Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 12
وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ١ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ۙ غَیْرَ مُضَآرٍّ١ۚ وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌؕ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے نِصْفُ : آدھا مَا تَرَكَ : جو چھوڑ مریں اَزْوَاجُكُمْ : تمہاری بیبیاں اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّھُنَّ : ان کی وَلَدٌ : کچھ اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو لَھُنَّ وَلَدٌ : ان کی اولاد فَلَكُمُ : تو تمہارے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا تَرَكْنَ : اس میں سے جو وہ چھوڑیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْنَ : وہ وصیت کرجائیں بِھَآ : اس کی اَوْ دَيْنٍ : یا قرض وَلَھُنَّ : اور ان کے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا : اس میں سے جو تَرَكْتُمْ : تم چھوڑ جاؤ اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّكُمْ وَلَدٌ : تمہاری اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَكُمْ : ہو تمہاری وَلَدٌ : اولاد فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے الثُّمُنُ : آٹھواں مِمَّا تَرَكْتُمْ : اس سے جو تم چھوڑ جاؤ مِّنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت تُوْصُوْنَ : تم وصیت کرو بِھَآ : اس کی اَوْ : یا دَيْنٍ : قرض وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو رَجُلٌ : ایسا مرد يُّوْرَثُ : میراث ہو كَلٰلَةً : جس کا باپ بیٹا نہ ہو اَوِ امْرَاَةٌ : یا عورت وَّلَهٗٓ : اور اس اَخٌ : بھائی اَوْ اُخْتٌ : یا بہن فَلِكُلِّ : تو تمام کے لیے وَاحِدٍ مِّنْهُمَا : ان میں سے ہر ایک السُّدُسُ : چھٹا فَاِنْ : پرھ اگر كَانُوْٓا : ہوں اَكْثَرَ : زیادہ مِنْ ذٰلِكَ : اس سے (ایک سے) فَھُمْ : تو وہ سب شُرَكَآءُ : شریک فِي الثُّلُثِ : تہائی میں (1/3) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصٰى بِھَآ : جس کی وصیت کی جائے اَوْ دَيْنٍ : یا قرض غَيْرَ مُضَآرٍّ : نقصان نہ پہنچانا وَصِيَّةً : حکم مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَلِيْمٌ : حلم والا
اور تمہاری بیویاں جو کچھ ترکے میں چھوڑ جائیں اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ان کی اولاد نہ ہو تو تمہارا حصہ آدھا ہے اگر (ان کی) اولاد ہو تو چوتھائی ، مگر یہ تقسیم اس کے بعد ہوگی کہ جو کچھ وہ وصیت کرگئی ہوں اس کی تعمیل ہوجائے اور جو کچھ ان پر قرض ہو ادا کردیا جائے اور جو کچھ ترکہ تم چھوڑ جاؤ تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کا حصہ چوتھائی ہوگا اور اگر (تمہاری) اولاد ہو تو (ان کا حصہ) آٹھواں ، جو کچھ تم وصیت کر جاؤ اس کی تعمیل اور جو کچھ تم پر قرض رہ گیا ہو اس کی ادائیگی کے بعد اور اگر ایسا ہو کہ کوئی مرد یا عورت ترکہ چھوڑ جائے اور وہ کلالہ ہو اور اس کے (اخیافی) بھائی یا بہن ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ بھائی بہن میں سے ہر ایک کا حصہ چھٹا ہوگا اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو پھر ایک تہائی میں سب برابر کے شریک ہوں گے لیکن اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو میت نے کردی ہو نیز اس قرض کی ادائیگی کے بعد جو میت کے ذمہ رہ گیا ہو ، بشرطیکہ مقصود نقصان پہنچانا نہ ہو ، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ جاننے والا اور بہت بردبار ہے
مرنے والی اگر بیوی ہو تو اس کے ترکہ میں میاں کا حصہ مقرر ہے : 33: اس حکم میں شوہر یعنی خاوند کی دو حالتوں کا بیان ہے۔ پہلی حالت یہ ہے کہ اگر زوجہ کا انتقال ہوا اور اس نے کوئی بیٹا ، بیٹی ، پوتا ، پوتی ، پڑپوتا ، پڑپوتی نیچے تک نہیں چھوڑا خواہ اس خاوند سے جس کے نکاح میں اس نے وفات پائی اور خواہ دوسرے خاوند سے جو موجود خاوند سے پہلے اگر ہو پھر اس کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد دوسری جگہ اس نے نکاح کیا ہو اور اس پہلے خاوند سے بھی اس کی اولاد ہو تو اس کے اس موجودہ خاوند کو اس کے ترکہ میں سے 1/2 حصہ ملے گا۔ دوسری حالت یہ ہے کہ زوجہ کا انتقال ہو اور اس نے کوئی بیٹا ، پوتا ، پڑپوتا ، پڑپوتی نیچے تک میں کوئی ایک یا زیادہ چھوڑے ہیں خواہ وہ اس خاوند سے ہوں جس کے نکاح میں اس نے وفات پائی یا اس سے قبل دوسرے خاوند سے جو موجودہ خاوند سے پہلے اگر کوئی رہ چکا ہو پھر اس کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد دوسری جگہ اس نے نکاح کیا ہو اور اس پہلے خاوند سے اس کی کوئی اولاد موجود ہو تو اس کے اس موجودہ خاوند کو اس لئے ترکہ میں سے 1/4 یعنی چوتھائی حصہ ملے گا۔ پہلی صورت میں باقی 1/2 دوسری صورت باقی 3/4 عورت کے دوسرے ورثاء مثلاً مرحومہ کی اولاد ، والدین ، بھائی ، بہن ، میں حسب قاعدہ جو پہلے ذکر ہوا ہے مال تقسیم ہوجائے گا۔ عورت کا ترکہ بھی اس کے قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد تقسیم ہوگا : 32: لیکن اس جگہ بھی میت کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد اور اگر کوئی وصیت ہو تو اس کے 1/3 مال کی حد تک اس کو پورا کرنے کے بعد ترکہ تقسیم ہوگا یعنی خاوند کا مقررہ حصہ بھی اور دوسرے ورثا کے مقرر حصص بھی بعد میں تقسیم ہوں گے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ عورت بھی صاحب مال صاحب جائیداد اور صاحب آمدنی ہوتی ہے جس کا ہمارے معاشرے میں کوئی تصور ہی نہیں۔ عورت اگر کوئی کمائی کرتی ہے تو وہ سب سے پہلے ان کے گھر والوں کے ہاں ! اگر وہ شادی شدہ ہے تو پھر خاوند کے گھر والوں کی ہے اور اگر ایسا نہیں ہوسکا تو پھر خاوند کی۔ ماشاء اللہ۔ کیسا ظلم ہے اور کیا اندھیر کھاتہ ہے ؟ عورت کو پہلے تو ورثہ ملتا ہی نہیں اور اگر کہیں کسی کو کچھ مل گیا تو وہ خود بخود ہی اس کے سسرال کا ہوگیا۔ یہ سب صورتیں ایسی ہیں جیسے عورت گویا کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی جانور ہے۔ جس طرح عورت مرد کے مال کی امین و محافظ ہو سکتی ہے بالکل اسی طرح مرد بھی عورت کے مال کا امین و نگران ہو سکتا ہے۔ مرد پر عورت کے جائز مصارف لازم و ضروری ہیں اور مرد کو ضرورت ہو تو وہ عورت سے لینے کا شرعی مجاز نہیں ہاں ! وہ اپنی مرضی سے خاوند کو کچھ دے دے اور وہ لینا چاہے تو لے سکتا ہے۔ عورت مرد سے زیادہ مال دار ہو سکتی ہے۔ عورت اپنے مال میں جائز تصرف کرسکتی ہے۔ عورت اگر صاحب مال ہو تو اس پر اس طرح زکوٰۃ فرض ہے جس طرح مرد پر ہے عورت اپنے مال میں سے اپنی مرضی کے مطابق صدقہ و خیرات کرسکتی ہے۔ جن باتوں میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عورت کی آزادی دی ہے ہم اس کو ہر ممکن صلب کرنے کی کوشش میں نہیں اور جن باتوں میں اللہ اور اس کے رسول نے عورت کو پابند کیا ہے ان میں ہم عورت کو آزاد رکھنا پسند کرتے ہیں لیکن معاشرے کی جکڑ بندیاں اتنی سخت ہیں ان سے نکلنا جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ کیا ہیں ہم ؟ اور کیا ہے ہمارا اسلام ؟ میاں کے ترکہ سے بیوی کا شرعی حصہ بھی کتاب اللہ میں مقرر کردیا گیا ہے : 35: اس حکم میں بیوی یعنی زوجہ کی دو حالتیں بیان کی گئی ہیں۔ پیلو حالت یہ ہے کہ اگر خاوند کا انتقال ہو اور اس کی کوئی اولاد یعنی بیٹا ، بیٹی ، پوتا ، پوتی ، نیچے تک نہیں ہے اس کی بیوی ایک ہے یا ایک سے زائد لیکن اولاد کسی سے بھی موجود نہیں تو عورت کو وہ ایک ہے یا ایک سے زائد ہر حال میں اس کے ترکہ کا 1/4 اس کو ملے گا یا ان میں برابر تقسیم ہوگا اگر وہ ایک سے زائد ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خاوند کا انتقال ہوا اور ان کے اولاد بھی موجود ہے یعنی بیٹا ، بیٹی ، پوتا ، پوتی ، نیچے تک برابر برابر حدیں موجود ہیں تو اس کے ترکہ میں سے 1/8 عورت یعنی بیوی کو ملے گا اور بیویاں ایک سے زائد ہیں تو بھی 1/8 حصہ ہی ان میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ اولاد خواہ ایک بیوی سے ہو یا ایک سے زائد بیویوں سے۔ بیوی کے حصہ مقرر ہیں کوئی کمی بیشی نہیں ہوگی۔ ہاں ! اس جگہ یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ بیوی ایک ہے یا زائد ان کا حق مہرادا ہوا ہے یا نہیں۔ اگر ادا نہیں ہوا ایک کا یا سب کا تو وہ بھی پہلے ادا کرنا ہوگا اگر وہ مقرر ہے اور اگر کسی کا ادا ہوا ہے اور کسی کا نہیں تو بھی جس کا ادا نہیں ہوا اس کا ادا کرنا ہوگا اور اس طرح یہ بھی گویا قرض میں داخل۔ پھر قرض کی ادائیگی اور وصیت کے پورا کرنے کے بعد بشرطیکہ وہ وصتہ 1/3 سے زیادہ کی نہ ہو باقی مال میت کے دوسرے ورثا میں تقسیم ہوجائے گا۔ ان حصص کے مطابق جو مقرر کئے گئے ہیں۔ بیوی کو اگر طلاق دے دی لیکن ابھی عدت پوری نہ ہوئی تھی کہ خاوند وفات پا گیا تو میراث کا حکم ؟ جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں وہ خاوند کی میراث سے اپنا حصہ پائے گی۔ اسی طرح اگر خاوند نے مرض الموت میں طلاق دی ہو تو بھی عورت میراث میں سے حصہ لے گی۔ اس میں سب کو اتفاق ہے اختلاف ہے تو وہ اس میں ہے کہ اگر طلاق بائن کی عدت ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ یا اختلاف اس میں ہے کہ اگر عدت پوری ہوجائے لیکن عورت نے نکاح ثانی نہ کیا ہو تو کیا وہ اپنے پہلے خاوند کی وفات کے بعد جس نے طلاق دی تھی اس کی میراث کی وارث ہوگی یا نہیں ؟ پھر ان مسائل کی بحث بہت طویل پکڑ گئی جس کی یہاں گنجائش نہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ مطلقہ اگر ابھی عورت طلاق کے اندر ہو کہ خاوند وفات پا جائے تو ایسی مطلقہ خاوند کی جائیداد سے اپنا مقررہ حصہ وصول کرے گی۔ اگر عدت گزر چکی اور رجوع نہیں کیا گیا تو ایسے خاوند کے مر جانے سے وہ خاوند کی میراث سے حصہ نہیں پائے گی اس لئے کہ اب وہ اس کا خاوند نہیں تھا۔ رہا مرض الموت میں طلاق کا مسئلہ تو اس کی تفضیل احادیث کے اس واقعہ سے مل جاتی ہے کہ احمد نے معمر کی روایت سے لکھا ہے کہ غیلان بن سلمہ جب مسلمان ہوئے اس وقت ان کے پاس دس بیویاں تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے چار رکھ لو اور باقی چھ کو طلاق دے دو ۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اب ان کے پاس چار بیویاں تھیں لیکن جب حضرت عمر ؓ کا دور آیا تو غیلان نے چاروں بیویوں کو طلاق دے دی اور اپنا مال اپنے لڑکوں میں تقسیم کردیا۔ حضرت عمر ؓ کو اطلاع پہنچی تو انہوں نے غیلان کو طلاب کیا یا غیلان کے پاس خود گئے اور اس سے فرمایا کہ شاید شیطان نے تجھے کوئی بات بڑھا دی یعنی اس نے تیرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اب تو زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہے گا۔ خدا کی قسم ! یا تو تو اپنی عورتوں سے مراجعت کرلے اور لڑکوں سے مال واپس لے لے ورنہ ان عورتوں کو میں تیرا وارث بنا دوں گا اور حکم دوں گا جس طرح ابورغال کی قبر پر سنگ باری کی گئی اس طرح تیری قبر پر بھی سنگ باری کی جائے گی۔ ابورغال نے دور جاہلیت میں ایک قومی غداری کی تھی اور قوم کو معلوم ہوا تھا کہ اس نے قومی غداری کی قر قوم نے اس کی سزا یہ تجویز کی تھی اور اس سے مطلب اس کی تذلیل تھی اور حضرت عمر ؓ کا بھی یہی مطلب تھا کہ تیری یہ حرکت ابورغال کی طرح غداری کی ایک حرکت ہے۔ اور اس حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طلاق رجعی کے بعد مرنے والے خاوندکی میراث سے حصہ اس عورت کو ملے گا اور اس نیت سے طلاق دینا کہ اس طرح عورت اس کی جائیداد میں شریک نہ ہوجائے حرام فعل ہے اس لئے ایسے مرنے والے کی بیوی کو اس کی میراث سے حصہ دیا جائے گا۔ اس طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیوی کو جس کا نام تماظر بنت ابن بن زیاد تھا اور یہ خاندان کلب سے تھی طلاق دے دی اور عدت پوری ہونے نہ پائی تھی کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عثمان ﷺ نے ان کی مطلقہ بیوی کو حضرت عبدالرحمن کا وارث قرار دیا اور یہ فیصلہ کثیر صحابہ ؓ کی موجودگی میں ہوا اور کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ حضرت عثمان ؓ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں عبدالرحمن بن عوف پر بدگمانی نہیں کرتا میرا مقصد صرف سنت پر عمل کرنا ہے۔ اس مسئلہ کی تائید حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت مغیرہ ؓ کے اقوال سے بھی ہوتی ہے اور امام رازی (رح) نے حضرت علی ؓ ، حضرت ابی بن کعب ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ کے ارشادات بھی اس کے موافق بیان کئے ہیں۔ اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خلع کرنے والی عورت کے لئے خاوند کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں اگرچہ وہ خلع کی عدت میں ہو اور خاوند کی وفات ہوجائے۔ کیونکہ اس میں مرد کو رجوع کرنے کا حق نہیں رہا اور رجوع کرنے جا مجاز نہیں۔ ترکہ جس کا بھی تقسیم ہوگا اس کی وصیت اور اس کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا : 36: قرآن کریم ایک حکم میراث کے متعلق دیتا ہے اور ساتھ ہی تاکیدی حکم یہ بیان کرتا ہے کہ اس حکم پر عمل درآمد سے پہلے وصیت اور قرض کی ادائیگی لازم ہے۔ احادیث بار ابر وصیت کی تاکید کرتی ہیں اور وصیت تیار نہ رکھنے والوں کو سخت وعید بھی سنائی جاتی ہے۔ لیکن علماء کا ایک طبقہ ایسا ہے کہ ان ساری باتوں کے باوجود وصیت کو بیخ دین سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے یعنی آیت تو قرآن کریم میں موجود ہے لیکن اس کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک تو شاہ ولی اللہ (رح) نے جو پانچ آیتیں منسوخ بتائی ہیں ان میں سے ایک آیت یہ بھی ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جب ورثاء کے حصے مقرر کردیئے گئے تو اس لئے اب وصیت کے حکم کو منسوخ ہی سمجھنا ہوگا اور تیسری دلیل ان کی یہ ہے کہ حدیث میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ ” لا وصیہ لوارث “ یعنی وارث کے لئے وصیت نہیں ہے۔ حالانکہ لا وصیہ لوارث کے الفاظ سے جن پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے مطلق وصیت کی نفی کیسے نکل آتی جب کے الفاظ یہ بیان کرتے ہیں کہ ” وارث کے لئے وصیت نہیں “ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب ایک مال میں سے خاص مقرر حصہ ورثاء کے درمیان تقسیم ہونے والا ہے تو پھر وارث کے لئے وصیت کیوں ؟ یعنی وصیت تو ان اقرباء و اعزاء کے لئے مناسب ہے جو وراثت میں شریک نہ ہوں یا وراثت سے محروم ہو رہے ہوں حالانکہ مرنے والے کے ساتھ ان کا گہرا رشتہ موجود ہے اور پھر وہ مستحق بھی ہیں کہ ان کو کچھ ملنا چاہئے جیسے اولاد کی موجودگی منر بھائی یا بہن اور بیٹوں بیٹیوں کی موجودگی میں پوتا یا دوہتا علی ہذا القیاس۔ حدیث کے متعلق ایک بہت بڑی غلطی کا ازالہ جو اچھی طرح سمجھنے کی چیز ہے : قرآن کریم کی آیت ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرہ : 180:2) ” مسلمانو ! یہ بات بھی تم پر فرض کردی گئی ہے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی محسوس کرے کہ اس کے مرنے کی گھڑی آگئی اور وہ اپنے مال و متاع میں سے کچھ چوڑ جانے والا ہو تو چاہئے کہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے اچھی وصیت کر جائے۔ جو متقی انسان ہیں ان کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ “ اس آیت میں قرآن کریم نے والدین اور قربیوں کے لئے وصیت کا حکم دیا اور اس حکم کو لا وصیت لوارث کے الفاظ نے روک دیا تو اس طرح ایک حکم خود اسلام نے دیا اور خود ہی اس سے روک دیا یعنی اس کو منسوخ کردیا اور پھر دعویٰ یہ کہ اسلام میں ناسخ و منسوخ نہیں ہے ؟ میں تو اکثر یہ کہتا ہوں کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے اگر عقل سے کام نہ لیا جائے تا ایسے شبہات ضرور پیدا ہوتے ہیں لیکن عقل سے کام لیا جائے تو سوال کے اندر ہی اس شبہ کا جواب موجود ہوتا ہے۔ اصل اس کی یہ ہے کہ عربوں میں رواج تھا کہ وہ مرتے وقت اپنے عزیز و اقرباء کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں یعنی دوست و احباب کے نام وصیت کر جاتے اور ان کی وصیت کے مطابق ان کے مرنے کے بعد ان کا مال تقسیم ہوجاتا جس سے بعض اوقات والدین اور قریبی بالکل محروم رہ جاتے یہ گویا ان کا ایک رواج تھا اور اسلام نے ان کے ہاں جتنے بھی اس طرح کے رواجات تھے ان کو یک دم ختم کرنے کی بجائے بتدریج ختم کیا تاکہ کوئی کام حکمت سے خالی نہ ہو جس کا بعض اوقات فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔ انہی رواجات میں ایک یہ رواج بھی تھا۔ سورة بقرہ میں اس رواج کو ختم کرنے کا پہلا مرحلہ یہ قائم کیا کہ ان کو ہدایت دی کہ مرتے وقت اپنے والدین اور قریبوں کو ” کچھ نہ کچھ “ ضرور دو اب وصیت کیا ہوئی ؟ یہی کہ ان کو ” کچھ نہ کچھ “ ضرور دو پھر اس زیر نظر آیت کے تحت جو سورة نساء میں ” کچھ نہ کچھ “ ضرور دو کو حکما نافذ کردیا کہ ان کو ” اتنا اتنا حصہ “ مزید دو یعنی ” کچھ نہ کچھ “ دینے کو ایک متعین مقدار کے ساتھ دینا لازم کردیا اس طرح گویا وصیت کو ایک طرح کا پکا کردیا۔ پہلی وصیت یہ تھی کہ ان کو ” کچھ نہ کچھ ضرور دو ۔ “ بعد میں یہ وصیت ہوتی کہ ان کو ” کچھ نہ دو “ تو یہ یقینا پہلے حکم کے خلاف ہوتا۔ حالانکہ یہاں ایسی کوئی بات نہیں بلکہ پہلا حکم عام تھا اور دوسرا حکم عام کی بجائے خاص کردیا گیا جس سے پہلے حکم کی مزید تو ضیح ہوئی نہ کہ تنسیخ۔ پہلا حکم ایک طرح کا مبہم تھا اور دوسرا بین اور اس طرح گویا وصیت کا حکم عام بھی قائم رہا اور کچھ لوگوں کے لئے مخصوص بھی ہوگیا کہ اب دینے والے کی مرضی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کو پابند کردیا گیا کہ اب تیرے پورے مال پر تیرا اختیار نہیں چلے گا اور تیرے سارے رشتہ دار حتیٰ کہ ماں باپ بھی تیری وصیت کے محتاج نہیں ہاں ! زیادہ سے زیادہ تیرے حصہ میں تجھے اختیار اب بھی باقی ہے اور ان ورثاء کے علاوہ باقی رشتہ داروں اور عام لوگوں میں وصیت کا حق بھی تیرا محفوظ ہے۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود جانب داری سے کام لینا اب بھی تیرے لئے مفید نہیں ہوگا۔ ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ قرآن کریم نے ایک عام حکم کو خاص ضرور بنایا ہے اور یہ منسوخ نہیں کہلاتا بلکہ وضاحت کہلاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پیغامبر کی ایک حیثیت بھی متعین کردیتا ہے کہ پیغمبر کوئی باجا نہیں ہے کہ جو آواز اس میں بھر دی گئی اس کے سوا اس سے کچھ نہیں نکلتا بلکہ اس کے اند جو بات وحی کی گئی اس وحی کی تشریح کا ملکہ بھی اس کے اندر بدرجہ اتم رکھ دیا گیا تاکہ جن کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا گیا وہ اس کی حیثیت کو بھی سمجھیں کہ وہ مختار کل بھی نہیں اور بالکل بےاختیار بھی نہیں اور جو اختیار اس کو دیا گیا ہے وہ اس کے بےجا استعمال بھی نہیں کرتا کہ اس کے اختیار پر کوئی اعتراض کرنا شروع کر دے۔ ناسخ منسوخ کے متعلق تفصیلی بحث عروۃ الوثقٰی جلد اول سورة بقرہ آیت 104 حاشیہ 201 میں ملاحظہ فرمائیں۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کہ میت کے مال میں سے متعین حصہ ملے گا تو پھر دوسرے رشتوں کا حق مار کر ہی ان کو دیاک جائے گا۔ جب قانون الٰہی میں ان کا حصہ موجود ہے تو پھر ان پر ہاتھ رکھنا چہ معنی دارد ؟ ان لوگوں کی بجائے ان کو کچھ نہ کچھ دے جانا جو عصبات میں شامل ہیں لکن ذوی الفروض کی وجہ سے وہ محروم ہو رہے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان سارے رشتہ داروں کا لحاظ فرماتے ہوئے مرنے والے کو 1/3 حصہ کی وصیت کا حق عطا فرما دیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس حق کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتادیا کہ رشتہ داروں اور دوسرے مستحقین کا بھی خیال کرو جس مال کو تم چھوڑنے والے ہو اس کی فکر بھی دل میں رکھو یہ مال ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں اس کی اشد ضرورت ہے تاکہ تم کو بھی اس کا اجر وثواب ملتا رہے۔ لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں نے اجر وثواب کے ٹھیکہ دار الگ مقرر کر کے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے حق کو غضب کرلیا اور اس طرح قرآن کریم کے احکام کو منسوخ کرنے والوں نے اپنی مہراس پر ثبت کر کے اپنا حصہ ان سے وصول کرلیا۔ کلالہ کیا ہے ؟ اس کی وضاحت اس طرح ہے : 37: کلالہ کیا ہے ؟ کلالہ کی بہت سی تفسیریں کی گئی ہیں۔ علامہ قرطبی (رح) نے اپنی تفسیر میں نقل کی میں مشہور تفسیر یہ ہے کہ جس مرنے والے کو اصول اور فروع نہ رہے ہوں وہ کلالہ ہے یعنی وہ بےباپ بھی ہو اور بےولد بھی بلکہ یہ کہ اوپر تک اس کا کوئی باپ نہ ہو اور نیچے تک اس کی کوئی اولاد بھی نہ ہو وہ کلالہ ہے۔ کلالہ اصل میں مصدر ہے جو کلال کے معنی میں ہے اور کلال کے معنی ہیں تھک جانا جو ضعف کمزوری پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے باپ بیٹے والی قرابت کے سوا دوسری قرابت کو کلالہ کہا گیا اس لئے کہ ایسی قرابت باپ بیٹے کی قرابت کی نسبت کمزور ہوتی ہے۔ پھر کلالہ کا اطلاق ہر اس مرنے والے پر کیا گیا جس کی اولاد بھی نہ ہو اور باپ بھی نہ ہو اور اس وارث پر بھی اس کا اطلاق کیا گیا جس مرنے والے کا ولد اور والد نہ ہو۔ اس طرح اس جگہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ لفظ ” ذو “ مقدر مانا جائے اور کلالہ بمعنی ” ذو کلالہ “ مانا جائے یعنی ضعیف و کمزور رشتہ والا۔ پھر یہ کہ وہ رشتہ اگرچہ حسب و نسب کے لحاظ سے کمزور نہ ہو لیکن ورثہ پانے کے لحاظ سے کمزور ہو۔ پھر اس مال موروث پر بھی یہ بولا جائے گا جو ایسی میت نے چھوڑا ہو جس کا کوئی والد اور ولد نہ ہو۔ کلالہ کی میراث تقسیم کرنے کی تفصیل اس طرح ہے : 38: ماحصل اس کلام کا یہ ہوا کہ کوئی ایسا شخص وو مرد ہو یا عورت وفات پا جائے اور اس کے نا باپ ہو اوپر تک اور نہ اولاد ہو نیچے تک اور اس نے ایک بھائی یا بہن ماں شریک چھوڑے ہوں تو ان میں سے اگر بھائی ہے تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اور بھائی نہیں بلکہ صرف بہن ہے تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر ایک سے زیادہ ہوں یعنی دو بھائی یا دہ بہنیں یا بھی بھی اور بہنیں بھی تو یہ سب مل کر مرنے والے کے مال میں 2/3 حصے کے مالک ٹھہریں گے اور اس طرح مرنے والے کے مال کا 2/3 حصے ان میں برابر برابر تقسیم ہوجائے گا یعنی مرد اور عورت کا لحاظ رکھ کر تقسیم نہیں ہوگی بلکہ سب برابر کے شریک ہوں گے اور مذکر کو مونث سے دوہرا نہیں ملے گا۔ کیوں ؟ اس لئے کے ان سب کا تعلق ماں کی وجہ سے ہے باپ کی نسبت سے نہیں اور صحابہ کرام رضوان کے بعد جو میت نے کردی ہو نیز اس قرض کی ادائیگی کے بعد جو میت کے ذمہ رہ گیا ہو۔ بشرطیکہ ، مقصود ، نقصان پہنچانا نہ ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ ، جاننے والا اور بہت بردبار ہے۔ 12 یاد رکھو یہ اللہ کی حدبندیاں ہیں پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے : اللہ علیہم اجمعین سے اس آیت کی تفسیر میں ولہ اخ اواخت من امہ یعنی ایسے مرنے والے کے لئے بھائی یا بہن ہو اس کی ماں کی نسبت سے۔ پھر اس بیان کو اس سے مزید تقویت مل جاتی ہے کہ سورة النساء کے آخر میں دوبارہ کلالہ کا مسئلہ بیان ہوا ہے جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ایسے مرنے والے کی اگر ایک بہن ہو تو اس کو آدھا ملے گا اور اگر دو بہنیں ہوں تو وہ 2/3 پائیں گی اور اگر متعدد بہن بھائی ہوں تو مذکر کو مونث سے دوہرا دیا جائے گا وہاں عینی اور علاتی بہن بھائی تسلیم کئے گئے ہیں یعنی جو ماں باپ دونوں سے ہوں یا صرف باپ سے اس لئے اس جگہ اخیانی بہن بھائی تسلیم ہوں گے ورنہ دونوں آیات میں تعارض ہوگا اور تعارض کلام الٰہی میں محال ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس جگہ اخیانی بہن بھائی تسلیم کئے جائیں اور وہی مانے گئے ہیں۔ ہاں ! اس کا کوئی مزید حل نکل آئے تو بھی ممکن ہے۔ وصیت کی تاکید پر مزید تاکید تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے : 39: زیر نظر آیت میں تین مرتبہ میراث کے حصے بیان کر کے ہر حصے کے بیان کے بعد فرمایا گیا کہ یہ تقسمت وصیت اور دین کے بعد ہوگی پہلے نہیں۔ جس سے ایک تو وصیت کرنے کا تاکیدی حکم نکل آیا اور دوسری یہ بات معلوم ہوگئی کہ وصیت اور دین میراث تقسیم کرنے سے بھی زیادہ اہم اور ضروری ہیں۔ پھر وصیت کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے خود یہ ارشاد فرمایا کہ وصیت 1/3 حصہ سے زیادہ مال میں نہیں کی جاسکتی اور چوتھی بات حدیث سے یہ واضح ہوگئی کہ وصیت ورثاء کے لئے جو اس وقت مورث کی وراثت میں شریک ہوں ان کو مزید وصیت سے کچھ نہیں دلایا جاسکتا۔ اگر کوئی ایسی وصیت ہوئی تو اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ قرآن کریم میں وصیت کا ذکر پہلے ہے اور قرضج کا بعد میں لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی کہ قرض پہلے ادا ہوگا اور وصیت بقیہ مال میں نافذ ہوگی اور وصیت کے بعد جو بچے گا وہ ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ چناچہ حضرت علی ؓ سے اس کی تشریح اس طرح بیان کی گئ ۔ چناچہ مشکوۃ شریف میں ہے کہ : انکم تقرء ون ھذہ الایۃ من بعد وصیۃ توصون بھا او دین وان رسول اللہ ﷺ قضی بالدین قبل الوصیۃ (مشکوۃ المصابیح بحوالہ ترمذی 264) ” یعنی آپ لوگ یہ آیت تلاوت کرتے ہیں۔ “ من بعد وصیۃ توصون بھا او دین “ اس میں اگرچہ لفظ وصیت مقدم ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کو عمل میں قرض کے بعد رکھا ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں جو ترتیب بیان ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس ترتیب کے ساتھ اس پر عمل ہوگا بلکہ عمل میں اس ترکیب کا عکس ہے کیونکہ ورثہ کے تقسیم کا پہلے ذکر ہے اس کے بعد وصیت کا اور اس کے بعد قرض کا اور عمل میں سے سب سے مقدم قرض ہے بعد میں وصیت اور اس کے بعد تقسیم میراث۔ رہی یہ بات کہ ترتیب میں ایسا کیوں کیا گیا تو اس کے بہت سے جواب دئیے جاسکتے ہیں تا ہم مختصر یہ ہے کہ دین یعنی قرض ہر میت کے لئے ضروری نہیں کہ اس نے قرض ادا کرنا ہی ہوگا اور اس کے بعد وصیت ہے کیونکہ ممکن ہے کہ مرنے والے کی نطر میں کوئی ایسا مستحق نہ ہو کہ وہ اس کے لئے وصیت کرے رہی میراث تو وہ ہر حال میں تقسیم ہوگی خواہ کم ہو یا زیادہ اس لئے اس ترتیب کے ساتھ اس کو بیان کرنا ضروری سمجھا گیا کہ اگر دین اور وصیت نہ ہو تو تجہیز و تکفین کے بعد بچا ہوا کل مال وارثوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ ہاں ! وارث کے حق میں وصیت کرنا اسلام کی نظر میں باطل ہے اگر کسی نے لڑکے ، لڑکی ، شوہر یا بیوی کے لئے یا دوسرے کسی ایسے شخص کے لئے وصیت کی جس کو میراث میں مقررہ حصہ ملے گا تو اس وصیت کا کچھ اعتبار نہیں ہوگا۔ وارثوں کا صرف میراث کا حصہ ملے گا اس سے زیادہ کے وہ مستحق نہیں۔ اس کے متعلق نبی اعظم و آخر ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا۔ ان اللہ قد ایطی کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث ” اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے اس لئے کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت معتبر نہیں ہے۔ “ (مشکوۃ المصابیح بحوالہ ابو دائود ص 265) لیکن اگر کسی نے ایسی کوئی وصیت کردی اپنی لاعلمی کی وجہ سے ، کسی وارث کو اتنا مستحق سمجھتے ہوئے کہ وہ اتنا کمزور ہے کہ میری میراث جو حصہ اس کو ملنے والا ہے اس سے اس کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا تو اس کا حکم یہ ہے کہ مرنے والے کے بعد اس کے جتنے وراث ہیں ان کے سامنے وہ بات رکھ دی جائے اور پھر وہ اتفاق رائے سے اس کو منظور کرلیں تو اس کو وصیت کے مطابق دیا جاسکتا ہے اس لئے کہ اس کے لئے خود رسول اللہ ﷺ نے امت کے نام پیغام یہ دیا ہے کہ الا ان یشآء الوارثۃ ” مگر ہاں اگر سارے وارث ایسا چاہیں۔ “ کہ یہ وصیت پوری ہو۔ تفصیل اس کی کتب فقہ اسلامی میں ملے گی۔ مثلاً ہدایہ وغیرہ میں۔ کلالہ کی میراث کا ذکر فرماتے ہوئے جو وصیت اور قرض کی ادائیگی کا ذکر فرمایا گیا اس پر مزید ان الفاط کا اضافہ ارشاد فرمایا کہ غیر مضار یعنی مرنے والے کیلئے وصیت یا دین کے ذریعے وارثوں کو نقصان پہنچانا جائز نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کسی قرض کا فرضی اقرار کرلینا یا اس مقصد کے پیش نظر وصیت کرنا کہ ورثاء کو نقصان پہنچنے کے ارادہ سے نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی نے کسی ایسے قرض کی نشاندہی کی ہے تو وہ قرض لے کر کہیں خرچ کرنے کے متعلق بھی اس نے کہا ہوگا یا اس بات کی شہادت موجود ہوگی کہ مرنے والے نے یہ قرض لے کر کس جگہ خرچ کیا ہے یا کیوں قرض لیا ہے۔ اس کی تفصیل بہت لمبی ہے اور حالات و وقت ہی اس کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ تحریر میں صرف نشاندہی کی جاسکتی تھی لہٰذا وہ کردی گئی ہے اور اس میں گویا ہر مرنے والے کے لئے ہدایت ہے کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کوئی عمل ایسا مت کرو کہ جس مال و دولت اور جائیداد کو تم چھوڑے جا رہے ہو تو تمہاری آخرت کی بربادی کا باعث ہوجائے۔ میراث کے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وَصِیَّۃٌ مِّنَ اللّٰہِ ” یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔ “ یعنی جو کچھ حصے مقرر کئے گئے ہیں اور دین اور وصیت کے بارے میں جو تاکید کی گئی ہے کہ اس کو ضرور ادا کر دو جو غلط وصیت سے روکا گیا ہے ان ساری باتوں پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے اور خوب جان لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو ایک عظیم وصیت مہتم بالشان کا حکم دیا جا رہا ہے اس کی خلاف ورزی کسی حال میں بھی نہ کرنا اور اس تنبیہہ پر مزید بنبیہہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ ” اللہ جاننے والا اور بہت بردبار ہے۔ “ اس نے اپنے علم سے ہر ایک کا حال جانتے ہوئے حصے مقرر فرمائے ہیں۔ جو احکام مذکورہ پر عمل کرے گا اس کے علم سے اس کی یہ نیکی باہر نہیں ہوگی اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کی یہ خلاف ورزی بھی علم الٰہی میں موجود ہے اس لئے اس جی پاداش میں اس سے مواخذہ کیا جائے گا اور پس ماندگان تمہیں مواخذہ سے بچا نہیں سکیں گے اور یہ کہ پس ماندگان بھی اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرنے والے کو کوئی ایسی ترغیب نہ دیں جس سے اس کے اصل وارثوں کا نقصان ہوتا ہے اس لئے کہ آج وہ مرنے والا ہے اور مر رہا ہے مر جائے گا تو کل تم پر بھی یہ وقت یقینا آنے والا ہے اللہ حلیم و بردبار ہے اس وقت ایسا کرنے والوں کو سزا نہیں سنا دیتا اور اس طرح کی ڈھیل سے یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ شاید اس کی کوئی سزا ہی نہیں ہے۔ سزا یقینا ہے لیکن اس تاخیر کا راز تمہاری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس لئے کہ تم میں جس کو مرنا کہتے ہو وہ تمہاری دوسری دنیا کا جینا ہے اور تم جس طرح مرنے پر مجبور ہو بالکل اسی طرح جینے پر بھی مجبور ہو۔ سمجھ لو تو تمہارا اپنا فائدہ ہے اور نہ سمجھو گے تو تمہارا اپنا نقصان۔ اس مسئلہ کہ وضاحت احادیث کی روشنی میں بھی اس طرح کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بعض مرد اور عورتیں ساٹھ برس اللہ کی اطاعت کا کام کرتی ہیں پھر موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں وارثوں کو ضرر پہنچاتے ہیں اور اس وجہ سے دوزخ ان کے لئے واجب ہوجاتی ہے۔ کہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت اب ہریرہ ؓ نے مَنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَا اَوْ دَیْنٍوالی آیت تلاوت کی۔ “ (رواہ احمد والترمذی و ابودائود و ابن ماجہ) حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ اگر میں پانچویں حصہ کی وصیت کروں تو چوتھائی مال کی وصیت کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور اگر میں چوتھائی مال کی وصیت کروں تو تہائی مال کی وصیت سے زیادہ بہتر ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اس طرح ورثا حقیقی کا کم از کم نقصان ہوگا اور مستحق بھی کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ تہائی مال کی وصتز سے زیادہ تو وصیت کی بھی گئی تو نافذ ہی نہ ہوگی لیکن تہائی مال سے کم وصیت کرنا ہی وصیت کرنے والے کے حق میں مفید ہو سکتا ہے۔ اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قانون وراثت کے متعلق ایک خاکہ مرتب کردیا جائے تاکہ اس پر نظر کرنے سے ایک تو وارثوں کے متعلق کچھ چیزیں ذہن نشین ہوجائیں دوسرے ان کی حالت بلحاظ حصص جو بدلتی ہے اس کی کچھ نہ کچھ بوجھ آجائے تیسرے اس باب میں مختلف فیہ مسائل کے متعلق حقیقت آشکار ہو اور چوتھے جلدی میں کئے گئے فیصلوں کا نقصان ذہن نشین ہو اس لئے فیصلے کرتے وقت عقل و فکر سے کام لینے پر زیادہ زور دیا جاسکے اور یہ بات واضح ہوجائے کہ جس طرح جذبات میں کئے گئے قومی فیصلے قوموں کے حق میں نقصان دہ ہوتے ہیں بالکل اسی طرح جذبات میں کئے گئے انفرادی فیصلے افراد کے لئے بھی مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ مقالہ برائے وراثت ـ علم فرائض کی فضیلت : علم فرائض نہایت شریف اور قابل قدر علم ہے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کے حاصل کرنے اور تعلیم کرنے کی نہایت تاکید اور اس پر ترغیب فرمائی ہے۔ کہ آپ ﷺ نے ایک فصیح وبلیغ پر درد و رقت آمیز موثر و عظ میں فرمایا کہ اے لوگو ! میں تم میں ہمیشہ نہیں رہوں گا۔ فرائض کو سیکھ لو اور (یکے بعد دیگرے) لوگوں کو سکھائو۔ وہ وقت قریب ہے کہ اے لوگو ! میں تم ہمیشہ نہیں رہوں گا۔ فرائض کو سیکھ لو اور (یکے بعد دیگرے) لوگوں کو سکھاؤ ۔ وہ وقت قریب ہے کہ وحی کا دروازہ بند ہوجائے گا اور علم کے معدوم ہونے کا وہ زمانہ آئے گا کہ دو آدمی ایک ضروری مسئلہ میں جھگڑتے ہو گے اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہ ملے گا۔ دوسرے موقعہ پر فرمایا کہ اے لوگو ! فرائض کو سیکھو اس لئے کہ وہ نصف رعلم ہے اور سب سے پہلے جو علم میری امت سے اٹھا لیا جائے گا وہ علم فرائض ہے۔ علم فرائض کی حقیقت : علم کے فرائض ان احکام شرعیہ کا نام ہے جن کا تعلق میت کے چھوڑے ہوئے مال سے ہے۔ میت کے چھوڑے ہوئے مال پر دوسرے لوگوں کا استحقاق اور ملک ثابت ہوجانے کا نام میراث ہے اور موجود رشتہ داروں کے جو حقوق اور حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں یہی فرائض ہیں۔ جو چیزیں مراث پر مقدم ہیں ان کا بیان : تین چیزیں ایسی ہیں جن کا خرچ تقسیم سے مقدم ہے۔ ان پر مال صرف کرنے کے بعد جو کچھ باقی رہے اس میں میراث جاری رہے گی اور وارثوں کا حق ہوگا اور اگر میت کا ترکہ انہیں چیزوں کے خرچ میں ختم ہوجائے تو وارثوں کو کچھ نہ ملے گا۔ وہ تین چیزیں یہ ہیں : (1) میت کے ترکہ میں سے پیلے اس کی تجہیز و تکفین کا خرچ لیا جائے مگر یہ کام نہایت سیدھے سادے شرعی طریقے سے سنت کے مطابق اور میت کی حیثیت کے موافق کیا جائے۔ (2) جب تجہیز و تکفین کے خرچ سے مال باقی رہے تو فرض ادا کیا جائے۔ کیونکہ جیسے زندگی میں بدن کا لباس قرض سے مقدم ہے اور قرض خواہ اس کو نہیں لے سکتا اسی طرح بقدر کفن دفن حق میت ہے قرض خواہ کی ریایت سے وہ حق ضائع نہ ہوگا۔ (3) ادائے قرض کے بعد جو کچھ مال باقی رہے تو اس کے تیسرے حصہ سے اس کی وصیتیں پوری کی جائیں گی اور دو حصوں میں وارثوں کا پورا استحقاق ہے۔ وارثوں کی اقسام : وارثوں کی ترتیب وار آٹھ اقسام ہیں۔ (1) پہلے ذوی الفروض ہیں۔ یعنی وہ وارث جن کے حصے اور میراث کی مقدار شریعت نے مقرر کردی ہے۔ (2) عصبات نسبی (یعنی میت سے نسبی علاقہ رکھنے والے) ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے رشتہ میں عورت کا واسطہ اور ذریعہ نہ ہو اور شریعت میں ان کا کچھ حصہ مقرر نہ ہو بلکہ ذوی الفروض کے پورے حصے نکال لینے کے بعد جو کچھ ترکہ باقی رہے ان کو مل جائے اور باقی نہ رہے تو محروم رہ جائیں۔ اگر ذوی الفروض میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو ان می تمام ترکہ اور کل مال مل جائے گا۔ (فائدہ) عصبات نسبی وہ مرد ہیں جو نسب میں میت کے شریک ہوں (یعنی وہ عورتیں نہ ہوں) اور نسب کا اعتبار شریعت اسلامی میں مرد کی طرف سے ہے۔ لہٰذا عسبات نسبی وہی لوگ ہوں گے کہ ان میں اور میت میں بلاواسطہ عورت علاقہ موجود ہو اور خود بھی مرد ہوں۔ پس چچا اور چچا کا بیٹا عصبہ ہوں گے۔ اور پھوپھی اور چچا کی بیٹی عصبہ نہ ہوں گی اور بھتیجا عصبہ ہوگا اور بھانجہ اور نواسہ عصبہ نہ ہوں گے۔ (3) ذوی الارحام یہ وہ وارث ہیں جن کا حصہ بھی شریعت میں مقرر نہ ہو اور عصبہ بھی نہ ہوں بلکہ میت میں اور ان میں عورت کے علاقہ اور وسیلہ سے رشتہ اور قرابت ہو یا خود عورت ہوں جیسے خالہ ، پھوپھی اور بھتیجی۔ (4) مقرلہ ، بالنسب علی الغیر یعنی وہ آدمی جس کی نسبت میت نے اپنے وارثوں میں داخل ہونے اور اپنے نسب میں شریک ہونے کا اس طرح اقرار کیا ہو کہ اس آدمی کا علاقہ نسب کسی دوسرے شخص سے لگ جائے لیکن اصل نسب والے نے اس کا اقرار نہ کیا ہو کہ اس آدمی کا علاقہ نسب کسی دوسرے شخص سے لگ جائے لیکن اصل نسب والے نے اس کا اقرار نہ کیا ہو اور نہ گوہ ہوں۔ البتہ میت اس کو اپنے وارثوں میں اور نسب میں آخری دم تک داخل جانتا رہا ہو۔ جو شخص اس قسم کے اقرار سے وارثوں میں داخل ہوا ہے۔ اس کو اقرار کرنے والے میت کی میراث مل جائے گی۔ بشرطیکہ مذکورہ بالا چھ اقسام کے وارثوں میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو۔ البتہ اگر میت نے صرف زوجہ یا صرف شوہر چھوڑا ہو اور کوئی وارث کسی قسم کا بالکل نہ ہو تو شوہر یا زوجہ کا حصہ دینے کے بعد جو کچھ باقی رہے گا۔ وہ اس مقرلہ ، کو دیا جائے گا۔ مثال مقرالہ ، کی۔ زید ایک مجہول النسب شخص کی نسبت کہتا ہے کہ یہ میرا بھائی ہے اور اس شخص کی عمر اس قابل ہے کہ اس کا بھائی ہو سکے یعنی زید کے باپ سے پندرہ بیس برس چھوٹا ہے۔ اب زید کے اس کو بھائی جاننے اور اپنے وارثوں میں داخل کرنے سے یہ لازم آیا کہ یہ شخص زید کے باپ کا بیٹا ہے۔ ایسی صورت میں زید کا اقرار اپنے حق میں صحیح ہوگا اور یہ شخص مقرلہ کہلائے گا اور زید کے وارثوں میں داخل کرنے سے یہ لازم آیا کہ یہ شخص زید کے باپ کا بیٹا ہے۔ ایسی صورت میں زید کا اقرار اپنے حق میں صحیح ہوگا اور یہ شخص مقرلہ کہلائے گا اور زید کے وارثوں میں داخل ہوجائے گا۔ لیکن ذوی الفروض یا عصبہ نہ بن جائے گا اور اگر کوئی وارث کسی قسم کا موجود نہ ہو تو اس کو میراث پہنچے گی جیسا ابھی ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن یہ مقرلہ زید کے باپ کا بیٹا نہیں بن جائے گا۔ اور زید کے باپ سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا کیونکہ زید کو یہ اختیار نہیں کہ باپ وغیرہ کسی دوسرے شخص کے نسب میں کسی کو داخل کرے۔ تنبیہ : اگر کوئی میت کسی شخص کی نسبت یہ اقرار کرے کہ یہ میرا بیٹا ہے یا میری بیٹی ہے اور اس مذکور کا کوئی نسب مشہور بھی نہیں بلکہ مجہول الشخصیت ہے اور عمر بھی اتنی زیادہ نہیں کہ اقرار کرنے والا اس کا باپ نہ ہو سکے تو یہ نسب ثابت ہوجائے گا۔ اور یہ بیٹا حقیقی اولاد کے مانند عصبہ اور ذوی الفروض میں داخل ہوجائیں گے اور پوری طرح بلا تکلیف میراث پائیں گے۔ (5) مولی العتاقہ اور (6) مولی الموالات ان دونوں کا بیان کتب میراث میں ملے گا۔ (7) مذکورہ بالا اقسام کے وارث اگر موجود نہ ہوں تو تمام مال اس کو دیا جائے گا جس کے لئے میت نے اپنے تمام مال کی وصیت کی تھی ۔ (8) اگر کسی میت کے فی الحقیقت کوئی وارث اقسام مذکورہ میں سے موجود ہی نہ ہو یا کوئی ہو مگر کسی کو بھی معلوم نہ ہو تو اس کے پس ماندہ اسباب کے تمام مسلمان مستحق ہوں گے جو میت سے اسلامی تعلق رکھنے والے ہیں۔ لیکن اگر تقسیم کیا جائے تو ایک ذرہ بھی کسی کے حصہ میں نہ آئے تو شرعی حکم یہ مقرر ہوا کہ وہ مال بادشاہ اسلام کے خزانہ میں داخل کیا جائے جس کو بیت المال کہتے ہیں۔ وہاں سے وہ ایسے مفید خلائق اور رفاہ عام کے کاموں میں خرچ ہوگا جس سے بلا خصوصیت عام مسلمانوں کو نفع پہنچے۔ مثلا جہاد کے لئے فوج و لشکر تیار کرنا۔ سرحدوں پر حفاظت کے لئے چاؤنیاں اور چوکیاں قائم کرنا اور دریاؤں کے پل اور سڑکیں بنانا۔ مدارس و مہمان سرائے پر خرچ کرنا۔ جو چیزیں میراث پانے سے محروم کردیتی ہیں : میت کا مال بوجہ ایک علاقہ اور تعلق اور رشتہ داری کے خدا تعالیٰ نے اس کو بعد موجودہ وارثوں کو عطا فرمایا ہے۔ پس اگر کوئی ایسی بات پیش آجائے جس سے تعلق نہ رہے اور ایک قسم کی جدائی اور علیحدگی اور نفرت ثابت ہوجائے تو اس وارث کو میراث نہ ملے گی۔ وہ چار امور ہیں۔ (1) قتل مورث : اگر بالغ وارث نے اپنے مورث کو ظلماً مار ڈالا تو یہ وارث میراث سے بالکل محروم رہے گا خواہ یہ قتل عمداً واقع ہو (یعنی قتل کرنے کے قصد ہی سے مارا ہوا) یا خطاً ایسا ہوگیا (یعنی غلطی سے مارا گیا۔ ) مثلاً ہرن کو گولی یا تیر مارنا تھا نشانہ خطا کر گیا اور مورث پر جالگا۔ اگر نا بالغ یا مجنوں نے اپنے مورث کو قتل کردیا تو میراث سے محروم نہ ہوگا کیونکہ نا بالغ اور مجنوں کے اکثر افعال شرعاً مستو جب سزا و جزا نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر طلماً نہیں مارا بلکہ مورث ناحق اس پر حملہ کرتا تھا اس نے اپنے بچاؤ کے لئے اس پر وار کیا اور وہ مورث مر گیا تو یہ وارث میراث سے محروم نہ ہوگا یا مورث پر سزا میں کسی وجہ سے شرعاً قتل واجب ہوا اور بادشاہ یا قاضی کے حکم سے وارث نے قتل کردیا تو بھی میراث سے محروم نہ ہوگا۔ کیونکہ ان سب صورتوں میں قتل ظلماً نہیں ہے۔ (2) قتل مورث : اگر ایک مسلمان ہو اور دوسرا کافر تو یہ دونوں ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکیں گے۔ (3) غلامی (4) اختلاف وطن ذوی الفروض کا بیان : ذوی الفروض (یعنی وہ وارث جن کا حصہ شریعت نے مقرر و معین فرما دیا ہے) تیرہ شخص ہیں (1) باپ (2) دادا (3) اخیافی بھائی (یعنی ماں کی طرف سے جو بھائی ہیں) (4) اخیافی بہن (یعنی ماں کی طرف سے جو بہنیں ہیں) (5) شوہر (6) زوجہ (7) بیٹی (8) پوتی (9) حقیقی بہن (10) علاتی بہن (یعنی باپ کی طرف سے جو بہنیں ہیں) (11) والدہ (12) دادی (13) نانی اور ان کے لئے شریعت میں مقرر و معین کردہ حصے یہ ہیں۔ 1/2 ، 1/4 ، 1/8 اور /3/2 ، 1/3 ، 1/6 ۔ ذوی الفروض کی مختلف حالتوں کا بیان باپ کی تین حالتیں ہیں : (1) صرف چھٹا 1/6 حصہ ملتا ہے جب کہ میت نے کوئی بیٹا یا بیٹے کی مذکر اولاد یا پوتے کی مذکر اولاد چھوڑی ہو۔ (2) اگر مرنے والے کے کوئی مذکر (یعنی نرنیہ) اولاد کسی درجہ میں بھی نہ ہو بلکہ بیٹی یا پوتی یا پڑپوتی موجود ہو تو مرنے والے کے باپ کو چھٹا 1/6 حصہ بھی ملتا ہے۔ اور تمام ذوی الفروض موجودہ کو دینے کے بعد جو کچھ باقی رہ جائے وہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں باپ ذوی الفروض بھی ہے اور عصبہ بھی ہے۔ (3) اگر میت کے نہ بیٹی ہے نہ بیٹا نہ بیٹے کی اولاد ہے نہ پوتے کی نہ پڑپوتے کی تو ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ باقی رہے وہ سب باپ کو مل جائے گا۔ اس صورت میں باپ کا کوئی حصہ مقرر نہیں۔ دادا کی چار حالتیں ہیں : پہلی تین حالتوں میں باپ اور دادے کا حصہ بالکل یکساں ہے۔ (4) چوتھا حال یہ ہے کہ اگر باپ زندہ ہو تو دادے کو کچھ نہیں ملتا وہ بالکل محروم رہتا ہے۔ کیونکہ باپ کا درجہ قریب ہے اس کی موجودگی میں دادا مستحق نہیں ہو سکتا۔ واضح ہو کہ پڑدادا اور سکڑ دادا کے بھی یہی حال ہے جو دادا میں مذکور ہوا لیکن دادا کے سامنے پڑدادا محروم ہوتا ہے اور پڑدادا کے سامنے سکڑ دادا۔ فائدہ : شریعت اور لغت عربی میں دادی کے باپ کو اور دادی کی ماں کے باپ اور دادا کو بھی جد یعنی دادا کہتے ہیں لیکن یہ لوگ ذوی الفروض میں داخل نہیں۔ ذوی الفروض وہی دادے ہیں جنے کے رشتہ میں عورت کا واسطہ اثر نہ کرے۔ جیسے باپ کا باپ ، دادا کا باپ ، پڑدادا کا باپ انہیں لوگوں کو جد صحیح کہتے ہیں اور انہیں کی میراث اور حصہ کا حال اس جگہ بیان ہوا ہے جن دادوں کے رشتہ میں عورت کا واسطہ آیا ہے وہ ذوی الارحام میں داخل ہیں اور ان کو جد فاسد کہتے ہیں جیسے باپ کی ماں کا باپ یا دادا کی ماں کا باپ۔ اخیافی بھائیوں اور بہنوں کی تین حالتیں ہیں (1) اگر ان میں سے صرف ایک بھائی یا بہن ہو تو میت کے ترکہ کا چھٹا 1/6 حصہ پائے گا۔ (2) اگر دو یا دو سے زائد ہوں خواہ صرف بھائی ہوں یا صرف بہنیں ہوں یا بھائی اور بہنیں دونوں ہوں تو سب کو ایک ثلث 1/3 (یعنی میت کے کل ترکہ کا ایک تہائی حصہ) پہنچے گا۔ اسی کو باہم برابر تقسیم کرلیں نہ تعداد کے کمی زیادتی کا فرق ہے جنہ عورت مرد کا تفاوت بلکہ ہمیشہ برابر تقسیم ہوگا۔ یہ خصوصیت صرف اخیافی بھائی بہنوں کی ہے کہ مرد و عورت کو برابر حصہ ملتا ہے۔ (یعنی ایک مرد کو دو عورتوں کا حصہ ملتا ہے۔ ) اگر میت کا بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی یا پڑپوتی موجود ہوں تو اس قسم کے بھائی بہن بالکل محروم رہتے ہیں۔ علی ہذا القیاس اگر میت کا بات دادا پڑدادا زندہ ہو تب بھی اخیافی بہن بھائی میراث کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ شوہر کی دو حالتیں ہیں : (1) اگر زوجہ کا انتقال ہوا اور اس نے کوئی بیٹا بیٹی پوتا پوتی پڑپوتا پڑپوتی نہیں چھوڑا تو شوہر کو زوجہ کے ترکہ کا نصف حصہ ملتا ہے۔ (2) اگر زوجہ کے کوئی بیٹا بیٹی یا پوتہ پوتی یا پڑپوتا پڑپوتی موجود ہو تو شوہر کو کل مال میں سے ربع (یعنی چوتھائی) حصہ پہنچے گا۔ زوجہ کی بھی دو حالتیں ہیں : (1) اگر شوہر کا انتقال ہوا اور اس کے کوئی بیٹا بیٹی پوتا پوتی ، پڑپوتا پڑپوتی سکڑ پوتا سکڑپوتی موجود نہ ہو تو کل ترکہ میں سے زوجہ کو ربع (یعنی چوتھائی حصہ) دیا جاتا ہے۔ (2) اگر شوہر کا بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی یا پڑپوتا پڑپوتی موجود ہو تو زوجہ کو صرف آٹھواں 1/8 حصہ ترکہ میں ملتا ہے۔ بیٹی کی تین حالتیں ہیں : (1) اگر صرف ایک بیٹی ہو اور کوئی بیٹا نہ ہو تو میت کے ترکہ میں سے اس کو نصف 1/2 حصہ ملتا ہے۔ (2) اگر دو بیٹیاں ہوں یا دو سے زیادہ اور کوئی بیٹا نہ ہو تو ان بیٹیوں کو ترکہ میں سے دو ثلث 2/3 پہنچے گا۔ اس دو ثلث کو باہم تقسیم کرلیں خواہ کتنی ہی بیٹیاں ہوں دو مثلث میں شریک رہیں گی اور برابر تقسیم کرلیں گی۔ (3) اگر بیٹیوں کے ساتھ میت کا بیٹا بھی موجود ہو تو اس صورت میں بیٹی کا کوئی حصہ مقرر نہیں بلکہ جس قدر بیٹے کو ملے گا اس سے نصف ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔ خواہ ایک بیٹی ہو یا دو چار ہوں۔ اس حالت میں بیٹیاں ذوی الفروض نہیں رہتیں بلکہ اپنے بھائی کے ساتھ مل کر عصبہ بالغیر ہوگئیں۔ پوتی کے حصوں کا بیان : عرف میں بیٹے کی دختر کو پوتی کہتے ہیں لیکن یہاں خاص وہی مراد نہیں بلکہ پوتے اور پڑپوتے کی بیٹی کو بھی پوتی کہتے ہیں اور اگر بیٹے کی بیٹی موجود نہ ہو تو پوتے کی بیٹی کو حصے ملتے ہیں اور اگر پوتے کی بیٹی بھی ہو تو پڑپوتے کی بیٹی کو حصے ملتے ہیں اور اگر پوتے کی بیٹی بھی نہ ہو تو پڑپوتے کی بیٹی انہی حصوں کی مستحق ہوگی۔ پوتی کی میراث کی چھ صورتیں ہیں۔ (1) اگر میت کے بیٹا بیٹی موجود نہ ہو صرف ایک پوتی ہو تو اس کو ترکہ میں سے 1/2 نصف ملے گا۔ (2) اگر میت کے بیٹا بیٹی موجود نہ ہوں صرف دو پوتیاں یا دو سے زیادہ موجود ہوں تو ان کو کل مال میں سے دو تہائی 1/2 دیا جائے گا۔ (3) اگر میت کے بیٹا پوتا پڑپوتا سکڑپوتا موجود نہ ہو۔ صرف ایک بیٹی موجود ہو تو پوتیوں کو صرف چھٹا 1/2 حصہ ملے گا خواہ ایک پوتی ہو یا زائد۔ (4) اگر میت کے بیٹا پوتا پڑپوتا سکڑپوتا موجود نہ ہو۔ دو بیٹیاں یا دو سے زیادہ موجود ہوں تو پوتیاں ذویا الفروض سے نہیں بنیں گی۔ (یعنی ان کے لئے کوئی مقرر حصہ نہیں ہے۔ ) (5) اگر میت کے بیٹا بیٹی نہ ہو ایک پوتی یا کئی پوتیاں ہوں اور ان کے ساتھ ایک پوتا ہو یا پوتی پوتیوں سے نیچے درجہ میں کوئی مرد پڑپوتا یا سکڑپوتا موجود ہو تو جو کچھ ذوی الفروض کے حصے دینے کے بعد باقی رہے اس کو یہ باہم تقسیم کرلیں۔ مرد کو دہرا اور عورت کا اکہرا دیں۔ فائدہ۔ ان پانچوں صورتوں میں اگر پوتی اور پوتیاں نہ ہوں تو پڑپوتی اور پڑپوتیوں کو یہ حصے ملے گے اور اگر ہو بھی نہ ہوں تو سکڑپوتی اور سکڑپوتیاں ان کی جگہ لیں گی اور اسی طرح نیچے چلتے جائیں۔ (6) چھٹی صورت یہ ہے کہ اگر میت کے بیٹا موجود ہے تو پوتیاں ، سکڑپوتیاں اور ان سے بھی نیچے کے درجے کی لڑکیاں سب محروم رہیں گی۔ حقیقی ہمشیرہ (یعنی سگی بہن) کی پانچ حالتیں ہیں : (1) اگر میت کے کوئی بیٹی ، پوتی ، پڑپوتی ، سکڑپوتی نہ ہو اور ایک ہمشیرہ ہو تو اس کی ومیت کے کل ترکہ میں سے نصف 1/2 مال ملے گا۔ (2) اگر میت کے کوئی بیٹی ، پوتی ، پڑپوتی ، سکڑپوتی نہ ہو اور دو ہمشیرہ ہوں یا زیادہ ہوں تو اس سب کو ترکہ میں سے دو تہائی پہنچے گا اس کو باہم تقسیم کرلیں۔ (3) اگر میت کے حقیقی بھائی (ایک یا زیادہ ہوں) تو بہن ان کے ساتھ مل کر عصبہ ہوجائے گی اور ذوی الفروض کے دینے کے بعد جو کچھ باقی رہے اس کو یہ بھائی بہن باہم تقسیم کرلیں۔ ہر ایک بھائی کو دوہرا اور بہن کو اکہرا ملے گا۔ (4) اگر میت کے بیٹی ، پوتی یا پڑپوتی یا سکڑپوتی موجود ہو (خواہ ایک ہو یا زیادہ) تو اس صورت میں ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ باقی رہے وہ میت کی ہمشیرہ کو مل جائے گا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بناؤ ۔ (5) اگر میت کے بیٹا ، پوتا ، پڑپوتا ، سکڑپوتا موجود ہو یا میت کا باپ موجود ہو تو بالاتفاق ہمشیراؤں کو کچھ حصہ نہ ملے گا بالکل محروم رہیں گی۔ اس طرح اگر میت کے دادا ، پڑدادا وغیرہ موجود ہو تو بھی ہمشیراؤں کو کچھ نہ ملے گا۔ علاقائی بہن کی آٹھ حالتیں ہیں : (یعنی باپ کی طرف سے جو بہنیں ہیں) ۔ (1) اگر میت کے کوئی بیٹی ، پوتی ، پڑپوتی ، سکڑپوتی اور حقیقی ہمشیرہ نہ ہو اور علاقائی بہن صرف ایک ہو تو اس کو میت کے ترکہ میں سے نصف 1/2 ملے گا۔ (2) اگر میت کی کوئی بیٹی ، پوتی ، پڑپوتی ، سکڑپوتی اور حقیقی ہمشیرہ نہ ہو اور علاقائی بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو ان کو کل ترکہ میں سے دو تہائی 1/2 ملے گا اس کو باہم تقسیم کرلیں۔ (3) اگر میت کی بیٹی ، پوتی ، پڑپوتی ، سکڑپوتی کوئی موجود نہیں لیکن ایک ہمشیرہ حقیقی موجود ہے تو علاقائی بہن کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے۔ اگر ایک ہوگی تو تنہا چھٹے حصے کی مالک ہوجائے گی اور دو چار علاقائی بہنیں ہوں تو اس چھٹے حصے کو باہم برابر تقسیم کرلیں۔ (4) اگر ہمشیرہ حقیقی دو یا دو سے زیادہ موجود ہوں اور کوئی علاتی بھائی بھی نہیں ہے۔ تو علاتی بہنیں بالکل محروم رہیں گی۔ (5) اگر میت کی جس طرح علاتی بہنیں موجود ہیں ایسے ہی کوئی علاتی بھائی بھی موجود ہو (خواہ ایک ہو یا چند) تو یہ اپنے علاتی بھائی کے ساتھ مل کر عصبہ ہوجائیں گی۔ جو کچھ ذوی الفروض سے باقی رہے اس کو یہ بھائی بہن تقسیم کرلیں مردوں کو دہرا عورتوں کو اکہرا۔ (6) اگر میت کی بیٹی یا پوتی یا پڑپوتی یا سکڑپوتی موجود ہے (خواہ ایک ہو یا زیادہ) مگر حقیقی بھائی اور حقیقی ہمشیرہ کوئی نہیں تو ذوی الفروض کے پورے حصے دینے کے بعد جو کچھ باقی رہ جائے وہ علاقاتی بہن کو مل جائے گا۔ (7) اگر میت کے بیٹا ، پوتا ، پڑپوتا ، سکڑپوتا موجود ہو یا میت کا باپ موجود ہو تو بالاتفاق بھائیوں اور ہمشیروں کو کچھ حصہ نہیں ملے گا بلکہ محروم رہیں گے۔ اس طرح اس میت کے دادا ، پڑادادا وغیرہ موجود ہوں تو ان کو کچھ نہ ملے گا۔ (8) اگر میت کا حقیقی بھائی موجود ہے تو علاتی بہن (بلکہ علاتی بھائی بھی) میراث سے محروم رہیں گے۔ اور ان کو کچھ حق نہ پہنچے گا اور اسی طرح اگر حقیقی بہن عصبہ ہوگئی ہے تو علاتی بہنوں اور بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ ماں کی چار حالتیں ہیں : (1) میت کی ماں کو کل ترکہ کا چھٹا 1/2 حصہ ملے گا۔ اگبر میت کو بیٹا ، بیٹی ، پوتا ، پوتی ، پڑپوتی ، سکڑپوتی موجود ہو یا میت کے ایک سے زیادہ بھائی بہن موجود ہوں۔ بھائی بہن خواہ کسی قسم بکے ہوں حقیقی یا علاتی یا اخیافی ، خواہ صرف بھائی ہوں یا صرف بہنیں یا بھائی بہنیں دونوں ملے ہوئے ہوں۔ خواہ بھائی بہنوں کو میراث سے کچھ ملے نہ ملے۔ (2) اگر مذکورہ بالا وارثوں میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو میت کی والدہ کو کل مال میں سے تہائی ملے گا۔ (3) اگر میت کا انتقال ہوا ہے اور اس کی زوجہ اور باپ دونوں موجود ہیں یا عورت کا انتقال ہوا ہے اور اس کے شوہر اور باپ دونوں موجود ہیں تو شوہر یا زوجہ کا حصہ شرعی مقرر شدہ نکال لینے کے بعد جو مال باقی رہے اس میں سے ایک تہائی والدہ کا حصہ ہے۔ (آیت ھذا کی تفسیر کا بقیہ حصہ اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top