Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 43
اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ١ؕ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ
اَرَءَيْتَ : کیا تم نے دیکھا ؟ مَنِ اتَّخَذَ : جس نے بنایا اِلٰهَهٗ : اپنا معبود هَوٰىهُ : اپنی خواہش اَفَاَنْتَ : تو کیا تم تَكُوْنُ : ہوجائے گا عَلَيْهِ : اس پر وَكِيْلًا : نگہبان
کیا آپ نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنے نفسانی خواہش ہی کو اپنا معبود بنا رکھا ہو ؟ کیا آپ اس کو ہدایت پر لانے کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں ؟
53 اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا دینے والوں کا حال : سو ارشاد فرمایا گیا اور استفہام کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا تم نے اس شخص کے حال پر بھی کبھی غور کیا جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا رکھا ہو ؟ "۔ یعنی نفس کی خواہش نے جو چاہا وہی کیا۔ جائز و ناجائز اور حرام و حلال کی کوئی پرواہ نہ کی۔ اور وہ شتر بےمہار کی طرح آزادانہ اپنی خواہشات کے پیچھے ہی چلا۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ کفار قریش کو جب کوئی عمدہ اور چمکتا پتھر نظر آتا تو وہ اسی کا بت بنا کر پوجنے لگتے۔ اور جب اس سے دوسرا کوئی اچھا اور چمکیلا پتھر مل جاتا تو اس کو چھوڑ کر اس کو پوجنے لگتے۔ جس طرح آج کل کے بہت سے کلمہ گو مشرکوں اور جاہل مسلمانوں کا حال ہے کہ جو کوئی بڑا درخت یا پتھر نظر آیا یا کوئی گری پڑی قبر مل گئی وہیں جھنڈے گاڑ دئیے اور شرک کا کاروبار شروع کردیا۔ " توڑی شاہ "، " لسوڑی شاہ "، " کھٹے شاہ "، " میٹھے شاہ "، " کانواں والی سرکار "، " بلیوں والی سرکار " وغیرہ وغیرہ کوئی سا نام رکھ لیا۔ اس پر چڑھاوے چڑھوانے، نذریں منوانے اور طرح طرح کی رنگ رلیاں منانے کا کام شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اونے کے پونے ہوگئے۔ چاندی بکھرنے لگی اور خزانے جڑنے لگے۔ اور جو کوئی اللہ کا بندہ شرک کے اس کاروبار کے خلاف آواز اٹھائے اس پر گستاخ ہونے کی پھبتی کس دی اور حسب خواہش جو فتویٰ چاہا جڑ دیا۔ اور ایسے لوگ اس طرح عوام الناس کی کالی بھیڑوں کی اون برابر مونڈھتے چلے گئے۔ نہ خدا کا خوف نہ آخرت کی فکر۔ نہ قرآنی تعلیمات کا پتہ نہ سنت رسول سے مس۔ اور اگر کسی کو کچھ شد بدھ ہے بھی تو وہ الٹا نصوص قرآن و سنت کی تحریف و تغییر کے درپے ہوگیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور بجائے اس کے کہ وہ جاہل دنیا کو اس کاروبار شرک سے روکتا اور ان کو اس پر ٹوکتا وہ الٹا ان کیلئے جواز کے دلائل گھڑنے میں لگ گیا۔ اور اس طرح ایسے کاروبار شرک میں شریک و شامل ہوگیا جس کا نتیجہ وانجام ہولناک تباہی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 54 ہٹ دھرموں اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور استفہام انکاری کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا آپ ایسے شخص کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں ؟ "۔ استفہام یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی آپ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے اور نہ ہی یہ آپ کے بس میں ہے۔ معلوم ہوا کہ خواہشات نفس کی پرستش و پیروی اور ہٹ دھرمی خرابی اور فساد کی وہ جڑ ہے جس کے بعد پند و نصیحت کی کوئی بات اثر نہیں کرتی خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہستی کی طرف سے کیوں نہ ہو کہ اصل چیز ہے طلب صادق جس پر نور حق و ہدایت سے سرفرازی کا مداروانحصار ہے۔ اور اس سے ایسے لوگ محروم ہوتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو بطن و فرج کی خواہشات کی تکمیل کو اپنا مقصد بنالینا بیماریوں کی بیماری اور محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ انسان کے اندر راہنمائی کا چراغ اس کی عقل ہے۔ اور اس کی روشنی کو درجہ کمال تک پہنچنے کیلئے ہدایت وحی کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے انسان کا باطن بھی روشن ہوجاتا ہے اور وہ نور علی نور کا مصداق بن کر حق و ہدایت کی اس شاہراہ پر گامزن ہوجاتا ہے جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے ہمکنار و سرفراز کرتی ہے۔ لیکن جب بدبخت انسان نور حق و ہدایت سے منہ موڑے اور اپنی عقل کے جوہر منیر کو معطل کرکے اپنے نفس کی باگ ڈور اپنی خواہشات کے ہاتھ میں پکڑا دے تو پھر اس کی اصلاح اور کس طرح ہوسکتی ہے اور آپ اس کی ہدایت و اصلاح کے ذمہ دار کس طرح ہوسکتے ہیں ؟ سو انسان کے بناؤ بگاڑ کا تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے۔
Top