Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 48
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ : نہیں زبردستی فِي : میں الدِّيْنِ : دین قَدْ تَّبَيَّنَ : بیشک جدا ہوگئی الرُّشْدُ : ہدایت مِنَ : سے الْغَيِّ : گمراہی فَمَنْ : پس جو يَّكْفُرْ : نہ مانے بِالطَّاغُوْتِ : گمراہ کرنے والے کو وَيُؤْمِنْ : اور ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَقَدِ : پس تحقیق اسْتَمْسَكَ : اس نے تھام لیا بِالْعُرْوَةِ : حلقہ کو الْوُثْقٰى : مضبوطی لَا انْفِصَامَ : لوٹنا نہیں لَهَا : اس کو وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
کوئی (زور و) زبردستی نہیں دین (کے معاملے) میں، یقینا رشد (و ہدایت کی روشنی) پوری طرح واضح (ہو کر الگ) ہوچکی ہے گمراہی سے،2 سو جو کوئی انکار کرے گا طاغوت کا، اور ایمان لائے گا اللہ پر، تو اس نے تھام لیا ایک ایسا مضبوط سہارا جس نے کبھی ٹوٹنا نہیں،3 اور اللہ (جس کا سہارا ایسے شخص نے تھام لیا ہے) بڑا ہی سننے والا ہے، سب کچھ جاننے والا ہے،
737 دین حق کے لیے کوئی جبر واکراہ نہیں : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اسلام و ایمان کیلئے نہ جبر ہے نہ ہوسکتا ہے۔ راہ حق و ہدایت پوری طرح واضح ہو کر گمراہی سے الگ ہوچکی ہے، اور اس درجہ میں کہ اب حق اور باطل کو جاننے پہچانے میں کسی کیلئے کوئی خفاء و غموض باقی نہیں رہ گیا۔ اب جس کی مرضی ایمان لائے، کہ اس میں اس کا خود اپنا ہی بھلا ہے، اور جو اس سے منہ موڑے گا تو وہ خود اپنا ہی نقصان کریگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو دنیا کے اس دارالامتحان میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ ان دونوں راہوں میں سے جس کو چاہے اختیار کرے۔ زور زبردستی کا اس میں کیا سوال۔ زور زبردستی کا سوال تو وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں انسان کو کسی مضریا ناگوار چیز پر مجبور کیا جائے۔ اور جب ایمان نام ہے دل سے ماننے اور قبول کرنے کا تو پھر اس میں کسی اور زبردستی کا کوئی عمل دخل ہو ہی کیسے سکتا ہے ؟ کہ دل کی نیت اور ارادہ تو انسان کے اپنے ہی اختیار میں ہے۔ سو ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے کے لئے نہ کسی جبر واکراہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی مجبوری کا اور جبری ایمان مفید و معتبر ہے کہ معتبر وہی ایمان ہے جو اپنے ارادہ و اختیار سے ہو۔ 738 ایمان باللہ سب سے مضبوط سہارا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جس نے طاغوت کا انکار کیا، اور وہ اللہ پر صدق دل سے ایمان لے آیا تو اس نے ایک بڑے ہی مضبوط سہارے کو اپنا لیا۔ اور اس طرح اس نے ایمان باللہ کے مضبوط حلقے کو تھام کر اپنے آپ کو گمراہی اور ہلاکت و تباہی کے ہاوئیے اور ہولناک گڑھے میں گرنے سے بچا لیا، اور خود اپنا ہی بھلا کیا۔ سو ایمان باللہ یعنی اللہ پر سچے دل سے ایمان لانا اور طاغوت کا انکار، اور اس سے کفر کرنا ایسا مضبوط سہارا ہے جو انسان کو دارین کے مہالک سے بچا کر حقیقی کامیابی اور دائمی سرفرازی سے بہرہ ور کرتا ہے۔ سو اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کو بھیج کر اتمام حجت کا سامان کردیا، اور حق کو باطل سے بدرجہ تمام و کمال نکھار کر الگ کردیا تو اب جسکی مرضی حق کو اپنا کر اپنے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان کرے، اور جسکی مرضی اس کے بعد بھی باطل سے چمٹا رہے، اور آخرکار اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ایمان باللہ سب سے بڑا اور مضبوط حلقہ ہے۔ نجات کا مدار اسی پر ہے۔ اللہ ثابت قدم رکھے۔ آمین۔
Top