Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 46
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ فَاطِرَ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین عٰلِمَ : اور جاننے والا الْغَيْبِ : پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر اَنْتَ : تو تَحْكُمُ : تو فیصلہ کرے گا بَيْنَ : درمیان عِبَادِكَ : اپنے بندوں فِيْ مَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
کہو کہ اے خدا (اے) آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے (اور) پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں میں ان باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں فیصلہ کرے گا
بارگاہ الٰہی میں مشرکین کے خلاف محاکمہ : آیت، کہہ دیجیے کہ اے اللہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے۔ ای یا فاطر یہ وصف نہیں جیسا مبرد و فراء کہتے ہیں۔ آیت، ظاہر و باطن کے جاننے والے، پوشیدہ اور اعلانیہ کو جاننے والے۔ آیت، آپ ہی فیصلہ فرمائیں گے، آیت، اپنے بندوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ فرمائیں گے جن میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے، ہدایت اور گمراہی میں سے، ایک قول یہ ہے یہ پیغمبر ﷺ کی طرف سے مشرکین کے متعلق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محاکمہ ہے۔ قول ربیع بن المسیب۔ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جس کے پڑھنے وقت کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ ربیع بن خثیم یہ بہت کم گفتگو کیا کرتا تھا۔ اس کو قتل حسین ؓ کی خبر دی گئی۔ لوگ کہنے لگے اب یہ بات کرتے گا مگر اس نے آہ کہی اور کہنے لگے کیا انہوں نے ایسا کردیا ہے ؟ اور یہ آیت پڑھی ایک روایت میں یہ ہے کہ ربیع نے سن کر کہا۔ وہ قتل ہوگئے جن کو حضور ﷺ گود میں بٹھاتے اور ان کے منہ پر اپنا منہ رکھتے تھے۔
Top