Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 12
وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ١ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ۙ غَیْرَ مُضَآرٍّ١ۚ وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌؕ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے نِصْفُ : آدھا مَا تَرَكَ : جو چھوڑ مریں اَزْوَاجُكُمْ : تمہاری بیبیاں اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّھُنَّ : ان کی وَلَدٌ : کچھ اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو لَھُنَّ وَلَدٌ : ان کی اولاد فَلَكُمُ : تو تمہارے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا تَرَكْنَ : اس میں سے جو وہ چھوڑیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْنَ : وہ وصیت کرجائیں بِھَآ : اس کی اَوْ دَيْنٍ : یا قرض وَلَھُنَّ : اور ان کے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا : اس میں سے جو تَرَكْتُمْ : تم چھوڑ جاؤ اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّكُمْ وَلَدٌ : تمہاری اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَكُمْ : ہو تمہاری وَلَدٌ : اولاد فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے الثُّمُنُ : آٹھواں مِمَّا تَرَكْتُمْ : اس سے جو تم چھوڑ جاؤ مِّنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت تُوْصُوْنَ : تم وصیت کرو بِھَآ : اس کی اَوْ : یا دَيْنٍ : قرض وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو رَجُلٌ : ایسا مرد يُّوْرَثُ : میراث ہو كَلٰلَةً : جس کا باپ بیٹا نہ ہو اَوِ امْرَاَةٌ : یا عورت وَّلَهٗٓ : اور اس اَخٌ : بھائی اَوْ اُخْتٌ : یا بہن فَلِكُلِّ : تو تمام کے لیے وَاحِدٍ مِّنْهُمَا : ان میں سے ہر ایک السُّدُسُ : چھٹا فَاِنْ : پرھ اگر كَانُوْٓا : ہوں اَكْثَرَ : زیادہ مِنْ ذٰلِكَ : اس سے (ایک سے) فَھُمْ : تو وہ سب شُرَكَآءُ : شریک فِي الثُّلُثِ : تہائی میں (1/3) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصٰى بِھَآ : جس کی وصیت کی جائے اَوْ دَيْنٍ : یا قرض غَيْرَ مُضَآرٍّ : نقصان نہ پہنچانا وَصِيَّةً : حکم مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَلِيْمٌ : حلم والا
اور تمہارا ہے آدھا مال جو کہ چھوڑ مریں تمہاری عورتیں اگر نہ ہو ان کے اولاد اور اگر ان کے اولاد ہے تو تمہارے واسطے چوتھائی ہے اس میں سے جو چھوڑ گئیں بعد وصیت کے جو کر گئیں یا بعد قرض کے اور عورتوں کے لئے چوتھائی مال ہے اس میں سے جو چھوڑو مرو تم اگر نہ ہو تمہارے اولاد اور اگر تمہارے اولاد ہے تو ان کے لئے آٹھواں حصہ ہے اس میں سے جو کچھ کہ تم نے چھوڑا بعد وصیت کے جو تم کر مرو یا قرض کے۔ اور اگر وہ مرد کہ جس کی میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا یا عورت ہو ایسی ہی اور اس میت کے ایک بھائی ہے یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے، اور اگر زیادہ ہو اس سے تو سب شریک ہیں ایک تہائی میں بعد وصیت کے جو ہوچکی ہے یا قرض کے جب اوروں کا نقصان نہ کیا ہو، یہ حکم ہے اللہ کا اور اللہ ہے سب کچھ جاننے والا تحمل کرنیوالا۔
خلاصہ تفسیر
ربط آیات
یہاں تک ان مستحقین میراث کے حصص کا بیان تھا جن کا میت کے ساتھ نسب اور ولادت کا رشتہ تھا، مذکورہ آیت میں بعض دوسرے مستحقین کا ذکر ہے اور میت سے ان کا رشتہ نسب کا نہیں، بلکہ ازدواج کا ہے، جس کا بیان یہ ہے
اور تم کو آدھا ملے گا اس ترکہ کا جو تمہاری بیبیاں چھوڑ جاویں، اگر ان کے کچھ اولاد نہ ہو، (نہ مذکر نہ مونث نہ واحد نہ کثیر) اور اگر ان بیبیوں کے کچھ اولاد ہو (خواہ تم سے ہو یا پہلے شوہر سے) تو (اس صورت میں) تم کو ان کے ترکہ سے ایک چوتھائی ملے گا (یہ کل دو صورتیں ہوئیں اور دونوں صورتوں میں بقیہ دوسرے ورثاء کو ملے گا، لیکن ہر صورت میں یہ میراث) وصیت (کے قدر مال) نکالنے کے بعد کہ وہ اس کی وصیت کر جائیں یا دین (اگر ہو تو اس کے نکالنے) کے بعد (ملے گا) اور بیبیوں کو چوتھائی ملے گا اس ترکہ کا جس کو تم چھوڑ جاؤ (خواہ وہ ایک ہو یا کئی ہوں تو وہ چوتھائی سب میں برابر بٹ جاوے گا) اگر تمہارے کچھ اولاد نہ ہو (نہ مذکر نہ مونث نہ واحد نہ کثیر) اور اگر تمہاری کچھ اولاد ہو (خواہ ان بیبیوں سے یا اور عورت سے) تو (اس صورت میں) ان کو (خواہ وہ ایک ہو یا کئی) تمہارے ترکہ سے آٹھواں حصہ ملے گا (یہ بھی دو صورتیں ہوئیں اور دونوں صورتوں میں بقیہ دوسرے ورثاء کو ملے گا، لیکن یہ میراث) وصیت (کے قدر مال) نکالنے کے بعد کہ تم اس کی وصیت کر جاؤ یا دین (اگر ہو تو اسکے بھی نکالنے) کے بعد (ملے گی)
معارف و مسائل
شوہر اور بیوی کا حصہ۔
مندرجہ بالا سطور میں شوہر اور بیوی کے حصوں کی تعیین کی گئی ہے اور پہلے شوہر کا حصہ بتایا، شاید اس کو مقدم کرنے کی وجہ یہ ہو کہ اس کی اہمیت ظاہر کرنا مقصود ہے، کیونکہ عورت کی وفات کے بعد شوہر دسرے گھر کا آدمی ہوجاتا ہے، اگر اپنے میکہ میں عورت کا انتقال ہوا ہو اور اس کا مال وہیں ہو تو شہر کا حصہ دینے سے گریز کیا جاتا ہے، گویا اس زیادتی کا سدباب کرنے کے لئے شوہر کا حصہ پہلے بیان فرمایا اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ فوت ہونے والی عورت نے اگر کوئی بھی اولاد نہ چھوڑی ہو تو شوہر کے بعد اداء دین و انفاذ وصیت کے مرحومہ کے کل کا نصف ملے گا اور باقی نصف میں دوسرے ورثاء مثلاً مرحومہ کے والدین، بھائی بہن، حسب قاعدہ حصہ پائیں گے۔
اور اگر مرنے والی نے اولاد چھوڑی ہو، ایک ہو یا دو ہوں یا اس سے زائد ہوں، لڑکا ہو یا لڑکی ہو، اس شوہر سے ہو جس کو چھوڑ کر وفات پائی ہے، یا اس سے پہلے کسی اور شوہر سے ہو، تو اس صورت میں موجودہ شوہر کو مرحومہ کے مال سے اداء دین و انفاذ وصیت کے بعد کل مال کا چوتھائی ملے گا اور بقیہ تین چوتھائی حصے دوسرے ورثاء کو ملیں گے ........ یہ شوہر کے حصہ کی تفصیل تھی۔
اور اگر میاں بیوی میں سے مرنے والا شوہر ہے اور اس نے کوئی اولاد نہیں چھڑی تو اداء دین و انفاذوصیت کے بعد بیوی کو مرنے والے کے کل مال کا چوتھائی ملے گا اور اگر اس نے کوئی اولاد چھوڑی ہے، خواہ اس بیوی سے ہو یا کسی دوسری بیوی سے تو اس صورت میں بعد ادا دین و وصیت کے آٹھواں حصہ ملے گا، اگر بیوی ایک سے زائد ہے تو بھی مذکورہ تفصیل کے مطابق ایک بیوی کے حصہ میں جتنی میراث آئے گی، وہ ان سب بیویوں میں تقسیم کی جائے گی، یعنی ہر عورت کو چوتھائی اور آٹھواں حصہ نہیں ملے گا، بلکہ سب بیویاں چوتھائی اور آٹھویں حصہ میں شریک ہوں گی اور ان دونوں حالتوں میں شوہر، بیوی کو ملنے کے بعد جو کچھ ترکہ بچے گا وہ ان کے دوسرے ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گا۔
مسئلہ۔
یہ دیکھنا چاہئے کہ بی بی کا مہر ادا ہوگیا ہے یا نہیں، اگر بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو تو دوسرے قرضوں کی طرح اولاً کل مال سے دین مہر ادا ہوگا اس کے بعد ترکہ تقسیم ہوگا اور مہر لینے کے بعد عورت اپنی میراث کا حصہ بھی میراث میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے وصول کرلے گی اور اگر میت کا مال اتنا ہے کہ مہر ادا کرنے کے بعد کچھ نہیں بچتا تو بھی دوسرے دیون کی طرح پورا مال دین مہر میں عورت کو دے دیا جائے گا اور کسی وارث کو کچھ حصہ نہ ملے گا۔
خلاصہ تفسیر
ربط آیت
نسب اور ازدواج سے جو رشتے پیدا ہوتے ہیں ان کے مختصر حقوق بیان کرنے کے بعد اب ایسے میت کے ترکہ کا حکم بیان کیا جا رہا ہے جس نے اولاد یا والدین نہ چھوڑے ہوں
اور اگر کوئی میت جس کی میراث دوسروں کو ملے گی خواہ وہ میت مرد ہو یا عورت، ایسا ہو جس کے نہ اصول ہوں (یعنی باپ دادا) اور نہ فروع ہوں (یعنی اولاد اور بیٹے کی اولاد) اور اس (میت) کے ایک بھائی یا ایک بہن (اخیافی) ہو، تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر یہ لوگ اس سے (یعنی ایک سے) زیادہ ہوں (مثلاً دو ہوں یا اور زیادہ) تو وہ سب تہائی میں (برابر کے) شریک ہوں گے (اور ان میں مذکر و مونث کا برابر حصہ ہے اور بقیہ میراث دوسرے ورثاء کو اور اگر کوئی اور نہ ہو تو پھر انہی کو دی جائے گی یہ دو صورتیں ہوئیں اور دونوں صورتوں میں یہ میراث) وصیت (کے قدر مال) نکالنے کے بعد جس کی وصیت کردی جاوے یا (اگر) دین (ہو تو اس کے بھی نکالنے) کے بعد (ملے گی) بشرطیکہ (وصیت کرنے والا) کسی (وارث) کو ضرر نہ پہنچاوے (نہ ظاہرانہ اردة ظاہراً یہ کہ مثلاً ثلث سے زیادہ وصیت کرے، تو وہ وصیت میراث پر مقدم نہ ہوگی اور ارادۃ یہ کہ رہے ثلث کے اندر، لیکن نیت یہ ہو کہ وارث کو کم ملے، یہ ظاہراً نافذ ہوجاوے گی، لیکن گناہ ہوگا) یہ (جس قدر یہاں تک مذکور ہوا) حکم کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں (کہ کون مانتا ہے کون نہیں مانتا اور نہ ماننے والوں کو جو فوراً سزا نہیں دیتے، تو وجہ یہ کہ) حلیم (بھی ہیں۔)
معارف و مسائل
کلالہ کی میراث۔
ان سطور میں کلالہ کی میراث بیان کی گئی ہے، کلالہ کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں، جو علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں بھی نقل کی ہیں، مشہور تعریف یہی ہے جو خلاصہ تفسیر میں مذکور ہے کہ جس مرنے والے کے اصول اور فروع نہ ہوں وہ کلالہ ہے۔
صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ کلالہ اصل میں مصدر ہے جو کلال کے معنی میں ہے اور کلال کے معنی ہیں تھک جانا جو ضعف پر دلالت کرتا ہے، باپ بیٹے والی قرابت کے وسا قرابت کو کلالہ کہا گیا، اس لئے کہ وہ قرابت باپ بیٹے کی قرابت کی نسبت سے کمزور ہے۔
پھر کلالہ کا اطلاق اس مرنے والے پر بھی کیا گیا جس نے نہ اولاد چھوڑی اور نہ والد اور اس وارث پر بھی اطلاق کیا گیا جو مرنے والے کا ولد اور والد نہ ہو، لغت کے اعتبار سے جو اشتقاق بتلایا اس کا تقاضا ہے کہ لفظ ”ذو“ مقدر ہو اور کلالہ بمعنی ”ذوکلالہ“ ہوگا، یعنی ضعیف رشتہ والا، پھر اس مال موروث پر بھی اس کا اطلاق ہونے لگا، جو ایسے میت نے چھوڑا ہوا جس کا کوئی ولد اور والد نہ ہو۔
حاصل کلام یہ کہ اگر کوئی شخص مرد یا عورت وفات پا جائے اور اس کے نہ باپ ہو نہ دادا اور نہ اولاد ہو اور اس نے ایک بھائی یا بہن ماں شریک چھوڑے ہوں، تو ان میں سے اگر بھائی ہے تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اور نہیں ہے تو بہن کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر ایک سے زیادہ ہوں مثلاً ایک بھائی ایک بہن ہو یا دو بھائی یا دو بہنیں ہوں تو یہ سب مرنے والے کے کل ماں کے تہائی حصے میں شریک ہوں گے اور اس میں مذکر کو مونث سے دوہرا نہیں ملے گا، علامہ قرطبی فرماتے ہیں ولیس فی الفرائض موضع یکون فیہ الذکرو الانثی سوآء الا فی میراث الاخوة للام
بہن بھائی کا حصہ۔
واضح رہے کہ اس آیت میں اخیافی (ماں شریک) بہن بھائی کا حصہ بتلایا گیا ہے، اگرچہ قرآن کریم کی اس آیت میں یہ قید مذکور نہیں ہے لیکن یہ قید بالاجماع معتبر ہے، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی قرات بھی اس آیت میں اس طرح ہےولہ اخ اواخت من امہ جیسا کہ علامہ قرطبی، صاحب المعانی اور ابوبکر حصاص اور دیگر حضرات نے نقل کیا ہے، گو یہ قرات متواتر نہیں ہے، لیکن اجماع امت ہونے کی وجہ سے معمول بہا ہے اور اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورة نساء کے ختم پر بھی کلالہ کی میراث کا ذکر کیا ہے، وہاں بتایا ہے کہ اگر ایک بہن ہو تو اس کو آدھا ملے گا اور اگر ایک بھائی ہو تو اپنی بہن کے پورے مال کا وارث بنے گا اور اگر دو بہنیں ہوں تو دو تہائی مال پائیں گی اور اگر متعدد بھائی بہن ہوں تو مذکر کو مونث سے دوہرا دیا جائے گا سورت کے ختم پر جو یہ حکم ارشاد فرمایا ہے، عینی حقیقی بہن بھائی اور علاتی یعنی باپ شریک بہن بھائی کا ذکر ہے، اگر یہاں علاتی اور عینی بھائی بہن کو شامل کرلیا جائے تو احکام میں تعارض لازم آجائے گا۔
وصیت کے مسائل۔
اس رکوع میں تین مرتبہ میراث کے حصے بیان کر کے یہ فرمایا کہ حصوں کی یہ تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہے، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، کہ میت کی تجہیز و تکفین کے بعد کل مال سے قرضے ادا کرنے کے بعد جو بچے اس میں سے تہائی مال وصیت نافذ ہوگی اگر اس سے زیادہ وصیت ہو تو اس کا شرعاً اعتبار نہیں، ضابطہ میں ادائے دین انفاذ وصیت سے مقدم ہے، اگر تمام مال ادائے دیون میں لگ جائے تو نہ وصیت نافذ ہوگی نہ میراث چلے گی، اس رکوع میں تینوں جگہ جہاں جہاں وصیت کا ذکر آیا ہے وہاں وصیت کا ذکر دین سے پہلے کیا گیا ہے، اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وصیت کا حق دین سے مقدم ہے، حضرت علی ؓ نے اس غلط فہمی کو رفع کرتے ہوئے فرمایا۔
”یعنی آپ حضرات یہ آیت تلاوت کرتے ہیں۔”من بعد وصیتہ توصون بہاء او دین“ اس میں گو لفظ وصیت مقدم ہے، لیکن عملی طور پر حضور اقدس ﷺ نے اس کو دین کے بعد رکھا ہے۔“
تاہم یہ نکتہ معلوم ہونا ضروی ہے کہ اگر عملاً وصیت موخر ہے، تو لفظاً اس کو دین سے پہلے کیوں بیان کیا گیا، صاحب روح المعانی اس بارے میں لکھتے ہیں
وتقدیم الوصیة علی الذین ذکرا مع ان الدین مقدم علیھا حکما لاظھار کمال العنایة بتنفیذ ھالکونھا مظنة للتفریط فی ادائھا الخ۔ ”یعنی آیت میں دین پر وصیت کی تقدیم کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ میراث کی طرح بغیر کسی عوض کے ملتی ہے اور اس میں رشتہ دار ہونا بھی ضروری نہیں، اس لئے وارثین کی جانب سے اس کو نافذ کرنے میں کوتاہی ہونے یا دیر ہوجانے کا قوی اندیشہ تھا اپنے مورث کا مال کسی کے پاس جاتا ہوا دیکھنا اس کو ناگوار ہوسکتا تھا، اس لئے شان وصیت کا اہتمام فرماتے ہوئے دین پر اس کو مقدم کیا گیا پھر یہ بھی بات ہے کہ قرض کا ہر میت پر ہونا ضروری نہیں اور اگر زندگی میں رہا ہو تو موت تک اس کا باقی رہنا بھی ضروری نہیں اور اگر موت کے وقت موجود بھی ہو تب بھی چونکہ اس کا مطالبہ حق دار کی طرف سے ہوتا ہے اس لئے ورثا بھی انکار نہیں کرسکتے اس وجہ سے اس میں کوتاہی کا احتمال بہت کم ہے، بخلاف وصیت کے کہ جب میت مال چھوڑتا ہے تو اس کا یہ بھی دل چاہتا ہے کہ صدقہ جاریہ کے طور پر اپنے مال کا حصہ کسی کارخیر میں صرف کر جائے، یہاں چونکہ اس مال میں کسی کی طرف سے مطالبہ نہیں ہوتا، اس لئے وارثوں کی طرف سے کوتاہی کا امکان تھا، جس کا سدباب کرنے کے لئے بطور خاص ہر جگہ وصیت کو مقدم کیا گیا ہے۔
مسئلہ۔ اگر دین اور وصیت نہ ہو تو تجہیز و تکفین کے بعد بچا ہوا کل مال وارثوں میں تقسیم ہوجائے گا۔
مسئلہ۔ وارث کے حق میں وصیت کرنا باطل ہے، اگر کسی نے اپنے لڑکے، لڑکی، شوہر یا بیوی کے لئے یا کسی ایسے شخص کے لئے وصیت کی جس کو میراث میں حصہ ملنے والا ہے تو اس وصیت کا کچھ اعتبار نہیں، وارثوں کو صرف میراث کا حصہ ملے گا، اس سے زیادہ کے وہ مستحق نہیں، حضور اقدس ﷺ نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا
”اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے پس کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت معتبر نہیں۔“
ہاں اگر دیگر وارث اجازت دیدیں تو جس وارث کے لئے وصیت کی ہے، اس کے حق میں وصیت نافذ کر کے باقی مال شرعی طریقہ پر تقسیم کیا جائے جس میں اس وارث کو بھی اپنے حصہ کی میراث ملے گی، بعض روایات حدیث میں الا ان یشآء الورثة کا استثناء بھی مذکور ہے۔ (کما ذکر صاحب الہدایتہ)
غیر مضار کی تفسیر۔
کلالہ کی میراث کے خاتمہ پر یہ بتانے کے بعد کہ یہ میراث وصیت اور دین کے بعد نافذ ہوگی، لفظ غیر مضار فرمایا یہ قید اگرچہ صرف اسی جگہ مذکور ہے، لیکن اس سے پہلے جو دو جگہ وصیت اور دین کا ذکر ہے وہاں پر بھی معتبر اور معمول یہ ہے مطلب اس کا یہ ہے کہ مرنے والے کے لئے وصیت یا دین کے ذریعہ وارثوں کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے وصیت کرنے یا اپنے اوپر قرض کا فرضی اقرار کرنے میں وارثوں کو محروم کرنے کا ارادہ ہونا اور اس ارادہ پر عمل کرنا سخت ممنوع ہے، اور گناہ کبیرہ ہے۔
دین یا وصیت کے ذریعہ ضرر پہنچانے کی کئی صورتیں ممکن ہیں، مثلاً یہ کہ قرض کا جھوٹا اقرار کرلے، کسی دوست وغیرہ کو دلانے کے لئے یا اپنے مخصوص مال کو جو اس کا اپنا ذاتی ہے یہ ظاہر کر دے کہ فلاں شخص کی امانت ہے، تاکہ اس میں میراث نہ چلے، یا ایک تہائی سے زائد ملا کی وصیت کرے، یا کسی شخص پر اپنا قرض ہو اور وہ وصول نہ ہوا ہو، لیکن جھوٹ یہ کہہ دے کہ اس سے قرض وصول ہوگیا، تاکہ وارثوں کو نہ مل سکے، یا مرض الوفات میں ایک تہائی سے زیادہ کسی کو ہبہ کر دے۔
یہ صورتیں ضرر پہنچانے کی ہیں، ہر مورث جو دنیا سے جا رہا ہے اسے زندگی کے آخری لمحات میں اس طرح کے اضرار سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم کرنے کی تاکید۔
میراث کے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے ارشاد فرمایا وصیة من اللہ، یعنی جو کچھ حصے مقرر کئے گئے اور دین اور وصیت کے بارے میں جو تاکید کی گئی اس سب پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے اللہ پاک کی طرف سے ایک عظیم وصیت اور مہتمم بالشان حکم ہے، اس کی خلاف ورزی نہ کرنا، پھر مزید تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا واللہ علیم حلیم یعنی اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے اور اس نے اپنے علم سے ہر ایک کا حال جانتے ہوئے حصے مقرر فرمائے جو احکام مذکورہ پر عمل کرے گا اللہ کے علم سے اس کی یہ نیکی باہر نہ ہوگی اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کی یہ بدکرداری بھی اللہ کے علم میں آئے گی، جس کی پاداش میں اس سے مواخذہ کیا جائے گا۔ نیزجو کوئی مرنے والا دین یا وصیت کے ذریعہ سے ضرر پہنچائے گا اللہ کو اس کا بھی علم ہے، اس کے مواخذہ سے بےخوف نہ رہو، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلاف ورزی کرنے پر اس دنیا میں سزا نہ دے، اس لئے کہ وہ حلیم ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو یہ دھوکا نہ لگنا چاہئے کہ میں بچ گیا۔
Top