Tafseer-e-Madani - Al-Hijr : 71
قَالَ هٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیْۤ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَؕ
قَالَ : اس نے کہا هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنٰتِيْٓ : میری بیٹیاں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو فٰعِلِيْنَ : کرنیوالے (کرنا ہے)
لوط نے کہا یہ میری (قومی) بیٹیاں (جو تمہارے گھروں میں) موجود ہیں، اگر تمہیں کچھ کرنا ہے (تو ان سے جائز طریقے سے اپنا مطلب پورا کرلو) ،4
58۔ (ھولآء بناتی) کا مطلب ؟ اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بےبسی کا عالم : یعنی (بناتی) سے یہاں پر مراد آپ کی قومی بیٹیاں ہیں، کیونکہ نبی اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے اور قوم کے لوگ اس کی روحانی اولاد۔ آیت کریمہ کا یہ مفہموم سلف وخلف میں سے بہت سے حضرات اہل علم نے لیا ہے کہ آیت کریمہ میں وارد لفظ (بناتی) سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی قومی بیٹیاں تھیں۔ یعنی ان بدفطرت لوگوں کی وہ بیویاں جو کہ ان کے گھروں میں موجود تھیں، نہ کہ آپ کی حقیقی اور صلبی بیٹیاں۔ جبکہ دوسرا قول اس ضمن میں حضرات اہل علم کا یہ ہے کہ لفظ (بناتی) کو اپنے ظاہر اور متبادر معنی و مفہوم پر ہی رکھا جائے۔ اور اصل یہی ہے کہ قرآنی الفاظ و کلمات کو اپنے ظاہر پر ہی رکھا جائے۔ الا یہ کہ کوئی صارف اور مانع پایا جائے۔ سو یہ کوئی پیشکش نہیں تھی جو حضرت لوط (علیہ السلام) کی طرف سے ان لوگوں کو کی گئی ہو۔ بلکہ یہ ان بد فطرت لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی آخری شکل تھی جو ممکن ہوسکتی تھی کہ اگر ان میں شرافت وانسانیت کی کوئی رمق بھی موجود ہوئی تو یہ ضرور اپنے برے ارادے سے باز آجائینگے۔ اسی لئے سورة ہود میں اس کے بعد فرمایا گیا (الیس منکم رجل رشید ؟ ) " کیا تم میں کوئی بھی بھلے مانس انسان موجود نہیں ؟ " مگر اس پر بھی جب ان لوگوں کے دل نہ پسیجے اور انہوں نے اس پر بھی صاف طور پر کہہ دیا کہ ہمیں آپ کی بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں اور یہ کہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ (مالنا فی بناتک من حق وانک لتعلم مانرید) تو اس سے ظاہر اور واضح ہوگیا کہ یہ لوگ گندگی کے ایسے کیڑے بن گئے ہیں جن کو پاکیزگی سے اب کوئی تعلق اور لگاؤنہیں رہ گیا۔ اس لیے ان کے وجود کو مٹا کر صفحہ ہستی کو ان کے غلاظت ونجاست سے پاک کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ ان کا جرم اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔ سو اس سے جہاں ایک طرف ان لوگوں کی خباثت ونجاست طبع آشکارا ہوجاتی ہے وہاں دوسری طرف اس سے حضرت لوط (علیہ السلام) کی عاجزی، تواضع، بیکسی، بےبسی اور شان مہمان نوازی بھی اسی طرح ظاہر ہوتی ہے اسی لیے حضرات محققین نے کہا ہے کہ یہ دوسرا قول و احتمال پہلے سے ابلغ ہے۔ سو اس اعتبار سے یہ قول ابلغ تو واقعی ہے لیکن کچھ دوسرے اعتبارات کی بناء پر ہمارے نزدیک راجح قول پہلا ہے یعنی یہ کہ (بناتی) سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی قومی بیٹیاں تھیں نہ کی حقیقی اور صلبی بیٹیاں۔ اور اس کی وجوہ ہم اس سے پہلے سورة ہود وغیرہ میں بیان کرچکے ہیں۔ سو اس کے لیے سورة وغیرہ کے حواشی پر نظر ڈال لی جائے اور ان دونوں قولوں میں سے جو بھی مراد لیا جائے اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر نہ تو عالم غیب ہوتا ہے اور نہ مختار کل۔ جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے۔ ورنہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو اس حد تک پریشانی لاحق نہ ہوتی۔ سو اس سے اہل بدعت کے علم غیب کلی اور اختیاری کلی جیسے شرکیہ عقائد کی جڑ نکل جاتی ہے۔ اللہ کرے اس سے ان کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ راہ حق پر آجائیں۔ آمین ثم آمین۔
Top