Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 82
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ آمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوْا : اور انہوں نے کئے الصَّالِحَاتِ : اچھے عمل اُولٰئِکَ : یہی لوگ اَصْحَابُ الْجَنَّةِ : جنت والے هُمْ فِیْهَا : وہ اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے تو ایسے لوگ اہل جنت ہیں وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے ۔3
3 اور یہودیوں نے یہ بھی کہا کہ ہم کو گنتی کے چند ایام کے سوا دوزخ کی آگ چھوئیگی بھی نہیں آپ ان سے فرمائیے کیا تم نے اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ لے لیا ہے کہ وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا یا ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے یوں نہیں بلکہ تم ہمیشہ آگ میں رہو گے کیونکہ ہمارا ضابطہ یہ ہے کہ جس نے قصداً گناہ کا ارتکاب کیا اور گناہ کرتا رہا اور اس کے گناہوں نے اس کو سب طرف سے گھیر لیا تو ایسے ہی لوگ اہل جہنم اور دوزخی ہیں اور وہ اس دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو یہ لوگ اہل جنت ہیں وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے ۔ (تیسیر) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہود کا یہ خیال تھا کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار برس ہے ہر ہزار سال کے بدلے ایک دن ہم لوگ آگ میں رہیں گے اور سات دن کے بعد عذاب منقطع ہوجائیگا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ہم لوگوں نے چالیس دن بچھڑے کی پرستش کی ہے بس چالیس دن آگ میں رہیں گے پھر نکال لئے جائیں گے۔ ابوہریرہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فتح خیبر کے روز یہود کو جمع کر کے دریافت کیا کہ دوزخی کون لوگ ہیں یہود نے جواب دیا کہ تھوڑے دن تو ہم لوگ رہیں گے اس کے بعد تم ہماری جگہ بھیج دیئے جائو گے حضور ﷺ نے فرمایا تم جھوٹے ہو ہم تمہاری جگہ نہ جائیں گے بلکہ تم ہی اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہو گے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ ایک دن یہود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جمع تھے اور کچھ کہہ سن رہی تھی یہود نے کہا ہم لوگ تو جہنم میں صرف چند روز کے لئے جائیں گے پھر ہمارے جانشین اور لوگ ہوجائیں گے اور حضور ﷺ کی طرف اشارہ کیا آپ ؐ نے فرمایا، خدا تمہارا منہ کالا کرے ۔ ہم انشاء اللہ تمہارے قائم مقام نہ ہوں گے بلکہ تم ہی اس میں سدا رہو گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض اکابر فرماتے ہیں یہود چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھے تھے اور حضرت عیسیٰ اور نبی آخر الزمان کی نبوت کے منکر تھے اور حضرت موسیٰ کی شریعت کو منسوخ نہ سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اگر ہم اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں گئے بھی تو ایمان کی وجہ سے ہمیشہ تو اس میں رہیں گے نہیں تھوڑے دنوں میں نکل آئیں گے حالانکہ ان کے دعویٰ کی بنیاد ہی غلط ہے۔ حضرت مسیح اور نبی آخر الزماں ؐ کی نبوت کے انکار کی وجہ سے وہ کافر ہیں اور کافر کو ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ بہرحال نزول کا واقعہ خواہ کچھ بھی ہو اور اسی طرح اس دعویٰ کے وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں اللہ تعالیٰ نے جو جواب دیا وہ یہ ہے کہ کیا تم نے خدا سے کوئی عہد یا وعدہ لیا ہے کہ وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا پھر اگر وعدہ نہیں ہے تو اللہ پر بغیر کسی ایسی سند اور دلیل کے جس کا تم کو علم نہیں کیوں باتیں بناتے ہو۔ امام رازی نے یہاں عہد کے معنی وعدہ کئے ہیں اس جواب کے بعد ایک اصول اور ضابطہ فرمایا کہ تم ضرور ہمیشہ کے لئے آگ میں رہو گے کیونکہ ہمیشگی کا قاعدہ یہ ہے کہ کہ کافر کے لئے ہمیشہ آگ ہے اور وہ مومن جو عمل صالح کا پابند ہے اس کے لئے ہمیشہ جنت ہے چناچہ کافر کے لئے دو باتیں فرمائیں جس نے گناہ کمایا اور اس کے گناہ نے اس کو سب طرف سے گھیر لیا حتیٰ کہ کسی نیکی کا اثر ہی باقی نہ رہا اور یہ گھیرا ایسا پڑا کہ دل میں ایمان اور تصدیق بھی باقی نہ رہی تو ظاہر ہے کہ اس قسم کا احاطہ کفار ہی کے ساتھ مخصوص ہے لہٰذا اس آیت میں ان لوگوں کے لئے کوئی حجت نہیں ہے جو کبیرہ کے مرتکب پر بھی ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنے کا حکم لگاتے ہیں کیونکہ آیت میں صرف گناہ کمانا نہیں ہے بلکہ گناہ کمانے کے ساتھ اس کے گناہ تمام اطراف و جوانب سے اس کا احاطہ بھی کرلیں اور احاطہ کی جو تقریر ہم نے کی ہے اس کے بعد صرف کافر ہی رہ جاتے ہیں جو ہمیشہ عذاب میں رہیں گے اور اگر سیئہ سے شرک یا کفر مراد لیا جائے جیسا کہ حضرت ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ، عکرمہ اور حسن اور حضرت ابوہریرہ اور عطا وغیر ہم کا قول ہے تو پھر مطلب صاف ہے کہ جس شخ نے شرک کا یا کفر کا ارتکاب کیا اور شرک و کفر نے اس کو اور سا کے دل کو ہر طرف سے گھیر لیا تو بس ایسے لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ وہ مومن جو گنہگار ہو اور بغیر توبہ کے مرجائے تو وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ایک نہ ایک دن جہنم سے نکل جائیگا لیکن کافر اور مشرک کو کبھی دوزخ سے نکلنا نصب نہ ہوگا ایک بات اور بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اہل جہنم کے ذکر میں تو فاولئک فرمایا اور اہل جنت کے ذکر میں بغیر فا کے اولئک فرمایا تو اس فرق میں یہ اشارہ ہے کہ شرک و کفر تو خلد و نار کا سبب واقعی ہے۔ لیکن ایمان اور عمل صالح خلد و جنت کا سبب واقعی نہیں ہے۔ بلکہ خلد و جنت محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ گھیر لیا گناہ نے یعنی گناہ کرتا ہے اور شرمندہ نہیں ہوتا۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے یہ وصف بھی کفر ہی کی علامت ہے۔ اگر یہ شبہ ہو کہ کافر بھی تو نیک کام کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حالت کفر میں کوئی نیکی قبول نہیں۔ نیز ان کو ان کے اچھے کاموں کا بدلہ دنیا ہی میں مل جاتا ہے۔ مان کان یریدالحیوۃ الدنیا و زینتھا الخ جس طرح دنیا میں کافر کو اس کے جرائم گھیر لیتے ہیں اسی طرح آخرت میں سب طرف سے اس کو جہنم گھیر لے گی۔ سورة عنکبوت میں ارشاد ہے۔ وان جھنم لمحیطہ بالکفرین عالم مثال میں کفر و شرک ہی کی شکل کا نام تو جہنم ہے اور جس کو یہاں گناہ کہا جاتا ہے اسی کا نام تو وہاں سانپ بچھو اور انگارے ہیں۔ (تسہیل)
Top