Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 33
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
وَالَّذِيْ : اور جو شخص جَآءَ : آیا بِالصِّدْقِ : سچائی کے ساتھ وَصَدَّقَ : اور اس نے تصدیق کی بِهٖٓ : اس کو اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُتَّقُوْنَ : (جمع) متقی
اور جو شخص سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ متقی ہیں
وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖٓ (اور جو لوگ سچی بات لے کر آئے اور اس کو سچ جانا) ۔ رسول اللہ ﷺ سچ لے کر آنے والے ہیں اور اس پر ایمان لائے۔ اس سے آپ کی ذات گرامی اور وہ سب مراد ہیں جنہوں نے آپ کی اتباع کی۔ جیسا کہ اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) خود اور آپ کی قوم مراد ہے۔ ولقد آتینا موسیٰ الکتاب لعلہم یہتدون (المومنون :49) ۔ اسی لیے فرمایا اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُتَّـقُوْنَ (تو یہ لوگ پرہیز گار ہیں) قول زجاج : علی مرتضی ؓ سے مروی ہے کہ وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ سے محمد ﷺ مراد ہیں اور الذی صدق بہ سے ابوبکر صدیق ؓ مراد ہیں۔ اور روایت میں ہے کہ جاء بالصدق تو محمد ﷺ ہیں اور صدق بہ مومن ہیں اور ہر دو صحیح ہے علمائے مفسرین نے اسی طرح فرمایا۔ عربی اسلوب کے لحاظ سے اقرب بات یہ ہے کہ جاء اور صدق کا فاعل ایک ہو۔ کیونکہ تغایر سے الذی کو مضمر ماننا پڑے گا۔ حالانکہ اس کا ذکر پہلے موجود نہیں اور یہ بعید ہے۔
Top