Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 272
وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ١ؕ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ١ؕ وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ١ؕ وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر وَّلَمْ : اور نہ تَجِدُوْا : تم پاؤ كَاتِبًا : کوئی لکھنے والا فَرِھٰنٌ : تو گرو رکھنا مَّقْبُوْضَةٌ : قبضہ میں فَاِنْ : پھر اگر اَمِنَ : اعتبار کرے بَعْضُكُمْ : تمہارا کوئی بَعْضًا : کسی کا فَلْيُؤَدِّ : تو چاہیے کہ لوٹا دے الَّذِي : جو شخص اؤْتُمِنَ : امین بنایا گیا اَمَانَتَهٗ : اس کی امانت وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا تَكْتُمُوا : اور تم نہ چھپاؤ الشَّهَادَةَ : گواہی وَمَنْ : اور جو يَّكْتُمْهَا : اسے چھپائے گا فَاِنَّهٗٓ : تو بیشک اٰثِمٌ : گنہگار قَلْبُهٗ : اس کا دل وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْم : جاننے والا
اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز لکھنے والا مل نہ سکے) تو (کوئی چیز) رہن باقبضہ رکھ کر) قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے اور دیکھنا شہادت کو مت چھپانا جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
آیت 283: وَاِنْ کُنْتُمْ ۔ (اگر تم ہو) یعنی اے قرض خواہو۔ عَلٰی سَفَرٍ ۔ (سفر پر) یعنی سفر کی حالت میں وَلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا۔ (اور تم نہ پائو کاتب) فَرِہٰنٌ۔ (تو رہن رکھنا ہے) قراءت۔ ابو عمرو ٗ مکی نے فَرُہُنٌ پڑھا ہے۔ اور قابل اعتماد زیادہ رُہُنٌ ہے۔ دونوں رہن کی جمع ہیں۔ جیسے سَقْفٌ وَسُقُفٌ اور بَغْلٌ ٗ و بِغَالٌ اس طرح رہانٌ جمع ہے رہن اصل میں مصدر ہے اب تو نام بن گیا۔ پھر اسماء کی طرح اس میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ ارشادی حکم : سفر میں چونکہ عموماً گواہوں کے اور کاتبوں کے نہ ملنے کا گمان غالب ہے تو بطور ارشاد و راہنمائی کے حفاظت مال کی خاطررہن کا حکم دیا گیا تاکہ رہن کے ذریعہ امکانی حد تک اعتماد حاصل کرلیا جائے۔ اس بناء پر نہیں کہ رہن رکھنے کیلئے سفر ضروری ہے۔ مَّقْبُوْضَۃٌ(قبضہ کیا ہوا) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبضہ شرط نہیں۔ صرف ایجاب و قبول سے پورا ہوجاتا ہے۔ اظہارِ اعتماد : فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا (اگر تمہیں ایک دوسرے پر اعتماد ہو) یعنی اگر بعض قرضداروں اور قرض خواہوں کو ایک دوسرے پر حسن ظن ہو۔ تو پھر قرض دار کو چاہیے۔ کہ وہ اپنے ذمہ لازم ہونے والی رقم کو واپس کر دے کیونکہ اس نے رہن نہ لے کر اس پر اعتماد کا اظہار کیا۔ تو یہ اعتماد پر پورا اترے۔ یہاں دَیْن کو امانت کہا گیا۔ کیونکہ وہ اس کا ضامن بن گیا۔ کیونکہ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس نے رہن نہیں لیا۔ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ (اور اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ جو اس کا رب ہے) اور اس کے حق کا انکار نہ کرے۔ وَلَا تَکْتُمُوا الشَّہَادَۃَ (اور تم گواہی کو مت چھپائو) یہ گواہوں کو خطاب کیا گیا۔ وَمَنْ یَّکْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ ٰاثِمٌ قَلْبُہٗ (جو اس کو چھپاتا ہے پس اس کا دل گنہگار ہے) نحو : قَلبُہ کا لفظ مرفوع ہے کیونکہ یہ آثم کا فاعل ہے تقدیر عبارت یہ ہے۔ فانہ آثم قلبہ یا قَلبُہ مبتداء اور آثم خبر مقدم ہے اور یہ جملہ اِنّ کی خبر ہے۔ ایک سوال : اعتراض : اثم کی نسبت قلب کی طرف ہے حالانکہ وہ سارا ہی گنہگار ہے نہ کہ صرف دل نسبت کی تین وجوہ : جواب : کیونکہ گواہی دل ہی میں چھپائی جاتی ہے اور اس کو منہ سے نہیں بولتا۔ جب گناہ کمانے میں دل ساتھی بنا۔ تو اس کی طرف نسبت کردی گئی۔ کیونکہ فعل کی نسبت آلہ عمل کی طرف بلیغ تر ہے۔ جیسا تم کہو۔ ہذا مما ابصرتہ عینی۔ یہ وہ چیز ہے جس کو میری آنکھ نے دیکھا ہے۔ او مما سمعتہ اذنی و مما عرفہ قلبی۔ اور کان نے سنا اور دل نے پہچانا۔ 2 دوسری وجہ : یہ ہے کہ دل رئیس الاعضاء ہے اور جسم کا وہ ٹکڑا ہے کہ اگر یہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر یہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ گویا اس طرح فرمایا گیا کہ گناہ اس کے دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوچکا ہے اور اس کے سب سے اعلیٰ مقام پر قابض ہوچکا۔ 3 تیسری وجہ : یہ ہے افعال قلوب، اعمال جوارح سے عظیم تر ہیں۔ ذرا غور تو کرو۔ کہ تمام حسنات وسیئات کی جڑ ایمان و کفر ہے۔ اور یہ دونوں دل کے فعل ہیں۔ چناچہ جب کتمان شہادت کو آثام قلب سے قرار دیا۔ تو گویا اس کے لئے گواہی دے دی۔ کہ یہ عظیم گناہوں سے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اکبر الکبائر یہ ہیں۔ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا۔ جھوٹی گواہی دینا۔ گواہی چھپانا وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ (اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے) یعنی کتمان شہادت اور اظہار شہادت سے عَلِیْمٌ (واقف ہیں) اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔
Top