ایک خدا کی طرف لگنے والا۔ اہل کتاب اور مشرکین کے متعلق سورة بینہ میں ہے ” وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین حنفاء ان کو تو یہی حکم ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ خدا کی عبادت کریں اور ایک طرف لگنے والے بن جائیں۔ مستحکم دین اس سورة مبارکہ میں ہر قسم کے شرک کا رد آ گیا ہے۔ اعتقادی بھی اور عملی بھی گزشتہ آیات میں گزر چکا ہے کہ نذر و نیاز میں شرک خدا تعالیٰ کی صفات میں شرک ہے۔ یہودیوں ‘ نصرانیوں ‘ مجوسیوں اور صابیوں کا رد بھی ہوگیا ہے۔ مخلوق میں کسی طرح بھی الوہیت کی صفت ماننے والے مشرک ہوتے ہیں ‘ اللہ نے سب کا رد فرمایا ہے۔ اب آخر میں سورة کا لب لباب اس طرح بیان فرمایا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے اننی ھدینی ربی بیشک مجھے ہدایت دی ہے میری راہنمائی فرمائی ہے میرے پروردگار نے الی صراط مستقیم سیدھے راستے کی طرف اور وہ راستہ کون سا ہے دنیا قیما ایک مستحکم دین جس کے اصول بڑے مضبوط ہیں اور جن میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ اسی سورة کے چودھویں رکوع میں بھی گزر چکا ہے و تمت کلمتہ ربک صدقا وعدلا تیرے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں اس کے تمام اصول صحیح ہیں جنہیں کوئی غلط ثابت نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر کوئی تعصب اور عناد کی بنا پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو علیحدہ بات ہے۔ یہ وہی دین ہے جو ملت ابراہیمی ہے اور ہر زمانے کے لئے کافی ہے۔ دین حنیف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہے کعبے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے ‘ جنابت کا غسل کرتا ہے اور ختنہ کرتا ہے وہ حنیف کہلائے گا یہ سب چیزیں ملت ابراہیمیہ میں پائی جاتی ہیں دراصل احنف اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کا پائوں چلتے وقت اندر یا باہر ایک طرف کو مائل ہوتا ہے اور یہاں پر حنیف سے مراد ایسا شخص ہے جو کفر ‘ شرک اور بدعات کو ترک کر کے ایک اصول اور ایک دین کو ماننے والا ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حنیف تھے اور شاکرا لا نعمہ (النحل) خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے کر گزار تھے۔ شرک سے بیزار اور یکسو ہونے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی حکم دیا۔ ” حنفاء للہ غیر مشرکین بہ “ (الحج) تم سب کے سب حنیف بن جائو وار شرک کرنے والے نہ بنو۔ گزشتہ رکوع میں بھی گزر چکا ہے۔ ” وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعو “ یہی میرا صراط مستقیم ہے جس کی تشریح قرآن میں جگہ جگہ موجود ہے ‘ اسی راستے کا اتباع کرو ” ولا تتبعوالسبسل اور یہودیت ‘ نصرانیت ‘ مجوسیت اور صابیت کے گمراہی والے راستوں پر ملت چلو۔ بدعات اور خواہشات نفسانیہ کے غلط راستوں کو بھی اختیار نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے جس راستے کی طرف میری راہنمائی فرمائی ہے وہ یہی صراط مستقیم اور مستحکم دین ہے ملتہ ابراھیم حنیفا اور ہر طرف سے ہٹ کر ایک طرف کو لگنے والے ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت بھی یہی ہے وما کان من المشرکین اور آپ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے بلکہ اللہ کی توحید کے خالص داعی تھے۔ نماز اور قربانی آگے دین ابراہیمی کی بعض اصولی باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ان صلاتی و نس کی بیشک میری نماز اور میری قربانی نسک کا اطلاق عبادت پر بھی ہوتا ہے اور قربانی پر بھی ‘ ناسک عابد کو بھی کہتے ہیں اور نسک احکام کو بھی کہتے ہیں چناچہ حجتہ الوداع کے موقع پر حضور ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا تھا خذوا عنی مناسکم اے لوگو ! مجھ سے حج کے احکام خوب سمجھ لو۔ شاید اس سال کے بعد میری اور تمہاری ملاقات نہ ہو اسی طرح قربانی کے متعلق ولکل امۃ جعلنا منسکا (الحج) ہم نے ہر ایک امت کے لئے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔ ذی الحجہ کی قربانی کے علاوہ دم قران کو نسی کہ کہا گیا ہے سورة بقرہ میں جہاں احصار کی صورت میں قربانی کرنے کا حکم ہے۔ وہاں فرمایا کہ اس وقت تک اپنے سر نہ منڈوائو جب تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے پر پنہ پہنچ جائے۔ فرمایا اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اسے اپنے آپ پر عائد کسی پابندی کو توڑنا پڑے فضدیتہ من صیام او صدقتہ او نسک تو اس کے بدلے میں فدیہ دے روزے کی صورت میں یا صدقے کی صورت میں یا قربانی کی صورت میں۔ امام ابوبکر حصاص فرماتے ہیں کہ نسک اس جانور کو کہتے ہیں جو الہ تعالیٰ کے تقریب کے لئے ذبح کیا جائے عام قربانی اور دم قرآن بھی تقریب الٰہی کے لئے ہوتا ہے مولانا شاہ اشرف علی تھانوی نسک کو عام معنوں میں لیتے ہیں اور آیت کے ٹکڑے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں ‘ میری نماز اور تمام عبادتیں اللہ کے لئے ہیں تاہم دیگر مفسرین کرام نسک سے قربانی مراد لیتے ہیں۔ یعنی میری نماز اور میری قربانی اللہ کے لئے ہیں۔ قربانی کا وجوب قربانی بظاہر چھوٹا سا عمل معلوم ہوتا ہے مگر اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے بعض چیزیں اپنے اثر کے اعتبار سے بارعب ہوتی ہیں ۔ مثلاً نماز کے مقابلے میں اذان ایک چھوٹا سا عمل ہے کیونکہ یہ تو محض ایک اعلان ہے اور نماز تمام عبادتوں سے افضل عبادت ہے مگر اذان کا رعب اور دہشت اس قدر ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب شیطان اذان کی آواز سنتا ہے تو چھتیں سیل تک دو ربھاگ جاتا ہے۔ اسی طرح قربانی اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کے پیچھے میں بڑے کمال کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ اکثر آئمہ کرام کے نزدیک قربانی سنت کا درجہ رکھتی ہے جب کہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک قربانی واجب ہے۔ امام ابوبکر حصاص (رح) امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کی تائید میں اگلی آیت سے استدلال پیش کرتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں وبذلک امرت (مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا) میں امر ہے جو کہ وجوب کے لئے ہوتا ہے چونکہ یہاں پر قربانی کا ذکر بھی ہے لہٰذا یہ واجب ہے۔ بعض احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا حکم عام صدقہ کا نہیں بلکہ یہ زیادہ موکد ہے اور اس میں وجوب کا درجہ پاجاتا ہے۔ سورة کوثر میں بھی آیا ہے ” فصل لربک وانحر “ یعنی اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔ زندگی اور موت فرمایا بیشک میری نماز اور میری قربانی و محیامی ومماتی اور میری زندگی اور میری موت للہ رب العلمین سب اللہ کے لئے ہیں جو کہ تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ غرض یہ کہ اس آیت کریمہ میں چار چیزوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے یعنی نماز ‘ قربانی ‘ زندگی اور موت ‘ زندگی اللہ کے لئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب تک زندہ ہے اس سے ہر چھوٹا سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے انجام پانا چاہئے اور کوئی کام اس کی رضا کی خلاف نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جس کا م کے کرنے کا حکم دے ‘ وہ ہوجائے اور جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرمائے وہ نہیں ہونا چاہئے ‘ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے یہ آیت کریمہ بڑی اہم ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور اس کا مراقبہ کرنا چاہئے۔ اس زمانہ میں تو حالات بالکل الٹ ہیں۔ لوگوں نے اپنی زندگیاں شیطانی کاموں کے لئے وقف کر رکھی ہیں اللہ کی خوشنودی کو کون دیکھتا ہے۔ حالانکہ ایک مسلمان کے لئے لازم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے ۔ موت کا بھی یہی حال ہے۔ اہل ایمان کے لئے تو یہ حکم ” فلا تموتن الا وانتم مسلمون (البقرۃ) تمہاری موت اس حالت میں آنی چاہئے کہ تم اسلام پر قائم ہو۔ مگر آج موت اتنی سستی ہوچکی ہے کہ باطل مقاصد کے لئے بیشمار قتل ہو رہے ہیں ‘ گویا موت بھی اللہ کی بجائے شیطان کے راستے میں آ رہی ہے۔ امریکہ ‘ روس ‘ جاپان ‘ یا ویٹ نام کا جھگڑا ہو ‘ مسئلہ لسانی ہو یا نسلی ‘ معاملہ اقتدار کا ہو یا مال کا ‘ ان میں خدا کی خوشنودی کہاں ہے ؟ اور اس طرح ضائع ہونے والی ہزاروں جانیں کس کھاتے میں جا رہی ہیں ؟ خود اہل اسلام میں فرقہ بندی کی وبا عام ہے اور یہ آپس کی کشیدگی بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ یہ تو نفسانی خواہشات کی خاطر جان دینے والی بات ہے۔ حالانکہ اس آیت کریمہ میں یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ اہل ایمان کی زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صرف ہونی چاہئے اور جب موت آئے تو وہ بھی اس کی رضا جوئی کیلئے ؎ ہو۔ شرعی اور تکوینی امور مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں مذکورہ چار چیزوں میں سے دو شرعی اور تکوینی ہیں۔ نماز اور قربانی کا تعلق شریعت سے ہے اور یہ دونوں امور انسان اپنے اختیار سے انجام دیتا ہے۔ باقی دو چیزیں زندگی اور موت تکوینی ہیں موت وحیات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور ان میں انسان کا اپنا کوئی دخل نہیں۔ دراصل عقیدہ توحید دو چیزوں سے مکمل ہوتا ہے۔ یعنی توحید فی العبادت اور توحید فی التصرف مذکورہ بالا دو شرعی امور کا تعلق توحید فی العبادت سے ہے۔ نماز اور قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب اور اس کی خوشنودی کے لئے ادا کی جاتی ہے۔ جو شخص غیر اللہ کی نماز ادا کرے گا یا غیر اللہ کے تقرب کے لئے قربانی دے گا ‘ وہ مشرک ہوجائے گا اور توحید فی العبادت میں پورا نہیں اترے گا۔ کیونکہ عبادت بدنی ہو یا مالی ‘ اس میں غیر اللہ کی شرکت کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ باقی دو اشیاء زندگی اور موت تکوینی امور ہیں اور ان کا تعلق توحید فی التصرف کے ساتھ ہے موت اور زندگی پر تصرف اور کنٹرول صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ ان میں کسی انسان جن ‘ فرشتے یا کسی بھی غیر اللہ کو تصرف حاصل نہیں ‘ غرض یہ کہ ایمان اور عقیدہ توحید کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب انسان کا یقین کامل ہوجائے کہ ہر قسم کی عبادت بھی اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے اور کائنات میں تصرف بھی صرف اسی کو حاصل ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ان چار مذکورہ امور کو دو مختلف صورتوں میں بھی منسلک کیا جاسکتا ہے مثلاً یہ کہ نماز کا تعلق زندگی کے ساتھ۔ انسان جب تک بقید حیات موجود ہے اسے نماز کی پابندی کرنی چاہئے ۔ زندگی اور نماز کو اس قدر مربوط ہونا چاہئے کہ زندگی کے آخری لمحات تک انسان کسی وقت بھی نماز سے غافل نہ ہو اور جب وہ آخری سانس لے تو اس کے ذمے کوئی نماز واجب الادا نہ ہو۔ دوسری طرف قربانی اور موت کو اکٹھا کرلیں۔ جانور کی قربانی تقرب الی اللہ کے لئے کی جاتی ہے اگویا ایک جانور کی جان کے بدلے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے لہٰذا یہ بات ہمیشہ انسان کے ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس کی اپنی موت بھی ایسی حالت میں آنی چاہئے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہو اور قربانی کا یہی مقصد ہے۔ یہ قربانی اور موت کا الحاق بھی ہوگیا۔ انفرادی اور اجتماعی اصلاح دنیا میں امن وامان کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کا پروگرام دیا ہے جس کی ابتداء انفرادیت سے ہوتی ہے اور اجتماعیت پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ افراد صحیح ہوں گے تو معاشرہ خود بخود صحیح ہوگا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے نماز کا حکم دے کر انسان کی انفرادی اصلاح کا بندوبست کردیا ہے سب سے پہلے انسان نماز اور دیگر عبادات کے ذریعے اور قربانی کر کے اپنی ذاتی اصلاح کا بندوبست کرتا ہے جب اس پر اس کا یقین محکم ہوجاتا ہے۔ تو پھر اصلاح معاشرہ کی طرف توجہ دیتا ہے۔ اجتماعی اصلاح بھی نماز ہی سے شروع ہوجاتی ہے جب مسجد میں نماز با جماعت ادا ہوتی ہے تو محدود معاشرہ میں میل ملاپ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جب ہر شخص نماز کے ذریعے اصلاح نفس کرلیتا ہے تو پھر وہ آپس میں وسیع تر اصلاح احوال کی بنیاد بنتے ہیں اور اس طرح اجتماعی اصلاح کا عمل شروع ہوجاتا ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک گائوں ‘ ایک شہر اور پورے ملک پر بلکہ پورے عالم اسلام کا احاطہ کرلیتا ہے۔ اگر انسان اللہ کی عطا کردہ زندگی کو احسن طریقے سے بسر کرے۔ اسے فکر ہو کہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سرزد نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہ فکر پیدا ہوجائے تو یہی انسان کی اصل زندگی ہے اور اگر یہ فکر پیدا نہیں ہوئی تو ایسی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں اسی طرح موت کے لئے بھی انسان کو ہر وقت فکرمند رہنا چاہئے تا کہ جب بھی اس کی موت آئے تو ایمان کی حالت میں آئے اگر یہ فکر پیدا ہوجائے تو انسان ہر لمحہ نیکی کے کام انجام دے گا ‘ فرمانبرداری اور اطاعت گزاری کی حالت میں رہے گا اسے علم نہیں کہ موت کس لمحے واقع ہوجائے گی ‘ لہٰذا وہ نیکی سے کبھی غافل نہیں ہوگا اور برائی سے ہمیشہ دور رہے گا تو اب لب لباب یہ ہوا کہ میری نماز اور میری قربانی ‘ میری زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اگر انسان میں ان چاروں چیزوں کی حقیقی روح پیدا ہوگئی تو وہ انشاء اللہ کامیاب و کامران ہوگا۔ اولین اطاعت گزار آگے پھر سر کی تردید فرمائی اور حضور ﷺ کی زبان مبارک سے کہ لایا لا شریک لہ ‘ آپ یہ بھی کہہ دیں کہ اس وحدہ لا شریک کا کوئی شریک نہیں ‘ نہ ذات میں اور نہ صفات میں ‘ نہ علم میں اور نہ تصرف میں وبذلک امرت اور مجھے بھی اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ملت ابراہیمی کے اصولوں پر کاربند ہوں ۔ سورة آل عمران میں بھی حضور ﷺ کی زبان سے امت کو یہی پیغام دیا ہے فاتنبعوا ملۃ ابراھیم حنیفا ملت ابراہیمی کا اتباع اختیار کرو کہ یہی دین ہے اور یہی اسلام ہے۔ فرمایا آپ یہ بھی کہہ دیں وانا اول المسلمین کہ میں صرف تمہیں ہی اطاعت گزاری کی تعلیم نہیں دے رہا۔ بلکہ سب سے پہلے خود اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ میں اولین اطاعت گزار اور فرمانبردار ہوں۔ امام ابوبکر حصاص (رح) فرماتے ہیں کہ امت میں سب سے پہلے نبی اللہ کی اطاعت کا اعلان کرتا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس کا تعلق عالم ارواح سے بھی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے جب تمام روحوں کو پیدا فرمایا اور ان سے عہد الست لیا تو اس وقت بھی اللہ کی ربوبیت کا اقرار سب سے پہلے حضور نبی کریم ﷺ کی روح پاک نے کیا تھا۔ حدیث اول ماخلق اللہ نوری اگرچہ پایا ثبوت کو نہیں پہنچی تا ہم مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے اس نور سے مراد روح محمد لیا ہے کہ تمام ارواح میں سب سے پہلے اللہ نے آپ کی روح کو پیدا فرمایا۔ اور پھر سب سے پہلے آپ ہی نے اول المسلمین ہونے کا اقرار کیا۔ اس طرح گویا اس دنیا میں بھی اور عالم ارواح میں بھی حضور کا اولین اطاعت گزار ہونا ملتا ہے۔ اسی طرح ہر نبی پہلے خود اطاعت اختیار کرتا ہے اور پھر دوسروں کو دعوت دیتا ہے۔
Top