Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 6
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ
وَقَالُوْا
: اور وہ بولے
يٰٓاَيُّھَا
: اے وہ
الَّذِيْ نُزِّلَ
: وہ جو کہ اتارا گیا
عَلَيْهِ
: اس پر
الذِّكْرُ
: یاد دہانی (قرآن)
اِنَّكَ
: بیشک تو
لَمَجْنُوْنٌ
: دیوانہ
اور (کفار) کہتے ہیں کہ اے شخص جس پر نصیحت (کی کتاب) نازل ہوئی ہے تو تو دیوانہ ہے۔
ذکر اقوال کفار ناہنجار دربارہ بارگاہ رسالت قال اللہ تعالیٰ : وقالوا یا یھا الذی نزل علیہ الذکر .... الیٰ .... بل نحن قوم مسحورون۔ (ربط) گزشتہ آیت میں کفار کے انکار قرآن اور اس پر تہدید کا ذکر تھا اب ان آیات میں کفار کے ان اقوال فاسدہ اور شبہات کا سدہ کا ذکر کرتے ہیں جو وہ صاحب قرآن آنحضرت ﷺ کے بارے میں کیا کرتے تھے جس سے ان کا مقصود انکار رسالت تھا ان آیت میں ان کے اقوال کو مع جواب کے ذکر فرماتے ہیں تاکہ خود ان پر ان کا عناد اور کج فہمی ظاہر ہوجائے کہ جن کو پم اپنی جہالت کے نشہ میں سرشار ہو کر مجنون کہا کرتے تھے وہ مجنون نہ تھے چونکہ نزول وحی کے وقت آنحضرت ﷺ پر ایک ربودگی کی کیفیت طاری ہوتی تھی اس لیے یہ نادان اس حالت کو جنون سمجھے قال تعالیٰ ویقولون انہ مجنون۔ وما ھو الا ذکر للعلمین۔ وقال اللہ تعالیٰ اولم یتفکروا ما بصاحبھم من جنۃ۔ اور عجب نہیں کہ آپ ﷺ کو بطور استہزا و تمسخر مجنون کہتے ہوں۔ کما قال فرعون، رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون۔ خلاصہ کلام یہ کہ گزشتہ آیت میں قرآن مبین کے ساتھ کفار کے عناد اور عداوت کا بیان تھا اب ان آیات میں صاحب قرآن یعنی رسول خدا ﷺ کے ساتھ ان کے عناد اور عداوت کا بیان ہے چناچہ فرماتے ہیں۔ اور یہ کافر لوگ جن کو طول امل نے غفلت میں ڈال رکھا ہے معجزات نبوت میں تامل نہ کرنے کی وجہ سے یہ کہتے ہیں۔ اے وہ شخص جس پر قرآن اور نصیحت اتاری گئی ہے بلاشبہ تو دیوانہ ہے کہ تو ہم کو نقد سے ادھار کی طرف بلاتا ہے یعنی دنیا سے آخرت کی طرف کیوں نہیں لاتا تو ہمارے روبرو فرشتوں کو جو تیری نبوت اور صداقت کی گواہی دیں اگر تو سچوں میں سے ہے کہ تیرے پاس اللہ کی وحی آتی ہے یعنی اگر تو سچ کہتا ہے کہ میں پیغمبر ہوں تو فرشتے ہمارے سامنے لا کہ وہ تیری رسالت کی گواہی دیں۔ لولا انزل الیہ ملک لیکون معہ نذیرا۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے ہم نہیں اتارتے فرشتوں کو مگر حق کے ساتھ یعنی بمقتضائے حکمت و مشیت ملائکہ کو نازل کرتے ہیں اور تم نے جو فرمائش کی ہے وہ حق نہیں اور حق سے مراد وقت عذاب ہے اور تمہاری فرمائش کے فرشتے جب نازل ہوں گے تو عذاب ہی لے کر اتریں گے تو اس وقت ان کو مہلت دی جائے گی بلکہ فورا ہلک کر دئیے جائیں گے پھر آئندہ آیت میں اشارۃ ان کے مجنون کہنے کا جواب دیتے ہیں کہ ہمارا نبی مجنون نہیں۔ اس لیے کہ تحقیق ہم نے اس پر اس قرآن کا اتارا ہے اور یقیناً ہم اس کے نگہبان ہیں۔ اس میں کوئی شخص کسی قسم کی کمی بیشی اور تفسیر اور تبدل نہیں کرسکتا۔ قیامت تک اس میں نہ کوئی لفظی تحریف کرسکے گا اور نہ معنوی تحریف کرسکے گا اور ظاہر ہے کہ جس پر ایسی نصیحت اور ہدایت کی کتاب نازل ہو وہ مجنون نہیں ہوسکتا۔ پس سمجھ لو کہ جس قرآن کے تم منکر ہو اور جس کی وجہ سے تم ہمارے پیغمبر کو دیوانہ بتاتے ہو ہم اس کے محافظ اور نگہبان ہیں۔ اور سمجھ لو کہ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے۔ جس کی حفاظت نہیں کی گئی وہ قرآن نہیں۔ اس آیت میں حق سبحانہ نے قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ سو الحمدللہ۔ اللہ کا یہ وعدہ اور اس کی یہ پیشین گوئی جیسی فرمائی تھی حرف بحرف پوری ہوئی۔ چناچہ بحمدللہ دیکھ لیجئے کہ قرآن مجید کی کیسی حفاظت ہوئی ایک حرف بلکہ ایک نقطہ بھی نہ اس سے گھٹ سکا نہ بڑھ سکا۔ اگلی کتابیں محرف و مبدل ہوگئیں۔ مگر قرآن ہنوز اسی حالت پر ہے جس پر آنحضرت ﷺ چھوڑ گئے تھے اور اسی طرح وہ قیامت تک ہر طرح کی تحریف و تبدیل اور کمی اور زیادتی سے محفوظ رہے گا۔ جن و انس میں سے کسی کو مجال نہیں کہ اس میں سے ایک حرف یا ایک کلمہ کم یا زیادہ کرسکے۔ یہ فضیلت سوائے قرآن کے اور کسی کتاب کو حاصل نہیں۔ اور اس وقت وائے قرآن کے روئے زمین پر کوئی الہامی کتاب ایسی نہیں جس میں تحریف اور تبدیل اور کمی اور زیادتی نے راہ نہ پائی ہو تو ریت اور انجیل کے اصلی نسخوں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا اور بائنل کے جو نسخے اس وقت موجود ہیں وہ باہم مختلف ہیں ان میں ہزاروں بلکہ لاکھوں اختلاف موجود ہیں سوائے قرآن کے روئے زمین پر کوئی کتاب نہیں کہ ہر خطہ زمین میں جس کے با شمار حافظ موجود ہوں اور حرف بحرف ان کو ازبر ہو بہتر ہے دشمنان دین قرآن کی تحریف کے درپے رہے اور اب تک ہیں کوئی اس کی ترتیب بدلتا ہے اور کوئی مکی اور مدنی سورتوں میں فرق کرتا ہے اور کوئی تاویلات فاسدہ سے اس کے معنی اور مطالب کو بدلتا ہے اور کوئی وحی کی حقیقت کو بدل کریں کر اس کو کلام انسانی اور القاء نفسانی بتاتا ہے مگر علماء راسخین ان کی لفظی اور معنوی تحریف کو ظاہر کردیتے ہیں اور ان نام نہاد مسلمانوں کے پردہ نفاق کو چاک کردیتے ہیں۔ غرض یہ کہ ذکر (قرآن) کی اس شان سے محفوظیت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے اور جس ذات پر یہ ذکر یعنی قرآن نازل ہوا ہے وہ مجنون نہیں۔ اور البتہ ہم آپ سے پہلی امتوں اور مختلف فرقوں میں رسول بھیج چکے ہیں مگر وہ مختلف فرقے انبیاء کی طرف جنون کی نسبت کرنے میں متفق رہے اور ان کے پاس جو پیغمبر آتا تھا اس کے ساتھ ٹھٹھا کرتے تھے کیونکہ ہر گروہ اپنی بنائی ہوئی خواہشوں میں غرق تھا اور نفس کے شہوات میں ڈوبا ہوا تھا جو رسول آتا ان کو ان نفسانی اور شہوانی لذات سے منع کرتا تو اس کو مجنون بنائے اور اس کے ساتھ ٹھٹھا کرتے مطلب یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! یہ کافر جو آپ ﷺ کو مجنون کہتے ہیں اور آپ کے ساتھ استعداد کرتے ہیں آپ ﷺ اس سے رنجیدہ نہ ہوں پہلے کافروں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ اسی طرح کی باتیں کی ہیں ان جاہلوں کی یہ قدیم عادت ہے اسی طرح کی تکذیب اور استہزاء ہم مجرموں کے دلوں میں اتار دیتے ہیں۔ مجرمین سے وہ لوگ مراد ہیں جو حق کے معاند ہیں ہوائے نفس کے تابع ہیں۔ اور اتباع ہدیٰ سے استکبار کرتے ہیں کہ ہم کیوں کسی کے مطیع اور فرماں بردار بنیں اور ہم دولت مند ہیں ان درویشوں کے پیچھے کیوں چلیں۔ یہ امور تو ان کی گمراہی کے ظاہری اسباب ہیں۔ اور اصل سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی توفیق سے محروم کردیا ہے۔ اور ان کے دل ایسے بنا دیئے ہیں کہ ایمان میں داخل نہ ہوسکیں۔ اس قسم کے معاندین قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے اور اسی طرح گزر چکی ہے رسم پہلے لوگوں کی جس نے انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کی اور ان کے ساتھ استہزاء کیا اور ان کو مجنون بتلایا وہ عذاب الٰہی سے ہلاک ہوا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اگلے کافر ایمان نہیں لائے اسی طرح یہ بھی ایمان نہیں لائیں گے اور جس طرح متمردین ہلاک اور رسوا ہوئے اور حق کا بول بالا ہوا اسی طرح اب بھی ہوگا۔ اور زجاج (رح) کہتے ہیں کہ معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت یہ ہی ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کرنے والوں کے دلوں میں کفر اور گمراہی کو جاری وساری کردیتے ہیں۔ کہ کفر اور عناد ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرجاتا ہے (تفسیر کبیر) اور وہ نزول ملائک پر تو کیا ایمان لاتے ان کے عناد اور ضد کی تو یہ حالت ہے کہ اگر سجائے اس کے کہ ان کے لیے فرشتے آسمان سے اتاریں۔ کود ان کو آسمان پر پہنچا دیں۔ اس طرح پر کہ ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں پھر دن کے وقت وہ اس پر چڑھیں اور بلا کسی اشتباہ عجائب ملکوت کا مشاہدہ کرلیں اور فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو تب بھی ایمان نہیں لائیں گے اور ازراہ عناد یہ ہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے اس لیے ہم اپنے آپ کو آسمان پر چڑھتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن فی الواقع ہم آسمان پر نہیں چڑھ رہے ہیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عناد اور ضد کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی نشانی کو آنکھ سے بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان نہیں لائیں گے بلکہ یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے یا ہماری عقلوں پر جادو کردیا گیا ہے پس جو شخص تعنت اور عناد کی اس حد کو پہنچ جائے اس کو کوئی موعظت نفع نہیں دیتی اور نہ وہ کسی نشانی سے راہ یاب ہوسکتا ہے ایسے معاندین کے سامنے فرشتوں کا نازل کرنا بالکل بےسود ہے۔ لطائف و معارف بابت آیت : انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون۔ 1۔ تمام اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ موجودہ قرآن بعینہٖ وہ ہی قرآن ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا تھا اور ہر قسم کے تحریف اور تغیر و تبدل اور کمی اور زیادتی سے بالکل یہ محفوظ ہے اور انشاء اللہ قیامت تک اسی طرح محفوظ رہے گا اور نہ اس میں تحریف ہو سکے گی اور نہ وہ ضائع ہو سکے گا۔ کیونکہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون۔ تحقیق ہم ہی نے یہ کتاب نصیحت نازل کی ہے اور تحقیق ہم ہی اس کے محافظ اور نگہبان ہیں۔ اس وعدہ کے مطابق آج چودھویں صدی گزرنے کو ہے کہ قرآن ایسا محفوظ ہے کہ مشرق سے لے کر مغرب تک اس کے لاکھوں حافظ موجود ہیں اور روئے زمین کے مسلمانوں کی زبانوں پر یکساں محفوظ ہے۔ ایک لفظ یا زبر زیر کا فرق نہیں بضرض محال اگر قرآن کریم کے تمام مکتوبی اور مطبوعی نسخے روئے زمین سے معدوم ہوجائیں تب بھی قرآن کا ایک جملہ اور ایک کلمہ بھی نہ ضائع ہوسکتا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے۔ قرآن کے سوا کسی آسمانی اور زمینی کتاب کو یہ فضیلت حاصل نہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ دنیا کی کوئی کتاب ایسی محفوظ نہیں جیسا کہ یہ قرآن محفوظ ہے۔ سوائے قرآن کے کوئی کتاب دنیا میں ایسی نہیں جس میں تغیر اور تبدل اور تصحیف و تحریف واقع نہ ہوئی ہو۔ انتہٰی۔ 2۔ اور شیعوں میں جو غالی اور متعصب ہیں وہ اس بات کے قائل ہیں کہ عثمان بن عفان ؓ بلکہ ابوبکر و عمر ؓ عہنم نے بھی قرآن کو بدل ڈالا اور بہت سی آیتیں اور سورتیں جو حضرت امیر اور اہل بیت کے فضایل میں نازل ہوئی تھیں اور جن آیات میں اہل بیت کی اطاعت اور پیروی کے احکام تھے اس قسم کی تمام آیات کو قرآن سے ساقط کردیا اس لیے کہ اس قسم کی آیتیں شیخین ؓ اور عثمان ؓ کو بہت شاق اور گراں تھیں۔ اور بعض فضائل اہل بیت کے ایسے مذکور تھے جن سے ان کی رگ حسد جنبش میں آگئی اس لیے اس قسم کی تمام آیتوں کو قرآن سے نکال ڈالا۔ ازاں جملہ ایک یہ ہے ” وجعلنا علیا صھرک “ یہ آیت الم نشرح میں تھی جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے علی ؓ کو تیرا داماد بنایا اس آیت صہریت کی نسبت حضرت امیر کی طرف کی گئی ہے کہ عثمان ؓ کی طرف اور قرآن میں ایک سورت سورة الولایت تھی جو بڑی لمبی سورت تھی۔ اور اہل بیت کے فضائل پر مشتمل تھی اس کو بھی قرآن سے نکال ڈالا۔ 3۔ اہل سنت والجماعت اس طعن کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اس طعن کی ذمہ داری تو خدا پر عائد ہوتی ہے کیونکہ حق تعالیٰ نے خود قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون فرمایا ہے یعنی یہ قرآن ہم نے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے حافظ و نگہبان ہیں۔ پس جس چیز کی حمایت اور حفاظت کا وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا ہے کسی بشر کو یہ مقدور نہیں کہ وہ اس کی حفاظت میں خلل انداز ہو سکے اور اس میں کچھ گھٹا بڑھا سکے جس چیز کی حفاظت کا حق تعالیٰ ذمہ دار ہو اس میں کوئی الحاق اور تحریف اور کمی زیادتی کسی طرح ممکن نہیں ہاں اگر شیعہ یہ کہیں کہ شیخین ؓ اور عثمان ؓ کو یہ قدرت ہے کہ وہ وعدہ خداوندی کو پورا نہ ہونے دیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ شیخین ؓ اور عثمان ؓ معاذ اللہ اس قدر قاہرہ اور قادر ہیں کہ اگر چاہیں تو خدا کا وعدہ بھی نہ چلنے دیں حق تعالیٰ تو بتاکید اکید اپنے پختہ وعدہ کا اعلان کرتا ہے کہ ہم اس قرآن کے محافظ اور نگہبان ہیں اور شیعہ کہتے ہیں کہ خلیفہ ثالث نے قرآن اصلی کا بالکل نشان مٹا دیا۔ اللہ اللہ کیا قدرت اور طاقت تھی کہ نعوذ باللہ خدا کی بھی نہ چلنے دی سورتیں کی سورتیں اور آیتیں کی آیتیں نکال ڈالیں یا بدل ڈالیں اور خداوندی قہار و جنار خاموش دیکھتا رہا۔ 4۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ جب خدا نے یہ وعدہ فرمایا کہ ہم اس قرآن کے محافظ اور نگہبان ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ۔ (1) تو ناممکن اور محال ہے کہ خداوندذوالجلال قصدا اپنے وعدہ سے منحرف ہوجائے اور حفاظت نہ کرے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ اور قول میں سچا ہے کما قال اللہ تعالیٰ لا یخلف المیعاد۔ (تحقیق اللہ تعالیٰ ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرتا) کام قال اللہ تعالیٰ ومن اصدق من اللہ قیلا۔ (اللہ سے زیادہ کون سچا ہے اپنے قول میں) وقال اللہ تعالیٰ وتمت کلمت ربک صدقا و عدلا۔ لامبدل لکلمتہ۔ (2) اور یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ وعدہ کرکے بھول جائے سورة مریم میں ہے وما کان ربک نسیا (تیرا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے) خدا تعالیٰ کے حق میں سہو اور نسیان اور غفلت ناممکن اور محال ہے اور سورة طہ میں ہے لا یضل ربی ولا ینسی (میرا پروردگار نہ بہکتا ہے اور نہ بھولتا ہے) اور سورة بقرہ میں ہے لا تاخذہ سنۃ ولا نوم (خدا کو نہ اونگھ آسکتی ہے اور نہ نیند) ۔ (3) اور یہ بھی ممکن ہے کہ جبرا و قہرا ایسا ہوجائے کہ خدا اپنا وعدہ پورا کرنے سے مجبور ہوجائے ورنہ لازم آئے گا کہ معاذ اللہ خلیفہ ثالث قوت میں حق تعالیٰ سے بڑھے ہوئے ہیں کہ حق تعالیٰ تو حفاظت کا وعدہ فرمائیں اور خلیفہ ثالث اس کو جبرا و قہرا نہ چلنے دیں اب اس سے ایک اندیشہ اور پیدا ہوگیا کہ مبادا قیامت کے دن خلیفہ ثالث شیعان علی ؓ کو خدا کی حفاظت سے نکال کر کبھی کبھی کے بدلے نہ نکالنے لگیں۔ 5۔ اہل نست کہتے ہیں کہ قرآن میں کمی اور بیشی کا ہونا عقل اور نقل ہر اعتبار سے باطل ہے۔ دلیل عقلی : عقلا تو کمی بیشی کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ : (1) آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جو شخص ایمان لاتا۔ اول آپ ﷺ اس کو قرآن سکھاتے اور پھر وہ قرآن سیکھنے کے بعد اوروں کو سکھاتا اسی طرح سینکڑوں آدمی اور ہزاروں آدمی مسلمان ہوئے۔ (2) حضور پر نور ﷺ کے زمانہ میں ہزاروں آدمیوں نے قرآن سیکھا اور اس کو حفظ کیا چناچہ بعض بعض غزوات میں ستر ستر قاری شہید ہوئے۔ (3) اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے اب تک یہ ہی حال ہے کہ ہر زمانے میں پشت در پشت ہزاروں ہزار قرآن کے حافظ ہوتے چلے آئے اور مشرق اور مغرب کے حافظوں میں ایک حرف کا بھی فرق نہیں جس کتاب کا یہ حال ہو اس میں کسی کی شرارت سے کمی و بیشی کا واقع ہوجانا عقلا محال اور ناممکن ہے۔ (4) مشر ق اور مغرب کے قرآن کے مطبوعہ نسخوں کو ملا لو، ذرہ برابر فرق نہ نکلے گا۔ دلیل نقلی : اور دلیل نقلی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون۔ تحقیق ہم ہی نے اس قرآن کو اتارا ہے اور تحقیق ہم ہی اس کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ قیامت تک تحریف و تبدیل اور زیادتی اور نقصان سے اور کمی و بیشی سے بالکل یہ محفوظ رہے گا اور دوسری جگہ ارشاد ہے لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ۔ تنزیل من حکیم حمید۔ بڑے بڑے ملا حدہ اور زنادقہ اور قرامطہ گزر گئے مگر کسی کو ایک کلمہ میں بھی تغیر و تبدیل کی قدرت نہ ہوئی خدا جس کی حفاظت کا وعدہ فرمائے اس میں کوئی تغیر و تبدیل کرسکتا ہے۔ دلیل الزامی : اس دلیل عقلی و نقلی کے بعد ہم ایک دلیل الزامی پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ تمام روایات امامیہ سے یہ ثابت ہے کہ تمام اہل بیت۔ (ا) اسی قرآن کو پڑھتے تھے اور (2) اسی کے خاص و عام تمسک کرتے تھے اور (3) اسی قرآن کی آیتوں کو بطور استدلال ہیش کیا کرتے تھے اور (4) اسی قرآن کو نمازوں میں پڑھا کرتے تھے اور (5) اپنے اہل و عیال کو اسی قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے اور (6) اپنے مردوں کو اسی قرآن کا ثواب پہنچاتے تھے اور (7) اسی قرآن سے مسائل شرعیہ کا استنباط کیا کرتے تھے اور (8) بغیر وضو کے اسی قرآن کو مس نہیں کرتے تھے اور (9) اسی قرآن کے اوامرو نواہی کے پابند تھے اور (10) اسی قرآن کی تفسیر کیا کرتے تھے۔ امام حسن عسکری (رح) کی طرف جو تفسیر منسوب ہے وہ حرف بحرف اور لفظ بلفظ اسی قرآن کی ہے۔ اگر ترتیب عثمان ؓ تنزیل ربانی کے مخالف ہوتی تو امام حسن عسکری (رح) اس کی تفسیر نہ لکھتے کیا امام حسن عسکری (رح) کو پورا کلام اللہ یاد نہ تھا جو اس کی بھی تفسیر لکھتے اور مذہب شیعہ کے کبار علما کی ایک جماعت مثلا ابو علی، طبرسی اور قاضی نور اللہ شوستری اور ملا صادق وغیرھم نے اس امر کا صاف اقرار کیا ہے کہ ترتیب عثمانی بالکل صحیح ہے اور عہد نبوی کے بالکل مطابق ہے اور تفسیر ” صراط مستقیم “ جو شیعوں کی معتبر تفسیر ہے اس میں اس طرح ای انالہ لحفظون من التحریف والتبدیل والزیادۃ والنقصان اور سورة حم سجدہ میں ہے ” لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ یعنی اس پر (یعنی قرآن پر) باطل (یعنی تحریف اور تناقص کا دخل نہیں) نہ آگے سے نہ پیچھے سے یعنی کسی وجہ سے پس ثابت ہوگیا کہ مروج قرآن بلاشبہ منزل من اللہ ہے اور یہ قرآن بعینہٖ وہی قرآن ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا اور جس کی آپ ﷺ نے صحابہ ؓ کو تعلیم دی معاذ اللہ عثمان ؓ کو ایسا اقتدار کہاں سے حاصل ہوا کہ جو ترتیب آسمانی کے بدلنے اور بگاڑنے پر قادر ہوگئے اور ایسے قادر ہوئے کہ صفحہ ہستی سے اصل قرآن کا نام و نشان مٹا دیا اور اسد اللہ الغالب یہ سب کچھ دیکھتے رہے مگر کچھ نہ بولے حتی کہ حضرت علی ؓ کا زمانہ خلافت آیا اس وقت بھی باوجود خلافت اور بادشاہت کے اصل قرآن کو ظاہر نہ کیا اور نمازوں میں ترتیب عثمانی کے مطابق قرآن پڑھتے رہے۔ حضرت عثمان ؓ نے جب بمشورہ صحابہ قرآن کو مرتب کیا تو اس مشورہ میں حضرت امیر ؓ بھی شریک تھے تو تنہا عثمان غنی ؓ کو کیوں مطعون کیا جاتا ہے سنن ابو داؤد میں باسناد صحیح سوید بن غفلہ ؓ سے روایت ہے قال علی بن ابی طالب ؓ لا تقربوا فی عثمان ؓ الآخیرافو اللہ ما فعل الذی فی المصاحف الاعلی ملأمنا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا عثمان ؓ کے بارے میں سوائے کلمہ خیر کے کوئی لفظ زبان سے نہ نکالو۔ خدا کی قسم عثمان ؓ نے مصاحف کو مدون اور مرتب کیا وہ ہم سب کے مشورہ اور اتفاق سے کیا۔ عثمان غنی ؓ نے جس قدر نسخے قرآن کے لکھوائے وہ صحابہ کے سامنے پڑھے گئے اور پھر سب کے مشورہ سے مختلف بلاد کو بھیجے گئے ایسی صورت میں تغیر و تبدل کا امکان نہیں نیز اگر بقول شیعہ کلام اللہ غیر محفوظ ہے تو بشہادت حدیث ثقلین شیعوں کو ثقلین کے ساتھ تمسک باقی نہ رہے گا اس لیے کہ تمسک کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ شئے موجود ہو۔ غائب اور غیر مقدور چیز سے تمسک ممکن نہیں اور یہ ناممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ ہم کو ایسی چیز کے ساتھ تمسک کا حکم دیں جو ہماری قدرت میں نہ ہو حدیث ثقلین اس امر پر صراحۃً دلالت کرتی ہے کہ قرآن ہر زمانہ میں موجود رہے گا۔ جس سے لوگ تمسک کرسکیں گے جیسا کہ اہل بیت کا تمسک ہر وقت ہر زمانہ میں حاصل ہے کیونکہ وہ موجود ہیں پس جب کہ کتاب خود شیعوں کے زعم کے مطابق موجود ہی نہیں تو تمسک کس سے کریں گے۔ (6) مذہب امامیہ کے بعض علماء اگرچہ اس قرآن کو محفوظ اور منزل من اللہ مانتے ہیں مگر جمہور علماء مذہب امامیہ مصحف عثمانی کو بعینہٖ صحیفہ آسمانی نہیں مانتے اور اس کو اصلی قرآن نہیں جانتے بلکہ اس کو ناقص مانتے ہیں اور معتقد تحریف ہیں حضرات شیعہ کے نزدیک اصل قرآن کی سترہ ہزار آیتیں تھیں جن سے اب صرف کل چھ ہزار آیتیں باقی ہیں جیسا کہ کافی کلینی میں ہے عن ہشام بن سالم عن ابی عبد اللہ ان القرآن الذی جاء بہ جبرئیل الیٰ محمد ﷺ سبعۃ عشر الف آیۃ۔ شیعوں کی اس روایت کے مطابق کلام اللہ کا دو تہائی حصہ چوری اور خوردبرد ہوگیا تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کا ذمہ ہی نہ لیتے نیز یہ روایت اگر صحیح ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ معاذ اللہ قرآن کریم محرف اور غیر معتبر ہونے میں توریت اور انجیل سے کہیں زائد ہے۔ توریت اور انجیل میں تو فقط امراء اور حکام کی خاطر تحریف ہوئی باقی سب جگہ تحریف نہیں ہوئی اور قرآن کریم میں اتنی تحریف ہوئی کہ سترہ ہزار آیتوں میں سے صرف چھ ہزار آیتیں باقی رہ گئیں۔ حالانکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لیا تھا اور توریت کی حفاظت امت موسویہ کے سپرد کی تھی بما استحفظوا من کتاب اللہ اور قرآن کریم کی یہ نعمت خلفائے راشدین کا طفیل ہے ورنہ حضرات شیعہ کو تو قرآن دیکھنا نصیب نہ ہوتا اور نماز اور تہجد میں پڑھنا نصیب نہ ہوتا کیونکہ حضرات ائمہ نے تو شیعوں کو کوئی قرآن دیا نہیں نیز حضرات شیعہ اس کے قائل ہیں کہ قرآن میں اگرچہ کمی واقع ہوئی ہے اور اس میں تحریف بھی ہوئی ہے مگر اس تحریف کی وجہ سے حلال و حرام میں کہیں تغیر و تبدل نہیں آیا۔ نیز شیعہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ اس محرف قرآن کے پڑھنے کی وجہ سے ثواب تلاوت میں کمی نہیں آتی اور اس قرآن کو پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی اور اس موجودہ قرآن کے اتباع سے اوامرو نواہی کے اتباع میں سرموفرق واقع نہیں ہوتا اس اعتبار سے خلفاء راشدین ائمہ شیعہ سے ہزار درجہ بڑھ کر رہے کہ قرآن کا کچھ حصہ مسلمانوں کو دے گئے اور ائمہ نے تو قرآن کی ایک سورت بھی مسلمانوں کو نہیں دی۔ (7) اعلم ان القران محفوظ بین الدفتین وھو الذی نزل علی رسول اللہ ﷺ من غیر زیادۃ ولانقصان فیہ وقالت الروافض الخوافض القرآن وقعت فیہ الزیادۃ والنقصان قلنا ھذا غلط بلاشبۃ بعدۃ اوجہ (الاول) انہ تکذیب لقولہ تعالیٰ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون وامثالہ من الآیات (والثانی) انہ یلذم منہ تکفیر جمیع الصحابۃ حتی علی کرم اللہ وجہہ حیث وافقھم علی تحریف القرآن ولم ینکر علیہم مع ان علیا ان کر فی کثیر من الامور علی عثمان وخاصمہ مکثل مضاصمتہ فی نہی عثمان متعبر الحج (والثالث) ان علینا کرم اللہ وجہہ قصد بالاتفاق بعد وفاۃ ابن عمر رسول اللہ ﷺ فی بیتہ حتی جمع القرآن واعتذر بذالک تخلقہ فلولا ان جمعہ موافق بجمع عثمان من حیث الزیادۃ والنقصان لاظھر جمعہ وترک جمع عثمان فھو الامر الذی لا تاخذہ فی اللہ لومۃ لائم مع انہ کان یقرأ فی الصلوٰۃ القرآن الذی جمعہ عثمان ویتلوہ لیلا ونھارا ویفسرہ علی ملاء من شیعتہ وبالجملۃ القول بتحریف القرآن یھدم اساس الاسلام واللہ اعلم حفاظت کا طریقہ : اس آیت میں حفاظت کا وعدہ فرمایا اور دوسری آیت میں حفاظت کا طریقہ بیان فرمایا۔ وہ آیت یہ ہے ان علینا جمعہ وقرانہ فاذا اقرأناہ فاتبع قرانہ ثم ان علینا بیانہ۔ اشارہ اس قرآن کو حافظوں کے سینے میں بھی محفوظ کردیں گے اور اس قرآن کو مصاحف میں بھی جمع کرا دیں گے اور لوگوں کے دلوں میں اس کی تلاوت اور قرأت کا شوق پیدا کردیں گے کہ دن رات اس کو پڑھا کریں گے تاکہ قرآن کا تواتر اور تسلسل ٹوٹنے نہ پائے پھر کچھ زمانہ کے بعد اہل علم کی جماعت کو قرآن کریم کے بیان یعنی تفسیر کی طرف متوجہ کریں گے اور اس کا داعیہ ان کے قلوب میں القاء کریں گے کہ وہ قرآن کریم کے شان نزول اور ناسخ اور منسوخ اور معانی کو بیان کریں گے اور چونکہ علم تفسیر جمع قرآن کے کچھ عرصہ بعد ہوگا۔ اس لیے ثم ان علینا بیانہ میں کلمہ ثم لایا گیا جو تاخیر اور تراخی پر دلالت کرتا ہے کہ تفسیر کا مرحلہ قرآن کے جمع اور تدوین اور ترتیب کے کچھ عرصہ بعد پیش آئے گا اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ (یعنی جمع قرآن شیخین ؓ کے ہاتھ سے ظاہر ہوا اور اس وعدہ خلافت کے ظہور میں شیخین ؓ بمنزلہ جارحہ الٰہی کے ہوئے جس سے ان کی خلافت کا حق ہونا ثابت ہوا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے اس خزانہ کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ کسی رسالدار اور صوبہ دار کو اس پر بہرہ کا حکم دے دے۔ اسی طرح خلفاء راشدین ؓ اور صحابہ کرام ؓ اس خزانہ قرآنی کے محافظ اور پہرے دار مقرر ہوئے اس لیے اس حفاظت کو اللہ کریم نے اپنی طرف منسوب فرمایا اور یہ کہا وانا لہ لحفظون کیونکہ حفاظت کا جو انتقام بادشاہ کی طرف سے ہوتا ہے وہ بادشاہ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ خلاصہ کلام : یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا کہ وہ قرآن مجید کو تحریف و تبدیل و نسیان سے محفوظ رکھے گا اور اس کی صورت یہ ہونی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت و نگہبانی کے اسباب پیدا فرما دئیے پہلا سبب قرآن مجید کی حفاظت کا یہ ہوا کہ خلفاء ثلاثہ کی سعی اور ہمت اور توجہ سے اور تمام صحابہ کرام ؓ کے اتفاق سے جو اس وقت تقریبا ساٹھ ہزار تھے قرآن ایک مصحف میں جمع اور مرتب کردیا گیا اور تمام اسلامی دنیا میں اس کے نسخے شائع کرا دئیے گئے اور سب نے اس کو باتفاق قبول کرلیا اور بنقل متواتر اب تک وہ ہی مصحف تمام اسلامی دنیا میں شائع ہے جسے ہم روزمرہ تلاوت کرتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ یہ وعدہ حفاظت قرآن خلفاء ثلاثہ کے وقت میں ان کی سعی اور کوشش سے پورا ہوا یہی ان کی فضیلت کے لیے کافی ہے اب قیامت تک جو شخص قرآن کریم کی تلاوت کرے گا اس کا اجر خلفاء ثلاثہ کے اعمال میں ثبت ہوگا۔ (8) یہ قرآن آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا اور آپ ﷺ پر اس کی تبلیغ فرض تھی کما قال اللہ تعالیٰ یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسلتہ آنحضرت ﷺ نے حسب ارشاد باری اس قرآن کی تبلیغ کی اور جو شخص عہد رسالت میں مشرف باسلام ہوا آپ ﷺ نے اس کو یہ ہی قرآن سکھایا اور خلفاء راشدین ؓ نے یہ ہی قرآن جو آپ ﷺ سے سیکھا تھا مسلمانوں کو سکھایا اور مشکل مصھف اس کو مرتب کرکے مسلمانوں کو دیا جو آج تک بنقل متواتر مسلسل چلا آرہا ہے اور جو قرآن شیخین ؓ اور عثمان ؓ نے جمع کیا اور اس کی جمع و ترتیب میں از اول تا آخر حضرت علی ؓ شریک رہے اور اپنے زمانہ خلافت میں بلکہ ساری عمر نماز وغیرہ میں اسی قرآن کو پڑھتے رہے پس اگر حضرت علی ؓ کے نزدیک مصحف عثمانی غلط اور باطل تھا تو اپنے دور خلافت اور زمانہ حکومت میں اس کو منسوخ کرکے لوگوں کو صحیح قرآن سے کیوں آگاہ نہ کیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ کے نزدیک بھی مصحف عثمانی اصلی اور صحیح قرآن تھا۔ (9) غرض یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور عجیب شان سے اس کی حفاظت فرمائی کہ اس قرآن کو حفاظ کے سینوں میں محفوظ کردیا۔ کما قال تعالیٰ بل ھو ایت بینت فی صدور الذین اوتوا العلم۔ اور صحیح مسلم میں عیاض بن حمار ؓ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت فرماتے ہیں وانزلت علیک کتابالا یفسدہ الماء (یعنی اے نبی ﷺ ! میں نے تجھ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس کو پانی بھی نہیں دھو سکتا) ۔ اشارہ اس طرف ہے کہ اگر تمام بنی آدم مل کر بھی اس قرآن کو مٹانے کی کوشش کریں تو اس پر قادر نہ ہوں گے۔ الحمدللہ یہ دولت اہل سنت کو نصیب ہوئی اور حضرات شیعہ اس دولت عظمیٰ سے محروم کر دئیے گئے۔ حتیٰ کہ شیعہ کلام اللہ کے نہ یاد ہونے میں ضرب المثل ہوگئے اہل سنت ہی قرآن کو حفظ کرتے ہیں اور وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں کما قال اللہ تعالیٰ الذین اتینھم الکتب یتلونہ حق تلاوتہ اولئک یؤمنون بہ ومن یکفر بہ فاولئک ہم الخسرون تلاوت قرآن اہل سنت کا شعار ہے اور حضرات شیعہ کا شعار سجائے تلاوت قرآنی کے مرثیہ خوانی ہے۔ (10) شیعوں کو قرآن کیوں یاد نہیں ہوتا جو شاگرد استاد کے حق میں گستاخ ہوتا ہے وہ کبھی علم سے بہرہ ور نہیں ہوتا خلفاء ثلاثہ ؓ دربارہ قرآن تمام امت کے استاد ہیں جو ان کی شان میں گستاخی کرے گا وہ کبھی اس دولت سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا اور من یکفر بہ فاولئک ہم الخاسرون میں اسی طرف اشارہ ہے حضرات شیعہ نے اس نعمت کی ناشکری کی اس لیے اس دولت سے محروم رہے ومن لم یشکر الناس لم یشکر اللہ۔ بلکہ یوں کہئے کہ منکرین صحابہ ؓ کو جو کلمہ گوئی کی نوبت آئی اور نزعم خود مسلمان ہوئے یہ بھی صحابہ ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے اگر صحابہ جہاد نہ کرتے اور دین نہ پھیلاتے تو ان کو دین کی خبر بھی نہ ہوتی الغرض تمام عالم حضرات صحابہ کا شاگرد اور مرہون منت ہے سب کو صحابہ کرام ؓ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ تاویلات شیعہ : حضرات شیعہ نے اس آیت کی دو تاویلیں کی ہیں ایک یہ کہ اصل کلام اللہ لوح محفوظ میں محفوظ ہے دوم یہ ” غار سرمن “ میں امام مہدی کے سینہ میں محفوظ ہے۔ جواب : اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں تاویلیں مہمل اور لغو ہیں۔ اول تو یہ کہ لوح محفوظ میں حفاظت کرنے سے ہم کو کیا فائدہ ہمیں فائدہ جب ہوتا کہ جب قرآن ہمارے پاس محفوظ ہوتا تاکہ احکام خداوندی کے معلوم کرنے میں کوئی شک و شبہ نہ رہتا۔ دوم یہ کہ حفاظت وہاں ہوتی ہے جہاں احتمال ہو۔ سوم یہ کہ آیت مذکورہ میں اول تنزیل کا ذکر فرمایا۔ بعد ازاں اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا۔ معلوم ہوا کہ وعدہ حفاظت قرآن منزل کے متعلق ہے جو تئیس برس میں بتدریج نازل ہوا نہ کہ اس قرآن کا جو لوح محفوظ میں محفوظ ہے۔ چہارم یہ کہ اس آیت میں قرآن کے لفظ کو ذکر سے تعبیر کیا جس کے معنی نصیحت کے ہیں اور نصیحت جاہل اور غافل کو ہوتی ہے معلوم ہوا کہ یہ قرآن جاہلوں کے لیے مذکر اور واعظ ہے اور گنہگاروں کے واسطے پنددل بند ہے اور جہل اور غفلت کے ساتھ انسان ہی موصوف ہوتا ہے ملائکہ اس عیب سے محفوظ ہیں قرآن جب تک لوح محفوظ میں رہا تو اگر رسائی تھی تو فقط فرشتوں کی تھی۔ ان کو وعظ و پند سے کیا سرو کار۔ فرشتے نہ جاہل ہیں اور نہ غافل اور نہ گنہگار۔ ہاں جب یہ قرآن لوح محفوظ سے نازل ہو کر دنیا میں پہنچا اور اس ظلوم و جہول انسان سے اس کا معاملہ اور واسطہ پڑا تو اس کے لحاظ سے لفظ ذکر بمعنی پندو نصیحت استعمال ہوا کیونکہ تذکیر اور وعظ کی ضرورت غافلان نوع بشر ہی کے لیے ہوتی ہے پس معلوم ہوا کہ وانا لہ لحفظون کا وعدہ ان ہی غافلوں اور جاہلوں کے لیے ہے نہ کہ ملائکہ کے لئے۔ پنجم یہ کہ اگر حفاظت سے لوح محفوظ میں حفاظت مراد ہے تو اس قسم کی حفاظت تو توریت اور انجیل میں بھی موجود ہے۔ تاویل دوم کا رد : 1۔ رہی دوسری تاویل سو وہ بھی مہمل ہے امام مہدی کا ” غار سرمن “ میں مخفی ہونا شیعوں کا ایک من گھڑت افسانہ ہے۔ نصاریٰ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری انجیل آسمان چہارم میں حضرت عیسیٰ کے پاس محفوظ ہے اور وہاں کسی قسم کا خطرہ نہیں غار سرمن میں اندیشہ ہے کہ حضرت امام مہدی کا کوئی دشمن پھرتا پھراتا وہاں پہنچ جائے اور ان سے قرآن کریم چھین کر جلادے یا ان کو شہید کردے بخلاف خلیفہ ثالث کے جمع کردہ قرآن کے کہ وہ حافظوں کے سینے میں محفوظ ہے اس کو چھین کر جلانا ناممکن ہے پس بحمدہ تعالیٰ یہ قرآن اہلسنت کے سینوں میں محفوظ ہے جہاں کسی چور اور قزاق کی رسائی ممکن نہیں۔ 2۔ علاوہ ازیں یہ عقیدہ فی حد ذاتہ بالکل مہمل ہے اس لیے کہ قرآن تو لوگوں کی ہدایت کے لیے اترا تھا نہ کہ اخفاء کے لیے اور قیامت کے قریب ظاہر ہونے سے کیا فائدہ لوگ انتظار کرتے کرتے تھک گئے ممکن ہے کہ اس عرصہ میں حق تعالیٰ کو بدا واقع ہوگیا ہو اور ان کو امامت سے معزول کردیا گیا ہو۔ 3۔ نیز اس چھپے رہنے میں اندیشہ ہے کہ دشمن بزدلی کا طعنہ دیں گے کہ کیوں چھپے ہوئے ہیں باہر کیوں نہیں آتے۔ 4۔ نیز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کل تین سو تیرہ آدمی مجتمع ہونے پائے تھے کہ جہاد شروع کردیا اور پھر وہ بھی بزعم شیعہ اکثر ” منافق “ تھے حضرات شیعہ جیسے ” مخلص “ نہ تھے اور اب لاکھوں مخلصانہ شیعہ بھی موجود ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ باوجود انتظار احباب اور فراہمی اسباب غار سے باہر نہیں آتے اور امت محمدیہ کو گمراہی سے نہیں نکالتے اور بجائے بیاض عثمانی کے اصل کلام ربانی کیوں ظاہر نہیں کرتے۔ 5۔ نیز حضرات شیعہ یہ بتلائیں کہ اسکا راوی اور عینی شاہد کون ہے کہ جو شہادت دے کہ امام مہدی میرے سامنے جاکر غار میں چھپے ہیں 6۔ نیز اگر وہ چھپ ہی گئے تو غار تو محدود ہے تو حضرات شیعہ اس غار میں جاکر ان کو بلا لائیں۔ 7۔ نیز اگر بفرض محال کوئی عینی شاہد اس کامل جائے کہ وہ گار میں چھپے ہیں تو معلوم نہیں کہ تیرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود وہ زندہ سلامت ہیں یا وفات پا چکے ہیں کتاب و سنت سے اس کے لیے دلیل چاہئے نصاری تو کہہ سکتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا آسمان پر اٹھایا جانا قرآن اور حدیث اور اجماع صحابہ ؓ سے ثابت ہے امام مہدی کے غار میں جا کر چھپ جانے کی کوئی ضعیف بلکہ موضوع روایت بھی نہیں۔ اجماع امت برمحفوظیت قرآن از زیادت و نقصان امام قرطبی (رح) مقدمہ تفسیر میں ص 80 جلد اپر لکھتے ہیں۔ لاخلاف بین الامۃ ولا بین الائمۃ اہل السنۃ ان القرآن اسم لکلام اللہ تعالیٰ الذی جاء بہ محمد ﷺ معجزۃ لہ (علی نحوما تقدم) وانہ محفوظ فی الصدور مقروء بالالسنۃ مکتوب فی المصاحف معلومۃ علی الاضطرار سورة وآیاتہ مبرأۃ من الزیادۃ والنقصان حروفہ وکلماتہ۔ فلا یحتاج فی تعریفہ بحد ولا فی حصرہ بعد فمن ادعی زیادۃ علیہ او نقصانا فقد ابطل (1) الاجماع وبھت الناس (2) ورد قولہ تعالیٰ قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لایاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھرا۔ وابطل آیۃ رسولہ (علیہ السلام) لانہ اذ ذاک یصیر القرآن مقدورا علیہ حین شیب بالباطل ولما قدر علیہ لم یکن حجۃ ولا آیۃ وخرج عن ان یکون معجزا۔ فالقائل بان القرآن فیہ زیادۃ ونقصان رادل کتاب اللہ ولما جاء بہ الرسول وکان کمن قال الصلوت المفروضات خمسون صلوٰہ و تزوج تسع من النساء حلال وقد فرض اللہ ایاما مع شھر رمضان الیٰ غیر ذالک مما لم یثبت فی الدین فاذا رد ھذا بالاجماع کان الاجماع علی القرآن اثبت واکدو الزم واوجب (اھ) وایضا قال :۔ بنع فی زماننا ھذا زائغ زاغ عن الملۃ وھجم علی الامۃ بما یجادل بہ ابطال الشریعۃ التی لایزال اللہ یؤیدھا ویثبت اسھا ویمنی فرعھا ویحرسھا عن معایب اولی الجنف والجور ومکاید اہل العداوۃ والکفر۔ فزعم ان المصحف الذی جمعہ عثمان ؓ باتفاق اصحاب رسول اللہ ﷺ علی تصویبہ فیما فعل۔ لا یشتمل علی جمیع القرآن اذ کان قد سقط خمسماۃ حرف قد قرأت ببعضھا وسا قرأ ببقی تھا (فمنھا) والعصر ونوائب الدھر فقد سقط من القرآن علی جماعت المسلمین ونوائب الدھر ... الیٰ ... (ومنھا) ولقد نصرکم اللہ ببدر بسیف علی وانتم اذلۃ وروی ھؤلاء ایضا قال ھذا صراط علی مستقیم (ومنھا) وکفی اللہ ال مومنین القتال بعلی وکان اللہ قویا عزیز “ وبحو ذالک الیٰ ان قال فی صف 84 جلد 11، والقران الذی جمعہ عثمان ؓ بموافقۃ الصحابۃ لہ لوانکر بعضہ منکر کان کافرا حکمہ حکم المرتد یستتاب فان تاب والاضربت عنقہ۔ الیٰ آخر ما قال وافاد واجاد۔ راجع من تفسیرہ (باب ماجاء من الحجۃ فی الرد علیٰ من طعن فی القرآن وخالف مصحف عثمان بالزیادۃ والنقصان) من ص 80 الیٰ ص 86 جلد (1) ۔
Top