Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 48
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَرْسَلَ الرِّيٰحَ : بھیجیں ہوائیں اس نے بُشْرًۢا : خوشخبری بَيْنَ يَدَيْ : آگے رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً طَهُوْرًا : پانی پاک
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت کے (مینہ کے) آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک (اور نتھرا ہوا) پانی برساتے ہیں
قسم سوم از دلائل توحید قال اللہ تعالیٰ وھو الذی ارسل الریاح بشرا بین یدی رحمتہ .... الیٰ .... وجاھدھم بہ جھادا کبیرا۔ اور وہ خدا وہ ہے جو باران رحمت سے پہلے بشارت دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے بارش اللہ کی رحمت ہے اور اس سے پہلے ہواؤں کا چلنا یہ بشارت ہے کہ عنقریب بارش نازل ہونے والی ہے اور ہم نے اپنی رحمت سے آسمان سے ایسا پانی نازل کیا جو خود بھی پاک ہے اور دوسرے کو بھی پاک کرنے والا ہے تاکہ ہم اس پانی کے ذریعہ مردہ یعنی خشک زمین کو زندہ کریں یعنی خشک زمین سے قسم قسم کی نباتات اگاویں۔ اس طرح قیامت کے قریب ایک غیبی بارش نازل ہوگی جس سے مردے زندہ ہوجائیں گے اور تاکہ اس اپنی مخلوقات میں سے چوپایوں کو اور بہت سے آدمیوں کو سیراب کریں۔ گزشتہ آیت میں پانی سے زمین کی سیرابی کا ذکر تھا اور اس آیت میں پانی سے حیوان اور انسان کی سیرابی کا ذکر ہے۔ بہت سے آدمی تو آسمان کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور بہت سے آدمی زمین کے چشموں اور کنوؤں کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ اور البتہ تحقیق ہم نے اس بارش کے پانی کو لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا کبھی کہیں برساتے ہیں اور کبھی کہیں۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ تاکہ لوگ اس سے نصیحت پکڑیں اور سمجھیں کہ بارش کی تقسیم اللہ کے ہاتھ میں ہے جہاں چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے برساتا ہے ہر سال کی بارش کا پیمانہ اور وزن اسی کو معلوم ہے پس باوجود اس نعمت اور عبرت کے واضح ہونے کے بغیر ناشکری سے باز نہ رہے اور بجائے اسکے کہ اس نعمت عظمیٰ کا شکر کرتے کفران نعمت میں جا پڑے۔ مینہ تو خدا تعالیٰ نے برسایا مگر یہ ناشکرا اس بارش کی ستاروں اور برجوں کی طرف نسبت کرتا ہے۔ یہ شخص خدا کا کفر کرتا ہے اور ستاروں پر ایمان رکھتا ہے اور ان کا شکر کرتا ہے۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ولقد صرفناہ۔ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے نصیحت کی تاکہ وہ اس کو قبول کریں مگر اکثر لوگوں نے ان نصیحتوں کو قبول نہیں کیا۔ لہٰذا آپ ﷺ ان لوگوں کے کفر و تکذیب سے ہمت نہ ہاریں اور تن تنہا برابر تبلیغ اور دعوت میں لگے رہیں اور اگر ہم چاہتے تو آپ ﷺ کے علاوہ ہر بستی میں ایک ڈرانے والا یعنی پیغمبر بھیج دیتے مگر ہم نے ایسا نہیں کیا بلکہ اے نبی ہم نے تمہاری شان اور مرتبہ بلند کرنے کے لئے قیامت تک کے لیے سارے جہان کا تم کو پیغمبر بنایا اور نبوت کو تم پر ختم کیا اور تمام عالم کے لیے آپ ﷺ کو باران رحمت بنایا تاکہ قیامت تک آنے والے اہل ایمان اور اہل ہدایت کا اجر آپ ﷺ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے اور تمام انبیاء پر آپ کی فضیلت ظاہر ہو پس جب خدا نے آپ کو یہ فضیلت اور یہ شان عطا کی ہے تو آپ ان کافروں کی پرواہ کیجئے اور نہ کسی بات میں انکا کہنا مانئے جس سے یہ خوش ہوں اور دلائل قرآن کے ساتھ انکا پورا مقابلہ کیجئے، چونکہ یہ سورت مکی ہے اس لیے اس آیت میں جہاد سے قرآن اور دلیل اور برہان کے ذریعہ جہاد کرنا مراد ہے اس لیے کہ سیف و سناں سے جہاد کرنے کا حکم مدینہ میں نازل ہوا۔
Top