Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 72
قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ١ۚ۬ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ۚ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنَّنِيْ : بیشک مجھے هَدٰىنِيْ : راہ دکھائی رَبِّيْٓ : میرا رب اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا دِيْنًا : دین قِيَمًا : درست مِّلَّةَ : ملت اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَ : اور مَا كَانَ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو (دیدہ دانستہ) پیچھے رہ جاتا ہے پھر اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے تو کہتا ہے : مجھ پر تو اللہ نے بہت احسان کیا ہے کہ 101 میں ان میں موجود نہ تھا
2 اور بخدا تم میں سے کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ جو جہاد میں شریک ہونے سے تاخیر کرتا ہے اور مجاہدین کے ہمراہ نکلنے میں ٹال مٹول کرتا ہے اور شریک نہیں ہوتا پھر اگر تم کو سوء اتفاق سے کوئی حادثہ پیش آگیا اور تم پر کوئی مصیبت آ پڑی تو یہ اپنی عدم شرکت پر خوش ہو کر کہتا ہے کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا ہی فضل کہا کہ میں ان مجاہدین کے ہمراہ اس معرکہ کار زار میں موجود نہیں تھا ورنہ میں بھی اس پیش آمدہ مصیبت میں مبتلا ہوجاتا۔ (تیسیر) چونکہ یہ منافق مسلمانوں میں ملا جلا ہوتا ہے اس لئے منکم فرمایا ورنہ ظاہر ہے کہ منافق مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔ یہاں منکم سے مسلمانوں اور منافقوں کا مجموعہ مراد ہے۔ لیبطئن کے لازمی اور متعدی دونوں معنی کئے ہیں یعنی خود سستی کرتا ہے اور جہاد میں شرکت سے بچتا اور دیر لگاتا ہے اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ دوسروں کو شرکت سے روکتا ہے بہرحال فتح و شکست تو جنگ کے ساتھ لازمی چیز ہے اس لئے اگر کبھی مسلمانوں کو شکست ہوگئی تب تو قد انعم اللہ علی اذلم اکن معھم شھیداً کہتا ہے اور اگر حسن اتفاق سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو فتح ہوگئی تو اس وقت اس کے الفاظ کا بیان آگے آتا ہے۔ (تسہیل)
Top