Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 48
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَرْسَلَ الرِّيٰحَ : بھیجیں ہوائیں اس نے بُشْرًۢا : خوشخبری بَيْنَ يَدَيْ : آگے رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً طَهُوْرًا : پانی پاک
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت کے مینھہ کے آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک (اور نتھرا ہوا) پانی برساتے ہیں
وہو الذی ارسل الریح بشرا بین یدی رحمتہ اور وہ رب وہی تو ہے جو اپنی رحمت (بارش نازل کرنے) سے پہلے ہواؤں کو بشارت دینے والیاں (بنا کر) بھیجتا ہے۔ وانزلنا من السمآء مآء طہورا۔ اور ہم نے اوپر سے بالکل پانی اتارا۔ طہوروہ چیز جس سے پاکی حاصل ہوتی ہے جیسے سحور ‘ سحری کا کھانا۔ فطور افطار کی چیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پاک مٹی مسلمان کو طاہر بنانے کی چیز ہے ‘ جب تک پانی نہ پائے خواہ دس سال گزر جائیں ‘ رواہ احمد و ابو داؤد والترمذی عن ابی ذر۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ یہ بھی حضور ﷺ نے فرمایا ‘ ساری زمین ہمارے لئے مسجد بنا دی گئی ہے اور زمین کی مٹی کو طہور (پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ) بنا دیا گیا ہے۔ یا طہور قبول کی طرح مصد رہے۔ مسلم و ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کے برتن میں اگر کتا منہ ڈال دے تو اس برتن کی پاکی یہ ہے کہ اس کو سات مرتبہ دھو ڈالے جن میں پہلی مرتبہ مٹی سے (مانجھے) اس صورت میں پانی کو طہور کہنا بطور مبالغہ کے لئے ہوگا۔ یا طہور خود مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی پاک ہونے میں کامل ‘ جیسے صبور بڑا صابر شکور بڑا شکر گزار قطوع بہت کاٹنے والا۔ ضحوک ‘ بہت ہنسنے والا۔ بغوی نے لکھا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طہور اس چیز کو کہتے ہیں جو بار بار (مسلسل) پاک کرے جیسے صبور وہ چیز جس کے ذریعہ سے بار بار صبر کا ظہور ہو اور شکور وہ چیز جس کے ذریعہ بار شکر حاصل ہو اسی قول کی بنیاد پر امام مالک کے نزدیک اس پانی سے جس کو وضو میں ایک بار استعمال کرلیا گیا ہو وضو کرنا جائز ہے۔ میں کہتا ہوں۔ یہ فضول بات ہے (پاک ہونا اور پاک کرنا دونوں میں بڑا فرق ہے) فعول کے وزن کو تفعیل میں کوئی دخل نہیں۔ پس طہور کو تطہیر سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ مزید یہ کہ وزن فعول مبالغہ (یعنی شدت وقوت فعل) پر دلالت کرتا ہے۔ تکرار فعل ‘ یعنی کثرت) پر نہیں دلالت کرتا ‘ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ طہور کا معنی ہے کامل الطہارت اور کامل الطہارت ہونے کے دو معنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ خود بھی پاک ہو اور دوسری ناپاکی کو پاک کرنے والا ہو۔ شرعی نصوص اور متواتر روایات اور اجماع امت سے پانی کے اندر ان اوصاف کا ہونا ثابت ہے۔ پانی خود بھی پاک ہے اور ناپاک کو بھی پاک کردینے والی چیز ہے ‘ دوسرا کامل الطہارت ہونے کا معنی یہ ہے کہ پانی اتنا پاک ہے کہ اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں بناتی۔ امام مالک کا یہی قول ہے۔ امام مالک نے رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے کہ پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں بناتی۔ یہ حدیث امام احمد اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کی ہے سنن اربعہ کی روایت میں ان الماء لا یخبث (پانی گندہ نہیں ہوتا) آیا ہے۔ دارقطنی نے یہ حدیث حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بیان کی ہے۔ طبرانی نے الاوسط میں اور ابو یعلیٰ بزار ‘ ابو علی بن سکن نے حضرت شریک کی روایت سے اور احمد و ترمذی و ابو داؤد و نسائی نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے مندرجہ ذیل حدیث بیان کی ہے کہ خدمت گرامی میں عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ : کیا ہم چاہ بضاعہ (کے پانی) سے وضو کرسکتے ہیں (یہ کنواں گندہ کنواں تھا) اس میں حیض کے کپڑے مرے ہوئے کتے اور سڑی ہوئی بدبودار چیزیں (جاہلیت کے زمانہ میں) ڈالی جاتی تھیں ‘ فرمایا ‘ پانی طہور (پاک یا پاک کن) ہے اس کو کوئی چیز نجس نہیں بناتی۔ ابن ماجہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا جن تالابوں میں اتر کر درندے ‘ کتے اور گدھے پانی پیتے ہیں (ان کے پانی کا حکم رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا تو) حضور ﷺ نے ان تالابوں کے متعلق فرمایا ‘ ان (جانوروں) کے لئے اتنا (پانی) ہے جتنا انہوں نے اپنے پیٹوں میں اٹھا لیا اور جو بچ رہا ہے وہ ہمارے لئے پاک ہے۔ ایک شبہ باجماع علماء یہ احادیث متروک ہے یہاں تک کہ امام مالک (رح) نے فرمایا جب پانی کا کوئی وصف (رنگ ‘ مزہ بو) نجس چیز پڑنے سے بدل جائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے ‘ ہم کہتے ہیں جب پانی کا کوئی وصف بدل گیا تو وہ آب مطلق (سادہ پانی) نہیں رہا اور ہمارا کلام آب مطلق کی نجاست و طہارت کے متعلق ہے۔ ازالہ حدیث میں (پانی سے غیر معین پانی مراد نہیں ہے بلکہ) خاص پانی مراد ہے یعنی کثیر پانی جو تالابوں میں رکا ہوا ہو۔ اور چاہ بضاعہ وغیرہ میں (موجود) تھا۔ اس توجیہ سے احادیث کا باہمی اختلاف دور ہوجائے گا کیونکہ دوسری احادیث میں آیا ہے کہ اگر نجاست پانی میں گرجائے ‘ خواہ پانی کا کوئی وصف تبدیل نہ ہوا ہو تب بھی پانی نجس ہوجاتا ہے۔ مسلم و ابو داؤد کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کتا کسی کے برتن میں منہ ڈالے تو اس کی طہارت کی یہ صورت ہے کہ اس کو سات بار دھویا جائے اوّل بارمٹی سے (مانجھا جائے) ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے کہ رکے ہوئے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب کر کے پھر اسی سے وضو کرلے۔ متفق علیہ۔ امام مالک (رح) :‘ امام شافعی (رح) :‘ امام احمد (رح) :‘ امام بخاری (رح) ‘ امام مسلم (رح) اور اصحاب سنن اربعہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہوجائے تو بغیر تین مرتبہ دھوئے اپنا ہاتھ برتن میں ہرگز نہ ڈالے کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات کو (سوتے میں) کہاں رہا۔ یہ حدیث حضرت ابن عمر ؓ :‘ حضرت جابر ؓ :‘ اور حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بھی آئی ہے۔ ہم نے پانی کے نجس ہوجانے یا نجس نہ ہوجانے کے سلسلہ میں احادیث متعارضہ کے تعارض کو دور کرنے کے لئے یہ قول اختیار کیا کہ اگر آب کثیر ہو تو وہ نجاست سے نجس نہیں ہوتا اور آب قلیل ہو تو نجس ہوجاتا ہے۔ اب رہا پانی کی قلت و کثرت کا معیار تو اس کے متعلق ائمہ میں اختلاف ہے۔ امام شافعی (رح) اور امام احمد کے نزدیک دو مٹکے پانی آب کثیر ہے۔ (یعنی وزن میں پانچ سو عراقی رطل ‘ پیمائش میں سوا گز (شرعی فقہی گہرا سوا گز لمبا ‘ سوا گز چوڑا) اتنا پانی نجاست پڑنے سے نجس نہیں ہوتا۔ ہاں اگر نجاست سے پانی کا رنگ یا مزا یا بو بدل جائے تو کثیر پانی بھی نجس ہوجاتا ہے۔ تھوڑا پانی بہرحال نجاست پڑنے سے نجس ہوجاتا ہے (خواہ بو ‘ مزہ ‘ کوئی وصف نہ بدلے) ۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا جو شخص آب کثیر استعمال کر رہا ہے اگر اس کے غالب خیال میں پانی اتنا ہے کہ ایک طرف کی نجاست (کا اثر) دوسرے کنارے تک پہنچنے سے قاصر ہے تو ایسا پانی کثیر ہے ورنہ قلیل ہے بعد کے کچھ علماء نے کثیر کا ایک اندازہ مقرر کردیا ‘ کسی نے کہا دس گز چوڑا دس گز لمبا ‘ کسی نے پندرہ گز چوڑا پندرہ گز لمبا۔ کسی نے بارہ گز چوڑا بارہ گز لمبا ‘ کسی نے آٹھ آٹھ اور کسی نے سات سات گز لمبا چوڑا مقرر کیا گز سے مراد ہے کپڑے کا گز اور کپڑے کا گز سات مٹھی سے ہوتا ہے اور ایک مٹھی سے مراد ہے چار انگل۔ امام ابو حنفیہ (رح) ‘ امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد کسی کے قول میں بھی آب کثیر کی کوئی متعین مقدار منقول نہیں ‘ کیونکہ شارع کی طرف سے اس کی کوئی حد بندی نہیں کی گئی دو مٹکوں والی حدیث ضعیف ہے (ناقابل استدلال اس لئے مقدار کی تعیین کو اسی شخص کی غالب رائے کے سپرد کردینا مناسب ہے جو پانی کو استعمال کر رہا ہو۔ امام شافعی (رح) اور امام احمد نے قلتین (دو مٹکوں والی) حدیث کو اپنے قول کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت سے امام شافعی (رح) ‘ امام احمد ‘ ابن خزیمہ ‘ ابن حبان ‘ حاکم ‘ دارقطنی ‘ بیہقی اور اصحاب السنن الاربعہ نے اس کو بیان کیا ہے۔ ابو داؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ جس پانی میں درندے اور چوپائے آتے جاتے ہیں اس کا کیا حکم ہے فرمایا اگر پانی دو مٹکے ہو تو گندگی کو نہیں اٹھاتا (یعنی گندہ نہیں ہوتا۔ حاکم کی راویت پر حدیث کے یہ الفاظ ہیں جب پانی دو مٹکے ہوں تو اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں بناتی۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ کی روایت میں ہے ‘ نجس نہیں ہوجاتا “ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور برشرط شیخین قرار دیا ہے ابن مندہ نے کہا اس حدیث کی اسناد بہ شرط مسلم ہے طحاوی نے بھی اس حدیث کی صحت کا اقرار کیا ہے۔ ایک شبہ اس حدیث کا مدار (متفق علیہ مرکزی راوی) ولید بن کثیر ہے ولید سے آگے کبھی محمد بن جعفر بن زبیر کو راوی قرار دیا جاتا ہے کبھی محمد بن عباد بن جعفر کو اور اس سے بھی اوپر کبھی عبداللہ بن عبداللہ بن عمر کو منقول عنہ کہا گیا ہے کبھی عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر کو۔ اس طرح یہ حدیث مضطرب ہوگئی۔ حافظ ابن حجر نے کہا اس طرح کا اضطراب حدیث کی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ کیونکہ سب راویوں کو اگر معتمد مان لیا جائے تو یہ انتقال ثقہ سے ثقہ کی جانب ہوگا (جس میں کوئی ہرج نہیں) پھر تحقیقی بات یہ ہے کہ ولید بن کثیر کے راوی دو ہیں عبیداللہ بن عبداللہ اور عبداللہ بن عبداللہ۔ ایک جماعت نے دو نوں طریقوں سے روایت کی ہے ان دو طریقوں کے علاوہ کوئی طریقہ محض توہم پر مبنی ہے۔ دارقطنی نے کہا یہ دونوں قول صحیح ہیں۔ اسامہ نے بروایت ولید دونوں طریقوں سے روایت کی ہے ایک تیسرا طریقۂ روایت اور بھی ہے جس کو ابن معین نے جید طریقہ کہا ہے وہ سلسلہ یہ ہے ‘ حماد بن سلمہ ‘ از عاصم بن منذر از عبداللہ بن عبداللہ بن عمر۔ ایک سوالایک روایت میں آیا ہے لم یحمل خبثادوسری روایت میں ہے لم ینجسہ شیتیسری روایت میں لا یتنجس۔ یہ اضطراب تو متن حدیث میں ہوگیا۔ جواب یہ روایت بالمعنی ہے (معنی تینوں روایتوں کے ایک ہی ہیں کوئی تعارض نہیں) اور متن حدیث میں اضطراب اس وقت مانا جاتا ہے جب الفاظ کے اختلاف سے معانی میں تعارض پیدا ہوتا ہو۔ دوسرا شبہ حدیث میں قلتین کا لفظ مشکوک ہے کیونکہ اِذَا بَلَغَ الْمَاءُ قُلَّتَیْنِ اَوْ ثَلاثًا آیا ہے اور لفظ او شک پیدا کر رہا ہے امام احمد نے بروایت وکیع اور دارقطنی نے بروایت یزید بن ہارون پھر اس سے آگے وکیع اور یزید نے بروایت عاصم بن منذر از عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر مرفوعاً یہ حدیث الفاظ مندرجۂ بالا کے ساتھ بیان کی ہے۔ ابن جوزی نے لکھا ہے حماد سے نیچے راویوں کی روایت میں اختلاف ہے ابراہیم بن حجاج اور کامل بن طلحہ نے بروایت حماد انہی الفاظ کے مذکورہ کے ساتھ حدیث بیان کی ہے لیکن عفان اور یعقوب بن اسحاق حضرمی اور بشر بن سری اور علاء بن عبدالجبار اور موسیٰ بن اسماعیل اور عبیداللہ بن موسیٰ عبسی نے بروایت حماد بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اِذَا کان الماء قلتیناس سے آگے ثلاثاً کا لفظ نہیں ہے صرف قلتین کا لفظ ہے۔ اسی طرح ابن سباح نے بروایت یزید بن ہارون جو حدیث نقل کی ہے اس میں لفظ او شکیہ ہے لیکن حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں شک کا کوئی لفظ نہیں (یعنی او ثلاثاً نہیں ہے) لہٰذا عمل اس روایت پر واجب ہے جس میں حرف شک نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ لفظ ” او “ شک کے لئے نہیں بلکہ تردید یا تخییر کے لئے ہے مطلب یہ ہے کہ دونوں مقداروں میں سے کسی مقدار کو پانی پہنچ جائے وقوع نجاست سے نجس نہیں ہوتا خواہ دو مٹکوں کے بقدر ہوجائے یا تین مٹکوں کے بقدر۔ اگر شبہ کیا جائے کہ بعض روایتوں میں چالیس مٹکوں کا لفظ آیا ہے دارقطنی ‘ ابن عدی اور عقیلی نے بروایت قاسم بن عبداللہ العمری از محمد بن منکدر بیان کیا کہ حضرت جابر بن عبداللہ نے فرمایا حضور کا ارشاد گرامی ہے جب پانی چالیس مٹکوں تک پہنچ جائے (یعنی جب پانی بقدر چالیس مٹکوں کے ہوجائے) تو گندگی کا حامل نہیں رہتا (یعنی گندہ ناپاک نہیں ہوتا) ۔ ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ امام احمد ‘ یحییٰ بن معین ‘ ابو زرعہ اور ابو حاتم رازی نے قاسم بن عبداللہ کے متعلق کہا یہ دروغ گو خود حدیثیں بناتا تھا۔ اس لئے قاسم کی روایت سے آئی ہوئی حدیث سے صحیح حدیث کو مضطرب نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اگر شبہ کیا جائے تو دارقطنی نے صحیح سند کے ساتھ حدیث مذکور ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے اذا بلغ الماء اربعین قلۃ لم یتنجس یہ حدیث بطریق روح بن قاسم از روایت ابن منکدر از ابن عمر آئی ہے البتہ مرفوع نہیں ہے موقوف ہے۔ وکیع بن سفیان ثوری اور معمر نے بھی ابن منکدر کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اگر اپنی روایت کے خلاف راوی کا قول ہو تو حدیث کو مطعون کردیتا ہے اس لئے ابن عمر کی قلتین والی مرفوع روایت مجروح ہے۔ ہم کہتے ہیں امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تو مطلقاً کسی حالت میں بھی شرط کا مفہوم حجت نہیں ہوتا اور امام شافعی (رح) کے نزدیک اگر سوال کے جواب میں شرط لگائی گئی تو اس کا مفہوم حجت نہیں ہوتا (اس لئے اذا بلغ الماء اربعین قلۃ کا یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ اگر پانی چالیس مٹکوں سے کم ہو تو وقوع نجاست سے نجس ہوجاتا ہے کیونکہ شرط علت حکم نہیں ہے) ۔ دوسری بات یہ ہے کہ لفظ قلۃ مشترک ہے کوزہ ‘ لوٹا اور گھڑا سب کو قلۃ کہا جاتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا لہٰذا تعارض احادیث دور کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ قلتین والی حدیث میں دو بڑے مٹکے مراد ہیں اور چالیس مٹکوں والی حدیث میں قلۃ سے مراد ہوگا ایک لوٹا اتنا کہ بیس لوٹے ایک بڑے مٹکے کے برابر ہوجائیں اس طرح دو مٹکے چالیس لوٹوں کے برابر ہوجائیں گے۔ مزید شبہ اگر قلۃ کا لفظ مشترک ہے گھڑا ‘ مشک ‘ ڈول اور پہاڑ کی چوٹی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ صاحب قاموس نے اس لفظ کی تشریح میں لکھا ہے سر کی چوٹی ‘ کوہان ‘ پہاڑ کی چوٹی ‘ بڑا کنواں ‘ بڑا گھڑا ‘ معمولی گھڑا ‘ پیالہ ‘ لوٹا وغیرہ تو پھر قلۃ کے معنی کی تعیین خود ساختہ ہے اور ہجر کے مٹکوں کی تعیین کسی صحیح مرفوع حدیث میں مذکور نہیں ہاں ابن عدی نے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ضرور نقل کی ہے اذا بلغ الماء قلتین من قلال ہجرلم ینجسہ شئ اس حدیث میں ضرور ہجر کے مٹکوں کا ذکر آیا ہے لیکن اس کی سند میں مغیرہ بن صقلان ایک راوی ہے جو منکر الحدیث ہے۔ لہٰذا لفظ قلہ سے کیا مراد ہے اس کی تعین خود نہیں کی جاسکتی اور اس حدیث پر عمل ترک کردیا جائے گا مجمل کا یہی حکم ہے۔ ہم کہتے ہیں پہاڑ کی چوٹی ‘ یا کوہان ‘ یاسر کی چوٹی تو باجماع علماء مراد نہیں ہے (اور عقل و درایت کے بھی خلاف ہے) دو پہاڑوں کی چوٹی تک پانی کا پہنچ جانا سوائے سمندری پانی کے اور کسی پانی کیلئے ممکن نہیں اسی طرح کوہان شتر یا سر کی چندیا تک پانی کا پہنچ جانا بھی ناقابل تصور ہے پھر (باتفاق علماء) اس مقدار سے کم پانی بھی آب کثیر ہوتا ہے لہٰذا لفظ قلہ سے ظرف کی طرف انتقال ذہنی ہونا حدیث کا مفہوم سمجھنے کے لئے ضروری ہے اور ظروف مختلف ہیں سب پر لفظ قلہ کا اطلاق ہوتا ہے لیکن ہجر کے مٹکوں کی تعیین قابل ترجیح ہے کیونکہ عرب نے اپنے اشعار میں لفظ قلہ کا استعمال اس معنی میں کیا ہے۔ کذا قال ابو عبیدہ فی کتاب الطہور۔ بیہقی نے کہا ہجر کے مٹکے عرب میں مشہور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شب معراج میں رسول اللہ ﷺ نے سدرۃ المنتہی کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا فاذا ورقہا مثل آذان القیلہ واذا بنقہا مثل قلال ہجر۔ میں نے دیکھا کہ اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی مثل اور اس کے بیر (پھل) ہجر کے مٹکوں کے برابر تھے۔ تعیین کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ازہری کے قول کے مطابق ہجر کے مٹکے سب سے بڑے مٹکے ہوتے تھے اور جب شارع نے پانی کی مقدار تعداد سے بیان کی تو عدد سے مراد سب سے بڑا عدد ہی ہونا چاہئے جب ایک بڑا برتن دو چھوٹے برتنوں کے برابر ہو تو ایک کو چھوڑ کر دو چھوٹے برتنوں کا ذکر کرنا بےسود ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ جب دو چھوٹے مٹکوں کے بقدر پانی میں نجاست گرنے سے پانی نجس نہیں ہوتا تو دو بڑے مٹکوں کے بقدر پانی میں نجاست گرنے سے پانی کا نجس نہ ہونا بدرجۂ اولیٰ ضروری ہوجاتا ہے اس لئے احتیاطاً بڑے مٹکوں کی تعیین کردی ‘ چھوٹے مٹکوں کے برابر پانی تو بڑے مٹکوں میں آ ہی جاتا ہے۔ ایک قوی معارضہ قلتین والی حدیث کو حافظ ابن عبدالبرعامی ‘ اسماعیل بن اسحاق اور ابوبکر بن ولی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ یہ تینوں حضرات مالکیہ مسلک کے تھے۔ ابن عبدالبر نے کہا شافعی کا قول درایت کے اعتبار سے بھی کمزور ہے اور نقل کے لحاظ سے بھی ثابت نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے صحیح ہونے میں علماء کی ایک جماعت کو کلام ہے ‘ پھر کسی صحیح حدیث میں قلتین کی مقدار کی تعیین بھی منقول نہیں نہ اجماع سے ثابت ہے۔ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں گزشتہ سوالات مجمل طور پر علماء کے اقوال میں آئے ہیں لیکن اس حدیث کے کسی راوی کو کسی نے ضعیف نہیں کہا۔ کیونکہ اس کے سارے راوی وہ ہیں جو صحیحین کے روات ہیں۔ سوالات کے ترتیب وار جواب دیئے گئے ہیں اس لئے ان حضرات کا قول قابل رد ہے۔ مسئلہ وضو اور غسل ‘ پانی کے علاوہ کسی اور سیال چیز سے بالاتفاق ناجائز ہے اللہ نے فرمایا ہے (فَلَمْ تَجِدُوْا مَاءً افَتَیَّمَمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا) یعنی پانی نہ ملنے کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا دوسرے سیال کا ذکر نہیں فرمایا۔ لیکن کیا نجاست حقیقیہ کو بھی پانی کے علاوہ دوسری سیال چیزوں سے پاک کرنا جائز ہے۔ جمہور نے کہا ناجائز ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا جائز ہے۔ بغوی نے جمہور کی طرف سے اسی آیت کو بطور استدلال پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ آیت میں طہور ‘ بمعنی مُطَہِّر (پاک کرنے والا) ہے کیونکہ دوسری آیت میں بارش کے پانی کو مطہر فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے (وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً الِّیُطہِّرَ کُمْ ) اس سے معلوم ہوا کہ پاک کرنے کا وصف صرف پانی میں ہوتا ہے اگر نجاست کا ازالہ دوسری سیال چیزوں سے قرار دیا جائے گا تو بےوضو ہونے اور جنابت کی ناپاکی کا ازالہ بھی دوسری سیال چیزوں سے جائز ماننا پڑے گا۔ بغوی کا یہ استدلال صحیح نہیں اگر پانی کو مطہر (پاک کرنے والا) کہا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی دوسرا سیال مطہر ہو نہیں سکتا جیسا کہ پانی کا طاہر ہونا موجب حصر نہیں کہ پانی ہی پاک ہو اور کوئی دوسرا سیال پاک نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا ‘ حدث (بےوضو ہونے یا جنابت کی ناپاکی) اور نجاست حقیقیہ میں فرق ہے حدث تو حکمی نجاست ہے (شارع نے اس کو نجاست قرار دیا ہے) ورنہ آنکھوں سے دیکھی جانے والی نجاست نہیں۔ اس نجاست کا ازالہ صرف پانی سے بنص قرآن و باجماع امت ہوتا ہے کسی دوسرے سیال سے حدث کا ازالہ نہ کتاب اللہ سے ثابت ہے نہ اجماع سے اور چونکہ (نجاست حکمی اور طہارت حکمی کا) یہ مسئلہ خلاف قیاس ہے۔ اس لئے ازالۂ حدث کے لئے پانی پر دوسرے سیالوں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن نجاست حقیقیہ تو آنکھوں سے دیکھی جانے والی ہے پانی سے اس کا ازالہ عقل کے موافق ہے اسلئے دوسرے پاک سیالوں کو اس جگہ پانی پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ میں کہتا ہوں (امام ابوحنیفہ (رح) : کی حدث و نجاست میں یہ تفریق درست ہے) لیکن اس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ پاک پانی کو جب کسی نجس میں ڈالا جاتا ہے تو نجس کے ساتھ ملتے ہی پانی نجس ہوجاتا ہے ‘ اب تین مرتبہ یا سات مرتبہ دھونے کے بعد نجس (کپڑے وغیرہ) کا پاک ہونا (غیر عقلی اور) محض تعبدی ہے (شریعت نے نجس کو پاک کرنے کا یہی طریقہ بتایا ہے) اور نچوڑنے کے بعد بھی سارا نجس پانی نکل نہیں جاتا ‘ کچھ باقی ہی رہتا ہے ‘ لہٰذا قیاس کا تقاضا تھا کہ نجس کپڑا وغیرہ دھونے سے پاک ہی نہ ہو اس لئے گزشتہ شریعتوں میں کپڑے کو پاک کرنے کا صرف یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ نجس حصہ کاٹ دیا جائے اسلام میں ناپاک کپڑے وغیرہ کو پاک کرنے کا طریقہ صرف دھونے کو قرار دیا گیا اور یہ سراسر قیاس کے خلاف ہے (اور جو شرعی حکم خلاف قیاس ہو اس پر کسی دوسرے مسئلہ کو قیاس نہیں کیا جاسکتا) اس لئے دوسرے سیالوں کو پانی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ پانی میں نجاست پڑنے سے جس طرح پانی ناپاک ہوجاتا ہے اسی طرح پانی اگر نجاست پر پڑجائے تو ناپاک ہوجاتا ہے کیونکہ نجس بنانے والا صرف اختلاط ہے پانی میں نجاست کا اختلاط ہو یا نجس چیز کے ساتھ پانی کا اختلاط۔ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ابن جوزی نے امام احمد کا مذہب یہ نقل کیا ہے کہ نجاست کا دھو ون طہارت کا مقام (بدن یا کپڑا وغیرہ) کے بعد جب مقام سے الگ ہوجائے اور اس میں کوئی تغیر نہ آیا ہو (یعنی بو ‘ رنگ ‘ مزہ وغیرہ میں فرق نہ آیا ہو) تو وہ پاک ہے اسی طرح پیشاب اگر زمین وغیرہ پر گرجائے اور جتنا پانی اس پر بہایا جائے اس سے پیشاب کی مقدار کم اور مغلوب ہو اور پانی میں کوئی تغیر نہ آیا تو یہ پانی پاک ہے اور وہ مقام بھی پاک ہوجائے گا۔ یہی قول امام مالک اور امام شافعی کا ہے اور اس کی دلیل حضرت انس بن مالک کی یہ حدیث ہے کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ : مسجد میں تشریف فرما تھے ایک اعرابی آیا اور اس نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا حاضرین میں سے ایک شخص نے فرمایا تم اٹھ کر ایک ڈول پانی لے آؤ اور اس پر بہا دو ۔ رواہ احمد والبخاری ومسلم فی الصحیحین۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی اسی طرح حدیث نقل کی ہے۔ ہم کہتے ہیں یہ حدیث قیاس صحیح کے خلاف ہے اسلئے اس کا مطلب یہ قرار دیا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے اس جگہ کی مٹی ہٹوا دینے کا اور پھر اس پر پانی بہا نے کا حکم دیا ہوگا اور یہ بات بعض احادیث میں بھی آئی ہے اور دارقطنی نے عبدالجبار کے طریق سے بروایت ابن عیینہ از یحییٰ بن سعید بیان کیا کہ حضرت انس نے فرمایا ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کردیا ‘ حضور گرامی نے فرمایا اس جگہ کو کھود دو ( اور مٹی نکال کر) پھر اس جگہ ایک ڈول پانی بہا دو ۔ حافظ ابن حجر نے کہا اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔ اگر شبہ کیا جائے کہ اس روایت میں دارقطنی نے کہا ہے کہ عبدالجبار کو ابن عیینہ کے متعلق وہم ہوگیا کیونکہ ابن عینیہ کے ساتھیوں جو حافظ الحدیث کا مرتبہ رکھتے تھے۔ ابن عینیہ کی وساطت سے بروایت یحییٰ بن سعید یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں کھودنے کا حکم دینے کا ذکر نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں عبدالجبار ثقہ ہے اور ثقہ کی روایت میں اگر کچھ زیادتی ہو تو وہ قابل قبول ہوتی ہے۔ دارقطنی نے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث بیان کی ہے لیکن اس کی سند کمزور ہے مگر سند میں کوئی راوی ایسا نہیں کہ کسی نے اس کو متہم بالکذب کیا ہو۔ دارقطنی اور ابو داؤد نے عبداللہ بن مغفل بن مقرن مزنی کی روایت سے بھی اس کو نقل کیا ہے اور دارقطنی نے یہ بھی کہا ہے کہ عبداللہ بن مغفل تابعی تھے اور ان کے تمام راوی ثقہ ہیں مگر اس کے روات کے سلسلہ میں ایک شخص جریر بن حازم بھی ہے جس کے متعلق ذہبی نے لکھا ہے کہ جریر ثقہ ہے امام ہے مگر اس کی دماغی حالت مرنے سے (کچھ) پہلے بگڑ گئی تھی اس لئے اس کے بیٹے وہب نے اس کو بیان حدیث سے روک دیا تھا اور مرتے دم تک پھر اس نے کوئی حدیث نہیں بیان کی۔ ابن معین نے کہا جریر بن حازم نے جب قتادہ کے سلسلہ سے حدیث بیان کی تو وہ ضعیف ہے۔ میں کہتا ہوں یہ حدیث بسلسلۂ قتادہ نہیں ہے بلکہ عبداللہ بن عمیر کے سلسلہ سے منقول ہے اور عبداللہ بن عمیر ثقہ (قابل بھروسہ) ہے۔ صحیحین کا راوی ہے۔ امام احمد نے اس حدیث کو منکر کہا ہے لیکن یہ جرح اجمالی ہے اور اجمالی جرح (بغیر کسی تفصیلی دلیل کے) قابل قبول نہیں۔ امام احمد نے جو اس حدیث کو منکر کہا ہے اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ مشہور حدیث میں کھودنے کا ذکر نہیں آیا ہے لیکن یہ کوئی جرح نہیں ‘ غیر مشہور حدیث میں اگر ثقہ راوی نے کوئی لفظ زیادہ نقل کیا ہو تو قابل قبول ہوتا ہے۔ طحاوی نے بطریق ابن عینیہ ‘ از عمرو بن دینار از طاؤس بیان کیا اسی طرح سعید بن منصور نے بروایت ابن عینیہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس مقام کو کھوددو ‘ پھر اس پر پانی بہا دو ۔ یہ حدیث بھی مرسل ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مرسل مسند سے زیادہ قوی ہوتی ہے امام مالک اور امام احمد کے نزدیک مسند کا مرتبہ مرسل سے اونچا ہے لیکن مرسل کے حجت ہونے میں کلام نہیں امام شافعی کے نزدیک مرسل حدیث اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوتی جب تک اس کے اندر پانچ شرطوں میں سے ایک شرط متحقق نہ ہو۔ کسی دوسرے راوی نے اس کو مسند کیا ہو یا مرسل ہی کیا ہو مگر شیوخ مختلف ہوں یا کسی صحابی کا قول یا اکثر اہل علم کا قول اس کا مؤید ہو یا یہ معلوم ہو کہ اس شخص نے بغیر مروی عنہ کا نام لئے جو یہ حدیث بیان کی ہے تو اس کا قاعدہ اور عادت ہی یہ ہے کہ یہ شخص جب کوئی حدیث مرسلاً بیان کرتا ہے تو عادل شخص ہی اس کا مروی عنہ ہوتا ہے۔ اس جگہ مرسل طاؤس صحیح ہے کیونکہ اس کی تائید مرسل عبداللہ بن مغفل سے ہورہی ہے اور یہ سلسلہ حسن بھی ہے اور مسند انس صحیح ہے یا حسن ہے البتہ مسند ابن مسعود ضعیف ہے۔ اگر سوال کیا جائے کہ صحیحین میں حضرت انس کی روایت تمام روایات سے زیادہ قوی اور زیادہ قابل ترجیح ہے تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ صحیحین کی حدیث سند کے اعتبار سے ضرور صحیح ہے لیکن معنی کے لحاظ سے کمزور ہے کیونکہ اس کا تصادم ان احادیث سے ہو رہا ہے جو تقریباً متواتر ہیں اور نجاست کے اختلاط سے پانی کے نجس ہونے پر دلالت کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ ہے کہ ترجیح کی تلاش ‘ تعارض کے وقت ہوتی ہے اور اس جگہ احادیث میں تعارض نہیں ہے بلکہ احادیث مذکورۃ الصدر میں مٹی کھودنے کا ذکر ہے اور حضرت انس کی حدیث مٹی کھودنے کے ذکر سے خاموش ہے اس لئے عمل کسی حدیث پر ترک نہیں کیا جائے گا۔ مسئلہ ازالۂ حدث کے لئے پانی کا استعمال کیا گیا ہو۔ یا صرف حصول ثواب کے لئے وضو کیا گیا ہو ‘ بہرحال ایسا مستعمل پانی جمہور کے نزدیک پاک ہے حسن کی روایت میں امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ایسا پانی نجس ہے بنجاست غلیظہ امام ابو یوسف کی روایت میں ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ایسے پانی کی نجاست خفیف ہے کیونکہ نجس ہونے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام محمد کی روایت ہے کہ آب مستعمل کے متعلق امام ابوحنیفہ کا قول جمہور کے مسلک کے مطابق ہے یعنی آب مستعمل پاک ہے عام حنفیہ جو آب مستعمل کو نجس کہتے ہیں ان کی دلیل حدیث بھی ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے صحیح مسلم میں آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی جنابت والا رکے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے ‘ ابو داؤد کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں ‘ تم میں سے کوئی رکے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے اور نہ اس میں غسل جنابت کرے اور یہ ممانعت تحریمی ہے اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ پانی نجس ہوجاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں یہ ممانعت تنزیہی ہے تحریمی نہیں ‘ کیونکہ احتمال ہے کہ جنابت والے کے بدن کا کوئی حصہ منی سے آلودہ ہو (اور یہ نجاست پانی میں گھل کر پانی کو ناپاک بنا دے ‘ اس صورت میں تو بالاتفاق پانی نجس ہوگا ‘ اختلاف تو نجاست حکمیہ کے متعلق تھا) یہ ممانعت ایسی ہی ہے ‘ جیسے بیدار ہونے والے کو بغیر ہاتھ دھوئے برتن میں ہاتھ ڈالنے کی ممانعت کی گئی تھی ‘ کیونکہ احتمال تھا کہ شاید رات میں ہاتھ نجاست حقیقیہ سے آلودہ ہوگیا ہو۔ حضور ﷺ نے خود بطور اشارہ فرما دیا تھا فانہ لا یدری این باتت یدہرہا قیاس سے استدلال تو وہ ظاہر ہے کہ نجاست حقیقیہ جس پانی کو استعمال کر کے دور کی جاسکتی ہے وہ نجس ہوجاتی ہے پس اسی پر قیاس ہم اس پانی کے استعمال کو کریں گے جو ازالۂ حدث کے لئے یا حصول ثواب کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔ علت مشترکہ استعمال ہے۔ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ قیاس غلط ہے۔ مقیس اور مقیس علیہ میں وجہ تفریق موجود ہے نجاست حقیقیہ جس پانی کو استعمال کر کے دور کی جاتی ہے وہ نجس تو اس لئے ہوتا ہے کہ اس میں نجاست کے اجزاء مخلوط ہوجاتے ہیں اور نجاست حکمیہ کو دور کرنے والے پانی میں نجاست حکمیہ کے اجزاء شامل نہیں ہوتے کیونکہ حدث (خواہ اصغر ہو یا اکبر بہرحال) ایک امر حکمی ہے اور ایسی نجاست کے اجزاء نہیں ہوتے اور نہ ایسی نجاست کو زائل کرنے کے اجزاء ہوتے ہیں اگر پانی سے کوئی ایک عضو دھو لیا جائے تو کیا طہارت ہوجائے گی ایسا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ جنابت والا جب تک کل بدن نہ دھوئے اور وضو کرنے والا جب تک چاروں اعضاء نہ دھولے طہارت نہیں ہوتی اس سے معلوم ہوا کہ وضو کے پانی کا ایک ایک جز پاک ہے (کیونکہ اس نے نجاست حکمیہ کو دور نہیں کیا) لہٰذا پورا آب مستعمل بھی پاک ہے کیونکہ پاک قطرہ جب پاک قطرہ سے ملے گا تو مجموعہ ناپاک نہیں ہوسکتا۔ اگر صرف حصول ثواب کے لئے (وضو پر) وضو کیا جائے تو حنفیہ اس مستعمل پانی کو نجس کہتے ہیں اور ثبوت میں اس حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو وضو کرتا ہے اور اچھی طرح کرتا ہے اس کی خطائیں اس کے جسم سے نکل جاتی ہیں یہاں تک کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں متفق علیہ عن عثمان و مسلم عن ابی ہریرۃ نحوہ۔ یہ حدیث دلالت کر رہی ہے کہ گناہ بدن سے پانی کے ساتھ نکل جاتے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ گناہ گندگی ہیں جس طرح دوسری گندگیوں کے مخلوط ہوجانے سے پانی نجس ہوجاتا ہے اسی طرح گناہوں کی گندگی ملنے سے بھی نجس ہوجانا ضروری ہے۔ حنفیہ کا یہ استدلال بالکل غلط ہے کیونکہ گناہوں کی کوئی جسامت نہیں نہ وہ عوارض ہیں کہ پانی کے ساتھ مخلوط ہوجائیں۔ گناہ نجاست حقیقیہ کی طرح نہیں۔ ان کا بدن سے خارج ہونا نجاست حقیقیہ کے خارج ہونے کی طرح نہیں کہ جس کے مخلوط ہوجانے سے پانی نجس ہوجائے بلکہ گناہوں کے خارج ہونے کا معنیٰ ہے معاف ہوجانا بخشا جانا۔ اگر گناہ دوسری گندگیوں کی طرح ہوتے تو گناہگار مؤمنوں کی نماز (گناہوں سے آلودہ ہونے اور پاک نہ ہونے کی حالت میں) جائز ہی نہ ہوتی حالانکہ گناہ گار مؤمن کی نماز تو اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے ‘ اللہ نے فرمایا ہے (اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ ) رسول اللہ : ﷺ کا بھی ارشاد گرامی ہے کہ پانچوں نمازیں (درمیانی اوقات کے گناہوں کے لئے) اور جمعہ کی نماز آئندہ جمعہ تک (کے گناہوں) کے لئے اور رمضان (آئندہ) رمضان تک (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہیں درمیانی (اوقات و ایام کے) گناہوں کو اتار دینے والے ہیں بشرطیکہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔ رواہ مسلم عن ابی ہریرۃ۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی اجنبی عورت کا بوسہ لے لیا ‘ پھر حضور ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا اظہار کردیا ‘ اس پر آیت وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِالی آخرہ۔ نازل ہوئی۔ متفق علیہ۔ آب مستعمل کو جو لوگ پاک کہتے ہیں ان کے قول کی تائید متعدد احادیث سے ہوتی ہے۔ حضرت جابر کا بیان ہے میں بیمار تھا بےہوش پڑا تھا۔ رسول اللہ ﷺ میری عیادت کو تشریف لائے آکر وضو کیا اور وضو کا پانی میرے اوپر ڈالا ‘ مجھے فوراً ہوش آگیا ‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے وارث نہ میرے ماں باپ ہیں نہ اولاد ‘ اس پر آیت فرائض نازل ہوئی۔ متفق علیہ۔ حضرت سائب بن یزید کا بیان ہے ‘ مجھے میری خالہ رسول اللہ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا یہ میری بہن کا لڑکا دکھی ہے۔ حضور ﷺ نے برکت کی دعا کی ‘ پھر وضو کیا اور حضور ﷺ کے وضو کا پانی میں نے پیا ‘ متفق علیہ۔ حضرت مسور بن مخرمہ کی حدیث صلح حدیبیہ کے تذکرے کے ذیل میں آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب کوئی تھوک تھوکا تو خدا کی قسم وہ (زمین پر گرنے کے بجائے) کسی آدمی کے ہاتھ پر لگا اور اس نے اس لعاب کو اپنے بدن اور چہرے پر مل لیا۔ حضور ﷺ جب وضو کرتے تھے (لوگ وضو کے پانی کو لینے کے لئے ٹوٹ پڑتے تھے۔ اور) ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وضو کے پانی پر لڑ پڑیں گے۔ رواہ البخاری۔ مسئلہ ازالۂ حدث یا حصول ثواب کی خاطر جس پانی کو (غسل یا وضو کی شکل میں) استعمال کرلیا گیا ہو کیا اس سے نجاست حقیقیہ کو دور کیا جاسکتا ہے بالاتفاق علماء اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ ہاں جن لوگوں کے نزدیک ایسا پانی نجس ہوتا ہے ان کے نزدیک اس پانی سے نجاست حقیقیہ کو پاک نہیں کیا جاسکتا لیکن کیا اس پانی سے (دوبارہ) غسل اور وضو کیا جاسکتا ہے اس میں ائمہ کا اختلاف ہے ‘ امام محمد کے نزدیک جس پانی کو حصول ثواب کے لئے (بصورت وضو بالاء وضو) استعمال کرلیا گیا ہو اس سے دوبارہ غسل یا وضو نہیں ہوسکتا ‘ ایسا پانی پاک تو ہے لیکن پاک کن نہیں ہے امام زفر اور امام شافعی (رح) کے نزدیک ازالۂ حدث کے لئے جس پانی کو استعمال کرلیا گیا ہو اس سے غسل اور وضو جائز نہیں وہ طاہر ہے۔ مطہر (پاک کرنے والا) نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) : کا قول ہے جس پانی کا استعمال کرلیا گیا ہو خواہ ازالۂ حدث کے لئے یا حصول ثواب کے لئے بہرصورت وہ پاک تو ہے پاک کرنے والا نہیں ہے غیر مطہر ہونے پر حدیث سے بھی استدلال کیا گیا ہے اور قیاس سے بھی۔ حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی رکے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے۔ اس حدیث میں رکے ہوئے پانی میں غسل کرنے کی ممانعت فرمائی گئی اور اس ممانعت کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ پانی ناپاک ہوجاتا ہے یا یہ وجہ ہے کہ وہ مطہر نہیں رہتا استعمال کے بعد پانی کا نجس ہوجانا تو ناقابل تصور ہے صرف دوسری ہی شق باقی رہی یعنی وہ طہار تو ہے مطہر نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں ممانعت تحریمی نہیں تنزیہی ہے اور احتمال ہے کہ نجاست حقیقیہ ہو لیکن احتمال نجاست کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ پانی نجس ہوگیا ‘ طہارت یقینی احتمال و شک سے نجاست میں تبدیل نہیں ہوسکتی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مطہر ہونا مطلق پانی کا لازمی وصف ہے۔ ازالۂ حدث یا حصول ثواب کے لئے استعمال کردہ پانی کو غیر مطہر قرار دینے والے اس پانی کو زکوٰۃ پر قیاس کرتے ہیں ‘ علت مشترکہ جامعہ یہ ہے کہ زکوٰۃ سے اسقاط فرض بھی ہوتا ہے اور حصول ثواب بھی اس کی تفصیل و توضیح یہ ہے کہ اسقاط فرض اور عبادت مقصودہ (یعنی اقامت قربت) سے درمیانی ذریعہ میں کثافت اور کسی قدر گندہ پن ضرور آجاتا ہے لیکن اس حدیث تک نہیں کہ وہ نجس ہوجائے اسی لئے مال زکوٰۃ اپنی کثافت اور گندہ پن کی وجہ سے ہاشمیوں کے لئے ضرور حرام کردیا لیکن اس کو نجس نہیں قرار دیا گیا ‘ پس اسی طرح ازالۂ حدث یا حصول ثواب کے لئے پانی کا استعمال ایک حد تک پانی کو کثیف ضرور بنا دیتا ہے ‘ مطہر ہونے کی صفت ضرور جاتی رہتی ہے لیکن نجاست کی حد تک کثافت نہیں پہنچتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات قابل تسلیم نہیں کہ اسقاط فرض یا اقامت قربت سے (درمیانی ذریعہ میں) کثافت اور گندہ پن آجاتا ہے ‘ ہاشمیوں کے لئے مال زکوٰۃ کی حرمت تو صرف امر تعبدی ہے (غیر عقلی) مقام غور ہے کہ بدن اور لباس کے ذریعہ سے بھی تو نماز ادا کی جاتی ہے ان کو استعمال کرنے سے اسقاط فرض بھی ہوتا ہے اور حصول ثواب بھی لیکن ان دونوں میں سے کسی میں بھی اسقاط فرض یا اقامت قربت سے نہ کثافت آتی ہے نہ گندہ پن۔ اسی طرح قربانی کرنے سے اداء واجب ہوجاتا ہے اور اس سے قربانی کے گوشت میں نہ کثافت آتی ہے نہ گندہ پن ‘ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کا گوشت تناوّل فرمایا تھا۔ اس کے علاوہ مطلق پاک پانی کا مطہر ہونا پانی کی لازمی صفت ہے (جب پاک ہوگا تو پاک بھی کرے گا) کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے (لَمْ تَجِدُْ مَاءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا) مطلق پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم دیا گیا ہے اور آب مستعمل بہرحال مطلق پانی کے ذیل میں آتا ہے اس لئے مستعمل پانی کی موجودگی میں تیمم جائز نہ ہوگا بلکہ اسی پانی سے وضو واجب ہوگا۔ اگر شبہ کیا جائے کہ مستعمل پانی مطلق پانی کے ذیل میں نہیں آتا۔ مطلق پانی تو وہی ہوگا جس میں کوئی کثافت نہ ہو ایسے پانی سے تو بہرحال نماز کے لئے وضو جائز ہے مطلق پانی کہنے سے آب مقید آب نجس اور کثافت والا گندہ پانی خارج ہوگیا۔ ہم کہتے ہیں کہ اوّل تو یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ آب مستعمل میں کوئی ایسی چیز شامل ہوجاتی ہے (جو آب مطلق کی فہرست سے اسکو خارج کردیتی ہے اور) جس کی موجودگی کی وجہ سے اس پانی سے وضو ناجائز ہوجاتا ہے یہ تو مصادرہ ہے (جو دلیل ہے وہی دعویٰ ہے دلیل دعویٰ پر موقوف ہے) دوئم یہ کہ مطلق پانی لغوی اعتبار سے وہی ہوتا ہے جس پر لفظ آب کا اطلاق بلاقید ہوتا ہو اور اس میں شک نہیں کہ مطلق پانی کہنے میں پاک پانی ‘ نجس پانی جس کا کوئی وصف نہ بدلا ہو (نہ رنگ ‘ نہ مزہ ‘ نہ بو) نیز مستعمل پانی خواہ اس کا استعمال حصول ثواب کے لئے کیا گیا ہو یا صرف گرمی دور کرنے کے لئے سب ہی داخل ہیں۔ اسی لئے زہری کا قول ہے کہ کتا جب کسی کے برتن میں منہ ڈال دے اور دوسرا پانی وضو کرنے کے لئے موجود نہ ہو تو اسی سے وضو کرلے (تیمم نہ کرے) سفیان ثوری نے کہا بعینہٖ یہی فقہی مفہوم ہے آیت فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءَ اَفَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا۔ کا (یعنی مطلق پانی نہ ملے تو تیمم کرلو) بخاری نے اس کو تعلیقاً ذکر کیا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے ہم کو استعمال نجاست سے منع کردیا ہے اور ان سے پرہیز رکھنے کی ہدایت فرما دی ہے صریح آیت ہے وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ ۔ اور آیت وضو میں فرمایا ہے وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرُکُمْحضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے مسلم نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو (برتن میں جو کچھ پانی ہو) اس کو بہا دے پھر برتن کو سات مرتبہ دھو ڈالے ‘ دوسری حدیث میں آیا ہے ان گندگیوں (اور نجاستوں) میں سے کسی گندگی میں اگر کسی کو مبتلا ہونا پڑجائے تو بندش خدا کے مطابق بچا رہے۔ ایک اور آیت میں اللہ نے فرمایا ہے یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَآءِثَاب اگر کسی کو نجس پانی مل جائے تو حقیقت میں اس کو شرعی پانی نہیں ملا کیونکہ شریعت نے نجس پانی کے استعمال کی ممانعت فرما دی ہے جیسے کوئی کنویں کے کنارہ پر بیٹھا ہو اور ڈول (رسی) نہ ہو تو ظاہر ہے کہ فطری قدرتی طور پر پانی کو استعمال کرنا اس کے لئے ممنوع ہوگیا طبعاً وہ خود کنویں میں گر نہیں سکتا ‘ اسی طرح بیمار کے پاس پانی ہو (اور شدت مرض کے خوف سے) اس کے لئے شرعاً اور طبعاً استعمال سے روک حاصل ہوگئی ہے ممنوع شرعی کا حکم ممنوع طبعی کی طرح ہے ‘ رہا مستعمل پانی تو چونکہ وہ پاک ہے اس لئے اس کا استعمال ممنوع شرعی نہیں۔ اب جس کو آب مستعمل مل جائے تو اس کے لئے حقیقت میں بھی پانی مل گیا اور شرعی اعتبار سے بھی اس کے لئے ممانعت نہیں ہے اس لئے اس کی موجودگی میں تیمم جائز نہیں ہوسکتا اسی کو استعمال کرنا چاہئے وہ یقینا (طاہر ہونے کے علاوہ) مطہر بھی ہوگا۔ مسئلہ پانی میں اگر کوئی پاک چیز گرجائے اور پانی (کے تینوں اوصاف میں سے) کوئی وصف نہ بدلا اور پانی کے قوام میں بھی کوئی اضافہ نہ ہوا ہو تو اس سے باتفاق علماء وضو جائز ہے۔ لیکن اگر کوئی ایک یا ایک سے زیادہ وصف میں تغیر آگیا ہو اور اس سے اجتناب دشوار ہو جیسے برسات کے موسم میں مٹی یا پتوں کے ملنے سے پانی کے بعض اوصاف بدل جاتے ہیں تو اس سے بھی بالاتفاق وضو جائز ہے بشرطیکہ پانی کی طبعی حالت یعنی رقت باقی ہو اس میں تغیر نہ آیا ہو جیسے ایک جگہ پڑا رہنے سے پانی کی حالت ہوجاتی ہے لیکن اگر اس سے اجتناب دشوار نہ ہو جیسے سرکہ یا زعفران ملا ہوا پانی یا اشنان کا آمیختہ ایسی حالت میں اگر پانی کا کوئی ایک وصف بدل گیا ہو تو امام شافعی کے نزدیک اس سے وضو جائز نہیں ‘ کیونکہ ایسا پانی اب مطلق نہیں رہا آب مقید ہوگیا (یعنی عرق ہوگیا) اور آب مطلق نہ ہو تو تیمم کا حکم ہے (لہٰذا تیمم کیا جائے) ۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا اس سے وضو جائز ہے ہاں اگر کوئی جامد چیز آمیختہ ہوجائے جس سے پانی میں گاڑھا پن آگیا یا پانی کے بیشتر اوصاف بدل گئے جیسے نبیذ کی حالت ہوتی ہے (نبیذ جیسا نیدہ۔ پانی میں کوئی چیز بھگوئی ہوئی یا حد خاص تک پکائی ہوئی) یا کوئی سیال چیز ہی زیادہ مقدار میں پانی میں مل گئی ہو کہ اس کی مقدار کے مقابلے میں پانی کے اجزاء کم ہوں یا پانی کے اکثر اوصاف بدل گئے ہوں یا اس کو پانی میں پکایا گیا ہو جس کی وجہ سے پانی کی طبیعت ہی بدل گئی ہو جیسے شوربہ آیا آب باقلیٰ تو اس سے وضو جائز نہیں لیکن اگر آمیزش سے مقصود ہو پانی کا ستھرا پن بڑھانا جیسے آس اور بیری کے پتے اور اشنان تو اس سے وضو درست ہے۔ اگر پاک چیز کی آمیزش سے پانی میں تھوڑا سا تغیر آجائے تو کوئی حرج نہیں۔ ابن خزیمہ اور نسائی نے حضرت ام ہانی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت میمونہ نے ایک بڑے لگن سے غسل کیا جس میں گوندھے ہوئے آٹے کے آثار موجود تھے۔ بخاری نے حضرت ام عطیہ انصاریہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ : کی صاحبزادی کی وفات ہوئی تو حضور ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا اس کو تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار جتنا مناسب سمجھو پانی اور بیری کے پتوں سے (یعنی بیری کے پتوں کے ساتھ گرم کئے ہوئے پانی سے) غسل دینا اور آخری بار کچھ کافور شامل کر دینایا فرمایا کافور شامل کردینا۔ بزار نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ثمامہ بن اثال مسلمان ہونے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرلیں قیس بن عاصم کی حدیث میں بھی یہی آیا ہے کہ وہ مسلمان ہونے لگے تو حضور ﷺ نے ان کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرنے کا حکم دیا۔
Top