Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 256
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ : نہیں زبردستی فِي : میں الدِّيْنِ : دین قَدْ تَّبَيَّنَ : بیشک جدا ہوگئی الرُّشْدُ : ہدایت مِنَ : سے الْغَيِّ : گمراہی فَمَنْ : پس جو يَّكْفُرْ : نہ مانے بِالطَّاغُوْتِ : گمراہ کرنے والے کو وَيُؤْمِنْ : اور ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَقَدِ : پس تحقیق اسْتَمْسَكَ : اس نے تھام لیا بِالْعُرْوَةِ : حلقہ کو الْوُثْقٰى : مضبوطی لَا انْفِصَامَ : لوٹنا نہیں لَهَا : اس کو وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
دین میں کوئی زبردستی نہیں،989 ۔ ہدایت وگمراہی سے صاف صاف کھل چکی ہے،990 ۔ تو جو کوئی طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لے آئیں اس نے ایک بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا،991 ۔ جس کے لیے کوئی شکستگی نہیں،992 ۔ اور وہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے،993 ۔
989 ۔ دین کا تعلق اصلا عقیدۂ قلب سے ہے اور قلب پر جبرواکراہ کی گنجائش ہی نہیں، اس لیے گویا یہاں اس حقیقت کا اعلان ہے کہ ایمان کا تعلق اپنے ارادہ واختیار سے ہے جبرواضطرار پر نہیں۔ اے لم یجر اللہ امر الایمان علی الاجبار والقسر ولکن علی التمکین والاختیار (کشاف) ولولا ذلک لما حصل الابتلاء ولبطل الامتحان والی ذلک ذھب القفال (روح) قال ابو مسلم والقفال معناہ انہ ما بنی تعالیٰ امر الایمان علی الاجبار والقسر وانما بناہ علی التمکین والختیار (بحر) جزیہ کم فہموں نے اسلام میں جبر کی اصل سمجھا ہے حالانکہ اگر ذرا غور کریں تو معلوم ہوجائے کہ جزیہ کی مشروعیت عین اس کے برعکس خود اس دلیل ہے کہ مقصود اصلی قانون اسلام حکومت اسلام کو غالب رکھنا ہے نہ کہ فردا فردا ہر کافر کو بہ جبر مسلم بنانا، مفسر تھانوی (رح) نے کہا ہے کہ اکراہ کی نفی سے مقصود اکراہ فی نفسہ کی نفی ہے۔ اس لیے کہ اگر مرتد پر یا کافر حربی پر بوجہ خفائے دلیل کے اکراہ کیا جائے جیسا شریعت میں حکم ہے تو یہ نفی اکراہ فی نفسہ کے معارض نہیں اور یہ اکراہ بھی صورت دین پر ہوگا۔ نہ کہ حقیقت دین پر، کیونکہ قلب پر اطلاع کا کوئی یقینی طریق نہیں اور اس نفی اکراہ سے نہی عن الاکراہ بھی لازم آگئی۔ اس لیے بعض نے نہی کے ساتھ اس کی تفسیر کی ہے یعنی دین میں اکراہ مت کرو ای ھو من وضوح الدلائل والحجج بحیث لا یکون فیہ اکراہ بل یجب الدخول فیہ بانشراح صدرواختیار (نہر) (آیت) ” الدین “۔ دین سے مراد مطلق دین نہیں۔ دین اسلام ہے۔ والذین ھنا ملۃ الاسلام واعتقادۂ (بحر) 990 ۔ اور دلائل و شواہد نے دونوں کے درمیان علانیہ امتیاز پیدا کردیا ہے۔ (آیت) ” الرشد “ یعنی راہ اسلام (آیت) ” الغی “ طریق کفر۔ یعنی اب تو کفر واسلام کے درمیان بہت کھلے ہوئے فرق اور امتیازات پیدا ہوچکے ہیں۔ اب کسی پر خفاوالتباس کی کوئی وجہ نہیں ! 991 ۔ یعنی جس نے دین اسلام قبول کرلیا اور جو باطل کی پیروی سے باز آگیا اسے دنیا وآخرت میں ایک بڑا زبردست سہارا ہاتھ آگیا (آیت) ” الطاغوت “۔ طاغوت۔ کا صحیح ترجمہ مشکل ہی ہے۔ اردو میں اس لیے قریب ترین لفظ شیطان کا ہوسکتا ہے۔ اپنے عام ووسیع معنی میں عربی میں اس کا اطلاق ہر معبود باطل اور ہر سرکش پر ہوتا ہے۔ قال ابو اسحاق کل معبود من دون اللہ جبت وطاغوت (لسان) الطاغوت عبارۃ عن کل معبد و معبود من دون اللہ (راغب) مالک بن انس اور بعض اور اہل تفسیر بھی اسی عموم کی طرف گئے ہیں۔ قال مالک ابن انس کل ما عبد من دون اللہ تعالیٰ (روح) مردۃ من الجن والانس وکل ما یطغی (کبیر) ماعبد من دون اللہ تعالیٰ قالہ الطبری (بحر) 992 ۔ (نہ دنیا میں نہ آخرت میں) ۔ بندہ کا فاطر کائنات سے صحیح ونظری تعلق ہی کا نام دین اسلام ہے۔ یہ وہ زبردست سہارا ہے جس کے ہاتھ لگ جانے کے بعد زندگی کا ہر مرحلہ آسان ہوجاتا ہے اور ہر عقدہ کا حل مل جاتا ہے اور اس کے نتیجہ کے طور پر آخرت کی بھی منزلیں آسان رہتی ہیں۔ اس ایک سہارے کے سوا باقی سارے سہارے ناقص، کمزور اور بودے ہیں۔ بعض محققین صوفیہ نے کہا ہے کہ عروۃ الوثقی نسبت مع اللہ ہے۔ وہ حاصل ہوجانے کے بعد منقطع نہیں ہوتی۔ 993 ۔ (آیت) ” سمیع ‘ ‘۔ سننے والا الفاظ کا اوراقوال کا (آیت) ” علیم “ جاننے والا احوال کا اور اعمال کا۔ یعنی اللہ کو ظاہر و باطن، کلی، جزئی، ہر قسم کا علم واطلاع ہے۔ اللہ کی باخبری اور ہمہ علمی مسلمانوں کو ایک معمولی اور موٹی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن جاہلی قوموں میں ایک دو نہیں کثرت سے ایسی ہیں جو حق تعالیٰ کی صفت علم میں شبہ کرچکی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض جاہلی فلاسفہ یہ بھی کہہ گزرے ہیں کہ خدا کو علم صرف کلیات کا ہے جزئیات کا نہیں ہوتا۔ کلام مجید کی اس قسم کی آیتوں کی پوری قدر جبہی ہوتی ہے، جب دنیا کی جاہلی قوموں کے عقائد باطلہ پر نظر ہو۔۔۔ !
Top