Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 19
فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ١ۙ فَمَا تَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْفًا وَّ لَا نَصْرًا١ۚ وَ مَنْ یَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِیْرًا
فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ : پس انہوں نے تمہیں جھٹلا دیا بِمَا تَقُوْلُوْنَ : وہ جو تم کہتے تھے (تمہاری بات) فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ : پس اب تم نہیں کرسکتے ہو صَرْفًا : پھیرنا وَّلَا نَصْرًا : اور نہ مدد کرنا وَمَنْ : اور جو يَّظْلِمْ : وہ ظلم کرے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے نُذِقْهُ : ہم چکھائیں گے اسے عَذَابًا : عذاب كَبِيْرًا : بڑا
تو (کافرو) انہوں نے تو تم کو تمہاری بات میں جھٹلا دیا۔ پس (اب) تم (عذاب کو) نہ پھیر سکتے ہو۔ نہ (کسی سے) مدد لے سکتے ہو۔ اور جو شخص تم میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو بڑے عذاب کا مزا چکھائیں گے
فقد کذبوکم بما تقولون پس تمہارے معبود ہی (قیامت کے دن) تمہارے قول کی تکذیب کریں گے۔ یہ خطاب دنیا میں مشرکوں کو ہے ‘ یعنی آخرت میں تمہارے معبود تمہارے قول کی تکذیب کریں گے چونکہ قیامت میں ہونے والا واقعہ یقینی تھا اس لئے مستقبل کی تعبیر بصیغۂ ماضی کی جیسے اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْمیں۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ ہم قیامت کے دن مشرکوں سے کہیں گے کہ تمہارے معبود ہی تم کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ بِمَا تَقُوْلُوْنَ یعنی یہ بات جو تم کہتے ہو کہ یہ ہمارے معبود ہیں یا کہتے تھے کہ ہمارے ان معبودوں نے ہم کو گمراہ کیا ‘ اس بات کی تکذیب تمہارے معبودوں نے ہی کردی ہے۔ فما تستطیعون صرفا ولا نصرا سو اب تم نہ (عذاب کو) لوٹانے کی طاقت رکھتے ہو نہ مدد کی۔ یعنی تمہارے معبود نہ عذاب کو پھیرنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ تمہاری مدد کرنے کی۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم عذاب کو پھیرنے کی طاقت رکھتے ہو نہ اپنی مدد کرنے کی۔ بعض نے کہا صرف کا معنی ہے حیلہ تدبیر ‘ عرب کہتے ہیں۔ فلانٌ یتصرف فلاں شخص کچھ حیلہ کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اب تم نہ کوئی حیلہ کرسکتے ہو نہ مدد۔ ومن یظلم منکم نذقہ عذابا کبیرا۔ اور (اے انسانو ! ) تم میں سے جو کوئی ظلم (یعنی شرک) کرے گا ہم اس کو بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ اس ترجمہ پر ظلم سے مراد ہوگا شرک ‘ اس صورت میں شرک کی سزا یعنی عذاب باتفاق علماء لازم ہے اور اگر ظلم کے اندر فسق کو بھی شامل قرار دیا جائے تو پھر سزا کا لزوم عمومی نہ ہوگا بلکہ عدم مانع کے ساتھ مشروط ہوگا ‘ یعنی گناہ کبیرہ کی سزا ضروری نہیں قرار پائے گی۔ توبہ اور طاعت کے بعد بالاتفاق ساقط کردی جائے گی اور (بغیر توبہ کے بھی) ہمارے نزدیک (برحمت خداوندی یا بشفاعت) معاف ہوسکتی ہے۔ واحدی نے بطریق جویبر اور بغوی نے بطریق ضحاک اور ابن جریر نے بروایت سعید و عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ جب مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ پر مفلس و نادار ہونے کا طنز کیا اور کہا مَا لہذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواقتو حضور ﷺ : کو اس سے رنج ہوا اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top