Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ
: مہینہ
رَمَضَانَ
: رمضان
الَّذِيْٓ
: جس
اُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
فِيْهِ
: اس میں
الْقُرْاٰنُ
: قرآن
ھُدًى
: ہدایت
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَ بَيِّنٰتٍ
: اور روشن دلیلیں
مِّنَ
: سے
الْهُدٰى
: ہدایت
وَالْفُرْقَانِ
: اور فرقان
فَمَنْ
: پس جو
شَهِدَ
: پائے
مِنْكُمُ
: تم میں سے
الشَّهْرَ
: مہینہ
فَلْيَصُمْهُ
: چاہیے کہ روزے رکھے
وَمَنْ
: اور جو
كَانَ
: ہو
مَرِيْضًا
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر
سَفَرٍ
: سفر
فَعِدَّةٌ
: تو گنتی پوری کرے
مِّنْ
: سے
اَيَّامٍ اُخَرَ
: بعد کے دن
يُرِيْدُ
: چاہتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
بِكُمُ
: تمہارے لیے
الْيُسْرَ
: آسانی
وَلَا يُرِيْدُ
: اور نہیں چاہتا
بِكُمُ
: تمہارے لیے
الْعُسْرَ
: تنگی
وَلِتُكْمِلُوا
: اور تاکہ تم پوری کرو
الْعِدَّةَ
: گنتی
وَلِتُكَبِّرُوا
: اور اگر تم بڑائی کرو
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي
: پر
مَا ھَدٰىكُمْ
: جو تمہیں ہدایت دی
وَلَعَلَّكُمْ
: اور تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: شکر کرو
مہینہ رمضان کا ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق و باطل سے جدا کرنے کی سو جو شخص پائے تم میں سے اس مہینہ کو اسے چاہیے کہ روزے رکھے اس کے اور جو کوئی بیمار ہو یا مسافرہو تو اس کی گنتی پوری کرے اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے وہ تم پر دشواری نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ اس نے تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم اللہ کا شکر ادا کرو
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ط وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَایُرِیْدُبِکُمُ الْعُسْرَ ز وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُـکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ (مہینہ رمضان کا ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق و باطل سے جدا کرنے کی سو جو شخص پائے تم میں سے اس مہینہ کو اسے چاہیے کہ روزے رکھے اس کے اور جو کوئی بیمار ہو یا مسافرہو تو اس کی گنتی پوری کرے اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے وہ تم پر دشواری نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ اس نے تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم اللہ کا شکر ادا کرو) (البقرۃ : 185) رمضان کی فضیلت کا حقیقی سبب اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے رمضان کی فضیلت اور اہمیت کو براہ راست بیان کرنے کی بجائے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جس سے رمضان کی اہمیت بھی دل و دماغ میں اترتی چلی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ رمضان کی اس اہمیت اور فضیلت کا حقیقی سبب کیا ہے۔ مزید یہ کرم بھی فرمایا کہ قرآن کریم کی بعض خصوصی صفات کو بھی ذکر فرمایا گیا تاکہ لوگوں کو اچھی طرح اندازہ ہوجائے کہ قرآن کریم صرف فضیلت کی کتاب نہیں بلکہ اس کی بعض خصوصیات ہیں جس سے جہاں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں انسانی زندگی سے اس کاربط بھی واضح ہوتا ہے اور انسانوں کے لیے اس کی ضرورت بھی نمایاں ہوتی ہے۔ چناچہ ہم سب سے پہلے احادیث کی روشنی میں نہایت اختصار سے رمضان المبارک کی فضیلت اور قرآن کریم سے اس کا تعلق واضح کریں گے اور اس کے بعد جن تین خصوصی صفات کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس کی وضاحت کی کوشش کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک کی برکتوں اور عظمتوں کی کوئی انتہا نہیں اس میں کیا ہوا عمل صالح اپنی تاثیر نتیجہ خیزی اور اجروثواب کے اعتبار سے بےمثال و بےنظیر ہے۔ اس کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش کا ایسا بیش بہا خزانہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : لَوْیَعْلَمُ الْعِبَادُ مَافِیْ رَمَضَان لَتَمَنَّتْ اُمَّتِیْ اَنْ تَکُوْنَ السَّنَۃُ کُلُّھَا رَمَضَان (اگر بندے جان لیں کہ رمضان میں کیا ملتا ہے تو میری امت تمنا کرے کہ اے کاش سارا سال رمضان ہی رہے) اس رمضان کے ذریعے سیرت و کردار کی تعمیر کا ایسا پروگرام دیا گیا ہے اور ایمان اور یقین کا ایسا سامان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں : اَلصَّوْمُ جُنَّـۃٌ وَحِصْنٌ حَصِیْنٌ مِّنَ النَّارِ (روزہ (گناہوں اور برائیوں کے سامنے) ڈھال ہے اور جہنم کی آگ سے بچائو کے لیے مضبوط قلعہ ہے ) یعنی روزہ انسان کے اندر ایک ایسا نیکی کا شعور اور احساس پیدا کردیتا ہے جو گناہ اور معصیت کی ہر ترغیب اور خواہش نفس کے ہر حملے کے سامنے ڈھال اور رکاوٹ بن جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں آدمی صالح سیرت و کردار اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے ایک ایسے قلعے میں محفوظ ہوجاتا ہے جہاں جہنم کی آگ نہیں پہنچ سکتی۔ سوال یہ ہے کہ رمضان کی یہ تمام ترخیروبرکت اور انسانی سیرت و کردار کی تعمیر میں اس کی اثر اندازی کا سبب کیا ہے ؟ قرآن حکیم ہمیں بتاتا ہے کہ رمضان المبارک کی ساری سعادتوں اور فضیلتوں کی دجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اس مہینہ میں نازل فرمایا اگر یہ کتاب مطہرومحترم کسی اور مہینہ میں نازل ہوتی تو بلاشبہ وہ مہینہ ایسی ہی عظمتوں کا حامل ہوتا۔ یہی کتاب ہے جس کی وجہ سے یہ امت خیرالامم بنی ہے اور رمضان خیرالشہور ٹھہرا ہے۔ آنحضرت ﷺ جو وجہ تخلیقِ کائنات خاتم الانبیاء والرسل اور سیدالاولین والاخرین ہیں یوں تو ان کے افضل و اشرف ہونے کے بہت سے اسباب ہیں لیکن ان میں سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ آپ پر قرآن کریم جیسی کتاب نازل کی گئی یہی وہ کتاب ہے جس کے حقِ امانت کی ادائیگی نے آپ کو حرا کی تنہائیوں سے اترنے پر مجبور کیا۔ آپ جو انتہائی کم آمیز واقع ہوئے تھے اور عزلت نشینی اور گوشہ گیری آپ کے سکون و اطمینان کا ذریعہ بن گئی تھی۔ اس کتاب کی گراں باریوں نے اختلاط ومعاشرت ہی نہیں ایک ایک دروازے پر آپ کو دستک دینے پر مجبور کردیا۔ آپ جو انتہائی کم گو دیکھے جاتے تھے اور کبھی کسی نے آپ سے خطبہ وتقریر تو دور کی بات ہے ایک کلمہ نصیحت بھی نہیں سنا تھا۔ اب آپ کی زبان سے حکمت و نصیحت کا چشمہ ابلنے لگا۔ اسی کتاب عزیز کی تلاوت اسی کی تعلیم اسی کی حکمت و دانش اسی کے تبشیر واندار اسی کے وعد ومواعید اور اسی کی تبلیغ و دعوت آپ کی زندگی کا معمول بن گئی۔ پھر اس کے نتیجے میں آپ کی ذات جو ہر طرح کی تعریف وتحسین اور اعزازوکرام کی مستحق سمجھی جاتی تھی۔ اب تنقید ہی نہیں ہر طرح کے الزام ودشنام اور ہر طرح کی ایذا کا ہدف بن گئی اور زندگی کا ہر زخم اور ہر دکھ آپ نے اس بار امانت کی ادائیگی کے سلسلے میں نہایت صبروسکون سے برداشت فرمایا۔ یہ ذات عزیز وگرامی جس کے پائوں کی دھول بھی ساری کائنات سے افضل ہے اس کے سر مبارک پر رکھ پھینکی گئی۔ آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپ کی جان لینے کی تدبیریں کی گئیں۔ طائف میں آپ پر پتھروں کی بارش کی گئی آپ کو وطن سے بےوطن کیا گیا۔ جان وتن کی آزمائشوں سے گزرنے پر آپ کو مجبور کیا گیا تاآنکہ اسی نسخہ کیمیا سے آپ نے عرب کی مس خام کو کندن بنادیا اور ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کے نتیجہ میں ؎ رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کی تین خصوصی صفات کو بیان فرمایا گیا ہے جنھیں ہم نہایت اختصار سے عرض کرتے ہیں۔ الھدیٰ قرآن کریم کی ایک صفت ” الھدیٰ “ ہے۔ ہدایت کے مختلف معنی ہیں۔ 1 فعل ہدایت : لیس علیک ہداھم ” انھیں ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں “ 2 صراط مستقیم : انک لعلی ھدی مستقیم ” آپ یقینا سیدھے راستے پر ہیں “ 3 نشانِ راہ : اواجد علی النار ھدی ” یا میں آگ پر کوئی نشان پائوں “ 4 قلبی نور و بصیرت : والذین اھتدوا زادھم ھدی ” جو لوگ راہ پاجاتے ہیں ہم ان کے قلبی نوروبصیرت میں اضافہ کردیتے ہیں “۔ یہ فعل ہدایت کبھی صرف اراء الطریق یعنی راستہ دکھانا ہوتا ہے اور کبھی ایصال الی المطلوب یعنی منزل مقصود تک پہنچانا ہوتا ہے۔ قرآن کریم ان تمام معنوں میں ہدایت ہے۔ یہ محض کتاب نہیں بلکہ یہ کتاب نصیحت بھی ہے، کتاب زندگی بھی ہے، کتاب قانون بھی ہے اور فلسفہ قانون بھی ہے۔ یہ کتاب اخلاق بھی ہے، یہ تاریخ، اسباب تاریخ اور نتائج سے بھی بحث کرتی ہے۔ یہ آداب زندگی اور اسلوبِ زندگی کی تعلیم بھی ہے۔ مختصر یہ کہ زندگی کے جتنے شعبے ہیں یہ کتاب ان تمام سے متعلق رہنمائی دیتی ہے اور پھر اس پر اصرار کرتی ہے کہ یہی صحیح ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہوسکتا۔ بینات یہ کتاب صرف ہدایت ہی نہیں بلکہ اس میں ہدایت کے بینات بھی ہیں یعنی یہ زندگی کے بارے میں جو ہدایات دیتی اور زندگی کے جس اسلوب کا حکم دیتی ہے اس پر دلائل بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ صرف عمل کا سامان نہیں کرتی بلکہ عقل و دانش کو بھی غذا فراہم کرتی اور اس کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتی ہے اور اس کے یہ بینات عقلی بھی ہیں اور فطری بھی، استخراجی بھی ہیں اور استتناجی بھی۔ یعنی دلائل وبراہین کے تمام اسالیب ہمیں اس کتاب میں ملتے ہیں لیکن بینات کی ایک خاص صورت جو اس کتاب کی خصوصیت ہے۔ وہ یہ کہ اس کے بینات تاریخی اور انسانی پیکر بھی ہیں۔ وہ جب یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی معرفت جو ہدایت بھیجی ہے اسے قبول کرو اسی میں تمہاری دنیوی اور اخروی بھلائی ہے تو پھر صرف عقلی ونقلی دلائل ہی پیش نہیں کرتا بلکہ عملی شواہد بھی پیش کرتا ہے۔ وہ ان افراد اور قوموں کی تاریخ بیان کرتا ہے جو اس ہدایت کو قبول کرنے کے نتیجے میں کامیاب وکامران ٹھہریں اور ان قوموں کا بھی ذکر کرتا ہے، جو اس کا انکار کرکے تباہی و نامرادی کا شکار ہوئیں۔ وہ انبیاء ورسل اور ان کی زندگی کو بطور عملی برہان کے پیش کرتا ہے کہ دیکھو ان لوگوں نے کس طرح ناموافق ونامساعد حالات میں اللہ کی دعوت کو پیش کیا اور تن تنہا وقت کی قوتوں سے ٹکراتے ہوئے زندگی گزاری۔ کبھی وقت کا دھارا بدلنے میں کامیاب ہوگئے اور کبھی اس راہ میں کام آکر استقامت اور اپنے موقف کی حقانیت کا چراغ روشن کرگئے بعد میں آنے والی نسلوں نے جس سے روشنی پائی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کس بیچارگی اور بےکسی کے ماحول سے اٹھے لیکن محض اپنے موقف کی حقانیت اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اور اپنی بےپناہ استقامت سے تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا اور فرعون اپنی تمام تر قوت و حشمت اور اقتدار و طاقت کے باوجود محض اپنے کفر وجحود اور ناشکری کے باعث تاریخ میں عبرت کانشان بن گیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بظاہر اپنے مقصد کو نہ پاسکے لیکن اپنے ایثار و قربانی اور جاں فروشی وجاں سپاری سے ایک ایسا منارئہ نور بن گئے کہ مہ وسال کی گردشوں کے ساتھ ساتھ ان سے فیض پانے والوں کا سلسلہ دراز تر ہوتا گیا۔ اسی طرح قرآن کریم جب اخلاقی اقدار کر بیان کرتا ہے تو اس کے ساتھ عملی بینات کو بھی پیش کرتا ہے۔ راہ حق میں استقامت اور قربانی کی ترغیب دیتا ہے تو حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ (علیہما السلام) کی قربانیوں کو بطور شواہد پیش کرتا ہے اللہ کے دین کی سربلندی اور نشرواشاعت کا جب حوالہ آتا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی بھر اس راہ میں صحرا نوردی ‘ باویہ پیمائی ‘ مختلف ممالک کا سفر ‘ اس راہ میں پیش آنے والے مصائب ‘ گھر ‘ وطن ‘ اعزہ واقربا کی مفارقت ومہاجرت اور پھر اس راستے میں جسم وجان کی آزمائشیں ‘ سب کو نہایت تفصیل سے بیان کرتا ہے غرضیکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا جوش تبلیغ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خلق و خالق کے لیے بےپناہ محبت حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی مسکینی وغربت اور راہ حق میں سرفروشی حضرت ایوب (علیہ السلام) کی محض اپنے مالک وآقا سے محبت وخلت اور اس راستے میں ایثار و قربانی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی خودسپردگی اور تسلیم ورضا یہ سب ہدایت کے بینات ہیں جنھیں قرآن پیش کرتا ہے۔ الفرقان اس کتاب کی ایک اور صفت اور خصوصیت اس کا ” الفرقان “ ہونا ہے۔ یعنی یہ کتاب حق کی علامت اور شناخت ہے۔ جس طرح نور کے آجانے سے تاریکی کافور ہوجاتی ہے یہ ممکن نہیں کہ طلوع آفتاب کے بعد اندھیرے کا وجود باقی رہے۔ اسی طرح قرآن حکیم ایک نور بلکہ منارہ نور ہے۔ یہ کتاب منیر ہے، یہ روشن آفتاب ہے، اس کی ہر بات واضح اس کا ہر حرف حرف آخر اور اس کا ہر قول قول فیصل ہے۔ پروردگار ارشاد فرماتا ہے : تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ ( بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا) فرقان ہونے کا معنی کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : اِنَّـہٗ لَقَوْلُ فَصْلٌ وَّمَا ھُوَ بِالْھَزْل ” یہ قول فیصل ہے کوئی مذاق نہیں۔ “ اس کی ہر بات اپنی صحت، حفاظت، حقانیت اور قابل عمل ہونے میں ہر شک وشبہ سے بالا ہے۔ مزید یہ کہ یہی حق کی کسوٹی اور پہچان ہے یہ نہ خود کسی ملاوٹ کو برداشت کرتی ہے اور نہ باطل اس کو برداشت کرتا ہے۔ اس کا رویہ اکھل کھرا اور اس کی ہدایت بالکل واضح ہے۔ لَکُمْ دِیْنُـکُمْ وَلِیَ دِیْن اس کا مزاج ہے۔ ہوا کے رخ پر اڑنا، پانی کے بہائو کے سہارے بہنا، اس کے مزاج کے خلاف ہے۔ یہ کمپرومائز کرنا نہیں جانتا۔ جس طرح نور وظلمت اکھٹے نہیں ہوسکتے، آگ اور پانی بہم نہیں رہ سکتے، ندی کے دو کنارے آپس میں نہیں مل سکتے، تاریخ کے دو باب اکھٹے نہیں ہوسکتے، اسی طرح قرآن کا پیش کردہ حق کسی باطل کے ساتھ مفاہمت نہیں کرسکتا۔ جس طرح ہمارا پروردگار وحدہٗ لاشریک ہے، اسی طرح اس کے احکام، اس کی شریعت، اس کی ہدایت بھی لاشریک ہے۔ اس کے مقابل اور متصادم ہر چیز باطل ہے۔ حق و باطل میں اشتراک مفاہمت یا اخذ ورد کا رویہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے توحید وشرک میں اشتراک اور مفاہمت۔ اقبال نے ٹھیک کہا ؎ باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول شاید اسی الفرقان ہونے کی وجہ سے ہم قرآن کریم کی یہ خصوصیت دیکھتے ہیں کہ وہ حق و باطل، سچ اور جھوٹ، صحیح اور غلط، کامیابی ونامرادی جیسے حقائق کو پہلو بہ پہلو اور ایک دوسرے کے بالمقابل پیش کرتا ہے۔ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو، نمرود کے بالمقابل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو، حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھ قوم عاد کو ضرور ذکر کرتا ہے۔ جنت اور جہنم کا ذکر آپ ساتھ ساتھ دیکھیں گے۔ رحمت اور عذاب کی آیات یکے بعد دیگرے آئیں گی۔ اہل جنت اور اہل جہنم کارویہ بھی ایک ساتھ بیان ہوگا۔ کفر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کردار اور اسلام کے نتیجے میں تیار ہونے والے کردار آپ کو ایک ساتھ نظر آئیں گے۔ سورة الفرقان اور المومنون اس کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ انداز قرآن کریم کے الفرقان یعنی حق و باطل میں کسوٹی اور امتیاز ہونے کا مظہر ہے۔ رمضان سے متعلق چند مسائل فَمَنْ شَھِدَ مِنْـکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ : شَھِدَ ، شہود سے ہے۔ جس کے معنی ” حاضر اور موجود “ ہونے کے ہیں۔ اور الشَّھْر ” مہینہ “ کو کہتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد رمضان کا مہینہ ہے۔ اس جملے کا معنی یہ ہے کہ تم میں سے جو شخص رمضان میں حاضرہو تو اس پر لازم ہے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اس سے کئی مسائل کی طرف اشارات ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ جو آدمی اپنی زندگی میں اس حال میں رمضان کو پائے کہ وہ مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم ہو اور تمام ایسے موانع سے پاک ہو جن کی وجہ سے روزہ فرض نہیں رہتا تو ایسے آدمی پر پورے مہینے کے روزے فرض ہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص رمضان کو اس حال میں پائے کہ وہ کافر ہو یا نابالغ یا مجنون تو یہ لوگ اس حکم کے مخاطب ہی نہیں۔ البتہ اگر کافر مسلمان ہوجائے نابالغ بالغ ہوجائے اور مجنون مسلمان ہے اور اس کو ہوش آجائے تو پھر جتنے رمضان کے روزے باقی ہوں وہ ان پر فرض ہوں گے اور مجنون کو تو گذشتہ روزے بھی قضا کرنا ہوں گے۔ رہے وہ لوگ کہ جن میں ذاتی صلاحیت تو روزے کی فرضیت کی موجود ہے لیکن کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے جیسے حیض ونفاس والی عورت، یا مریض اور مسافر، تو انھوں نے ایک حیثیت سے ماہ رمضان اس حالت میں پایا کہ روزہ ان پر فرض ہونا چاہیے لیکن وقتی عذر کے باعث وہ روزہ رکھ نہیں سکتے تو روزہ نہ رکھنے کا انھیں گناہ نہیں ہوگا البتہ بعد میں قضا کرنا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ رمضان کا پانا تین طریقوں سے ثابت ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ آدمی خود رمضان کا چاند دیکھے اور دوسرا یہ کہ کسی معتبر شہادت سے چاند کی رویت ثابت ہوجائے۔ ان دونوں صورتوں میں رمضان کے روزے رکھنا فرض ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر یہ دونوں صورتیں نہ پائی جائیں تو پھر شعبان کے تیس دن پورے کرنے کے بعد رمضان کا مہینہ شروع ہوگا اور اگر شعبان کی انتیسویں شب کو موسم خراب ہونے کے باعث چاند نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں دونوں احتمال ہیں کہ چاند طلوع ہوا ہو لیکن نظر نہ آئے یا سرے سے چاند طلوع ہی نہیں ہوا۔ شک کی اس فضا میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ ایسی صورت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے تاکہ فرض اور نفل میں اختلاط اور التباس پیدانہ ہو۔ شہودِ رمضان کی تیسری صورت یہ ہے کہ گنتی کے اعتبار سے رمضان کا مہینہ گنا جاسکے لیکن رات دن کے کئی کئی مہینوں تک طویل ہوجانے کے باعث رات اور دن کی تعین میں مشکل پیش آئے۔ ایسی صورت میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ ” جن ملکوں میں رات دن کئی کئی مہینوں کے طویل ہوتے ہیں وہاں شہود شہر یعنی رمضان کا پالینا بظاہر صادق نہیں آتا۔ اس کا مقتضا یہ ہے کہ ان پر روزے فرض ہی نہ ہوں فقہا حنفیہ میں سے حلوانی اور قبالی وغیرہ نے نماز کے متعلق تو اسی پر فتویٰ دیا ہے کہ ان لوگوں پر اپنے ہی دن رات کے اعتبار سے نماز کا حکم عائد ہوگا مثلاً جس ملک میں مغرب کے فوراً بعد صبح صادق ہوجاتی ہے وہاں نماز عشاء فرض ہی نہیں۔ (شامی) اس کا مقتضا یہ ہے کہ جہاں چھ مہینے کا دن ہے وہاں چھ مہینے میں صرف پانچ نمازیں ہوں گی اور رمضان وہاں آئے گا ہی نہیں۔ اس لیے روزے بھی فرض نہ ہوں گے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی نے امداد الفتاویٰ میں روزے کے متعلق اسی قول کو اختیار فرمایا ہے۔ “ بعض جدید محققین کا خیال یہ ہے کہ قطبین کے قریب جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں یہ سمجھنا کہ وہاں نہ تو رمضان کا تحقق ہوسکتا ہے اور نہ اوقات کی تعین ممکن ہے۔ یہ خیال سراسر علم جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن جس معنی میں ہم خطِ استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں۔ خواہ رات وقت ہو یا دن کا بہرحال صبح و شام کے آثار وہاں پوری باقاعدگی کے ساتھ افق پر نمایاں ہوتے ہیں اور انھیں کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے، جاگنے، کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ جب گھڑیوں کارواج عام نہ تھا تب بھی فن لینڈ، ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی افق کے آثار تھے۔ لہٰذا جس طرح دوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیین اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر وافطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یہ جملہ اس سے پہلی آیت میں بھی گزر چکا۔ اسے دوبارہ لانا شائد اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ جس طرح پہلی آیت میں روزہ کی بجائے فدیہ دینے کا اختیار دیا گیا تھا وہ اس آیت سے منسوخ کردیا گیا۔ اسی طرح کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ مریض اور مسافر کو جو روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تھی وہ بھی شائد منسوخ ہوگئی۔ چناچہ اس شبہ کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ اس جملے کو لایا گیا اور مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ آسانی منظور ہے تنگی اور دشواری نہیں۔ اس لیے اس حقیقی اور فطری سہولت کو کس طرح واپس لیاجاسکتا تھا ؟ اس آیت کریمہ کے آخر میں روزے کی حکمتوں اور مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ہم نے تقویٰ کے ساتھ انھیں بھی ایک ترتیب ملحوظ رکھتے ہوئے شروع ہی میں ذکر کردیا ہے، اگر دوبارہ اس پر نظر ڈال لی جائے تو بہتر ہوگا۔ وَاِذَاسَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ ۔ (اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں (تو انھیں بتائیے) کہ میں قریب ہوں میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ تو چاہیے کہ وہ میرے حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں) (البقرۃ : 186) آیت کے پس منظر پر ایک نظر اس آیت کریمہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس رکوع کی اس سے پہلے کی آیات کو پیش نظر رکھیں۔ اس رکوع میں رمضان میں روزے کی فرضیت کا ذکر فرمایا پھر اس کی اہمیت اور عظمت کو نمایاں کرنے کے لیے یہ فرمایا کہ یہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا اور قرآن کریم اللہ کی ایسی بیش بہا نعمت ہے کہ جہاں جہاں بھی اس کی نسبت ہوگئی ہے وہیں وہیں عظمتیں اور برکتیں بہار بن کر چھاگئی ہیں۔ اسی قرآن کریم نے رمضان المبارک کو خیر الشہوربنایا، اسی قرآن کی وجہ سے یہ امت خیرالامم کہلائی اور اسی قرآن کریم کے باعث حرمین کو عظمتیں ملیں۔ دیگر اسباب سمیت یہی قرآن کا نزول ہے جس کی وجہ سے سرکار ِ دوعالم ﷺ سید الرسل قرار پائے۔ اسی قرآن کریم کو نوع انسانی کے لیے ہدایت نامہ، ضابطہٗ حیات، اور زندگی کا دستور بنا کر نازل کیا گیا۔ اس کتاب سے وابستگی اور اس کے واسطے سے اللہ کے قرب کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صرف اس بات پر کفایت نہ کرے کہ میں احکامِ شریعت پر عمل کرتے ہوئے ان باتوں سے پرہیز کروں جن باتوں سے شریعت نے روکا ہے بلکہ وہ رمضان کے ایک مہینے کے لیے طلوع سحر سے لے کر غروب آفتاب تک ان جائز چیزوں سے بھی ہاتھ کھنیچ لے اور تمام نعمتوں سے منہ پھیر لے جنھیں اللہ تعالیٰ نے عام دنوں میں حلال ٹھہرایا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسے اپنے جذبات و خواہشات پر قابو پانے کی قوت و صلاحیت حاصل ہوجائے گی وہ بندئہ نفس اور خواہشات کا غلام نہیں ہوگا بلکہ اللہ کی غلامی کے سوا باقی ہر چیز پر وہ حکمرانی کرے گا۔ اس کی خودی ہر قوت پر اور ہر جذبے پر غالب آجائے گی البتہ اس کی خودی اللہ کی بندگی اور چاکری میں اس طرح جھکتی چلی جائے گی کہ ایک وقت آئیگاجب اللہ کی عظمت و جلالت اور اس کی بزرگی اور کبریائی کا احساس اس کے رگ وریشے میں سما جائے گا اسے ہر طرف اللہ کی کبریائی کے جلوے نظر آئیں گے۔ اس کی عظمت و جلالت اس کے دل میں خشیت بن کر مچلنے لگے گی اور یہی خشیت اللہ کی چاہت میں ڈوب کر محبت کی شکل اختیار کرلے گی۔ اس کی زبان اس کے شکر میں زمزمہ سنج رہے گی اور اس کے دل و دماغ میں ہر وقت اپنے محبوب کا تصور اور اپنے محبوب کی طلب اس طرح اپنی جگہ بنالے گی کہ دنیا کی ہر خواہش اور دنیا کی ہر تمنا اس کے دل سے نکل جائے گی۔ وہ اس کی ہر نعمت کے مقابلے میں شکر کی تصویر بنے اپنا فرض ادا کرنے کی فکر میں رہے گا۔ عبادت گزار بندے کے احساسات چناچہ تیس دن کے روزے اور تیس راتوں کا قیام اور شب وروز اللہ کی کتاب سے وابستگی اور اعتکاف کی تنہائیوں میں اللہ کی ذات، اس کے رسول اور اس کی کتاب سے محبت کی تڑپ بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ پھر یہ بندہ ہر وقت اپنے اللہ کے خیال میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے جی میں کبھی کبھی خیال آتا ہے، کاش ! میں اپنے محبوب کو دیکھ سکتا، کاش ! میں اس سے باتیں کرسکتا اور اگر یہ نہیں تو کاش ! وہ میری مناجات سنتا، کاش ! وہ میرے احساسات سے واقف ہوتاکیون کہ ایک عاشق ناشاد کی سب سے بڑی طلب، سب سے بڑی چاہت اور سب سے بڑی منزل اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے محبوب کو اپنے قریب محسوس کرے۔ معلوم ہوتا ہے ایسے ہی احساسات سے بہرہ ور ہو کر کسی نہ کسی نے آنحضرت ﷺ سے ایسی ہی کسی تمنا کا اظہار کیا ہوگا۔ یہ اگرچہ بڑی جسارت ہے جس کی صحابہ کرام سے امید نہیں کی جاسکتی لیکن اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ان کے دل میں تو ہر وقت اسی طرح کے جذبات مچلتے ہوں گے۔ پروردگار تو جذبات کی زبان کو بھی سمجھتے ہیں، جذبات کے محرکات کو بھی جانتے ہیں۔ اس لیے آپ نے خود انھیں زبان دی اور یہ آیت کریمہ اتاری کہ اے میرے پیغمبر ! اگر میرے بندے میرے بارے میں آپ سے پوچھیں اور وہ اپنی محبت کے جذبات سے مجبور ہو کر میرے بارے میں کچھ جاننے کی فکر کریں تو انھیں بتائیے کہ تم مجھے دیکھ تو نہیں سکتے ہو اس لیے کہ تم میں مجھے دیکھنے کی ہمت نہیں۔ مخلوق اپنے خالق کا سامنا نہیں کرسکتی تم سورج کی شعائوں کی تاب نہیں لاسکتے، تیز روشنی تمہاری آنکھوں کو چندھیادیتی ہے، انوار کی بارش کا تحمل کرنا تمہارے بس سے باہر ہے، اللہ کے دیدا رسے تم کیسے بہرور ہوسکتے ہو ؟ اسی طرح ان ناسوتی کانوں کے ساتھ تم اس کی آواز کے بھی متحمل نہیں ہوسکتے، تمہاری یہ کمزوری ہے جس نے تمہیں اللہ کو دیکھنے اور اس سے باتیں کرنے سے محروم رکھا ہے۔ لیکن ایک وقت آئیگا جب قیامت میں تم اس نعمت سے بہرہ یاب کیے جاؤ گے۔ تم اپنی کمزوریوں کے باعث اگرچہ اپنے حواس میں اسے سمو نہیں سکتے، اپنی عقل کی گرفت میں نہیں لاسکتے، لیکن اس کے باوجود تم اگر دل بیدار رکھتے ہو تو تم اسے محسوس ضرور کرسکتے ہو۔ اس لیے پروردگار نے فرمایا کہ میرے بندوں کو بتادو کہ میں ان سے قریب ہوں۔ قرب، وصال کا ہم معنی لفظ ہے۔ ایک عاشق صادق کی سب سے بڑی آرزو اپنے محبوب سے وصال حاصل کرنا ہے۔ وہ اپنی اس آرزو سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا وہ اگر یہ جان بھی لے کہ مجھے وصل سے کبھی نوازا نہیں جائے گا لیکن وصل کی تمنا کو وہ چھوڑنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگا۔ غالب نے ٹھیک کہا ؎ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا کچھ اور جیتے ہوتے یہی انتظار ہوتا محبت کی دنیا عجیب ہے۔ جس طرح محبوب کو دیکھنا، اس سے باتیں کرنا، عاشق کی جنت ہے۔ اسی طرح محبوب کے تصور میں کھوئے رہنا یہ بھی ایک عاشق کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس لیے جب بھی اسے موقع ملتا ہے وہ اپنے محبوب کے تصور میں ڈوب جانا چاہتا ہے اور اگر حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تو وہ حسرت کے انداز میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ ؎ دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے اس آیت کریمہ میں بھی یہی فرمایا جارہا ہے کہ وصل تو اس عالم ناسوت میں ممکن نہیں البتہ وصل سے ملتی جلتی چیز محبوب کا قرب ہے۔ تو یقین جانو کہ اللہ تمہارے قریب ہے اور اس قرب کو جاننا چاہوتو تھوڑی سی کوشش کرو تو جان سکتے ہو۔ کسی چیز کا قرب دو چیزوں سے محسوس ہوتا ہے ایک یہ کہ آدمی اپنے محبوب کے نقوش قدم اس کی علامتوں اور اس کی یادوں میں محبوب کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے عربی شاعری اس تصور سے بھری ہوئی ہے۔ وہ جب بھی کسی ایسی جگہ سے گزرتے جن سے کبھی ان کے محبوب کا تعلق رہا تھا تو اس کے ایک ایک ذرے میں انھیں اپنے محبوب کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ یہ اگر واقعی حقیقت ہے تو ہم تو اپنے پروردگار کے حصار میں اس قدر محصور ہیں کہ اس سے باہر ہمیں کوئی چیز دکھائی ہی نہیں دیتی۔ وہ ہمارا خالق ہے تو ہمارا اپنا وجود، ہمارا انگ انگ، ہمارا ایک ایک عضو، ہماری ایک ایک صلاحیت، ہمارا ایک ایک احساس و خیال اگر اپنے خالق کی یاد نہیں دلاتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم درحقیقت احساس کی قوت سے محروم ہیں، ہمارے اندر عقل نام کی کوئی چیز نہیں، اسی طرح ہمارا پروردگار ہمارا رب ہے اس کی ربوبیت کے خزانے ہمارے چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ بہتا ہوا پانی، چھوکر گزرنے والی ہوا، خوشبو دیتے ہوئے پھول۔ ہلہاتی فصلیں، چمکتی ہوئی دھوپ، چھائے ہوئے بادل، تلی ہوئی گھٹا، ابلتے ہوئے چشمے، گرتی ہوئی آبشاریں، کڑکتے ہوئے بادل، جھنڈوں کی طرح تنے ہوئے درخت، زمین پر مخملی گھاس کا بچھا ہوا فرش، پھلوں سے لدے ہوئے درخت، زمین پر پھیلی ہوئی سبزیوں کی بیلیں، کتنی بیشمار نعمتیں ہیں جو ہمارے قریب وبعید پھیلی ہوئی ہیں۔ اور جن سے ہمارا ہر وقت کا واسطہ ہے، یہ آخر کس کی یاد دلاتی ہیں۔ اور کس کے تصور کو تازہ کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے گھاس کی ایک ایک پتی اور پھول کی ایک ایک پنکھڑی اور درخت کی ایک ایک ٹہنی آدمی کو یہ کہنے پر مجبور کردیتی ہے کہ ہر کہ دیدم در جہاں غیرے تو نیست یا توئی یا خوئے تو یا بوئے تو یاد دلانے والی دوسری چیزمحبوب کی یاد ہے۔ لیکن اس کا تعلق محبوب سے نہیں عاشق ناشاد سے ہے۔ اگر اس کے اندر ایک بیدار دل پایا جاتا ہے جو ہر وقت محبوب کی محبت میں سلگتا، اس کی مہک سے مہکتا، اس کے ذکر سے ہمکتا اور اس کے تصور سے چہکتا ہے۔ تو اندازہ کیجیے اس کا محبوب اس کے قریب ہے یا اس سے دور ہے۔ وہ جب بھی اپنے محبوب کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے اس کے سوا کچھ نہیں کرنا پڑتا کہ وہ سر جھکا کر اپنے دل کو دیکھے۔ کسی شاعر نے ٹھیک کہا تھا دل کے آئینہ میں ہے تصویرِ یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی لیکن اس کے لیے کچھ محنت کرنا پڑتی ہے۔ سب سے پہلی محنت تو یہ کرنا ہوتی ہے کہ آدمی کا اپنے دل سے براہ راست تعلق پیدا ہوجائے۔ وہ اپنے دل کی بات سن سکے اور اسے سنا سکے اس کے احساسات کو سمجھ سکے اور اس میں تبدیلی کرنے کی بھی ہمت رکھتاہو۔ دوسری یہ محنت کہ اس کے دل میں سوائے اپنے محبوب کے کسی اور کی یاد نہ ہو۔ کسی اور صنم کے لیے دل میں جگہ نہ ہو، وہ ایک ایک محبت کے آستانے کو حقیقی محبت کے گرز سے توڑ چکا ہو۔ جن جن چیزوں کی محبت اللہ کی محبت کو نقصان پہنچاتی ہے ان میں سے ایک ایک چیز اس کے دل سے نکل چکی ہو بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر میں یہ عرض کروں گا کہ صرف چیزیں ہی نہ نکلی ہوں ان کی آرزو اور تمنا بھی نکل چکی ہو۔ چیزوں سے لاتعلق ہوجانا اور استغنا کی زندگی اختیار کرنا ایک بہت بڑی دولت ہے اور یہ ہر کس وناکس کا کام نہیں۔ بڑے حوصلہ مندلوگ اس گھاٹی کو سر کرتے ہیں۔ لیکن اللہ جیسے محبوب کو اپنے دل میں بلانے کے لیے اس سے بھی اگلی منزل طے کرنا پڑتی ہے۔ وہ یہ کہ صرف اشیاء ہی دل سے نہ نکلیں بلکہ ان کی طلب، ان کی چاہت، ان کی تمنا اور آرزو بھی دل سے نکل جائے۔ قصرِاقتدار سے رخ پھیرلینا، دولت کی ہوس کو شکست دے دینا، عہدہ ومنصب سے لاتعلق ہوجانا، شہرت اور نام ونمود سے قطع تعلق کرلینا بڑی عظمت کا کام ہے۔ لیکن یہ حقیقی منزل نہیں، حقیقی منزل یہ ہے کہ ان میں سے ایک ایک چیز کی تمنا بھی ختم ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ کے فیضِ صحبت نے صحابہ کرام کو اسی حقیقی منزل سے آشنا کیا اور اللہ والوں نے ہمیشہ اسی منزل کی طلب میں زندگی گزاری۔ جب کوئی شخص یہ منزل پالیتا ہے تو اسے بجا طور پر یہ کہنے کا حق ہے ؎ ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی فَاِنِّیْ قَرِیْب اس آیت کریمہ میں انھیں باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اے پیغمبر ! انھیں بتادیجیے، میں قریب ہوں کہیں دور نہیں۔ اب یہ تمہاری کوشش ہے کہ تم مجھے تلاش کرتے ہو یانھیں میرے فیضان کا عالم تو یہ ہے کہ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے یہ لفظ نہایت قابل توجہ ہے۔ اس کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ جب وہ مجھے پکارتا ہے بلکہ اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ جب وہ مجھے ہی پکارتا ہے کیونکہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے اور اس میں وہ کسی اور کو شریک نہیں کرتا۔ حالات کتنے بھی بےقابو ہوجائیں اس کا یقین اسے ہمیشہ اطمینان دلاتا ہے کہ اللہ ہر طرح کے حالات پر قابو پاسکتا ہے، اس کی ذات سب سے عظیم ہے۔ اس لیے اگر کوئی اس سے برہنہ تلوار ہاتھ میں لے کر پوچھتا ہے کہ بتا تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا ؟ تو وہ نہایت اطمینان سے جواب دیتا ہے : اللہ ! اور اللہ اسے بچا لیتا ہے۔ اس لیے آگے فرمایا کہ یہ لوگ اگر میری محبت کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ میری بات سنیں، میرے ہی احکام کی اطاعت کریں، میرے دئیے ہوئے ضابطہ حیات کو اپنی زندگی کا ضابطہ بنالیں، میرے رسول کی سنت کو دستور العمل ٹھہرالیں۔ دوسری یہ بات کہ مجھ پر یقین رکھیں کہ میں نے ان کو جو ہدایت عطا فرمائی ہے اسی میں ان کے لیے کامیابی ہے، میرے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے ہی میں ان کے لیے فلاح ہے اور مجھ پر سہارا اور مجھ پر توکل بگڑے ہوئے حالات میں بھی ان کے لیے سپر اور ڈھال ہے اور مجھ سے ہی مدد طلب کرنا ان کی سب سے بڑی قوت ہے۔ اگر وہ ان باتوں پر یقین رکھیں تو پھر امید کی جاسکتی ہے کہ یہ راہ راست سے کبھی نہیں بھٹکیں گے، انھیں رشد نصیب ہوگا، الجھے ہوئے معاملات اور لاینحل مسائل میں اللہ تعالیٰ ان کو رہنمائی عطا فرمائے گا۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ میں قریب ہوں جب کوئی مجھے پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں اور اس کا جواب دیتا ہوں۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تو بارہا اپنے اللہ سے دعائیں کرتے ہیں لیکن ہماری دعائیں تو کبھی نہیں سنی جاتیں۔ ہم پکارتے رہتے ہیں لیکن ہماری پکار رائیگاں جاتی ہے۔ اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کے بارے میں تفصیلی بحث تو کسی اور موقعہ پر آئے گی لیکن چند بنیادی باتیں ہیں جن کا دعا کے سلسلے میں ذہن میں رہنا ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کی کمائی حلال نہ ہو اور وہ رزق حلال کی پابندی نہ کرتاہو، اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ حضرت سعد ابن وقاص ( رض) نے آنحضرت سے درخواست کی آپ میرے لیے دعا فرمادیجیے کہ میں مستجاب الدعوات ہوجاؤں۔ جو دعا کیا کروں قبول ہواکرے۔ آپ نے فرمایا : اے سعد ! اپنا کھانا حلال اور پاک بنالو۔ مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے، بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہو اس گوشت کے لیے تو جہنم کی آگ ہی لائق ہے۔ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا : حرام مال کھانے والے کی دعاقبول نہیں ہوتی۔ بہت سے آدمی عبادت کی مشقت اٹھاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یارب یارب پکارتے ہیں مگر ان کا کھانا بھی حرام کا، پینا بھی حرام کا اور لباس بھی حرام کا، ان کی دعا کہاں قبول ہوسکتی ہے۔ دوسری یہ بات ہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے رزق حلال کی پابندی کے ساتھ ساتھ مانگنے کا طریقہ بھی صحیح ہونا چاہیے۔ اخلاص اور تضرع سے پکارا جائے اور اسی چیز کی دعا کی جائے جس کے لیے دعا کرنا جائز قرار دیا گیا ہے اور اس طریقے سے مانگاجائے جس طرح مانگنا اللہ کے دربار کے لیے زیبا ہے۔ اگر ان احتیاطوں کے ساتھ مانگا جائے تو دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مانگنے والا یہ چاہتا ہے کہ میری دعا اسی وقت قبول ہوجائے اور جو چیز میں چاہتا ہوں وہ مجھے مل جائے۔ لیکن پروردگار جانتے ہیں کہ اس وقت اس کے لیے اس چیز کا ملنا خود اس کے لیے نقصان دہ ہوگا اس لیے وہ اسے روک لیتے ہیں اور اسے اس وقت عطا فرماتے ہیں جب وہ چیز اس کے لیے مفید ہوتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہوتی ہے اس دعا کو روک کر اس کے بدلے میں اس مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے۔ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی لیکن اسے معلوم نہیں ہو تاکہ اس کے بدلے میں کتنی بڑی مصیبت اس کے سر سے ٹل گئی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو چیز مانگی جاتی ہے وہ اس لیے نہیں دی جاتی کہ وہ چیز اس کی عاقبت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی تھی۔ وہ عہدہ ومنصب مانگتا ہے یا دولت کے لیے دعائیں کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ اس کا ظرف ان چیزوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ اقتدار پاکریا جاہ ومنصب کے مل جانے کے بعد اپنی حدود سے نکل جائے گا اور ایسے ایسے کام کرے گا جس سے اسکی عاقبت تباہ ہوجائے گی۔ اس کے بدلے میں اسے وہ نعمت عطا کی جاتی ہے جو اس کی دنیا اور عاقبت کے لیے بہتر ہوسکتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دنیا میں مانگی ہوئی دعائیں بظاہر قبول نہیں کی جاتیں لیکن قیامت کے دن انھیں محرومیوں کو اس کی نیکیاں بنا کر اس کے نامہ اعمال میں شامل کردیا جائے گا اور جب اس کے اعمال تلیں گے تو یہی اس کی محرومیاں اس کی نجات کا سبب بن جائیں گی۔ فَاِنِّیْ قَرِیْب سے اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کو پورے آداب کے ساتھ اور نہائت عاجزی اور خاموشی سے پکارو کیونکہ چیخ چیخ کر اسے پکارا جاتا ہے جو دورہو اور جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو وہ دل کی بات جانتا اور سرگوشیوں کو سنتا ہے۔ اس لیے ادب کا تقاضا یہ ہے : اُدْعُوْارَبَّـکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃ ” اپنے رب کو پکارو تضرع سے اور خاموشی سے “ روزے کی فرضیت اور اس کے مقاصد کو بیان کرنے کے بعددرمیان میں اس آیت کریمہ کے ذریعے بنیادی حقائق کا علم دیا گیا، اساسی تعلیمات سے بہرہ ور فرمایا گیا اور اس خزانے کی خبر دی گئی جس سے امت مسلمہ کو زندگی کے لیے انمول ہیرے مل سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگلی آیت کریمہ میں پھر روزوں سے متعلق احکام کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔
Top