Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ : مہینہ رَمَضَانَ : رمضان الَّذِيْٓ : جس اُنْزِلَ : نازل کیا گیا فِيْهِ : اس میں الْقُرْاٰنُ : قرآن ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ بَيِّنٰتٍ : اور روشن دلیلیں مِّنَ : سے الْهُدٰى : ہدایت وَالْفُرْقَانِ : اور فرقان فَمَنْ : پس جو شَهِدَ : پائے مِنْكُمُ : تم میں سے الشَّهْرَ : مہینہ فَلْيَصُمْهُ : چاہیے کہ روزے رکھے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو مَرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی پوری کرے مِّنْ : سے اَيَّامٍ اُخَرَ : بعد کے دن يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُمُ : تمہارے لیے الْيُسْرَ : آسانی وَلَا يُرِيْدُ : اور نہیں چاہتا بِكُمُ : تمہارے لیے الْعُسْرَ : تنگی وَلِتُكْمِلُوا : اور تاکہ تم پوری کرو الْعِدَّةَ : گنتی وَلِتُكَبِّرُوا : اور اگر تم بڑائی کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا ھَدٰىكُمْ : جو تمہیں ہدایت دی وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو (حق وباطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو
تعیین ایام معدود۔ قال تعالی، شھررمضان الذی۔۔۔ الی۔۔۔ تشکرون۔ گزشتہ آیات میں بلاتعین چند دنوں کے روزہ رکھنے کا حکم مذکور تھا اب ان آیات میں اللہ شانہ ان ایام معدودات کی تعین فرماتے ہیں یعنی وہ شمار کیے ہوئے دن جن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے وہ ماہ رمضان المبارک ہے جس میں قرآن کریم اتارا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت اور امتیاز حق و باطل کی صاف صاف اور نہایت واضح اور روشن دلیلیں اور نشانیاں ہیں جو سوائے قرآن کے اور کسی کتاب میں نہیں توریت اور انجیل بھی نور اور ہدایت تھی اور حق اور باطل میں فرق کرتی تھی مگر قرآن کی طرح واضح اور روشن نہ تھی قرآن کریم کا ہر ہر حرف ہدایت اور امتیاز حق اور باطل کی واضح اور ووشن دلیل ہے اسی وجہ سے بینات کو جمع لایا گیا اور ہدی کو مفرد لایا گیا ہدایت کبھی خفی ہوتی ہے اور کبھی جلی اور روشن ہوتی ہے، بینت من الھدی والفرقان۔ آیت۔ کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کریم ہدایت اور امتیاز حق و باطل میں آفتاب کی طرح روشن ہے توریت اور انجیل اس درجہ روشن نہ تھی پس تم میں سے جو شخص یہ مہینہ پائے تو اس کو چاہیے کہ اس کے روزے رکھے جتنا مہینہ پاوے اتنے کے روزے رکھے اگر پورا مہینہ پائے تو پورے مہینہ کے روزے رکھے اور اگر کچھ دن پائے تو اتنے دن روزے رکھے غرض یہ کہ جو شخص اس مہینہ کو پائے اس کے ذمہ یہ لازم ہے کہ فرض ہے کہ اس مہینہ کے روزے رکھے اور بتداء میں جو فدیہ کی اجازت دی گئی وہ منسوخ ہوئی اور جن میں روزہ رکھنے کی طاقت ہے اب ان کو افطار کی اجازت نہیں رہی اس آیت سے فدیہ کا حکم منسوخ ہوگیا اورا لبتہ مریض اور مسافر کے لیے جو سفر اور مرض کی وجہ سے افطار کی رخصت اور اجازت دی گئی تھی وہ ہنوز اسی طرح باقی ہے کہ جو شخص ایسا بیمار ہو کہ جس کو روزہ رکھنا دشوار ہو یاشرعی سفر پر ہو یعنی سفر میں جتنی مسافت شریعت میں معتبر ہے اتنی مسافت کے سفر کا ارادہ رکھتا ہو تو ایسے شخص کو رمضان میں افطار کی اجازت ہے اور بجائے ایام رمضان کے دوسرے دنوں میں فوت شدہ روزوں کے شمار کے مطابق روزے رکھنا اس پر لازم ہے مریض اور مسافر کے حکم کو اسلیے مکرر بیان کیا کہ یہ معلوم ہوجائے کہ فقط فدیہ کا حکم منسوخ ہوا ہے معذور کے لیے افطار اور قضاء کا حکم منسوخ نہیں ہوا اور قضا کے حکم میں فعدۃ من ایام اخر، فرمایا یعنی اور دنوں میں گنتی شمار کے مطابق روزے رکھنے چاہیے اور دنوں کی قید اس لیے لگائی کہ رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء آئندہ رمضان میں جائز نہیں رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں قضاء کے روزے رکھنے چاہیں اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ سہولت اور آسانی کرنا چاہتے ہیں اور تم پر سختی اور دشواری نہیں چاہتے اس لیے تم کو مرض اور سفر کی حالت میں افطار کی اجازت دی اور دوسرے دنوں میں فوت شدہ روزوں کے شمار کے مطابق قضاء کا حکم اس لیے یدیا کہ تم اپنے روزوں کو شمار کرکے پورا کرو تاکہ تمہارے ثواب میں کمی نہ رہ جائے اور تم اس شمار کو پورا کرکے متقی اور پرہیزگار بن جاؤ اور اس میں بھی یہ سہولت ہے کہ فوت شدہ روزوں کی قضا خواہ ایک ہی مرتبہ کرلو یا متفرق کرکے رکھ لو دونوں اختیار ہیں اور تاکہ تم اللہ کی کبریائی اور بزرگی بیان کرو کہ اس نے تم کو ایسے طریقہ کی ہدایت کی کہ جس سے تم رمضان المبارک کی فوت شدہ خیرات وبرکات کی قضاء سے کچھ تلافی کرسکو امام شافعی فرماتے ہیں لتکملوالعدۃ سے رمضان کے تیس دن پورے کرنا مراد ہے اور لتکبرواللہ سے ختم رمضان کے بعد عید کا چاند دیکھ کر اور عید میں جاتے وقت اور عید کی نماز میں تکبیر کہنا مراد ہے جس طرح نماز اور حج سے فارغ ہونے کے بعد ذکر خدا مسنون ہے اسی طرح رمضان کے روزوں سے فارغ ہونے کے بعد تکبیر وتحمید مسنون ہے اور تاکہ تم اللہ کا شکر کرو کہ اس نے تم پر ایک مہینہ کے روزے فرض کیے کہ جو درجات عالیہ کے ملنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے اور اس پر بھی شکر کرو کہ اس نے حالت مرض اور سفر میں تمہیں افطار کی اجازت دی کہ جس میں تمہارے لیے تخفیف اور سہولت ہے غرض یہ کہ عزیمت بھی نعمت ہے اور رخصت بھی نعمت ہے سب نعمتوں کا شکر کرو تاکہ کامل متقی اور پرہیزگار بن جاؤ۔ نزول قرآن اور صیام رمضان میں مناسبت۔ نزول قرآن اور صیام رمضان میں مناسبت یہ ہے کہ حق جل شانہ نے اس مہینہ کو قرآن کریم کے نازل کرنے کے لیے پسند کیا اور ظاہر ہے کہ اللہ کے کلام معجز نظام کے انوار و تجلیات اور خیرات وبرکات کی کوئی حد اور نہایت نہیں، محبین اور عاشقین دنیا میں اللہ کے دیدار سے محروم ہیں لیکن اس کے کلام سے دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ کلام کے پردہ سے کچھ اس کا جلوہ نظر آجاتا ہے، درسخن مخفی منم چوں بوئے گل وربرگ گل ہر کہ دیدن میل دارد درسخن بیند مرا، چیست قرآں اے کلام حق شناس رونمائے رب ناس آمد بناس حرف حرفش راست در برمعنیے معنیے در معنیے در معنیے۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ اللہ نے توریت اور انجیل اور زبور اسی مہینہ میں اتاری، یکم رمضان المبارک کو حضرت ابراہیم پر صحیفے اور چھ رمضان کو توریت نازل ہوئی اور بارہ رمضان کو زبور اتری اور اٹھارہ رمضان کو انجیل نازل ہوئی اور چوبیس رمضان کی شب کو قرآن کریم نازل ہوا۔ غرض یہ کہ ماہ رمضان عجیب مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ کا کلام نازل ہوا اورا للہ کی کتاب اتری جو ایک نعمت کبری اور منت عظمی ہے لہذا اس عظیم الشان نعمت کے شکریہ میں کوئی خاص عبادت اس مہینہ میں مقرر ہونی چاہیے جو کلام الٰہی کے مناسب ہو سو وہ روزہ ہے جو روزہ دار کو ترک طعام و شراب اور ترک لذت کی وجہ سے فرشتوں کے قریب بنا دیتا ہے اور قلب میں کلام خداوندی کے اسرار و تجلیات کے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کردیتا ہے کیونکہ بشری اور نفسانی کدورتوں اور ظلموں کے دور کرنے اور قلب کے جلا اور صیقل کرنے میں روزہ ایک بےمثال تریاق اور بےنظیر اکسیر ہے اور انوار و تجلیات کے دستر خوان سے وہی شخص کماحقہ بہرہ اندوز ہوسکتا ہے جس نے اس حسی اور مادی دسترخوان کو کم ازکم کچھ دنوں کے لیے لپیٹ کر رکھ دیا ہو یہی وجہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر توریت لینے کے لیے گئے تو چالیس دن کے روزے رکھے عیسیٰ (علیہ السلام) نے بیابان میں چالیس روزے رکھے اس وقت اللہ نے ان کو انجیل عطا کی نبی ﷺ نے غار حرام میں اعتکاف کیا اور روزے رکھے اسی غار میں آپ پر قرآن کریم نازل ہوا اور آپ ﷺ کو نبوت و رسالت کا خلعت عطا ہوا معلوم ہوا کہ روزہ کو کلام خداوندی کے ساتھ خاص مناسبت ہے اس لیے اس مبارک مہینہ میں دن میں تو روزہ اور رات میں تراویح مسنون ہوئی اور عشرہ اخیرہ میں اعتکاف سنت ہو اور دن اور رات میں قرآن کریم کی تلاوت اور دور کا خاص اہتمام کیا گیا۔ حدیث میں ہے جبریل امین رمضان المبارک میں آپ سے قرآن کریم کا دور کرتے تھے جس سال حضور ﷺ کا وصال سال جبریل امین نے پورے قرآن کا آپ کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا ایک مرتبہ آپ پڑھتے اور جبریل امین سنتے اور دوسری مرتبہ جبریل پڑھتے اور آپ ﷺ سنتے اس طرح دو مرتبہ دور ہوا اور یہ مہینہ تمام کا تمام ہی مبارک ہے مگر شب قدر اس مہینہ کا خلاصہ اور الب لباب ہے اسی شب میں قرآن اترا اور اسی میں فرشتوں کا خاص طور سے نزول ہوتا ہے، سلمھی حتی مطلع الفجر۔ آیت۔ امام ربانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ رمضان کا پورا مہینہ نہایت مبارک ہے مگر وہ انوار وبرکات جو اس مہینہ کے دنوں سے وابستہ ہیں وہ اور ہیں اور جو خیرات وبرکات اس مہینہ کی راتوں سے متعلق ہیں وہ اور ہیں اور ممکن ہے کہ اسی وجہ سے یہ حکم ہوا کہ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کریں تاکہ دونوں وقتوں میں پورا امتیازحاصل ہوجائے اور جس طرح قرآن مجید خداوندذوالجلال کے کمالات ذاتیہ اور شؤن صفاتیہ کا مظہر اتم ہے اسی طرح ماہ رمضان اللہ کی خیرات وبرکات ذاتیہ کا مظہر اتم ہے اس مہینہ میں جو خیروبرکت بھی نازل ہوتی ہے وہ براہ راست بارگاہ ذات سے فائض ہوتی ہے قرآن کریم کی طرح یہ مہینہ بھی اپنی نوع میں حقیقت جامعہ ہے اسی مناسبت سے اس مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا اور چونکہ درختوں میں کھجور کا درخت شجرہ طیبہ ہے اور کھجور اس کا ثمرہ طیبہ اور حقیقت جامعہ ہے اور حضرت آدم کے خمیر کا بقیہ ہے اس لیے نبی نے ارشاد فرمایا جو کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے کیونکہ کھجور سراسر خیروبرکت ہے۔ اور خلو معدہ میں جب یہ مبارک پھل پہنچے گا تو یہی جامع اور مبارک غذا جزوبدن بنے گی جس سے روزہ کی برکتوں میں اور اضافہ ہوگا اس طرح روزہ اور غذائے جامع کی برکتوں کے مل جانے سے قلب نور علی نور کا مصداق بن جائے گا اور اسی وجہ سے کہ کھجور ایک نہایت مبارک اور جامع غذا ہے آپ نے سحری میں بھی کھجور کھانے کی ترغیب دی ہے اور ارشاد فرمایا کھجور مومن کی کیا اچھی سحری ہے۔ قرآن کریم میں ایمان کو شجرہ طیبہ یعنی کھجور کے درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور رمضان کا روزہ ایمان کا ایک شعبہ ہے اس لیے رمضان کا افطار اور سحری مرد مومن کے لیے کھجور سے مسنون ہوئی اور شب قدر اس مہینہ کا خلاصہ ہے گویا کہ شب قدر بمنزلہ مغز کے ہے اور یہ مہینہ پوست کے ہے پس جس کا یہ مہینہ جمعیت خاطر کے ساتھ گذر جائے اور اس مبارک مہینہ کی خیرات وبرکات سے بہر اندوز ہوجائے تو اس کا تمام سال جمعیت اور خیروبرکت کے ساتھ گزرتا ہے۔ وفقنا اللہ تعالیٰ للخیرات والبرکات فی ھذا الشھر المبارک ورزقنا اللہ سبحانہ النصیب الاعظم منہ امین۔ (مکتوب 162 دفتر اول) ۔ فائدہ جلیلہ) ۔ رمضان کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کے دن اور ہر مہینہ میں تین دن کے روزے رکھے جاتے تھے اس میں اختلاف ہے کہ وہ روزے فرض تھے یانفل، عبداللہ بن عباس اور معاذ بن جبل اور عطا ؓ اجمعین کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روزے فرض تھے اور ابن ابی لیلی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض نہ تھے بلکہ محض بطور تطوع اور نفل رکھے جاتے تھے اور اکثر احادیث سے وجوب ہی معلوم ہوتا ہے بہرحال رمضان کے روزوں کا حکم آیا تو صوم عاشورہ اور ہر مہینے میں تین روزوں کی فرضیت تو باقی نہ رہی البتہ استحباب باقی رہ گیا اور اس میں بھی ویسا ہی اہتمام نہ رہا جیسا کہ پہلے تھا۔ اسی وجہ سے علماء کا ایاما معدودات کی تفسیر میں اختلاف ہے بعض صحابہ اور تابعین ادھر گئے ہیں کہ ان گنتی کے دنوں سے عاشورہ اور ہر مہینے کے تین دن روزے مراد ہیں جب رمضان کے روزوں کا حکم آیا تو یہ روزے منسوخ ہوگئے اور جمہور صحابہ وتابعین کا مسلک یہ ہے کہ ایامامعدودات سے رمضان کے روزے مراد ہیں اور یہ آیت منسوخ نہیں اور صوم عاشورہ اور ایام بیض کا حکم من جانب اللہ نہ تھا بلکہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے اجتہاد سے ان دنوں کے روزوں کو پسند کیا جیسا کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ وہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تم اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو انہوں نے کہا یہ دن بہت مبارک ہے اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دی اور فرعون کو غرق کیا موسیٰ نے بطورشکریہ اس دن روزہ رکھا اسلیے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں آپ نے فرمایا میں تم سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) کا حق دار ہوں اس لیے آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم ) ۔ علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ امام احمد اور ابوداود اور حاکم نے معاذ بن جبل سے عاشورہ کا روزہ اور ہر مہینہ کے تین روزوں کا واجب ہونا روایت کیا لیکن یہ وجوب اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا اور اس آیت سے منسوخ ہوگیا۔ پس معلوم ہوا کہ راجح اور صحیح اور قول یہی ہے کہ ایاما معدودات سے رمضان کے روزے مراد ہیں عاشورا اور ہر مہینہ کے تین روزے مراد نہیں اس لیے کہ افطار کرکے فدیہ دے دینے کے اجازت احادیث اور روایات میں رمضان المبارک کے روں کے متعلق آئی ہے عاشورا اور ہر مہینہ کے تین دن کے روزوں کے متعلق فدیہ کا حکم کہیں ثابت نہیں سنن ابوداود کی ایک روایت سے یہ ایہام ہوتا ہے کہ وعلی الذین یطیقونہ فدیہ۔ کا حکم عاشورہ اور ہر مہینہ کے تین روزوں کے متعلق ہے مگر یہ صحیح نہیں اور یہ روایت مختصر ہے دوسری مفصل روایت میں رمضان کے روزوں کا مفصل ذکر ہے اور علی الذین یطیقونہ کا حکم رمضان ہی کے روزوں سے متعلق ہے اس روایت میں رمضان کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایہام ہوا۔ واللہ اعلم۔ اقوال علماء کرام دربارہ تفسیر آیت فدیہ صیام۔ قال تعالی، علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین۔ اس آیت کی تاویل اور حکم میں علماء کا اختلاف ہے آیت مذکورہ کے متعلق علمائتفسیر کے دو گروہ ہوگئے ہیں ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور دوسراگروہ کہتا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں اس آیت کا حکم اب بھی باقی ہے اس فریق سے آیت کی مختلف توجیہات منقول ہیں جن کو ہم عنقریب ذکر کریں گے۔ گروہ اول) ۔ اکثر علماء محققین کی رائے یہی ہے کہ آیت میں نسخ ضرور واقع ہے عبداللہ بن عمر اور سلمہ بن الاکوع اور دیگر صحابہ سے یہی منقول ہے اور بخاری اور مسلم اور ابوداود وغیرہم کی احادیث اور روایات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ابتداء اسلام میں لوگوں کو اختیار تھا کہ اگر روزون کی ہمت ہو تو روزے رکھیں ورنہ روزہ افطار کرلیں اور روزہ کے بدلہ میں فدیہ دیں وجہ یہ تھی کہ لوگ روزہ رکھنے کے عادی نہ تھے اگر ابتداء ہی سے روزہ کا قطعی حکم ہوجاتا تو شاق ہوجاتا چندے یہ اختیار منسوخ ہوگیا اور فمن شھد منکم الشھر۔ سے روزہ رکھنے کا حکم قطعی ہوگیا چناچہ حافظ بدالدین عینی شرح بخاری میں آیات صیام کی ترتیب نزولی اور ناسخ منسوخ کی تعیین کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ترجمہ۔ شروع اسلام میں روزے فرض ہوئے لیکن عادت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں پر گراں گزرے تو افطار کرکے فدیہ دے دینے کی اجازت دے دی گئی چناچہ معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ شروع اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا اور جو چاہتا افطار کرتا اور اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت نازل ہوئی اور یہ حکم منسوخ ہوگیا، امام ابن جریر طبری بروایت ابن ابی لیلی اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں نبی ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ آئے تو اپنے صحابہ کو ہر مہینہ میں تین دن کے روزوں کا حکم دیا مگر بطور فرض نہیں بلکہ بطور نفل حکم دیا اس کے بعد رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا مگر چونکہ لوگ روزہ رکھنے کے عادی نہ تھے اس وجہ سے انکو روزہ رکھنا گراں ہوا تو یہ سہولت کردی گئی کہ جو روزہ نہ رکھے وہ ایک فقیر کو کھانا کھلادے چناچہ کچھ عرصہ تک لوگ ایساہ ی کرتے رہے کہ جو شخص روزہ نہ رکھتا وہ ایک فقیر کو کھانا کھلا دیتا چند روز کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، فمن شھد منک الشھر فلیصمہ، الی آخرہ۔ اس وقت صرف مریض اور مسافر کو توروزہ موخر کرنے کی اجازت ہوگئی باقی ہم سب کو روزہ ہی رکھنے کا حکم ہوگیا اور افطار کرکے فدیہ کی اجازت نہ رہی۔ یہی مضمون بخاری شریف اور اکثر کتب تفاسیر میں موجود ہے اس مضمون کے ذہن نشین ہوجانے کے بعد تمام روایتیں بےتکلف منطبق ہوجاتی ہیں اور آیت کا صحیح مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلے، کتب علیکم الصیام۔۔۔ الی۔۔۔ من ایام اخر۔ آیت۔ کا حکم نازل ہوا اور اس سے رمضان کے روزے فرض ہوئے مگر مریض اور مسافر کو اجازت ہوئی کہ اگر مرض اور سفر کی وجہ سے افطار کریں تو بعد میں اتنے ہی دن روزے رکھ لیں اس پر صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم چونکہ روزوں کے عادی نہیں اگر مشقت کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکیں تو اس کی مکافات کی کیا صورت ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی، وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین۔ آیت۔ کہ جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں مگر مشقت کی وجہ سے افطار کرنا چاہتے ہوں تو ان کو اس کی اجازت ہے کہ افطار کرلیں اور ایک فقیر کا کھانا دے دیں لیکن بہتریہی ہے کہ روزہ رکھیں وان تصوموا خیرلکم ان کنتم تعلمون۔ اس کے بعد جب حضرات صحابہ کرام روزہ کے خوگر ہوگئے اور روزہ رکھنا ان پر شاق گراں نہ رہا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ شھر رمضان الذی انزل۔۔۔ الی۔۔۔ فلیصمہ۔ آیت۔ یعنی جب رمضان المبارک کا مہینہ آئے تو ہر شخص پر روزہ رکھنا فرض ہے اور اب کسی کو اجازت نہیں کہ مشقت کی وجہ سے روزہ افطار کرلے اور ایک مسکین کو کھانا کھلا دے البتہ مریض اور مسافر کو اجازت دی گئی کہ مرض اور سفر کی وجہ سے روزہ افطار کرے اور بعد میں اس کی قضا کرلے وہ اجازت اسی طرح اب بھی باقی ہے فقد افطار اور فدیہ کی رخصت منسوخ ہوئی ہے مریض اور مسافر کی رخصت منسوخ نہیں ہوئی حضور سرور کائنات کی وفات تک یہی حکم اور اسی پر عمل درآمد رہا اور آپ کے بعد خلفاء راشدین سے لے کر اب تک تمام علماء اور فقہاء کا فتوی اور تمام روئے زمین کے مسلمانوں کا یہی عمل رہا۔ ایک شبہ) ۔ یہاں پہنچ کر شاید کسی کو یہ خیال آئے وعلی الذین یطیقونہ کا عطف پہلے جملہ پر ہے اور یہ جملہ پہلے کے ساتھ غایت درجہ مربوط اور متعلق ہے لہذایہ کہنا کہ اول کتب علیکم الصیام کا حکم نازل ہوا اور جب صحابہ نے شدت اور مشقت کی شکایت کی اور تو یہ دوسرا جملہ وعلی الذین یطیقونہ نازل ہوا اور اس جملہ کو پہلے کلام سے جدا کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ جواب) ۔ یہ ایسا جملہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی، لایستوی القاعدون من المومنین۔ آیت۔ تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم نے عرض کیا یارسول اللہ میں تو نابینا ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہوسکتا ان کے شکوہ کے جواب میں غیراولی الضرر کے الفاظ اور نازل ہوئے اور جس طرح کلو واشربوا حتی یتبین الکم الخیط الابیض من الخیط الاسود کے نازل ہونے کے بعد بعض لوگوں نے ظاہری معنی سمجھ کر تکیہ کے نیچے دو دھاگے رکھنے شروع کردیے تو اس اشتباہ کے زائل کرنے کے لیے من الفجر کا نزول ہوا۔ پس جس طرح غیر اولی الضرر اور من الفجر کا باوجود ماقبل کے ساتھ شدید تعلق ہونے کے جدگانہ نزول ہوسکتا ہے اسی طرح علی الذین یطیقونہ کا بھی باوجود ماقبل سے مربوط ہونے کے علیحدہ نازل ہوسکتا ہے حالانکہ من الفجر اور غیر اولی الضرر، نہ مسند ہے اور نہ مسند الیہ بلکہ متعلقات میں سے ہے وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین تو یہ پورا جملہ ہے پس جب کہ الفاظ مفردہ کا علیحدہ نزول جائز اور واقع ہے تو پورے جملہ کے علیحدہ نزول میں کیوں اشکال ہے اللہ ہی آیات کے نازل فرمانے والے ہیں آیات کو متفرقا نازل فرماتے ہیں اور پھر مطعل فرمادیتے ہیں کہ اس آیت کو فلاں جگہ رکھاجائے اور اس آیت کو فلاں جگہ اور اس مفرد اور اس جملہ کا فلاں مفرد اور فلاں جملہ سے تعلق ہے یہی وجہ ہے کہ نزول کی ترتیب اور ہے اور موجودہ مصحف کی ترتیب اور ہے اور اس وقت جس ترتیب سے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے یہ بعینہ وہی ترتیب ہے کہ جس ترتیب سے جبریل امین حضور پرنور ﷺ سے ہر رمضان میں دور فرماتے تھے اللہ جل شانہ نے اپنی حکمت بالغہ اور رحمت کاملہ سے بہت سے احکام بندوں کو بتدریج سہولت کے ساتھ احکام کا مکلف بنایا جس طرح ابتداء اسلام میں نماز میں سہولتیں تھیں سلام و کلام بھی نماز میں جائز تھا بعد میں شریک ہونے والا اپنے قریبی نمازی سے یہ بھی پوچھ لیا کرتا تھا کہ کتنی رکعتیں ہوچکی ہیں مگر بعد میں یہ تمام سہولتیں اور رخصتیں یک لخت منسوخ ہوگئیں۔ اسی طرح روز کے احکام میں تدریج اور سہولت کو مرعی رکھا گیا بالاآخر جب صحابہ کرام کو نفس قدسیہ حق جل وعلا کے انور و تجلیات سے روشن ہوگئے اور روزہ کی طبعی مشقت اور گرانی بھی دل سے بالکل نکل گئی تو اب ہمیشہ کے لیے یہ حکم قطعی آگیا کہ فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ اور اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام کی یہ کیفیت ہوئی کہ روزہ کی شدت اور مشقت مبدل بہ فرحت ولذت ہوگئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضور پرنور تو مسلسل روزہ رکھنے کی ممانعت فرماتے ہیں اور صحابہ کرام صوم وصال اور صائم الدہر ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ رفع تعارض) ۔ اس مقام پر صحیح بخاری کی روایات میں بظاہر کچھ تعارض کا شبہ ہوتا ہے کہ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت فدیہ کا ناسخ فمن شھد منکم الشھر ہے اور بعض روایات سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آیت فدیہ کا ناسخ وان تصوموا خیرلکم۔ کی آیت ہے۔ جواب) ۔ یہ کہ حضرات محدثین بسا اوقات اپنے مدعا کے ثابت کرنے کے لیے آیت کا ابتدائی حصہ نقل کرکے چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ آیت کے ابتدائی حصہ کو مدعا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن درحقیقت اس سے پوری آیت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ تم اس آیت کو اخیر تک پڑھ جاؤ محل استشہاد خود تمہارے سامنے آجائے گا اور تم خود ہی اس کو متعین کرلو گے جیسا کہ امام ترمذی نے باب ان فی المال میں یہی حدیث لانے کے بعد استشہاد میں آیت لیس البر ان تولوا وجوھکم۔ الخ۔ لکھ کر چھوڑ دی حالانکہ آیت کے اس ابتدائی جملہ کو باب سے کوئی تعلق نہیں مطلب یہ ہے کہ تم اس آیت کو اخیر تک پڑھ لو۔ اور جب تم واتی المال علی حبہ پر پہنچو گے تو موقعہ استدلال خود تمہارے سامنے آجائے گا اسی طرح وان تصوموا خیرلکم سے فقط یہی الفاظ مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ تم اس آیت کو اخیر تک پڑھتے چلے جاؤ اور جب تم فمن شھد منکم الشھر پر پہنچو تو محل استدلال کو سمجھ لو اور متعین کرلو کہ فدیہ کا صل نسخ اس آیت سے ہوا ہے وان تصوموا خیرلکم اس کی تمہید تھی نیز یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ دونوں ہی آیتیں حکم فدیہ کی ناسخ ہیں یعنی ہر آیت سے فدیہ کا نسخ معلوم اور مفہوم ہوتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ وان تصوموا خیرلکم میں لفظ خیر واقع ہوا ہے جو استحباب اور فضیلت پر دلالت کرتا ہے وجوب اور لزوم پر دلالت نہیں کرتا لہذا وہ گزشتہ تخیر کے لیے کیسے ناسخ ہوگا جواب یہ ہے کہ خیر کا لفظ کبھی وجوب اور زلوم کے موقعہ پر بھی مستعمل ہوتا ہے جیسے ولاتقولوا ثلاثۃ، انتھوا خیرالکم۔ آیت۔ تثلیث سے باز آجانے کو خیر فرمایا حالانکہ یہ کسی کا مذہب نہیں کہ جائز تو تثلیث بھی ہے مگر ترک تثلیث، تثلیث سے افضل ہے اور اس آیت میں خیر کا لفظ شر کے مقابلہ میں ہے فرض اور واجب کے مقابلہ میں نہیں خوب سمجھ لو۔ دوسرا گروہ) ۔ اور علماء کی ایک جماعت کا یہ مسلک ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں اس گروہ نے آیت کی مختلف توجیہات کی ہیں۔ توجیہ اول) ۔ پہلی توجیہ یہ ہے کہ یطیقون کا مادہ طاقت ہے جس کے معنی کسی پر نہایت مشقت اور محنت کے ساتھ قادر ہونے کے ہیں اور بسہولت قادر ہونے کو وسع کہتے ہیں تو اب آیت کے یہ معنہ ہوں گے کہ جو روزہ رکھنے پر بدقت تمام قادر ہوں جیسا کہ شیخ کبیر اور عجوز یعنی بہت بوڑھا مرد اور بہت بوڑھی عورت ان کے لیے اجازت ہے کہ وہ روزہ افطار کرلیں اور اس کے بدلہ میں فدیہ ادا کریں اور اس معنی کی تائید ایک قرات سے بھی ہوتی ہے جو عبداللہ بن عباس سے منقول ہے وہ یہ کہ بجائے یطیقونہ کے یتطوقونہ اور یطوقونہ۔ پڑھتے تھے جس کے معنی بہ تکلف اور بہ مشقت روزہ رکھنے کے ہیں اس لیے مناسب ہے کہ یطیقونہ کی قرات کے بھی یہی معنی لیے جائیں تاکہ دونوں قراتیں مطابق اور ہم معنی ہوجائیں رہایہ سوال کہ یطیقونہ کا لفظ باعتبار لغت کے بھی اس معنی کا متحمل ہوسکتا ہے یا نہیں سوا کے لیے علامہ زمخشری کا کلام پیش کردینا کافی ہے کہ جو لغت عربیت میں عرب اور عجم کا مسلم شیخ اور امام ہے چناچہ فرماتے ہیں۔ ترجمہ۔ اور ہوسکتا ہے کہ یطیقونہ کے معنی لیے جائیں کہ جو لوگ نہایت مشقت اور انتہائی محنت کے ساتھ روزہ رکھ سکیں۔ (کشاف ص 428 ج 1) ۔ اس کے بعد غایت سے غایت کوئی یہ کہے گا کہ یہ معنی مجازی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں حقیقی معنی مراد لینا اگر متعذر ہوں تو بالاجماع مجازی معنی مراد لینا ضروری ہے جس کے شواہد قران کریم اور حدیث نبوی اور کلام عرب میں بیشمار ہیں اور قرینہ مجاز اس مقام پر یہ ہے کہ تمام امت محمدیہ کے علماء اور فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ ایک صحیح سالم تندرست آدمی کے لیے ہرگز اجازت نہیں کہ وہ فی یوم ایک مسکین کو کھانا دے کر روزہ سے رستگاری حاصل کرلے ورنہ روزہ کا حکم فقط غرباء وفقراء کی حد تک محدود ہوکررہ جائے گا اور امراء اور اغنیاء تمام کے تمام فدیہ دے کر روزہ کی فرضیت سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ دوسری توجیہ) ۔ شیخ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ یطیقون سے پہلے ایک لامقدر ہے اور معنی یہ ہیں کہ جول لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے جیسا کہ یبین اللہ لکم ان تضلوا میں باالاتفاق لاتضلوا کے معنی مراد ہیں ا اور لا مقدر ماننے کی تائید ایک قرات سے بھی ہوتی ہے جس میں حضرت حفصہ نے لا یطیقونہ پڑھا ہے، حضرات اہل علم کف الاسرار بزدوری ص 151 ج 1 کی مراجعت کریں۔ تیسری توجیہ) ۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اس آیت کی ایک لطیف توجیہ فرمائی ہے کہ وہ یہ کہ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یطیقونہ کی ضمیر مفعول، صوم کی طرف راجع نہیں بلکہ یہ ضمیر طعام کی طرف راجع ہے جو گولفظوں میں موخر ہے مگر رتبۃ مقدم ہے کیونکہ علی الذین یطیقونہ خبر مقدم ہے اور فدیہ مبتداء موخر ہے اور طعام مسکین مبتداء سے بدل ہے پس جس طرح مبتداء رتبۃ مقدم ہے اگرچہ لفظوں میں موخر ہے اسی طرح مبتداء کا بدل بھی ربتۃ مقدم ہے اور فدیہ سے مراد صدقہ فطر ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ پہلے روزوں کی فرضیت بیان فرمائی اور اس آیت میں روزوں کے بعد صدقہ فر کا ذکر فرمایا اور اس سے اگلی آیت میں روزوں کے بعد تکبیرات عید کی طرف اشارہ فرمایا ولتکبرواللہ علی ماھداکم اب آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جو روزہ دار کھانا دینے کی طاقت رکھتے ہیں رمضان گزرنے کے بعد وہ صدقہ فطر بھی ادا کریں۔ خلاصہ کلام) ۔ یہ کہ اگر یہ آیت صحیح اور تندرست کے بارے میں ہے تو منسوخ ہے اور اگر شیخ فانی اور عاجز کے حق میں ہے تو آیت محکم ہے اور شیخ فانی اور عاجز کے لیے اب بھی یہی حکم ہے۔
Top