Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ
: مہینہ
رَمَضَانَ
: رمضان
الَّذِيْٓ
: جس
اُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
فِيْهِ
: اس میں
الْقُرْاٰنُ
: قرآن
ھُدًى
: ہدایت
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَ بَيِّنٰتٍ
: اور روشن دلیلیں
مِّنَ
: سے
الْهُدٰى
: ہدایت
وَالْفُرْقَانِ
: اور فرقان
فَمَنْ
: پس جو
شَهِدَ
: پائے
مِنْكُمُ
: تم میں سے
الشَّهْرَ
: مہینہ
فَلْيَصُمْهُ
: چاہیے کہ روزے رکھے
وَمَنْ
: اور جو
كَانَ
: ہو
مَرِيْضًا
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر
سَفَرٍ
: سفر
فَعِدَّةٌ
: تو گنتی پوری کرے
مِّنْ
: سے
اَيَّامٍ اُخَرَ
: بعد کے دن
يُرِيْدُ
: چاہتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
بِكُمُ
: تمہارے لیے
الْيُسْرَ
: آسانی
وَلَا يُرِيْدُ
: اور نہیں چاہتا
بِكُمُ
: تمہارے لیے
الْعُسْرَ
: تنگی
وَلِتُكْمِلُوا
: اور تاکہ تم پوری کرو
الْعِدَّةَ
: گنتی
وَلِتُكَبِّرُوا
: اور اگر تم بڑائی کرو
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي
: پر
مَا ھَدٰىكُمْ
: جو تمہیں ہدایت دی
وَلَعَلَّكُمْ
: اور تاکہ تم
تَشْكُرُوْنَ
: شکر کرو
(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو (حق وباطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو
ارشاد باری ہے ( شھر رمضان الذی انزل فیہ القران۔۔۔۔۔ الایۃ) مصنف کتاب ابوبکر جصاص کہتے ہیں : گزشتہ سطور میں ہم نے ان حضرات کا قول نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ابتدا میں ہر ماہ ک تین روزے فرض تھے اس کے لیے قول باری ہے ص کتب علیکم الصیام تم پر روزے فرض کئے گئے) نیز قول باری ہے ( ایاما معدودات گنتی کے چند دن) پھر یہ حکم اس قول باری سے منسوخ ہوگیا کہ ( شھر رمضان الذی انزل فیہ القران) بعض اہل علم کا قول ہے کہ ( کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم اور ( ایاما معدودات) سے جس چیز کا وجوب ہوا تھا ، یعنی روزہ ( شھر رمضان ) اس کا بیان ہے۔ اس صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی کہ گنتی کے چند دن جو رمضان کے مہینے کے ہیں “ ار ایام معدودات ، کے روزے اللہ تعالیٰ کے اس قول ( شھر رمضان ) تا قول باری ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) سے منسوخ ہوگئے تو اس صورت میں قول باری ( شھر رمضان) کے ذریعے پہلی آیت کے دو حکم منسوخ ہوجائیں گے۔ پہلا ” ایام معدودات “ جو غیر رمضان ہیں اور دوسرا روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے کے درمیان اختیا جو ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) کے ذریعے دیا گیا تھا۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے صفحات میں سلف سے نقل کیا ہے۔ اگر ( شھر رمضان) اللہ کے قول ( ایاما معدودات) کا بیان قرر دیا جائے تو پھر لا محالہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فرض رمضان کے نزول کے بعد وجوب صوم کے ابتدائی مراحل میں روزہ رکھنے اور کھانا کھلا دینے کے درمیان اختیار باقی تھا اور یہ حکم اسی طرح باقی اور جاری رہا حتیٰ کہ افمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) کے ذریعے اس پر نسخ وارد ہوا اور یہ منسوخ ہوگیا کیونکہ یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ فعل کا وقت آنے سے پہلے اور اس پر عمل درآمد سے قبل ہی اس پر نسخ وار ہوجائے۔ دوسرا قول درست ہے اس لیے ک سلف سے اس بارے میں روایات کی کثرت ہے کہ روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے کے درمیان اختیار رمضان کے روزوں میں تھا اور پھر یہ ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) سے منسوخ ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت کے مضمون میں یہ دلالت موجود ہے کہ ( ایاماً معذودات) سے غیر رمضان مراد ہے۔ اسی لیے کہ سلسلہ کلام میں اس کا ذکر روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے کے درمیان اختیار کے ذکر کے ساتھ مقرون و متصل ہے۔ اگر ( ایام معدودات) ایسا فرض مجمل ہوتا جس کا حکم کسی بیان پر موقوف ہوتا تو پھر ثبوت فرض سے پہلے تخییر کے ذکر کا کوئی معنی نہ ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کسی ایسے فرض کے ورود میں کوئی امتناع نہیں ہے جو اگر مجمل ہو لیکن اس کے ضمن میں ایسا حکم موجود ہو جس کے معنی سمجھ میں آ رہے ہوں اور بس یہ حکم کسی بیان پر موقوف ہو ، جب یہ بیان آ جائے کہ اس حکم سے کیا مراد ہے تو اس بیان کے ساتھ ہی اس حکم کا ثبوت ہوجائے گا۔ اس بنا پر تقدیر کلام کچھ اس طرح ہوگی کہ ” گنتی کے چند دن ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ جب ان کا وقت اور ان کی مقدار کا بیان آ جائے تو اس کے حکم کے مخاطب لوگوں کو روزہ رکھنے اور فدیہ دینے کے درمیان اختیار ہوگا “۔ مثلاً قول باری ہے ( خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم، آپ ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کیجئے جس کے ذریعہ انہیں پاک کر دیجئے) یہاں اموال کے لفظ میں عموم تھا جس کا اس سے متعلقہ حکم میں اعتبار کرنا درست ہوگیا۔ لیکن لفظ صدقہ ایک مجمل لفظ ہے جسے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ جب صدقہ کا بیان آگیا یعنی اس سے مراد کفارہ ذنوب ہے جن میں وہ لوگ مبتلا ہوگئے تھے جو غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ گئے تھے تو اس کے بعد اس میں اموال کے لفظ کے عموم کا اعتبار کرنا بالکل درست رہا۔ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ ایک احتما ل یہ بھی ہے کہ ( وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین) کا نزول بعد میں ہوا ہو اگرچہ تلاوت میں یہ پہلے ہے۔ اس صورت میں تقدیر آیات اور ان کے معانی کی ترتیب اس طرح ہوگی۔ ” گنتی کے چند دن کو ک رمضان کے ہیں ، تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ بعد کے دنوں میں گنتی پوری کرلے، اور ان لوگوں کے ذمہ جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں فدیہ ہے، ایک مسکین کو کھانا کھلانا “ اس صورت میں یہ حکم کچھ عرصے تک باقی اور جاری رہا ہوگا۔ پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اور اس کے ذریعے روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے کے درمیان اختیار منسوخ ہوگیا۔ اس کی بعینہہ وہی صورت ہے جس کا ہم نے آیت ( واذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ میں ذکر کیا ہے کہ اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ اول یہ کہ گائے ذبح کرنے کے سلسلے میں ایک شخص کے قتل کا ذکر اگرچہ تلاوت میں مئوخر ہے لیکن نزول میں مقدم ہے، اور دوسری تفسیر یہ تھی کہ اس کا نزول اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے اس کی تلاوت ہے اگر معنی کے لحاظ سے مقدم ہے اور حرف وائو کے ذریعے قتل نفس کا ذکر گائے ذبح کرنے کے حکم پر معطوف ہے اور چونکہ حرف عطف وائو میں معطوف علیہ اور معطوف میں ترتیب کا ہونا ضروری نہیں ہوتا اس بنا پر کہا جائے گا کہ گویا سارا واقعہ ایک ساتھ مذکور ہوا ہے۔ ٹھیک اسی طرح قول باری ( ایاما معدودات) تا قول باری (شھر رمضان ) میں وہ تمام احتمالات ہیں جو گائے کے واقعہ والی آیات میں ہیں۔ ارشاد باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اس میں کئی احکام ہیں پہلا حکم تو یہ ہے کہ جو شخص اس مہینے کو پالے اس پر روزہ واجب ہے اور جو نہ پائے اس پر نہیں۔ اگر سلسلہ آیات میں از ( کتب علیکم) تا قول باری ( شھر رمضان الذی انزل فیہ القران) پر ہی اکتفا کیا جاتا تو اس صورت میں روزہ تمام کے تمام مکلفین کو لازم ہوجاتا لیکن جب اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) تو یہ بیان کردیا گیا کہ روزے کا لزوم سب پر نہیں بلکہ صرف ان لوگوں پر ہے جو اس مہینے کو پالیں۔ اس آیت ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) پر بھی کئی معافی کا توارد ہوا ہے ایک تو یہ کہ جو شخص اس مہینے کا شاہد یعنی پالینے والا ہو اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مقیم ہو مسافر نہ ہو جیسا کہ محاورہ میں مقیم کو شاہد اور مسافر کو غائب کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر روزے کا لزوم مقیم لوگوں کو ہوگا۔ مسافروں کو نہیں۔ پھر اگر سلسلہ کلام میں رمضان کو پالینے والوں کے ذکر پر اقتصار کرلیا جاتا تو اس سے یہ مفہوم ہوتا کہ وجوب صوم کا اقتصار صرف ان ہی لوگوں پر ہے مسافرین پر نہیں ہے کیونکہ ان کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہوا۔ اس بنا پر ان پر روزہ لازم ہوتا ہے نہ اس کی قضا۔ لیکن جب فرمایا گیا ( ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) تو مریض اور مسافر کا حکم بیان ہوگیا کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں ان پر قضا واجب ہے، یہ ساری تفسیر اس صورت کی ہے جب ( فمن شھد منکم الشھر) کا مطلب شہر میں اقامت ہو، خانہ بدوشی نہ ہو، یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا مطلب شاھد الشھر یعنی اس مہنے کا عمل رکھنے والا ہو۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اس کا مطلب ہے ج شخص مکلف ہونے کی صورت میں اس مہینے کو پالے، اس لیے کہ دیوانہ اور ایسے لوگ جو مکلف نہیں ہیں وہ لزوم صوم کے منتفی ہونے کے لحاظ سے ان لوگوں کے حکم میں ہوں گے جو سرے سے موجود نہ ہوں گویا رمضان کا شہود کا ان پر اطلاق کیا گیا لیکن اس سے مراد یہ لیا گیا کہ ” ایسے لوگ جو مکلف بھی ہوں “۔ جس طرح یہ ارشاد باری ہے ( ضم بکم عمی یہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں) چونکہ ان لوگوں نے پیغمبر ﷺ کی زبان مبارک سے ہدایت کی باتیں سن کر ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اس بنا پر انہیں قوت شنوائی سے محروم یعنی بہرے قرار دے کر انہیں گونگے اور اندھے کہا گیا۔ اسی طرح ارشاد باری ہے ( ان فی ذلک لذکریٰ لمن کان لہ قلب۔ بیشک اس میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جن کا دل ہو) یعنی عقل اور سمجھ ہو، اس لیے کہ جو شخص اپنی عقل اور سمجھ سے کام نہیں لے گا اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ گویا اس کا دل ہی نہیں ہے۔ یہاں بھی اسی طرح یہ جائز ہے کہ شہود شہر اس سے عبارت ہے کہ وہ مکلفین میں سے ہو اس لیے کہ جو شخص اہل تکلیف میں سے نہیں ہوگا وہ روزے کے حکم سے سقوط کے اعتبار سے ان لوگوں کی طرح ہوگا جو سرے سے موجود ہی نہ ہوں۔ درج بالا احکام کے علاوہ جو ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) سے مستفاد ہوئے، ایک حکم یہ بھی معلوم ہوا کہ اس سے رمضان کا فرض کی تعیین ہوگئی کیونکہ ’ شہود شہر “ سے مراد یہ ہے کہ اس مہینے میں مکلف ہونے کی حالت میں ہونا، مجنون اور ایسے لوگ جو مکلفین میں شمار نہیں ہوتے ان کے لیے اس ماہ کے روزے لازم نہیں ہیں۔ ( اس شخص کے متعلق فقہا کی آراء کا اختلاف جس پر پورے رمضان یا اس کے بعض حصے میں دیوانگی طاری رہی) امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف ، محمد، زفر اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر ایک شخص پر پورے رمضان دویانگی طارق رہی تو اس پر کوئی قضا نہیں۔ اگر رمضان کے کسی حصے میں اسے افاقہ ہوگیا اور وہ ہوش میں آگیا تو وہ رمضان کے پورے روزے قضا کرے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ جو شخص مکمل دیوانگی کی حالت میں بالغ ہوگیا اور اسی حالت میں کئی سال گزر گئے پھر اس کی دیوانگی ختم ہوگئی تو وہ تمام پچھلے سالوں کے روزے قضا کرے گا لیکن اس پر نمازوں کی قضا نہیں ہوگی۔ عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ ایک شخص دماغی خرابی میں مبتلا ہو پھر اسے افاقہ ہوجائے اور اس بیماری کے دوران نماز اور روزے چھوڑ رکھے ہوں تو اس پر ان کی قضا لازم نہیں آئے گی۔ دیوانے کے متعلق ان کا قول ہے کہ اگر اسے افاقہ ہوجائے یا ایسا شخص جسے صفراء یا سوداء کی بیماری لاحق ہوجائے اور پھر افاقہ ہوجائے اس کے متعلق بھی ان کی رائے ہے کہ وہ قضا کرے گا۔ امام شافعی نے الویطی سے فرمایا ہے کہ جو شخص رمضان میں دیوانہ ہوجائے تو اس پر قضا نہیں، اگر رمضان میں کسی دن غروب آفتاب سے پہلے وہ ہوش میں آ جائے تو بھی اس پر قضا واجب نہیں ہوگی۔ مصنف کتاب ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ قول باری ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) ایسے مجنوں پر وجوب قضا سے مانع ہے جسے رمضان کے کسی حصے میں بھی ہوش نہ آئے، اس لیے کہ وہ حقیقت میں اسے مہینے کو پانے والوں میں سے نہیں ہے۔ اس مہینے کو پالینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکلف ہونے کی حالت میں اس میں موجود ہو اور دیوانہ اہل تکلیف میں سے نہیں ہے اس لیے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ص رفع القلم عن ثلاب عن النائم حتی یستیقظ وعن الضغیر حتی یحلوو عن المجنون حتی یفیق۔ تین قسم کے لوگ مرفوع القلم یعنی غیر مکلف ہیں۔ سونے والا شخص جب تک کہ بیدار نہ ہوجائے، نابالغ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے اور دیوانہ جب تک کہ ہوش میں نہ آجائے۔ اگر یہ کہا کہ جائے کہ قول باری : ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) میں یہ احتمال ہے کہ ایک شخص کی اس مہینے میں حالت امامت میں موجودگی پائی جائے اور سفر نہ ہو نہ کہ حالت تکلیف میں جس کا تم ذکر کر رہے ہو، تو و کونسی دلیل ہے جس کی بنا پر تم نے اپنے دعوے کے مطابق شہود رمضان کو حالت تکلیف کے ساتھ مقید کیا اور حالت امامت کے ساتھ مقید نہیں کیا جس کے ہم قائل ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ چونکہ آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے اور یہ دونوں معانی ایک دوسرے کے منافی بھی نہیں ہیں بلکہ ان دونوں کا ایک ساتھ مراد لینا جائز ہے او لزوم صوم کے لیے ان کا شرط بننا بھی درست ہے تو ایسی صورت میں آیت کے الفاظ کو ان دونوں پر محمول کرنا واجب ہے، ہم اسی کے قائل ہیں۔ اس لیے کوئی شخص ہمارے نزدیک اسی صورت میں روزے کا مکلف ہوگا اور اسے ترک صوم کی اجازت نہیں ہوگی جب وہ مقیم و مکلف ہوگا۔ اور اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حکم کا مخاطب بننے کی صحت کے لیے اہل تکلیف میں سے ہونا شرط ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی اور دیوانہ رمضان کے مہینے میں اہل تکلیف میں سے نہیں تھا تو گویا حکم صوم کا خطاب اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا اور اس پر قضا بھی لازم نہیں ہوئی۔ اس حقیقت پر حضور ﷺ کا وہ ظاہر قول دلالت کر رہا ہے جو اوپر گزر چکا ہے کیونک رفع القلم کا مطلب اسقاط تکلیف ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کررہی ہے کہ دیوانگی ایک ایسی کیفیت ہے جس کے تسلسل کی صورت میں ایسا شخص سرپرستی کا مستحق ہوجاتا ہے۔ یعنی کوئی اس کا ولی بن کر اس کے معاملات طے کرے، اس لحاظ سے مجنون کی حیثیت صنعیر یعنی نابالغ کی سی ہوجاتی ہے کہ اگر وہ سارا مہینہ نابالغ رہے تو اس سے روزے کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ البتہ اغماء ( بےہوشی کی حالت اس سے جدا ہے ۔ کیونکہ اس کیفیت کی طوالت کے باوجود اس کے لیے ولی مقرر کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اغماء والی کیفیت والا انسان، مجنون اور نابالغ نیند میں مدہوش انسان سے جدا ہوتے ہیں اس لیے کہ نیند کی مدہوشی میں مبتلا انسان اس کا مستحق نہیں ہوتا کہ اس مدہشی کی بنا پر کوئی دوسرا انسان کا اس ولی بنے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اغماء میں مبتلا انسان کو کسی حکم کا مخاطب بنانا اسی طرح درست نہیں ہے جس طرح دیوانے کو، ان دونوں سے مکلف ہونے کی صفت زائل ہوچکی ہوتی ہے جس کی بنا پر یہ واجب ہے کہ اس پر اغماء کی وجہ سے قضا لازم نہ ہو۔ اس ک جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اغماء کی موجودگی میں اگرچہ روزے کے حکم کا مخاطب بنانا منچع ہے لیکن اس پر قضا واجب کرنے کے لیی ایک اور اصل موجود ہے اور وہ ہے قول باری ( فمن کان منکھ مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) اغماء والے انسان پر مریض کے لفظ کا اطلاق بالکل درست اور جائز ہے۔ اس لیے اس لفظ کے عموم کی بنا پر اس پر قضا واجب کرنا ضروری ہے اگرچہ اغمار کی حالت میں وہ اس کا مخاطب نہیں بن سکتا، رہا مجنون تو اسے مریض کا لفظ مطلقاً شامل نہیں ہوتا اس لیے وہ ان لوگوں میں داخل ہی نہیں ہے جن پر اللہ نے قضا واجب کی ہے۔ رہا ایسا مجنون جسے اس ماہ کے کی حصے میں دیوانگی سے افاقہ ہوگیا ہو تو اس پر قضا کالزوم اس قول باری کی وجہ سے ہوا ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) کیونکہ اسے اس مہینے کا اس بنا پر شہود ہوگیا کہ وہ اس کے ایک جز میں مکلف بن گیا تھا۔ اس لیے کہ قول باری ( فمن شھد منکم الشھر) سے یا تو یہ مراد ہے کہ پورے مہینے کا شہود ہو یا یہ مراد ہے کہ اس کے کسی جز کا شہود ہو، پہلی صورت کو لزوم صوم کے لیے شرط بنانا دو وجہوں سے درست نہیں ہے۔ اول یہ کہ اس کی وجہ سے لفظ میں تناقض معنی پیدا ہوجائے گا، وہ اس لیے کہ ایسا شخص پورے مہینے کے شہود کی صف سے اسی وقت متصف ہوگا جبکہ پورا مہینہ گزر جائے گا اور یہ ایک امر محال ہے کہ پورے مہینے کا گزر جانا اس کے لیے پورے روزوں کے لزوم کی شرط بنے اس لیے کہ گزر جانے والے قوت میں روزے کے فعل کی انجام دہی امر محل ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ایسے شخص کے حق میں پورے مہینے کا شہود مراد نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ جس شخص پر ماہ رمضان آ جائے اور وہ اہل تکلیف میں سے ہو تو اس پر پہلے دن سے روزہ فرض ہوجائے گا کیونکہ اسے اس مہینے کے ایک حصے کا شہود ہوگیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس مہینے کے روزوں کے مکلف ہونے کی یہ شرط ہے کہ ایسا شخص اس کے ایک جُز میں اہل تکلیف میں سے ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی تنقیح کے مطابق شہود سے مراد اس مہینے کے ایک جُز کو پالینا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس پر صرف اسی جز کا روزہ لازم ہو کیونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ لزوم صوم کے لیے مہینے کے بعض حصے کا شہود شرط ہے۔ اس بنا پر آیت کی تقدیر عبارت یہ ہوگی کہ ” جو شخص اس مہینے کے بعض حصے کو پالے وہ اس حصے کا روزہ رکھ لے “۔ معترض کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ تمہارا خیال درست نہیں ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر اس بات پر دلیل قائم نہ ہوتی کہ رمضان کے بعض حصے کا شہود لزوم صوم کے لیے شرط ہے۔ تو ظاہر لفظ یعنی ( الشھر) جس معنی کا مقتضی ہوتا وہ پورے مہینے کا استغراق ہوتا ( یعنی ارشاد باری میں لفظ الشھر کے ظاہر معنی اس بات کے متقاضی ہوتے کہ اس سے پورا مہینہ مراد لیا جائے۔ اب جب اس بات پر دلیل قائم ہو کہ لزوم کی شرط میں مہینے کا بعض حصہ مراد ہے کہ پورا مہینہ تو ہم اس لفظ کو اسی پر محمول کریں گے۔ لیکن ظاہر لفظ پورے مہینے کے روزوں کے وجوب کے لیے کارفرما رہے گا اس لیے لفظ الشھر کا اطلاق پورے ماہ پر ہوتا ہے۔ اس بنا پر تقدیر عبارت اس طرح ہوگی۔ تم میں سے جو شخص اس مہینے کے کسی جُز کو پالے تو وہ پورے ماہ کا روزہ رکھے “۔ اگر یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ دیوانے کی دیوانگی سے اس وقت افاقہ ہوجائے جبکہ اس مہینے کے کچھ دن باقی ہوں تو تمہارے لیے ضروری ہے کہ اس پر گزرے ہوئے دنوں کی قضا لازم نہ کرو کیونکہ اسے گزرے ہوئے دنوں کے روزوں کا مکلف بنانا ایک امر محال ہے اور اس صورت میں وجوب صوم کا ہدف باقی ماند دن ہونے چاہئیں۔ اس اعتراض کا یہ جواب دیا جائے گا کہ ایسے شخص پر گزرے ہوئے دنوں کی قضا لازم آئے گی نہ کہ روزہ، او یہ بات جائز ہے کہ اسے اگر چہ روزوں کا مخاطب بنانا ممتنع ہے لیکن اس پر قضا کا لزوم ہوسکتا ہے یعنی اسے قضا کے حکم کا مخاطب بنایا جاسکتا ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بھول جانے والا انسان، حالت اغبما میں مبتلا شخص اور نیند میں پڑا ہوا آدمی ان تمام کو مذکورہ بالا حالات میں روزہ کے فعل کا مخاطب بنانا محال ہے۔ لیکن ان کے مکلف ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹیں لزوم قضا سے مانع نہیں ہوسکتی ہیں۔ یہی حالت نماز کو بھول جانے والے اور نماز سے سو جانے والے کی ہے۔ اس لیے ایسے شخص کی طرف فعل صوم کا خطاب دو طریقوں سے متوجہ ہے۔ اول مکلف ہونے کی حالت میں فعل صوم، دوم کسی اور وقت میں اس کی قضا اگرچہ اغماء اور نسیان کی حالت میں فعل صوم کا خطاب اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ واللہ اعلم (رمضان کے کسی حصے میں نابالغ کا بالغ یا کافر کا مسلمان ہوجانا ) ارشاد باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ اس سے مراد اس مہینے کے بعض حصے کا شہود ہے، ایک نابالغ جو رمضان کے بعض حصے بالغ ہوجائے یا ایک کافر مسلمان ہوجائے اس کے متعلق فقہا کی آرا میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد ، زفر ، امام مالک ( مئوطا میں) عبید اللہ بن الحسن ، لیث اور امام شافعی کا قول ہے کہ یہ دونوں باقی ماندہ دنوں کے روزے رکھیں گے اور گزر جانے والے دنوں کی قضا ان پر لازم نہیں آئے گی بلکہ اس دن کی قضا بھی لازم نہیں آئے گی جس دن یہ نابالغ بالغ ہوا یا یہ کافر مسلمان ہوا۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ یہ اس دن کی قضا کرے۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ اگر نابالغ نصف رمضان میں بالغ ہوجائے تو گزشتہ دنوں کی قضا کرے گا۔ اس لیے کہ اسے ان دنوں کے روزوں کی طاقت تھی۔ کافر کے متعلق ان کا قول ہے کہ اسلام لانے کے بعد وہ گزشتہ دنوں کی قضا نہیں کرے گا، ہمارے اصحاب یعنی احناف کا قول ہے کہ جس دن وہ بالغ ہوجائے یا اسلام لے آئے اس دن کی باقی ماندہ حصے میں کھانے پینے سے رک جانا مستحب ہے۔ مصنف کتاب امام جصاص کا ان آراء پر تبصرہ : قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) ہم نے اس کے معانی بیان کردیے ہیں اور یہ ثابت کردیا ہ کہ لزوم صوم کے لیے متعلقہ شخص کا مکلفین میں سے ہونا شرط ہے۔ نابالغ بلوغت سے پہلے اہل تکلیف میں سے نہیں ہوتا اس لیے اس پر اس حکم کا لازم کرنا درست نہیں ہے پھر صنعر یعنی کم سنی روزے کی صحت منافی ہے کیونکہ صغیر کا روزہ صحیح نہیں ہوتا، اسے روزہ رکھنے کے لیے جو کہا جاتا ہے تو وہ صرف تعلیم کی خاطر ہوتا ہے، نیز اسے روزے کی عادت ڈالنے اور اس کی مشق کے لیے ایسا حکم دیا جاتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب وہ بالغ ہوجاتا ہے تو اس پر نہ تو پچھلی نمازوں کی قضا لازم آتی ہے اور نہی روزوں کی یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ حالت صنعر میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کا اس پر لزوم درست نہیں ہے۔ اگر اس پر رمضان کے گزرے ہوئے دنوں کی قضا لازم آتی تو پھر اس پر گزشتہ سال کے روزوں کی قضا کا لزوم بھی درست ہوتا جبکہ اسے ان روزوں کے رکھنے کی طاقت ہوتی۔ جب تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ باوجود روزے کی طاقت کے گزشتہ سال کے روزے اس کے حق میں ساقط ہیں تو پھر یہی حکم اس رمضان کا بھی ہونا چاہیے جس کے ایک حصے میں وہ بالغ ہوا تھا۔ اس پہلو سے کافر بھی نابالغ کا مشابہ ہے کیونکہ کافر کو روزے کا مکلف اسی وقت بنایا جاسکتا ہے جب وہ پہلے مسلمان ہوچکا ہو۔ اس لیے کہ کفر روزے کی صحت کے منافی ہے چناچہ وہ نابالغ کے مشابہ ہوگیا یہ دونوں مجنون کے مشابہ نہیں ہیں جسے اس ماہ کے کسی حصے میں دیوانگی سے افاقہ ہوجاتا ہے اور اس پر اس ماہ کے گزرے ہوئے دنوں کی قضا بھی لازم ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ جنون روزے کے منافی نہیں ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جو شخص روزے کی حالت میں دیوانہ ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ دیوانگی اس کے روزے کی صحت کے منافی نہیں ہے اور کفر اس کے منافی ہے۔ اس پہلو سے وہ صغیر یعنی نابالغ کے مشابہ ہے۔ اگرچہ صغیر اور کافر اس باب میں اس لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ کافر ترک صوم پر سزا کا مستحق ہوگا جبکہ صغیر اس کا مستحق نہیں ہوگا۔ رمضان کے درمیان مسلمان ہونے والے کافر سے رمضان کے گزرے ہوئے دنوں کی قضا کے سقوط پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے ( قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ما قد سلف) آپ کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر ووہ باز آ جائیں تو ان کی پچھلی خطائیں معاف کردی جائیں گی) ۔ نیز حضور ﷺ کی حدیث ہے ( الاسلام یجب ما قبلہ والاسلام یھدم ما قبلہ) اسلام ما قبل کی خطائوں کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے اور اسلام ما قبل کے گناہوں کو مسمار کردیتا ہے) ہمارے اصحاب کا یہ قول کہ رمضان میں دن کے وقت اگر کافر مسلمان ہوجائے یا نابالغ بالغ ہوجائے تو دونوں شام تک کھانے پینے سے اپنے آپ کو روکے رکھیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ان پر ایسی حالت طاری ہوگئی ہے کہ اگر یہ دن کے شروع میں ہوتی تو یہ روزہ رکھنے کے پابند ہوتے۔ اس لیے دن کے درمیان اس حالت کی موجودگی میں ان کا کھانے پینے سے رک جانا ضروری ہے۔ اس مسئلے کی اصل حضور ﷺ سے منقول وہ روایت ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ نے عاشورہ کے دن مدینہ کے بالائی حصہ کی آبادی کو پیغام بھیجا کہ جس نے طلوع فجر کے بعد کچھ کھا پی لیا ہے وہ دن کے باقی ماندہ حصے میں کھانے پینے سے رک جائے اور جنہوں نے کچھ نہیں کھایا ہے وہ روزہ رکھ لیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے کھا پی لینے والوں کو قضا کرنے اور دن کے باقی ماندہ حصے میں کھانے پینے سے باز رہنے کا حکم دیا تھا حالانکہ ان کا روزہ نہیں تھا۔ اس لیے کہ اگر یہ کھاپی نہ چکے ہوتے یعنی حالت افطار میں نہ ہوتے تو انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا جاتا۔ چناچہ ہم نے دن کے دورا ان طارق ہونے والی حالت کا اعتبار اس حیثیت سے کیا ہے کہ اگر یہ حالت دن کی ابتدا میں پیش آ جاتی تو اس کا کیا حکم ہوتا۔ اس بنا پر اگر طارق ہونے والی حالت ایسی ہو جس سے روزہ لازم ہوجائے تو ایسے شخص کو باقیماندہ دن میں کھانے پینے سے باز رہنے کے لیے کہا جائے گا۔ اور اگر طارق ہونے والی حالت ایسی نہ ہو تو اسے امساک کا حکم نہیں دیا جاتے گا۔ اسی بناپر احناف کا قول ہے کہ رمضان میں دن کے کسی حصے میں حیض سے پاک ہونے والی عورت اور سفر سے واپس گھر پہنچ جانے والے شخص کو اگر وہ روزے سے نہ ہو دنے بقیہ وقت میں کھانے پینے سے رکے رہنے کا حکم دیا جائے گا اس لیی کہ اگر پاکی اور اقامت کی حالت دن کی ابتدا میں موجود ہوتی تو انہیں روزہ رکھنے کا حکم ہوتا۔ احناف کا یہ بھی قول ہے کہ اگر عورت کو دن کے کسی حصے میں حیض آ جائے تو اسے باقی ماندہ حصے میں خوردونوش سے باز رہنے کے لیے نہیں کہا جائے گا اس لیے کہ اگر حیض کی حالت دن کی ابتدا میں ہوتی تو اسے روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جاتا۔ اگر اس بنا پر کوئی یہ اعتراض اٹھئے کہ پھر تو تمہیں اس شخص کو افطار کی اجازت دے دینی چاہیے جو دن کی ابتدا میں مقیم تھا اور پھر سفر پر روانہ ہوگیا، اس لیے کہ سفر کی حالت اگر دن کی ابتدا میں موجود ہوتی اور پھر وہ سفر کرتا تو اس سے اسے افطار کی اجازت مل جاتی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ درج بالا سطور میں ہم نے اپنے استدلال کو روزہ چھوڑ دینے یا روزہ رکھ لینے کی علت نہیں بنایا تھا بلکہ اس غیر روزہ دار کے امساک یعنی کھانے پینے سے رک جانے کی علت قرار دیا ہے۔ رہ گئی روزہ چھوڑنے کی اباحت یا امتناع کی بات تو اس کے لیے ایک اور شرط ہے جو ہمارے مذکورہ استدلال کے علاوہ ہے۔ ارشاد باری ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) سے کچھ اور احکام مستبط ہوتے ہیں جو گزشتہ سطور میں بیان کردہ احکام کے علاوہ ہیں۔ ایک یہ کہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی شخص کو صبح ہونے کے بعد یہ ظاہر ہوجائے کہ رمضان شروع ہوچکا ہے تو اس پر روزے کی ابتدا کردینا لازم ہوجائے گا اس لیے کہ آیت میں یہ کوئی فرق موجود نہیں ہے کہ ایک شخص کو رات سے ہی رمضان کی ابتدا کا علم ہوجائے یا دن کے شروع میں۔ آیت ان دونوں حالتوں کے لیے عام ہے۔ ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی شخص رات سے رمضان کے روزے کی نیت نہ کرے تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر دیوانہ اور اغماء کی کیفیت میں مبتلا انسان کو دن کے کسی حصے میں افاقہ ہوجائے اور انہوں نے رات سے روزے کی نیت نہ کی ہو تو ان پر یہ واجب ہوگا کہ وہ اسی وقت سے روزہ شروع کردیں اس لیے انہیں ماہ رمضان کا شہود ہوگیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے سہود کو لزوم صوم کی شرط قرار دیا ہے۔ اس آیت سے ایک اور حکم بھی مستنبط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص نے رمضان میں نفلی یا کسی اور فرض روزے کی نیت کرلی تو اس کی یہ نیت اس رمضان کے روزوں کی نیت کی جگہ لے لے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں روزہ رکھنے کا حکم مطلقاً وارد ہوا ہے ، یہ حکم نہ تو کسی وصف کے ساتھ مقید ہے اور نہ ہی نیت فرض کی شرط کے ساتھ مشروط و مخصوص ہے۔ اس بناپر وہ جس نیت سے بھی روزہ رکھے گا آیت کے حکم سے عہد برار ہوجائے گا اور یہ رمضان کا ہی روزہ ہوگا۔ اس آیت میں ایک حکم یہ بھی ہے کہ جو شخص تنہا رمضان کا چاند دیکھ لے گا اس پر روزہ لازم ہوجائے گا۔ اس کے لیے اس وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہوگا کہ بقیہ تمام لوگوں نے چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے اسے شعبان کا دن سمجھ کر روزہ نہیں رکھا ہے۔ روح بن عبادہ نے ہشام سے اور اشعث نے حسن سے نقل کیا ہے کہ جو شخص تنہا رمضان کا چاند دیکھے وہ امام المسلیمن کے ساتھ روزہ رکھے گا۔ تنہا روزہ نہیں رکھے گا۔ عبداللہ بن المبارک نے ابن جریج کے واسطے سے عطاء بن رباح سے روایت کی ہے کہ جس شخص کو رمضان کا چاند لوگوں سے ایک رات پہلے نظر آ جائے تو وہ لوگوں سے پہلے نہ روزہ رکھے اور نہ ہی روزہ چھوڑے۔ عطاء کا قول ہے کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں اسے شبہ نہ ہوگیا ہو۔ اس سلسلے میں حسن بصری نے مطلقا یہ کہا ہے کہ ایسا شخص روزہ نہیں رکھے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن کے نزدیک اگر اس شخص کو بلا کسی شک و شبہ روایت کا یقین بھی ہوجائے پھر بھی وہ روزہ نہیں رکھے گا۔ البتہ عطاء کے قول سے یہ ترشح ہوتا ہے کہ ایسا شخص اس صورت میں روزہ نہیں رکھے گا جب وہ اپنے متعلق یہ سمجھتا ہو کہ اسے رویت ہلالی میں شبہ ہوگیا ہے اور حقیقت میں اس نے چاند نہیں دیکھا ہے بلکہ یہ صرف اس کے تخیل کی کارفرمائی ہے۔ ہمارے خیال میں ظاہر آیت ہر اس شخص پر روزہ واجب کردیتا ہے جسے چاند نظر آگیا ہو کیونکہ آیت میں یہ فرق نہیں کیا گیا ہے کہ خواہ کسی نے تنہا دیکھا ہے یا دوسرے لوگوں کے ساتھ۔ اس آیت میں ایک اور حکم ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ اگر کسی کو دخول رمضان کا علم نہ ہو اور وہ روزہ رکھ لے تو اس کا یہ روزہ رمضان کے روزوں کی کفایت نہیں کرے گا۔ ان کی دلیل یہ قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اس آیت میں رمضان کا روزہ اس شخص پر لازم کیا گیا ہے جسے اس کا علم وا اس لیے کہ قول باری ( فمن شھد) کا مطلب یہ ہے کہ کہ جس نے مشاہدہ کیا ہو اور اسے اس کا علم ہوگیا ہو۔ اس لیے جسے دخول رمضان کا علم ہی نہیں ہوا وہ کیسے اس کا فرض ادا کرسکے گا۔ وہ اس طرح کہ جیسے ایک شخص شک کی بنا پر رمضان کے روزے رکھ لے پھر اسے یقین ہوجائے اور کوء یاشتباہ باقی نہ رہے ۔ مثلاً دارالحرب میں کوئی مسلمان قیدی ہو وہ ایک ماہ روزے رکھ لے اور یہ رمضان کا مہینہ نکلے۔ ان حضرات کے قول کے مطابق ایسے شخص کے روزے رمضان کے روزوں کی جگہ نہیں لیں گے۔ سلف کی ایک جماعت سے بھی اس قول کی حکایت کی گئی ہے۔ امام مالک اور امام شافعی سے اس بارے میں دو قول منقول ہیں۔ ایک یہ کہ یہ روزے رمضان کے روزوں کی طرف سے کفایت کر جائیں گے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ کفایت نہیں کریں گے۔ قیدی کے روزے امام اوزاعی نے قید کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر عین رمضان میں اس نے روزے رکھ لیے تو ادائیگی ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر رمضان کے بعد کسی اور مہینے میں اس نے روزے رکھ لیے تو بھی ادائیگی ہوجائے گی۔ ہمارے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ اگر دارالحرب میں مسلمان قیدی عین رمضان میں یا اس کے بعد رمضان کے روزے رکھ لے تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا۔ ہمیں اس بارے میں فقہا کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر کسی نے کسی ایک مہینے کے متعلق تحری کی اور اس جستجو و تفتیش کے بعد اس کا غالب گمان یہ ہوگیا کہ یہ ماہ رمضان ہے۔ پھر اسے یقین آگیا اور اس میں کوئی اشتباہ باقی نہ رہا کہ یہ وہی مہینہ ہے تو ایسی صورت میں رکھے گئے روزے رمضان کے روزوں کی طرف سے کفایت کر جائیں گے۔ جس طرح اگر کسی نے بادلوں والے دن میں کسی نماز کے وقت کے متعلق جستجو اور سوچ بچار کیا اور غالب گمان کی بنا پر نماز ادا کرلی پھر بعد میں اسے یقین آگیا کہ تمام کا یہی وقت تھا تو اس کی نماز درست ہو جائیگی۔ رہا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) تو اس میں اگرچہ یہ احتمال ہے کہ اسے دخول رمضان کا عمل ہونا چاہیے لیکن اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو روزوں کے جواز سے مانع ہو اگرچہ اسے دخول رمضان کا عمل پہلے سے نہ بھی ہوا ہو۔ دخول رمضان کا علم روزے کے لزوم اور اسے موخر کرنے سے روکنے کے لیے شرط ہے۔ جواز کی نفی کے لیے اس میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اگر منع جواز کی بات پائی جات تو اس سے یہ لازم آتا کہ جو شخص دارالحرب میں ہونے کی وجہ سے اسلامی مہینوں کے متعلق اشتباہ میں پڑگیا ہو جس کی وجہ سے اسے دخول رمضان کا عمل نہ ہوسکا ہو ایسے شخص پر قضا واجب نہ ہوگی۔ اس لیے کہ اس نے نہ تو رمضان کا مشاہدہ کیا اور نہ ہی اسے اس کا علم ہوسکا تھا۔ اب جبک ایسے شخص کے متعلق تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ اس پر قضا واجب ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رمضان کے روزوں کے جواز کے لیے دخول رمضان کا علم شرط نہیں ہے جس طرح کہ قضا کے وجوب کے لیے اس کا علم شرط نہیں۔ اب اگر ایسا شخص جسے دخول رمضان کا علم نہ ہوا ہو۔ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں وجوب قضا کے لحاظ سے شہود رمضان کے وصف سے متصف قرار دیا جاسکتا ہے تو اسے جواز صوم کے لحاظ سے بھی اسی وصف سے متصف قرار دینا واجب ہوگا جب کہ اسے عین رمضان میسر آگیا ہو۔ آیت ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) میں جب یہ احتمال ہے کہ اس سے یہ مراد لیا جاسکتا ہے کہ اس ماہ میں آیت کا مخاطب مکلفین میں سے ہو، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں تو اس بنا پر یہ تسلیم کرنا ضروری ہوگا کہ اہل تکلیف میں سے ہونے کے بعد اسے جس حالت میں بھی شہود رمضان ہو اس کا روزہ درست ہوجائے گا یعنی جو شخص اہل تکلیف میں سے ہے اسے شہود رمضان حاصل ہوجائے گا۔ اس لیے ظاہر آیت کا مقتضیٰ یہ ہوگیا کہ ایسے شخص کا روزہ جائز ہوجائے گا اگرچہ اسے دخول رمضان کا علم نہ بھی ہوا ہو۔ جو لوگ دخول رمضان کے عدم علم کی بنا پر ایسے شخص کے روزہ کے جواز کے قائل نہیں ہیں ان کی ایک دلیل حضور ﷺ کی یہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا ص صوموالرویتہ و افطروا لرویتہ فان غم علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلثین چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیھ کر روزہ چھوڑو۔ اگر رمضان چاند کے موقع پر مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے تھ ہیں چاند نظر نہ آئے تو شعبان ک تیس دنوں کی گنتی پوری کرو) ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں جب یہ حکم ہے کہ پہلے چاند دیکھو اس کے بعد روزہ رکھنے کا عمل شروع کرو تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ چاند نہ دیکھنے کی صورت میں اس دن کے متعلق یہ حکم لگایا جائے گا کہ یہ شعبان کا دن ہے۔ ایسی صورت میں اس دن اس کا روزہ جائز نہیں ہو گ اس لیے کہ شعبان میں رکھا ہوا روزہ رمضان کے روزے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ لیکن یہ دلیل بھی جواز صوم کے لیے مانع نہیں بن سکتی جس طرح یہ وجوب قضا کے لیے بھی نہیں بن سکتی جب اسے روزہ رکھنے کے بعد علم ہو کر یہ رمضان کا مہینہ تھا، حدیث میں مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے ا دن پر شعبان ہونے کا حکم عدم علم کی شرط پر لگایا گیا ہے۔ جب اسے اس کے بعد یہ علم ہوجائے گا کہ یہ رمضان کا دن تھا تو اس پر رمضان ہونے کا حکم لگ جائے گا اور ہم نے شروع میں اس پر شعبان ہونے کا جو حکم لگایا تھا وہ ختم ہوجائے گا۔ گویا اس کے متعلق ہمارا لگایا ہوا حکم کوئی قطعی نہیں ہوگا بلکہ اس کی قطعیت کا انتظار کیا جائے گا اور اس میں گنجائش رکھی جائے گی اس طرح اس دن کے روزے میں بھی گنجائش ہوگی اگر بعد میں ظاہر ہوجائے کہ یہ رمضان کا دن تھا تو روزہ رمضان کا ہوجائے گا اور اگر یہ واضح نہ ہو سکے تو یہ نفلی روزہ ہوجائے گا۔ اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں وجوب قضا روزہ رکھ لینے کی صورت میں اس کے جواز پر دلالت نہیں کرت اس لیے حائضہ عورت پر قضا لازم ہوتی ہے لیکن وجوب قضا جواز صوم پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر عدم علم جواز صوم سے مانع ہوجائے تو پھر یہ واجب ہوگا کہ یہی چیز روزہ رکھنے کی ضرورت میں وجوب قضا سے بھی مانع ہوجائے جس طرح کہ مجنون اور نابالغ کا مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ آپ کے خیال کے مطابق جواز صوم سے یہ چیز مانع ہے کہ اس شخص کو شہود رمضان حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی اسے اس کے دخول کا علم ہوا، اس لیے اگر وجوب قضا کا حکم صرف اش شخص پر عائد ہو جسے شہود رمضان ہوا ہو اور جسے شہود نہ ہو اس پر وجوب نہ ہو تو پھر مذکورہ بالا شخص پر شہود رمضان نہ ہونے کی وجہ سے قضا لازم نہ آئے لیکن آپ کے استدلال کی یہی حد ہے تو اس سے جواز صوم کے حکم میں اگر روزہ رکھ لے اور قضا صوم کے حکم میں اگر روزہ نہ رکھے، کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا اور نہی کوئی فرق پڑتا ہے۔ رہ گئی خائضہ عورت تو اسے روزہ کے مکلف ہونے کا حکم شہود رمضان حاصل ہونے اور دخول رمضان کے علم کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اس وجہ سے نہیں لاحق ہوا کہ اس علم کے باوجود بھی اس کا روزہ رکھنا اس سے فرض کے سقوط کے لیے کافی نہ ہوتا اور اس کے ساتھ افطار کی صورت میں اس پر قضا کا وجوب اس وجہ سے لازم نہیں ہوا کہ وہ روزہ نہ رکھ کر افطار کے فعل کا مرتکب نہیں ہوئی۔ اسی بنا پر اس سے قضا کے وجوب کا سقوط واجب نہیں ہوا کہ اس کا روزہ رکھنا ہی درست نہیں تھا آیت میں حکم کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ جس شخص پر رمضان کا مہینہ آ جائے اور وہ پہلے مقیم ہو پھر سفر پر چلا جائے تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔ اس قول کی روایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، عبیدہ اور ابو مجلز سے کی گئی ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حسن، سعی بن المسیب، ابرہیم نخعی ، اور شعبی کا قول ہے کہ سفر شروع کرنے پر اگر چاہے تو روزہ چھوڑ سکتا ہے فقہاء امصار کا یہی قول ہے۔ پہلے گروہ کی دلیل یہ قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اور اس سفر پر جانے والے شخص نے حالت قیام میں شہود رمضان کیا ہے اس لیے ظاہر آیت کے مقتضیٰ کے پیش نظر اس کے ذمہ روزے پورا کرنا ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ حالت اقامت میں اس پر روزے کا فرض عائد ہوتا ہے اس لیے کہ اس آیت کے بعد ہی مریض اور مسافر کا حکم بیان کردیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے ( ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) آیت میں یہ فرق نہیں رکھا گیا کہ خواہ ایک شخص مہینے کے شروع میں مقیم تھا اور پھر سفر پر چلا گیا یا ایک شخص مہینے کی ابتداء ہی سے سفر پر تھا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) میں دیا گیا حکم اقامت کی حالت پر عائد ہوتا ہے نہ کہ اقامت کے بعد سفر کی حالت پر۔ اور اگر اس آیت کا وہ مفہوم ہوتا جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے تو اس سے یہ بات جائز ہوجاتی کہ اگر کوئی شخص مہینے کی ابتدا میں سفر پر ہو اور پھر مقیم ہوجائے تو وہ روزے نہ رکھے اس لیے کہ ارشاد باری ہے ( ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) اور یہ شخص ابتدائے رمضان میں مسافر تھا ( اس لیے روزے نہ رکھے) اسی طرح جو شخص ابتدائے رمضان میں بیمارہوا اور پھر اسے صحت ہوجائے تو اس کا روزے نہ رکھنا جائز قرار دیا جاتے ، کیونکہ اس پر اسم مریض یا اسم مسافر کا اطلاق ہوگیا ہے۔ اب جبکہ قول باری ( ومن کان مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر) مریض یا مسافر کو جب وہ رمضان کے دوران صحت یاب ہوجائے یا اقامت کرلے، روزہ رکھنے سے مانع نہیں ہوا اور اس حکم کا دارومدار سفر یا بیماری کے بقا پر رہا تو اسی طرح قول باری ( فمن شھد منکم الشھد فلیصمہ) میں حکم صوم کا دارومدار بقائے اقامت پر رہا۔ اہل سیر اور دوسرے حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فتح مہ کے سال رمضان میں سفر اختیار فرمایا تھا اور اس سفر میں آپ نے روزہ رکھا تھا، پھر چند روزے رکھنے ک بعد آپ نے روزے چھوڑ دیے تھے ور صحابہ کرام کو بھی روزہ نہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات موجود ہیں جو اتنی مشہور ہیں کہ ان کی اسناد کے بیان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ ( فمن سھد منکم الشھر فلیصمہ) میں روزے کے لزوم اور ترک افطار کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا دارومدار بقائے اقامت کی حالت پر ہے۔ یعنی جب تک اقامت باقی رہے گی یہ حکم باقی رہے گا اور اگر یہ حالت ختم ہوجائے گی تو حکم بھی ختم ہوجائے گا۔ امام ابوبکر فرماتے ہیں کہ پچھلے صفحات میں ہم نے آیت ( فمن شھد منکم الشھر) پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس سے مستنبط ہونے والے احکام پر روشنی ڈالی ہے۔ اب ہم قول باری ( فلیصمہ) کے معانی اور اس سے مستنبط ہونے والے احکام پر گفتگو کریں گے۔ واضح رہے کہ صوم کی دو قسمیں ہیں۔ صوم لغوی اور صوم شرعی۔ صوم لغوی کی اصلیت امساک یعنی رُک جانا ہے۔ یہ لفظ کھانے پینے سے رک جانے کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر وہ فعل جس میں امساک کا معنی پایا جائے لغت میں وہ صوم کہلائے گا۔ قول باری ہے ( انی نذرت للرحمن صوما۔ میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے) یہاں صوم سے مراد کلام کرنے سے رکے رہنا ہے اس لیے کہ اس آیت کے متصل یہ ارشاد باری ہے ( فلن اکلم الیوم انسیا، میں آج کسی سے نہیں بولوں گی) شاعر کا قول ہے : وخیل صیام یلکن الجم، یعنی گھوڑے جو چارہ وغیرہ سے محروم لگاموں کو چبا رہے ہیں ( یہاں گھوڑے چونکہ چارہ وغیرہ کھانے سے رکے ہوئے ہیں اس لیے انہیں صیام کہا گیا) نابغہ زبیانی کا شعر ہے خیل صیام و خیل غیر صائمۃ تحت العجاج و خیل تعلک اللجما گردو غبار میں کچھ گھوڑے تو ایسے ہیں جو چارہ وغیرہ نہیں کھا رہے اور کچھ کھا رہے ہیں اور کچھ گھوڑے لگاموں کو چبا رہے ہیں۔ عربوں کا محاورہ ہے صام النھار ( دن کھڑا ہوگیا ) اور صامت الشمس ( سورج رک گیا) اس لیے کہ دوپہر کے وقت وہ حرکت کرنے سے رکا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ امرئو القیس کا شعر ہے : فم عھا وسل الھم عنک بحیرۃ ذمول اذا صام النھار وھجرا معشوقہ کا ذکر چھوڑ دے اور جدائی کے غم کو ایسی اونٹنی پر سواری کے ذریعہ بھلا دے جو بڑی ڈیل ڈول والی ہو اور دوپہر کے وقت جب دن کھڑا ہوجائے آہستہ آہستہ چل رہی ہو۔ لغت میں صوم کے یہ معانی ہیں۔ شریعت میں ایک خاص قسم کے امساک کو صوم کہتے ہیں جس کی کچھ متعین شرطیں ہیں جو لغت کے لحاظ سے اس لفظ سے سمجھی نہیں جاسکتی ہیں۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہر چیز سے امساک کو شرعی لحاظ سے روزہ کہنا درست نہیں ہے اس لیے کہ انسان سے ایسا امساک محال ہے کیونکہ ہر چیز سے امساک میں انسان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اپنی تمام متضاد صفات سے دست بردار ہوجائے یعنی نہ وہ ساکن رہے ، نہ متحرک، نہ کھانے والا، نہ چھوڑنے والا ، نہ قائم ، نہ بیٹھنے والا اور نہ ہی لیٹنے والا، یہ صورت محال ہے اور شرچ میں ایسی عبادت کا ورود جائز نہیں ہوتا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ شریعت میں صوم ایک خاص قسم کے امساک کو کہتے ہیں نہ کہ تمام قسموں کے امساک کو۔ اس لیے خاص قسم جس پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے وہ کھانے، پینے اور ہمبستری سے باز رہنے والا امساک ہے۔ فقہاء امصار نے اس کے ساتھ ساتھ حقنہ کرنے ، ناک کے ذریعہ دوائی چڑھانے مثلاً نسوار وغیرہ اور جان بوجھ کر منہ بھر کے قے کرنے سے بھی باز رہنے کی شرط لگائی ہے کچھ لوگ حقنہ اور ناک کے ذریعہ دوائی وغیرہ چڑھانے کی صورت میں قضا کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن یہ شاز قول ہے جمہور کا قول اس کے برعکس ہے۔ قے کرنے کی صورت میں بھی یہی اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : روزہ ہر اس چیز سے ٹوٹ جاتا ہے جو جسم میں داخل ہو نہ کہ اسے جو جسم سے خارج ہو “۔ طائوس اور عکرمہ کا بھی یہی قول ہے۔ لیکن فقہاء امصار کی رائے اس کے خلاف ہے اس لیے کہ جان بوجھ کر قے کرنے کی صورت میں وہ قضا واجب کرتے ہیں۔ البتہ ان فقہا کا اس میں اختلاف ہے کہ معدے میں کوئی چیز پیٹ یا سر کے زخم کے ذریعے پہنچ جائے تو اس پر قضا ہوگی ای نہیں ؟ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی قضا کے قائل ہیں جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد قضا کے قائل نہیں ہیں۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے ۔ اسی طرح حجامت یعنی پچھنے لگوانے میں بھی اختلاف ہے۔ عام فقہا کا خیال ہے کہ حجامت سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ امام اوزاعی کے نزدیک ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح کنکر نگل جانے کی صورت میں ہمارے اصحاب یعنی احناف، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک روزہ ٹوٹ جاتا ہے جبکہ حسن بن صالح کے نزدیک نہیں ٹوٹتا۔ اگر روزہ دار دانتوں کے درمیان کوئی چیز پھنسی ہو اور وہ اسے جان بوجھ کر کھالے تو ہمارے اصحاب اور امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک اس پر قضا نہیں ہوگی۔ حسن بن زیاد نے امام زفر سے روایت کی ہے کہ اگر روزہ دار کے دانتوں کے درمیان گوشت کا ٹکڑا یا ستو یا روٹی کا ٹکڑا پھنسا ہوا ہو، پھر اس کا کچ حصہ اس کی زبان پر آجائے جسے وہ نگل لے جبکہ اسے یاد ہو کہ وہ روزہ دا رہے تو ایسی صورت میں اس پر قضا اور کفارہ دونوں کا لزوم ہوگا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک ای پر قضا واجب ہوگی۔ کفارہ نہیں۔ نووی نے کہا ہے کہ اس کے لیے مستحب ہوگا کہ قضا کرلے۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر مکھی منہ کے راستے اس کے پیٹ میں پہنچ جائے تو اس پر روزے کی قضا لازم آئے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ قضا لازم نہیں آئے گی۔ اہل اسلام کے درمیان مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حیض روزے کی صحت کے لیے مانع ہے۔ البتہ جنبی کے مسئلے میں اختلاف ہے۔ عام فقہاء امصار کی رائے یہ ہے کہ ایسے شخص پر کوئی قضا نہیں اور جنابت کے ساتھ اس کا روزہ مکمل ہوجائے گا۔ حسن بن حی کا قول ہے کہ اس کے لیے اس دن کا روزہ قضا کرلینا مستحب ہوگا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگرچہ کوئی شخص صبح کے وقت جنابت کی حالت میں ہو پھر بھی نفلی روزہ رکھ سکتا ہے۔ حائضہ عورت کے متعلق ان کا قول ہے کہ کہ اگر رات کے قوت وہ حیض سے پاک ہوجائے اور صبح ہونے تک اس نے غسل نہیں کیا تو اس پر اس دن کے روزے کی قضا لازم ہے۔ یہ ہیں وہ امور جن میں سے چند کے متعلق یہ اتفاق ہے کہ ان سے امساک کا نام روزہ ہے اور کچھ امور مختلف فیہ ہیں جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ متفق علیہ امور جن سے امساک کا نام صوم ہے وہ کھانا پینا اور ہمبستری کرنا ہیں۔ اس کی اصل یہ قول باری ہے : ( احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی انساء کم تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے) تا قول باری ( فالان باشروھن وابتغوا ما کتب اللہ لکم وکلو و اشربوا حتی یتبین ربکم الخیظ الا بیض من الخیط الاسود من الفجر ثم واتموا الصیام الی اللیل۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جازء کردیا ہے اسے حاصل کرو، نیز راتوں کو کھائو پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے، تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرلو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کی راتوں میں ابتدائے شب سے طلوع فجر تک کھانا پینا اور ہمبستری کرنا مباح کردیا اور پھر رات تک روزہ مکمل کرنے کا حکم دیا۔ اس کلام کے مضمون اور تہ میں ان باتوں یعنی جماع اور اکل و شرب پر پابندی موجود ہے جنہیں رات کے دوران مباح کردیا گیا تھا۔ اس لیے آیت مضمون سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان اشیائے ثلاثہ سے امساک شرعی روزہ میں داخل ہے۔ اس میں اس بات پر کوئی دلالت موجود نہیں کہ ان تین چیزوں کے علاوہ دوسری چیزوں سے امساک روزہ میں داخل نہیں ہے۔ بلکہ یہ بات اس کی دلالت پر موقوف ہے۔ سنت نبوی اور علمائے امت کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان تین چیزوں کے علاوہ چند دوسری چیزوں سے امساک بھی صوم شرعی میں داخل ہے جن کا ہم انشاء اللہ آگے چل کر بیان کریں گے۔ شرعی روزہ کے لزوم کی ایسی شرطیں بھی ہیں جو امساک کے مفہوم میں نہیں آتی ہیں اور وہ ہیں مسلمان ہونا اور بالغ ہونا کیونکہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دنیاوی احکام میں نابالغ روزے کے حکم کا مخاطب ہی نہیں ہے۔ رہا کافر تو رہ اگرچہ روزے کے حکم کا مخاطب بھی ہے اور ترک صوم پر سزا کا مستحق بھی تا ہم وہ ان لوگوں کے حکم میں ہے جنہیں دنیاوی احکام کا مخاطب نہیں بنایا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ کافر پر حالت کفر میں روزہ نہ رکھنے کی قضا واجب نہیں ہے۔ عورت کا حیض سے پاک ہونا رمضان کے روزہ کے حکم کے مکلف ہونے کی ایک شرط ہے۔ اسی طرح عقل یعنی دماغی صحت، اقامت اور جسمانی صحت بھی اس کے شرائط میں داخل ہیں اگرچہ اقامت اور جسمانی صحت کی عدم موجودگی میں قضا واجب ہے اور عقلی خرابی کی صورت میں قضا کے بارے میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ ہم رمضان میں دیوانہ ہوجانے والے انسان کے متعلق اہل علم کے قول سابقہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں۔ نیت ہر قسم کے روزے کی صحت کے لیے شرط ہے۔ روزے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول ایسا روزہ جو عین فرض ہوتا ہے اور وہ رمضان اور کسی خاص دن میں مانی ہوئی نذر کا روزہ ہوتا ہے۔ دوم نفلی روزہ، سوم اپنے ذمے عائد شدہ روزہ۔ نفلی روزے میں رات سے نیت نہ کرنے کی گنجائش ہوتی ہے بشرطیکہ زوال سے پہلے پہلے اس کی نیت کرے، یہی مسئلہ مستحق العین یعنی فرض روزے کا ہے۔ البتہ اپنے ذمہ عائد شدہ روزے میں رات سے نیت کرنا ضروری ہے ۔ اس کے بغیر روزہ درست نہیں ہوگا۔ زفر کا قول ہے کہ رمضان کا روزہ نیت کے بغیر بھی رکھا جاسکتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ پورے ماہ کے لیے ایک دفعہ نیت کرلینا کافی ہے۔ ہم جو اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کسی نے کنکر وغیرہ نگل لیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اگرچہ کنکر عادۃ ماکولات میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی وہ غذا یا دوا ہے تو اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ( ثم اتموا الصیام الی اللیل) اس کے مفہوم میں ارل یعنی کوئی چیز کھا لینا داخل ہے اور اس کا عموم ان تمام چیزوں کو شامل ہے جو اکل کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اب اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ روزے کی حالت میں کنکر نگل لینے کی ممانعت ہے۔ البتہ اختلاف اس میں ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں اگرچہ اس پر بھی اتفاق ہے کہ کنکر نگل لینے کی ممانعت کا مفہوم آیت سے پیدا ہوا ہے۔ اس سے یہ واجب ہوگیا کہ آیت سے یہی مراد ہے۔ اس لیے کھانے پینے سے رک جانے کا علی الاطلان حکم اس بات کا متقاضی ہے کہ کنکر بھی اس میں دوسرے ماکولات کی طرح داخل ہوجائے۔ اب جبکہ آیت بقیہ تمام ماکولات کے سلسلے میں وجوب قضا پر دلالت کرتی ہے تو یہ کنکر نگل جانے کی صورت میں بھی وجوب قضا پر دلالت کرے گی۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ ( من اکل اوشرب ناسیاً فلا قضاء علیہ جس نے بھول کر کھا پی لیا اس پر قضا نہیں ہے) یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ اکل کے مفہوم میں داخل تمام صورتوں میں عمداً ایسا کیا گیا ہو تو وجوب قضا کے لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا اور تمام صورتوں میں قضا لازم آئے گی۔ اب ناک کے راستے چڑھانے جانے والی دوا یا چیز اور پیٹ یا سر کے زخم کے ذریعے معدے میں پہنچ جانے والی دوا تو ان کے متعلق حکم کی بنیاد حضرت لقیط بن صبرہ کی حدیث ہے جو آپ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے ( بالغ فی الاسنشاق الا ان تکون صائما ناک میں اچھی طرح پانی ڈالو مگر جب تم روزے سے ہو) حضور ﷺ نے حضر لقیط بن صبرہ کو ناک میں اچھی طرح پانی ڈالنے کا حکم دیا۔ اور روزے کی بنا پر اس سے روک دیا۔ اس ارشاد سے مسئلے پر دلالت ہو رہی ہے کہ ناک میں پانی ڈالنے کی وجہ سے حلق یا دماغ تک پہنچ جانے والے پانی کا حصہ روزہ توڑ دیتا ہے اگر یہ معنی نہ لیا جائے تو روزے کی وجہ سے اس سے روکنے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا جبکہ غیر روزے کی حالت میں آپ ؐ نے اس کا حکم دیا تھا۔ یہی حدیث امام ابوحنیفہ کے اس مسلک کے لیے بنیاد بن گئی ہے کہ ہر اس چیز سے قضا واجب ہوتی ہے جو پیٹ میں پہنچ کر ٹھہر جائے جبکہ وہ چیز ایسی ہو کہ پیٹ تک پہنچنے سے اسے روکنا اپنے بس میں ہو۔ خواہ وہ چیز کھانے پینے کے راستے سے پیٹ میں پہنچی ہو یا جسم میں فطری طور پر بنی ہوئی دیگر راہوں سے یا ان کے سوا کسی اور ذریعے سے ۔ اس لئے کہ تمام صورتوں میں مفہوم یہی ہے کہ وہ چیز معدے میں پہنچ کر ٹھہر گئی جبکہ اس سے بچنا عادۃ ً ممکن تھا۔ یہ بات مکھی یا دھوئیں یا دیگر غبار کے حلق میں داخل ہونے پر صادق نہیں ہوتی کیونکہ عادۃ ً اس سے بچنا اختیار سے باہر ہے۔ اس سے تحفظ صرف منہ بند رکھنے کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ روزہ دار کے مثانے سے دو اداخل کرنے کا کیا حکم ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک احلیل یعنی قضیب میں کسی دوا وغیرہ کے داخل کرنے کی بنا پر قضاواجب نہیں ہوتی تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ امام صاحب کے نزدیک قضا اس لیے واجب نہیں ہوتی کہ آپ کے خیال میں وہ دوا وغیرہ مثانہ تک نہیں پہنچتی ہے۔ امام صاحب سے یہ بات نصا ً روایت کی گئی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر وہ چیز مثانہ تک پہنچ جائے تو اس سے روز ٹوٹ جائے گا ۔ امام ابو یوسف اور امام محمد اس مسئلے میں یہ رائے کھتے ہیں کہ قضیب کا سوراخ بھی جسم میں فطری طور پر بنی ہوئی راہوں میں سے ایک ہے اس لئے اس راہ سے جانے والی چیز بھی جوف یعنی معدے تک پہنچ جاتی ہے۔ صائم کے قے کرنے سے روزہ کی کیفیت جو شخص جان بوجھ کر قے کرے اس پر قضا واجب ہے لیکن جسے از خود قے آ جائے اس پر واجب نہیں ہے۔ قیاس کا بھی تقاضا یہی ہے کہ عمدا ً قے پر روزہ نہیں ٹوٹنا چاہیے کیونکہ اصل میں روزہ کھانے یا اس کے قائم مقام چیز مثلاً جماع وغیرہ سے ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ عمدا ً قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ جسم میں داخل ہونے والی چیز سے روزہ ٹوٹتا ہے جسم سے نکلنے والی چیز سے نہیں ٹوٹتا۔ جس طرح جسم سے خارج ہونے والی دیگر تمام اشیاء سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور اس پر سب کا اتفاق ہے تو قے کا خارج ہونا بھی ان دیگر اشیاء کے خروج کی طرح ہے اگرچہ اس میں قے کرنے والے کے اپنے فعل کو بھی داخل ہوتا ہے۔ مگر فقہاء نے اس مسئلے یعنی عمدا ً قے کرنے میں حضور ﷺ سے منقول حدیث کی بنا پر قیاس کو ترک کردیا کیونکہ جہاں حدیث موجود ہو وہاں قیاس کا کوئی کام نہیں ہوتا ۔ یہ عیسیٰ بن یونس کی حدیث ہے جو انہوں نے ہشام بن حسان سے روایت کی ہے۔ ہشام نے اسے محمد سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے حضور ﷺ نے فرمایا ( من ذرعہ القی لم لفطر ولا قضاء علیہ ومن استقاء عمداً فعلیہ القضاء جس کو از خود قے آ جائے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا اور نہ ہی اس پر قضا واجب ہوگی اور جو شخص جان بوجھ کر قے کرے گا اس پر قضا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس مسئلے میں ابن سیرین سے ہشام بن حسان کی روایت غیر محفوظ ہے۔ اس سند سے صحیح روایت بھول کر کھا لینے کے متعلق ہے تو جواب میں کہا جائے گا کہ عیسیٰ بن یونس نے یہ دونوں باتیں اکٹھی ہشام بن حسان سے روایت کی ہے اور عیسیٰ بن یونس وہ ثقہ راوی ہیں جن کی امانت ، ثقاہت اور صداقت پر تمام علمائے جرح و تعدیل کا اتفاق ہے۔ محمد بن بکر نے ہم سے بیان کیا انہیں ابو دائود نے بتایا کہ حفص بن غیاث نے بھی ہشام سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام اوزاعی نے یعیش بن ولید سے وایت کی ہے کہ انہیں معدان بن ابی طلحہ نے بتایا کہ مجھ سے حضرت ابو الدرداء نے بیان کیا کہ حضور ﷺ نے قے کی اور پھر روزہ ختم کرلیا ۔ ابو طلحہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری ملاقات حضرت ثوبان سے ہوئی ۔ میں نے یہ بات ان سے پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ ابو الدرداء نے درست کہا ہے۔ قے کے بعد میں حضور ﷺ پر وضو کرنے کے لئے پانی ڈالتا رہا ۔ وہب بن جریر نے روایت کی ہے کہ میرے والد نے بتایا کہ میں نے یحییٰ بن ایوب کو یزید بن ابی حبیب سے یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ انہوں نے ابو مرزوق سے ، انہوں نے جیش سے ، انہوں نے فضالہ بن عبید سے روایت کی ہے کہ حضرت فصالہ حضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے پانی منگوا کر پی لیا ، فضاء نے عرض کیا کہ آپ روزے سے نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” میں روزے سے تھا لیکن مجھے قے آ گئی تھی ‘ ‘ فقہاء نے ان آثار کی وجہ سے جان بوجھ کر قے کے مسئلے میں قیاس کو ترک کردیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ روایت بھی موجود ہے کہ قے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ یہ روایت ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن کثیر نے ، انہیں سفیان نے زید بن اسلم سے کی ہے۔ زید کے ایک دوست نے ایک صحابی سے یہ روایت بیان کی ہے حضور ﷺ نے فرمایا ( لا یفطر من قاء ولا من احتلم ولا من احتجم ) جس شخص کو قے آ جائے یا جسے احتلام ہوجائے یا جس نے پچھنے لگوائے اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث محمد بن ابان نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے انہوں نے ابو عبید اللہ صنا بحی سے یہ بیان کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ ( من اصبح صائما ً فذرعہ القی فلویفطر ، ومن احتلم فلم یفطر ومن احتجم فلم یفطر) جس شخص نے روزے کی حالت میں صبح کی پھر اسے قے آ گئی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹا ، جسے احتلام ہوگیا اس کا روزہ نہیں ٹوٹا اور جس نے سینگی لگوائی اس کا روزہ نہیں ٹوٹا) اس حدیث میں اس قے کا ذکر ہوا ہے جس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اور اگر یہ بات اس طرح بیان نہ ہوتی تو اسے اس کے اپنے معنی پر معمول کرنا ضروری ہوتا ۔ اس میں وجہ اور بھی ہے اور یہ کہ اس بیان سے دونوں حدیثیں ایک دوسری کی وجہ سے ساقط ہونے سے محفوظ رہتی ہیں اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جب حضور ﷺ سے دو متضاد روایتیں منقول ہوں لیکن تضاد سے ہٹ کر کسی اور طریقے سے ان دونوں پر عمل کرنا ممکن ہو تو دونوں پر عمل کیا جائے گا اور کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا ۔ فقہاء نے یہ جو کہا ہے کہ اگر کسی شخص نے منہ بھرکرقے نہیں کی بلکہ اس سے کم مقدار میں قے آئی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ اس قول کی وجہ یہ ہے ایسی صورت میں اس پر قے کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی ڈکار لے اور اس کے ساتھ اس کی زبان پر معدے سے کوئی چیز آ جائے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے قے کی ہے۔ قے کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب اس کی مقدار زیادہ ہو اور وہ منہ سے باہر آ جائے۔ ابو الحسن کرخی (رح) منہ بھر ک قے کی مقدار کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ اتنی مقدار میں ہو کہ منہ میں اس کا روکنا ممکن ہی نہ ہو ، ایسی صورت میں وہ قے کہلائے گی ۔ پچھنے لگانے کے متعلق فقہاء کا قول ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا اس لیے کہ اصول یہ ہے کہ بدن سے خارج ہونے والی شے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مثلاً بول و براز ، پسینہ اور دودھ وغیرہ ۔ اس بنا پر اگر کوئی شخص زخمی ہوگیا اور زخموں سے خون نکلایا کسی نے فصد کھلوائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ، پچھنے لگانے کو بھی اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی وجہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہر چیز سے امساک شرعی روزے میں داخل نہیں ہے اس لئے ہمارے واسطے یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم ہر چیز کو اس کے ساتھ ملحق کریں سوائے ان چیزوں کے جن کے متعلق شریعت نے رہنمائی کردی ہے یا اس پر امت کا اتفاق ہوچکا ہے ۔ حضور ﷺ سے بچھنے لگانے کی اباحت کے سلسلے میں بہت سے آثار منقول ہیں ۔ ایک روایت وہ ہے جو ہمیں عبد الباقی بن قانع نے بیان کی ، انہیں عبید بن شریک بزاز نے ، انہیں ابو الجماہر نے ، انہیں عبد اللہ بن زید بن اسلم نے ، انہیں ان کے والد زید نے عطاء بن یسار سے روایت کی ۔ عطاء نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( ثلث لا یفطرن الصائم القی ولا حتلام واحجمامۃ ) تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا ، قے ، اختلا م اور پچھنے لگانا) ہمیں محمد بن بکر نے انہیں ابو دائود نے ، انہیں حفص بن عمر نے ، انہیں مثعیہ نے یزید بن ابی زیاد سے ، یزید نے مقسم سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ حضور ﷺ نے حالت احرام وصوم میں پچھنے لگوائے تھے۔ ہم سے عبد الباقی نے، ان سے حسین بن اسحاق نے ، ان سے محمد بن عبد الرحمن بن سہم نے ، ان سے عیسیٰ بن یونس نے ایوب محمد بن الیمانی سے ، انہوں نے مثنی بن عبد اللہ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک سے یہ روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ کا اٹھارویں رمضان کی صبح ایک شخص کے پاس سے گزرا ہواجو پچھنے لگوا رہا تھا۔ حضور ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا ( افطرالحاجموالمحجوم) پچھنے لگانے والا) اور جسے لگایا گیا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ اس کے بعد ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور رمضان میں پچھنے لگوانے کے متعلق آپ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ( اذانبغ باحد کم الدم فلیحتجم ، جب تم میں سے کسی کا خون جوش مارے تو وہ پچھنے لگوائے) ہمیں عبد الباقی نے ، انہیں محمد بن الحسن بن حبیب ابو حفص کو فی نے ، انہیں ابراہیم بن محمد میمون نے ، انہیں ابو مالک نے حجاج سے ، حجاج نے حکم سے ، انہوں نے مقسم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی جس کی وجہ سے آپ پر نیم بےہوشی طاری ہوگئی ، اسی بنا پر آپ نے اسے ناپسند فرمایا ۔ ہمیں محمد بن بکر نے انہیں ابو دائود نے ، انہیں القعبی نے ، انہیں سلیمان یعنی ابن المغیرہ نے ثابت سے یہ روایت بیان کی ثابت نے حضرت انس سے ان کا یہ قول نقل کیا کہ ہم روزہ دار کے لیے پیچھے لگوانے کو صرف اس لیے چھوڑ دیتے تھے یعنی اس کام سے صرف اس لیے روکتے تھے کہ ہم اسے مشقت میں مبتلا کرنا ناپسند کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مکحولی نے حرت ثوبان ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( افطر الحلجم والمحجوم) ابو قلابہ نے ابو الاشعت سے ، انہوں نے حضرت شدادا بن اوس سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ اٹھارہ رمضان کو میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے مقام بقیع میں ایک شخص کے پاس سے گزرے جو پچھنے لگوا رہا تھا، آپ نے فرمایا ( افطر الحاجم والمحجوم) اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے اور ناقلین حدیث کے اصول کے مطابق یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ بعض نے اسے ابو قلابہ ، ابو اسماء اور ثوبان کے سلسلہ سند سے اور بعض نے اسے ابو قلابہ ، شداد بن اوس کے سلسلہ سند سے روایت کی ہے۔ سند میں اس قسم کا اضطراب روایت کو کمزور کردیتا ہے۔ رہی مکحول کی روایت تو اس کی سند میں دراصل حضرت ثوبان سے جس شخص نے روایت کی ہے وہ قبیلے کا ایک بوڑھا شخص ہے جس کے احوال پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ دوسر ی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کے ارشاد ( افطورالحاجم والمحجوم) میں حجامت کی بنا پر جبکہ آپ نے یہ کہہ کر ایک عین ذات کی طرف اشارہ کیا ۔ روزہ ٹوٹنے پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس جیسی صورت میں حجامت کا ذکر ان دونوں شخصوں کی شناخت کے لیے تھا ، مثلاً آپ یہ کہیں کہ افطوالقائم والقاعد (کھڑا ہونے والا) اور بیٹھنے والا دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) اسی طرح یہ کہیں کہ افطرزید ( زید کا روزہ ٹوٹ گیا) یہ کہتے ہوئے آپ کسی شخص کی عین ذات کی طرف اشارہ کریں ۔ ایسی صورت میں آپ کے اس کلام میں اس معنی پر کوئی دلالت نہیں ہوگی کہ قیام روزہ توڑنے کا باعث ہے۔ یا فلاں شخص کا زید ہوتا اس کے افطار کا سبب ہے، یعنی معنی حضور ﷺ کے اس قوم ( افطرالحاجم والمحجوم) کے لیے جائیں گے جبکہ آپ نے یہ کہتے ہوئے دو شخصوں کے عین ذات کی طرف اشارہ کیا تھا اس لئے اس کلام میں اس معنی پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ حجامت کی بنا پر روزہ ٹوٹ گیا ۔ اس روایت کی یہ تاویل بھی جائز ہے کہ آپ نے ان دونوں کو کھانے پینے وغیرہ کی ایسی حالت میں دیکھا ہوگا جو روزہ توڑنے کا سبب بنی ہو۔ پھر آپ نے ان کے روزہ ٹوٹ جانے کی اطلاع اور وجہ بتانا ضروری نہیں سمجھا، یہ تاویل بھی درست ہے کہ آپ نے ان دونوں کو لوگوں کی غیبت کرتے ہوئے دیکھا ہوگا پھر آپ نے ان کے متعلق فرمایا کہ ان دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔ جس طرح کہ یزید بن ابان نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( الغیبۃ تفطر الصائم) غیبت سے روزہ دار کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے فقہاء کے نزدیک اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیب کرنے والا روزہ سے باہر ہوجاتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ غیبت اس کے روزے کے ثواب کو باطل کردیتی ہے۔ اس لیے ( افطر الحاجم والمحجوم) کی روایت میں حاجم اور محجوم کے روزہ ٹوٹ جانے کا یہ معنی ہو ( یعنی روزہ تو نہیں ٹوٹا البتہ روزے کا ثواب باطل ہوگیا ) مترجم ۔ ایک تاویل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم نے جو روایتیں یہاں بیان کی ہیں ان میں حجامت سے نہی کہ بعد حجامت کی اجازت کی تاریخ کا ذکر ہے ( اس طرح نہی والی روایتیں رخصت کی روایتوں کی بناء پر منسو خ ہوگئیں) مترجم۔ یہ تاویل بھی جائز ہے کہ حجامت سے اس لیے روک دیا گیا تھا کہ حالت صوم میں اس کی وجہ س کمزوری پیدا ہونے کا اندیشہ تھا جس طرح آپ نے سفر میں روزہ رکھنے سے اس وقت منع فرما دیا تھا جبکہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ سفر میں روزے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوری کی بنا پر اس پر چادر تان دی گئی تھی ۔ فقہاء کا یہ قول کہ اگر کوئی شخص دانتوں میں پھنسی ہوئی کوئی چیز روزے کی حالت میں نگل لے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پھنسی ہوئی چیز پانی کے ان اجزاء کی طرح ہے جو منہ میں اس وقت باقی رہ گئے ہوں جب روزہ دار کلی کر کے فارغ ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ یہ اجزاء اس کے جوف میں پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جانے کا کوئی حکم موجود نہیں ہے اسی طرح خوراک کے ایسے اجزاء جو اس کے منہ میں رہ گئے ہوں ان کی بھی وہی حیثیت ہے جس کا تذکرہ ہم نے ابھی پانی کے اجزاء کے سلسلے میں کیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے رات کے وقت ستو کا استعمال کیا ہو اور کلی وغیرہ کی ہو جس کا اس زمانے میں رواج نہیں تھا تو لازمی امر ہے کہ صبح کے وقت اس کے دانتوں میں اس کے کچھ اجزا باقی رہ گئے ہوں گے اور کسی نے اسے ان اجزا کو خلال اور کلی کرنے کے ذریعہ پوری طرح نکال دینے کا حکم نہیں دیا جس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ایسے اجزاء کا کوئی حکم نہیں ہے ، یعنی ان کے نگل لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ کیا روزہ دار کے منہ میں کھی جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟ اگر مکھی روزہ دار کے منہ میں پہنچ جائے جبکہ اس میں روزہ دار کے اپنے ارادے کا دخل نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا اس لیے کہ عادۃ ً ایسی صورت حال سے بچائو نہیں ہوسکتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مکھی کے پیٹ میں پہنچ جانے کے خطرے کے پیش نظر روزہ دار کو منہ بند رکھنے اور کلام نہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اس بنا پر مکھی کے داخل ہوجانے کی صورت گرد و غبار اور دھوئیں کے حلق کے اندر پہنچ جانے کا مشابہ ہے اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا لیکن یہ صورت اس حالت کے مشابہ نہیں ہے جس میں کسی روزہ دار کے منہ میں زبردستی پانی انڈیل دیا جائے۔ ایسی صورت میں اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اس لیے کہ اس میں عادت کو کوئی دخل نہیں ہے۔ جبکہ ہم نے مکھی کے داخل ہونے کا جو مسئلہ بیان کیا ہے اس میں سلام کے لیے منہ کھولنا عام عادت پر مبنی ہے اور جس سے عادۃ ً بچنا مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس سلسلے میں اپنے بندوں پر تخفیف کردی ہے۔ قول باری ہے ( وما جعل علیکم فی الدین من حرج) اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی پیدا نہیں کی ہے۔ رہی جنابت تو وہ صحت صوم کے لیے مانع نہیں ہے (فالان باشروھن وابتغوا ما کتب اللہ لکم وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیوی سے ہمبستری کو رات کی ابتداء سے انتہا تک مطلق رکھا ہے ۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ جو شخص آخر شب ہم بستری کا عمل کرے گا اور طلوع فجر کے ساتھ اسے فراغت ہوگی تو ایسی صورت میں وہ جنابت کی حالت میں صبح کرے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول ( ثم اتموا الصیام الی اللیل) کے ذریعے اس کے روزے کی صحت کا حکم لگا دیا ہے۔ علاوہ ازیں عائشہ ؓ اور حضرت اسلم سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ ایسی جنابت کی حالت میں جو احتلام کی وجہ سے لا حق نہیں ہوتی تھی ( بلکہ ہم بستری کی وجہ سے ہوتی تھی) صبح کرتے اور پھر اس دن کا روزہ رکھ لیتے ۔ ابو سعید نے حضور ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا ( ثلاث لا یفطون الصائم القی والحجامۃ والاحتلام) ظاہر ہے کہ احتلام سے جنابت لا حق ہوجاتی ہے اور حضور ﷺ نے ایسی حالت میں روزے کی صحت کا حکم صاد فرما دیا ہے۔ یہ بات ا س حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ جنابت روزے کی صحت کے منافی نہیں ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور ﷺ سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ( من اصبح جنبا ً فلا یصومن یومہ) جس شخص نے جنابت کی حالت میں صبح کی وہ ہرگز اس دن کا روزہ نہ رکھے ۔ لیکن جب حضرت ابوہریرہ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے فرمایا مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ مجھے تو فضل بن عباس نے یہ حدیث نسائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا یہ قول آپ کی اپنی روایت کی تصنیف کر رہا ہے ۔ اس لیے کہ آپ نے شروع میں یہ فرمایا ۔ رب کعبہ کی قسم ! میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ جس شخص نے جنابت کی حالت میں صبح کی اس کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ رب کعبہ کی قسم ! محمد ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ میں اس کے متعلق پوچھنے والے کو یہ فتویٰ دیتا ہوں کہ اس کا روزہ نہیں رہا ۔ جب آپ کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت سنائی گئی تو آپ نے اپنی ذمہ داری سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :” مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ مجھے تو اس بارے میں فضل بن عباس نے بتایا تھا “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے اپنے فتویٰ سے رجوع کرلیا تھا۔ ہمیں یہ روایت عبد الباقی نے کی ہے، انہیں اسماعیل بن فضل نے انہیں عمرو بن الہیثم نے انہیں ہشام نے قتادہ سے روایت کی ، قتادہ نے سعید بن المسیب سے روایت کی کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اپنے اس فتویٰ سے رجوع کرلیا تھا کہ جس شخص نے جنابت کی حالت میں صبح کی تو وہ اس دن کا روزہ رکھے ۔ اس بنا پر اگر حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ثابت تسلیم بھی کرلی جائے تو یہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت کی معارض نہیں ہوگی ۔ کیونکہ اس میں یہ تاویل کی جاسکتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی مراد اس سے یہ ہو کہ جو شخص صبح کے وقت ایسا فعل کرے جو جنابت کا موجب ہو مثلاً وہ صبح کے وقت اپنی بیوی سے مباشرت کرے تو اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ اگر ہمارے لیے دو روایتوں کی تصحیح اور ان دونوں پر عمل پیرا ہونا ممکن ہو تو ہم ان دونوں پر اس حد تک عمل پیرا ہوں گے جس حد تک ان میں تعارض پیدا نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت اس طرح قابل عمل ہوسکتی ہے کہ اسے حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص کردیا جائے کیونکہ ان دونوں امہات المومنین نے اس کی نسبت حضور ﷺ کے فعل کی طرف کی ہے اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کو امت کے لیے معمول برقرار دیا جائے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں حضور ﷺ کی اس حکم میں دوسروں کے ساتھ مساوات اور شرکت نقل کی گئی ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ کی روایت سن کر فرمایا تھا کہ مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ مجھے تو یہ بات فضل بن عباس نے بتائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان دونوں کی روایت میری روایت کی معارض نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کی روایت کا اقتصار حضور ﷺ کی ذات پر ہے اور میری روایت باقی تمام لوگوں کے لیے ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کے بیان سے معتر ض کی تاویل باطل ہوجاتی ہے نیز حضور ﷺ جملہ احکام شریعت میں امت کے مساوی اور شریک ہیں سوائے ان احکام کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات کے ساتھ خاص کردیے اور امت کو ان کی اطلاع دے کر بقیہ احکام سے انہیں جدا کردیا ۔ ارشاد باری ہے ( فاتبعوہ ٗ ، رسول کی پیروی کرو) اسی طرح قول باری ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ درج بالا سطور میں ہم نے جن امور کا تذکرہ کیا ہے۔ رمضان میں دن کے وقت ان سے امساک یعنی باز رہنا روزے کا حصہ ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے اس قول ثم اتموا الصیام الی اللیل اور قول باری فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ میں مطلوب و مراد ہے۔ اسی لیے ان چیزوں سے امساک صوم لغوی اور صوم شرعی دونوں میں داخل ہے اور جو باتیں امساک کے مفہو م میں شامل نہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ روزے کی شرائط میں داخل ہیں۔ ہماری مذکورہ صورتوں میں امساک اس وقت تک صوم شرعی نہیں بنے گا جب تک یہ شرطیں نہیں پائی جائیں گی ، وہ چیزیں ہیں اسلام ، بلوغت اور نیت صوم نیز عورت ہونے کی صورت میں حی سے پاکی ان شرائط میں سے ایک شرط بھی اگر موجود نہ پائی جائے تو اسی حالت میں امساک کو صوم شرعی نہیں کہا جائے گا ۔ رہ گئی اقامت اور صحت تو یہ دونوں چیزیں روزے کے لزوم کی شرطیں ہیں سفر اور مر کا وجود روزے کی صحت کے منافی نہیں ہے یہ دونوں چیزیں بطریق وجوب روزے کے لزوم کی منافی ہیں اس لیے اگر مریض اور مسافر روزہ رکھ لیں تو ان کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ بلوغت لزوم صوم کی صحت کے لیے شرط ہے تو اس کی وجہ حضور ﷺ کی یہ حدیث ہے رفع القلم عن ثلاثہ ، عن النائم حتی یستیقظ ، وعن المجنوت حتی یفیق وعن الصبی حتی یحتلم ۔ تین قسم کے انسان مروفع القلم ہیں ۔ نیند میں پڑا ہوا انسان جب تک بیدار نہ ہوجائے ، دیوانہ جب تک دماغی حالت درست نہ ہوجائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے۔ ا س بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نابالغ کو تمام عبادتیں معاف ہیں ۔ اسی طرح روزہ بھی لازم نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ قریب البلو غ لڑکے کو تعلیم کے طور پر روزہ رکھنے کا حکم دیا جاسکتا ہے تا کہ اس میں اس کی عادت پیدا ہو اور اسے اس کی مشق کا موقعہ ملے۔ ارشاد باری ہے توا انفسکم واھلیکم نارا ً اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچائو اس آیت کی تفسیر میں کہا گیا کہ اس کا مفہوم ہے کہ انہیں تعلیم دو اور اسلامی آداب سے روشناس کرائو۔ حضور ﷺ سے یہ مروی ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا مروھم بالصلوٰۃ لسبع واضربوھم علیھا لشعر اپنے بچوں کو جب وہ سات برس کے ہوجائیں نماز پڑھنے کے لئے کہو اور جب وہ دس برس کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے کی صورت میں ان کی پٹائی کرو حضور ﷺ کا یہ حکم اس وجہ سے نہیں تھا کہ بچے اس عمر میں نماز کے مکلف ہیں بلکہ یہ حکم تعلیم اور تادیب کے طور پر تھا۔ اسلام کی شرط تو اس وجہ سے ہے کہ یہ بندے کے فعل کی صحت کے لیے بنیاد ہے کیونکہ اراشد باری ہے ( لئن اشرکت لیحبطن عملک اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے سارے اعمال اکارت جائیں گے ۔ اس بنا پر کوئی نیکی اس وقت تک کار آمد نہیں ہوگی جب تک کہ نیکی کرنے والے میں مومن ہونے کی شرط موجود نہ ہو۔ رہی عقل کی شرط تو اگر اس کے ساتھ نیت اور ارادہ مفقود ہو تو یہ صورت حالی نیت کے فقدان کی بنا پر روزے کی صحت کی نفی کر دے گی ۔ اگر اس کے ساتھ رات کے وقت سے نیت صوم پائی جائے پھر عقل گم ہوجائے تو یہ صورت حال اس سے روزے کی نفی نہیں کرے گی ۔ ہم نے یہ جو کہا ہے کہ نیت روزے کی صحت کے لیے شرط ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ شرعی روزہ اسی وقت بنے گا جب روزہ دار کی نیت تقریب الٰہی کی ہو اور کوئی تقریب یا نیکی اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک اس میں نیت اور ارادہ کو دخل نہ ہو۔ ارشاد باری ہے لن ینال اللہ لحومھا ولا د ماء ھا ولکن ینالہ التقوی منکم نہ ان کے گوشت اللہ کے ہاں پہنچتے ہیں نہ خون ، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی کہ اس کے امر کی موافقت کی جستجو تقویٰ کی شرط ہے۔ اب جبکہ اس کے متقی ہونے کی شرط اس کا فرض روزہ رکھنا ٹھہرا تو یہ بات نیت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اس لیے کہ تقویٰ اللہ تعالیٰ کے امر کی موافقت کی جستجو اور اس کے ارادے کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔ ارشاد باری ہے وما امروا الا لیعبد و اللہ مخلصین لہ الذین انہیں اس کے سوا اور کسی بات کا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ دین کو اسی کے لیے خالص رکھیں اور دین کو اللہ کے لیے خالص رکھنا اسی وقت حاصل ہوگا جب کہ اس سے اللہ کی ذات کا قصد کیا جائے اور اس کے سوا کسی اور کے ارادے سے پورے طرح منہ موڑ لیا جائے۔ نیتوں کے ساتھ فرض عبادتوں کے تعلق کے بارے میں یہ چند اصولی باتیں ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نماز ، زکوٰۃ ، حج اور کفارات کی ایک شرط یہ ہے کہ ان کی انجام دہی کی نیت دل میں پیدا ہو اس لیے کہ یہ ایسے فرائض ہیں جو مقصود بالذات ہیں اس بنا پر روزے کا حکم بھی بعینہٖ اسی علت کی بنا پر یہی ہوگا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ روزے اور تمام دوسری فرض عبادتوں میں نیت کی شرط کے ثبوت کے لیے آپ نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان سے یہ لازم آتا ہے کہ طہارت میں بھی نیت کی شرط ہو اس لیے کہ وہ بھی ایک فریضہ ہے۔ جو اب میں کہا جائے گا کہ آپ نے جو کچھ کہا صورت حال اس طرح نہیں ہے اس لیے طہارت مقصود بالذات فریضہ نہیں ہے ۔ اس سے مقصود دوسری عبادت ہوتی ہے جس کے لیے اس شر ط قرار دیا جاتا ہے ۔ اس لیے ہم سے کہا گیا ہے کہ طہارت کے بغیر نماز نہ پڑھو جس طرح کہ یہ کہا گیا ہے نجاست سے پاکیزگی کے بغیر نماز نہ پڑھو یا ستر عورت کے بغیر نماز نہ پڑھو اس لیے یہ باتیں مفروض بالذات نہیں ہیں اس لیے ان میں نیت کا دل میں پیدا کرنا لازم نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب خود نیت کسی دوسری عبادت کے لیے شرط ٹھہری اور مفروض بالذات نہیں ہوئی اس لیے یہ نیت بغیر اس بات کے درست ہوگئی کہ اس کے لیے کوئی اور نیت دل میں پیدا کی جائے۔ اس بنیاد پر ایسے فرائض جو مقصود بالذات ہیں اور ایسے فرائض جو دوسرے فرائض کے لیے شرط کا کام دیتے ہیں اور مفروض بالذات نہیں ہیں دونوں کے حکم ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ جب پانی کے ذریع طہارت دوسری عبادتوں کے لیے شرط ٹھہری نیز یہ کسی کا بدل بھی قرار نہیں پائی اس بنا پر اس میں نیت کرنا لازم نہیں ہوا لیکن اس اسدلال سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم تیمم کے لیے نیت نہ کریں اس لیے کہ تیمم پانی کا بدل ہے اس بنا پر یہ اسی وقت ذریعہ طہارت بنے گا جب کہ نیت اس کا جز بن جائے کیونکہ تیمم بذاتہٖ طہارت نہیں ہے بلکہ یہ ایک اور ذریعہ طہارت یعنی پانی کا بدل ہے۔ (بقیہ تفسیر اگلی آیت میں)
Top