Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 46
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ فَاطِرَ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین عٰلِمَ : اور جاننے والا الْغَيْبِ : پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر اَنْتَ : تو تَحْكُمُ : تو فیصلہ کرے گا بَيْنَ : درمیان عِبَادِكَ : اپنے بندوں فِيْ مَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
تو کہہ اے اللہ پیدا کرنے والے آسمانوں کے اور زمین کے جاننے والے چھپے اور کھلے کے تو ہی فیصلہ کرے اپنے بندوں میں جس چیز میں وہ جھگڑ رہے تھے
خلاصہ تفسیر
آپ (ان کی شدت عناد سے محزون نہ ہو جئے اور اللہ سے دعا میں یہ) کہئے کہ اے اللہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے باطن اور ظاہر کے جاننے والے آپ ہی (قیامت کے روز) اپنے بندوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ فرما دیں گے جن میں باہم وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یعنی آپ ان معاندین کی فکر میں نہ پڑیئے، بلکہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کیجئے وہ خود عملی فیصلہ کردیں گے) اور (اس فیصلہ کے وقت یہ حالت ہوگی) کہ اگر ظلم (یعنی شرک وکفر) کرنے والوں کے پاس دنیا بھر کی تمام چیزیں ہوں اور ان چیزوں کے ساتھ اتنی چیزیں اور بھی ہوں تو وہ لوگ قیامت کے دن سخت عذاب سے چھوٹ جانے کے لئے (بےتامل) ان کو دینے لگیں (گو مقبول نہ ہو کما فی المائدة (آیت) ماتقبل منھم) اور خدا کی طرف سے ان کو وہ معاملہ پیش آوے گا جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا (کیونکہ اول تو آخرت کے منکر تھے پھر اس میں بھی اس کے مدعی تھے کہ وہاں بھی ان کو عزت و دولت ملے گی) اور (اس وقت) ان کو تمام اپنے برے اعمال ظاہر ہوجاویں گے اور جس (عذاب) کے ساتھ وہ استہزاء کیا کرتے تھے وہ ان کو آ گھیرے گا (یوں تو مشرک غیر اللہ کے ذکر سے مسرور اور صرف اللہ کے ذکر سے نفور رہتا ہے) پھر جس وقت (اس مشرک) آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو (جن کے ذکر سے مسرور ہوا کرتا تھا ان سب کو چھوڑ کر صرف) ہم کو پکارتا ہے (جس سے پہلے نفور تھا) پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیتے ہیں تو (اس توحید پر جس کا حق ہونا خود اس کے اقرار سے ثابت ہوچکا تھا قائم نہیں رہتا چناچہ اس نعمت کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کرتا بلکہ یوں) کہتا ہے کہ یہ تو مجھ کو (میری) تدبیر سے ملی ہے (اور چونکہ نسبت حق تعالیٰ کی طرف نہیں کرتا بلکہ اپنی تدبیر کا نتیجہ سمجھتا ہے اس لئے توحید پر قائم نہیں رہتا بلکہ اپنے قدیم طریقہ شرک کی طرف عود کر کے غیر اللہ کی عبادت میں لگ جاتا ہے۔ آگے حق تعالیٰ اس کے قول انما اوتیتہ کو رد فرماتے ہیں کہ نعمت اس کی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے) بلکہ وہ (نعمت خدا کی دی ہوئی اور اس کی طرف سے انسان کی) ایک آزمائش ہے (کہ دیکھیں اس کے ملنے پر ہم کو بھول جاتا ہے اور کفر کرتا ہے یا یاد رکھتا ہے اور شکر کرتا ہے اور اسی آزمائش کے لئے بعض نعمتوں میں اسباب و کسب کا واسطہ بھی رکھ دیا ہے۔ اس سے اور زیادہ آزمائش ہوگئی کہ دیکھیں اس ظاہری سبب پر نظر کرتا ہے یا علت حقیقیہ پر) لیکن اکثر لوگ (اس بات کو) سمجھتے نہیں (اس لئے اس کو اپنی تدبیر کا نتیجہ بتلاتے ہیں اور مبتلائے شرک رہتے ہیں آگے تفریح ہے کہ) یہ بات (بعض) ان لوگوں نے بھی کہی تھی جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں، جیسے قارون نے کہا تھا (آیت) انما اوتیتہ علیٰ علیم عندی یا جو لوگ منکر صانع کے ہو گزرے ہیں جیسے نمرود و فرعون۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی کسی نعمت کی نسبت خدا کی طرف نہ کرتے تھے بلکہ غیر مکتسب اور غیر اختیاری میں بخت و اتفاق کی طرف اور مکتسب و اختیاری میں ہنر اور تدبیر کی طرف نسبت کرتے تھے) سو ان کی کارروائی ان کے کچھ کام نہ آئی (اور مانع عن العذاب نہ ہوئی) پھر (مانع نہ ہو سکنے کے بعد واقع للعذاب بھی نہ ہوئی بلکہ) ان کی تمام بد اعمالیاں ان پر آپڑیں (اور سزا یاب ہوئے) اور (زمانہ حال کے لوگ یہ خیال نہ کریں کہ کچھ ہونا تھا اگلوں کے ساتھ ہوچکا بلکہ) ان میں بھی جو ظالم ہیں ان پر بھی ان کی بد اعمالیاں ابھی پڑنے والی ہیں اور یہ (خدا تعالیٰ کو) ہرا نہیں سکتے (چنانچہ بدر میں خوب سزا ہوئی، آگے اس کی دلیل بیان فرمائی کہ بعضے احمق جو نعمت و رزق کو اپنی تدبیر کی طرف منسوب کرتے ہیں تو) کیا ان لوگوں کو (احوال میں غور کرنے سے) یہ معلوم نہیں ہوا کہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے اور وہی (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگی بھی کردیتا ہے (اس بسط و قدر) میں (غور کرنے سے) ایمان والوں کے واسطے (کہ اہل فہم ہوتے ہیں اس بات پر) نشانیاں (یعنی دلائل قائم) ہیں (کہ باسط و قابض وہی ہے تدبیر و سوء تدبیر اس میں علت حقیقیہ نہیں، پس ان دلائل کو جو شخص سمجھ لے گا وہ اپنی تدبیر کی طرف نسبت نہ کرے گا بلکہ خدا کے منعم ہونے سے ذہول نہ کرے گا جو سبب ہوگیا تھا ابتلا بالشرک کا بلکہ وہ موحد رہے گا اور مصیبت و راحت میں اس کا حال و قال متناقص و متعارض نہ ہوگا۔

معارف و مسائل
(آیت) قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الایة۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عوف سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے صدیقہ عائشہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ رات کی نماز (یعنی تہجد) کو کس چیز سے شروع فرماتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ جب تہجد کی نماز کو اٹھتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔
اللھم رب جبریل ومیکائیل واسرافیل، فاطرالسموات والارض علم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون، اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم۔
قبولیت دعا
حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ مجھے قرآن کریم کی ایک ایسی آیت معلوم ہے کہ اس کو پڑھ کر آدمی جو دعا کرتا ہے قبول ہوتی ہے۔ پھر یہی آیت بتلائی۔
(آیت) اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الآیة۔ (قرطبی)
مشاجرات صحابہ کے متعلق ایک اہم ہدایت
حضرت ربیع ابن خیثم سے کسی نے حضرت حسین ؓ کی شہادت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے ایک آہ بھری اور اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ (آیت) قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ آلایة۔ اور فرمایا کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے متعلق جب تمہارے دل میں کوئی کھٹک پیدا ہو تو یہ آیت پڑھ لیا کرو۔ روح المعانی میں اس کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ یہ عظیم الشان تعلیم ادب ہے جس کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔
Top