Dure-Mansoor - An-Nisaa : 12
وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ١ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ۙ غَیْرَ مُضَآرٍّ١ۚ وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌؕ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے نِصْفُ : آدھا مَا تَرَكَ : جو چھوڑ مریں اَزْوَاجُكُمْ : تمہاری بیبیاں اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّھُنَّ : ان کی وَلَدٌ : کچھ اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو لَھُنَّ وَلَدٌ : ان کی اولاد فَلَكُمُ : تو تمہارے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا تَرَكْنَ : اس میں سے جو وہ چھوڑیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْنَ : وہ وصیت کرجائیں بِھَآ : اس کی اَوْ دَيْنٍ : یا قرض وَلَھُنَّ : اور ان کے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا : اس میں سے جو تَرَكْتُمْ : تم چھوڑ جاؤ اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّكُمْ وَلَدٌ : تمہاری اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَكُمْ : ہو تمہاری وَلَدٌ : اولاد فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے الثُّمُنُ : آٹھواں مِمَّا تَرَكْتُمْ : اس سے جو تم چھوڑ جاؤ مِّنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت تُوْصُوْنَ : تم وصیت کرو بِھَآ : اس کی اَوْ : یا دَيْنٍ : قرض وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو رَجُلٌ : ایسا مرد يُّوْرَثُ : میراث ہو كَلٰلَةً : جس کا باپ بیٹا نہ ہو اَوِ امْرَاَةٌ : یا عورت وَّلَهٗٓ : اور اس اَخٌ : بھائی اَوْ اُخْتٌ : یا بہن فَلِكُلِّ : تو تمام کے لیے وَاحِدٍ مِّنْهُمَا : ان میں سے ہر ایک السُّدُسُ : چھٹا فَاِنْ : پرھ اگر كَانُوْٓا : ہوں اَكْثَرَ : زیادہ مِنْ ذٰلِكَ : اس سے (ایک سے) فَھُمْ : تو وہ سب شُرَكَآءُ : شریک فِي الثُّلُثِ : تہائی میں (1/3) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصٰى بِھَآ : جس کی وصیت کی جائے اَوْ دَيْنٍ : یا قرض غَيْرَ مُضَآرٍّ : نقصان نہ پہنچانا وَصِيَّةً : حکم مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَلِيْمٌ : حلم والا
اور تمہارے لئے اس مال میں سے آدھا ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اگر ان کے اولاد نہ ہو، سو اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اس مال کا چوتھائی ہے جو کچھ انہوں نے چھوڑا، اس وصیت کے نافذ کرنے کے بعد جو وہ وصیت کر گئیں اور اس قرضے کی ادائیگی کے بعد جو ان کے ذمہ ہے، اور ان کے لئے اس مال کا چوتھائی ہے جو تم نے چھوڑا اگر تمہارے اولاد نہ ہو، سو اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کے لئے آٹھواں ہے اس میں سے جو تم نے چھوڑا، اس وصیت کے نافذ کرنے کے بعد جو تم نے چھوڑا اگر تمہارے اولاد نہ ہو، سو اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کے لئے آٹھواں ہے اس میں سے جو تم نے چھوڑا، اس وصیت کے نافذ کرنے کے بعد جو تم وصیت کر گئے ہو، یا قرض کی ادائیگی کے بعد جو تمہارے ذمہ ہو۔ اور اگر مرنے والا کوئی مرد یا کوئی عورت ہو جس کو مورث بنایا جارہا ہو اور حال یہ ہے کہ اس کے ماں باپ میں سے کوئی نہ ہو اور نہ کوئی بیٹا بیٹی ہو اور نہ پوتا پوتی ہو اور اس نے کوئی بھائی یا بہن چھوڑی ہو، تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، سو اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو وہ سب تہائی مال میں شریک ہوں گے اس وصیت کے نافذ کرنے کے بعد جس کی وصیت کی گئی ہو اور ادائے قرض کے بعد، اس حال میں کہ نقصان پہنچانے کی نیت نہ کی ہو، یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ علیم ہے اور حلیم ہے
(1) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولکم نصف ما ترک ازواجکم “ یعنی مرد کے لیے آدھا ہے جو اس کی بیوی نے ترکہ چھوڑا ہو مرنے کے بعد اگر اس کی اولاد نہ ہو اسی خاوند سے اور نہ کسی اور خاوند سے اور اگر اس عورت کا لڑکا ہے یا لڑکی ہے تو خاوند کے لئے چوتھائی ہے جو وہ چھوڑ جائے مگر وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد اور قرضہ وصیت سے پہلے ادا کیا جائے گا ” ولہن الربع “ اور خاوند کی اولاد نہ ہو اس عورت سے نہ ہی کسی اور عورت سے اور اگر خاوند کی اولاد ہے لڑکا ہے یا لڑکی ہے تو اس عورت کے لیے آٹھواں حصہ ہے اس مال میں جو خاوند چھوڑ گیا اور اگر مرد یا عورت کلالہ ہو اور کلالہ وہ میت ہے جس کا نہ لڑکا ہو اور نہ والد ہو (پھر فرمایا) لفظ آیت ” فان کانوا اکثر من ذلک “ یعنی اگر وہ ایک سے زیادہ ہیں دو سے لے کر دس تک یا اس سے بھی زیادہ۔ (2) سعید بن منصور وعبد بن حمید والدارمی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم و بیہقی نے اپنی سنن میں سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ اس طرح پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” وان کان رجل یورث کللۃ ولہ اخ او اخت من ام “۔ (3) بیہقی نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ کے اصحاب میں سے کسی کے بھی دادا کے موجود ہوتے ہوئے ماں کی طرف سے بھائیوں کو کوئی چیز عطا نہیں کی۔ (4) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے ” ولہ اخ او اخت “ کے بارے میں روایت کیا کہ ان سے ماں شریک بھائی مراد ہیں اور وہ سب ایک تہائی مال میں شریک ہوتے ہیں اور فرمایا کہ ان کے مرد اور ان کی عورتیں اس میں برابر شریک ہوں گی۔ (5) ابن ابی حاتم نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے فیصلہ فرمایا کہ ماں شریک بہن بھائیوں میں وراثت برابر تقسیم فرمائی۔ راوی نے کہا کہ میں دیکھتا اس کے بعد کیا ہوگا اور اسی لئے یہ آیت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فان کانوا اکثر من ذلک فہم شرکاء فی الثلث “۔ (6) حاکم نے حضرت عمر وعلی وابن مسعود وزید ؓ سے ماں اور خاوند اور سگے بھائیوں اور ماں شریک بھائیوں کے بارے میں روایت کیا کہ حقیقی بھائی شریک ہوں گے ماں شریک بھائیوں سے ان کے ایک تہائی حصہ میں اس وجہ سے کہ یہ سب ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں اور ان کو ماں نے قرابت میں زیادہ کردیا اور وہ سب شریک ہیں تہائی مال میں۔ (7) حاکم نے زید بن ثابت ؓ سے مشرکوں کے بارے میں روایت کیا ہے کہ بھاگ جاؤ ان کا باپ گدھا تھا باپ نے ان کی قرابت میں اضافہ کردیا ہے اور ان سب کو ایک تہائی میں شریک کیا۔ ” ان احادیث کا ذکر جو فرائض کے بارے میں وارد ہوئیں “ (1) حاکم اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فرائض کو سیکھو اور اس کو لوگوں کو سکھاؤ کیونکہ وہ آدھا علم ہے اور وہ بھلا دیا جائے گا اور وہ سب سے پہلے میری امت میں سے اٹھا لیا جائے گا۔ (2) حاکم اور بیہقی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرائض کو سیکھو اور اس کو لوگوں کو سکھاؤ میں ایک آدمی ہوں جس کو اٹھا لیا جائے گا عنقریب یہ علم بھی اٹھالیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ جب دو آدمیوں میں فرائض کے بارے میں اختلاف ہوگا تو ان کے درمیان کوئی فیصلہ کرنے والے کو نہیں پاؤ گے۔ (3) حاکم نے ابن المسیب (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ابو موسیٰ ؓ کی طرف لکھا جب تم کھیل کود کرو تو تم تیر اندازی کھیلو اور جب تم آپس میں بات چیت کرو تو فرائج کو بیان کرو۔ (4) سعید بن منصور و بیہقی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ فرائض کو سیکھو اور لہجے کو (سنت طریقے) سیکھو جیسے تم قرآن کو سیکھتے ہو۔ (5) سعید بن منصور و بیہقی نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ فرائض کو سیکھو کیونکہ وہ تمہارے دین میں سے ہے۔ (6) حاکم اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ جو شخص تم میں سے قرآن کو پڑھے تو اس کو چاہیے کہ فرائض کو سیکھے پس اگر دیہاتی اس سے ملے اور کہے اے مہاجر ! کیا تو قرآن پڑھتا ہے پس وہ کہے ہاں ! میں پڑھتا ہوں تو دیہاتی کہے گا میں بھی قرآن پڑھتا ہوں پس دیہاتی کہے کیا تو نے فرائض کو سیکھا ہے ؟ اگر کہا ہاں تو دیہاتی کہے گا تو نے خیر زیادہ کیا اگر کہا نہیں تو دیہاتی کہے گا تیری کیا فضیلت ہے مجھ پر اے مہاجر !۔ (7) بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ فرائض کو حج کو اور طلاق کے مسائل کو سیکھو کیونکہ یہ تمہارے دین میں سے ہے۔ (8) حاکم اور بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ علم فرائض کے جاننے والے زید بن ثابت ؓ ہیں۔ (9) بیہقی نے زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ اگر زید بن ثابت ؓ فرائض کو نہ لکھتے تو میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہ لوگون سے چلا جاتا (یعنی علم الفرائض ختم ہوجاتا) ۔ (10) سعید بن منصور و ابوداؤد نے مراسیل میں اور بیہقی نے عطاء بن سیار ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قباء کی طرف سواری پر تشریف لے گئے کہ آپ استخارہ کرنا چاہتے تھے پھوپھی اور خالہ کی میراث میں تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا کہ ان دونوں کے لیے کوئی میراث نہیں۔ (11) بیہقی نے حضرت عمر بن خطاب سے روایت کیا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے تعجب کی بات پھوپھی کے معاملہ میں کہ رشتہ دیتی ہے لیتی نہیں۔ وادی اور نانی کا چھٹا حصہ ہے (12) حاکم نے قبیصہ بن ذویب (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک دادی آئی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس اور ان سے کہا کہ میرا حق ہے پوتے کے مال میں یا نواسے کے مال میں جو مرگیا ہے آپ ؓ نے فرمایا میں اللہ کی کتاب میں تیرے لئے کوئی حق نہیں جانتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے بھی اس بارے میں کوئی چیز نہیں سنی اور عنقریب میں (صحابہ کرام ؓ سے سوال کروں گا (پھر) مغیرہ بن شعبہ ؓ نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو چھٹا حصہ دیا تھا ابوبکر ؓ نے پوچھا تیرے ساتھ اس بات پر کون گواہ ہے تو محمد بن سلمہ ؓ نے اس بات پر گواہی دی تو حضرت ابوبکر ؓ نے ان کو چھٹا حصہ دے دیا۔ (13) حاکم نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے کہ عمر ؓ نے جب ان سے دادا اور بھائیوں کی میراث کے بارے میں مشورہ لیا تو حضرت زید ؓ نے فرمایا کہ میرے رائے یہ ہے کہ بھائی زیادہ حق دار ہیں میراث کے اور حضرت عمر ؓ کی اس وقت کہ دادا کو زیادہ حق دار سمجھتے تھے بھائیوں سے پھر میں نے آپ سے اس بارے میں بحث کی اور اس کے لیے مثالیں بیان کیں اور حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی مثالیں بیان کیں یہ دونوں حضرات زید ؓ کی طرح مثالیں پیش کر رہے تھے سیلاب کی طرح (یعنی سیلاب کی تیزی کی طرح مثالیں پیش کر رہے تھے ) ۔ (14) حاکم نے عبادہ بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دو دادیوں کو میراث میں سے چھٹا حصہ عطا فرمایا ان کے درمیان برابری کرتے ہوئے۔ (15) حاکم اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر ؓ کو علم فرائض کی ضرورت پڑی آپ پر مسائل کی بھیڑ ہوگئی اور حصے ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا میں تمہارے ساتھ کیسے کروں اللہ کی قسم میں نہیں پاتا جو اس سے بہتر ہو کہ میں تم میں تقسیم کردوں حصوں کے مطابق پھر ان عباس ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم ! اگر آگے کردو جس کو اللہ تعالیٰ نے آگے کیا ہے اور پیچھے کردو جس کو اللہ تعالیٰ نے پیچھے کیا تو اس کے فریضہ میں کوئی فرق نہ آتا اللہ کی قسم ! اگر آگے کر دو جس کو اللہ تعالیٰ نے آگے کیا ہے اور پیچھے کردو جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے حصہ کی طرف بھی کم کیا تو یہ وہ حصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آگے کیا اور ہر وہ حصہ جب وہ حصہ کم ہوا اور اس کے لیے باقی ماندہ بچا تو وہ حصہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مؤخر کردیا پس جن کو مقدم کیا وہ زوجین اور ام ہے اور جن کو موخر کیا گیا وہ بہنیں اور بیٹیاں ہیں جب وہ وارث جمع ہوجائیں جن کو مقدم کیا گیا اور جن کو موخر کیا گیا تو وارثت تقسیم کرنا شروع کی جائے جن کو مقدم کیا گیا اور اس کو مکمل حق دیا جائے اور اگر کوئی چیز بچ جائے تو دوسرے کو مل جائے گی اور اگر کچھ بھی نہ بچے تو ان کے لیے کوئی چیز نہ ہوگی۔ (16) سعید بن منصور نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کیا تم یہ رائے رکھتے ہو جو ذات عالج کے پہاڑ کے ریت کے ذرات کو جانتی ہے تو وہ مال میں نصف ثلث اور ربع بنائے گی بلکہ یہاں نصف کی صورت میں کل مال کو دو حصوں میں ثلث کی صورت میں کل مال کو تین حصوں میں ربع کی صورت میں چار حصوں میں تقسیم کریں گے۔ (17) سعید بن منصور نے عطاء (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ بلاشبہ لوگ نہ میرے قول کو لیتے ہیں اور نہ آپ کے قول کو اگر میں اور آپ مرجائیں تو یہ لوگ میراث کو تقسیم نہیں کریں گے جس طرح آپ کہتے ہیں (اس پر) انہوں نے فرمایا چاہیے کہ وہ سب لوگ جمع ہوں اور ہم اپنا ہاتھ رکن (یعنی حجر اسود) پر رکھیں پھر ہم مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر لعنت کریں اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں فرمایا جو وہ کہتے ہیں۔ میراث میں عول کا قاعدہ (18) سعید بن منصور اور بیہقی نے اپنی سنن میں زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ پہلے آدمی ہیں جس نے فرائض میں عول کا قاعدہ جاری کیا اور اکثر جو چیز کے عول کو پہنچتی ہے وہ ہوتی ہے جب دو ثلث راس الفریضہ ہو۔ (19) سعید بن منصور نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے جو شخص چاہے میں مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں حجر اسود کے پاس بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دادے اور دادی کو ذکر نہیں فرمایا مگر وہ (ہمارے) آباء ہیں پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” واتبعت ملۃ اباء ی ابراہیم واسحق و یعقوب “ ( یوسف آیت 38) ۔ (20) سعید بن منصور نے سعید بن مسیب سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہاری جرات کرنا دادا کے حصہ کے بارے میں (گویا) تمہاری جرات کرنا آگ پر۔ (21) عبد الرزاق نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ تمہاری جرات کرنا دادا کے بارے میں (گویا کہ) تمہاری جرات کرنا ہے جہنم کے جراثیم پر۔ (22) عبد الرزاق و سعید بن منصور نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ وہ دوزخ کے جراثیم میں گھسے اس کو چاہیے کہ فیصلہ کر دے دادا اور بھائیوں کے درمیان۔ (23) مالک و بخاری و مسلم نے اسامہ بن زید ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ مسلمان کسی کافر کا وارث ہوسکتا ہے۔ (24) سعید بن منصور نے عبد اللہ بن مغفل ؓ سے روایت کیا ہے کہ کسی فیصلہ نے مجھے تعجب میں نہیں ڈالا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے فیصلہ کے بعد مگر حضرت معاویہ ؓ کے فیصلہ نے ہم لوگ ان کے وارث ہوتے ہیں اور وہ ہمارے وارث نہیں ہوتے جیسے کہ ان میں نکاح کرنا ہمارے لیے حلال ہے اور ان کے لیے ہم میں نکاح کرنا حرام ہے۔ (25) ابو داؤد اور البیہقی نے ابن عمرو ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قاتل کے لیے میراث میں سے کوئی چیز نہیں ملے گی۔ قولہ تعالیٰ : غیر مضار : (26) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے لفظ آیت ” من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین غیر مضار “ کے بارے میں روایت کیا ہے اور نہ اقرار کرے کسی کے حق کا جو اس پر لازم نہ ہو اور ثلث سے زیادہ کی وصیت نہ کرے کہ وارثوں کو تکلیف پہنچائے۔ (27) عبد بن حمید ابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” غیر مضار “ سے مراد ہے کہ اپنے اہل و عیال کی میراث میں تکلیف دینے والا نہ ہو۔ (28) النسائی وعبد بن حمید وابن ابی شیبہ نے مصنف میں وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم و بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وصیت میں (کسی وارث کو) نقصان پہنچانا بڑے گناہوں میں سے ہے۔ (29) ابن جریر وابن ابی حاتم نے و بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا وصیت میں (کسی وارث کو) نقصان پہنچانا بڑے گناہوں میں سے ہے۔ وصیت ایک تہائی مال تک ہوسکتی ہے (30) مالک وطیالسی وابن ابی شیبہ واحمد و بخاری ومسلم و ابوداؤد و ترمذی و نسائی وابن خزیمہ وابن الجار و دوابن حبان نے سعد بن وقاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ بیمار ہوئے جس میں ان کو شفا ہوگئی نبی اکرم ﷺ ان کے پاس عیادت کے لیے تشریف لائے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس مال بہت ہے اور میرا کوئی وارث نہیں مگر ایک بیٹی کیا میں دو تہائی مال صدقہ نہ کردوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں پھر میں نے عرض کیا آدھا مال صدقہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا تہائی اور یہ بھی زیادہ ہے بلاشبہ تیرا بچوں کو مالداری کی حالت میں چھوڑ جانا یہ اس سے بہتر ہے کہ تو ان کو محتاجی کی حالت میں چھوڑے کہ وہ لوگوں سے بھیک مانگتے پھریں۔ (31) ابن ابی شیبہ نے معاذ بن جبل ؓ روایت کیا ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک تہائی کے مال صدقہ کرنے کا حکم فرمایا ہے تمہاری زندگی میں اضافہ کے لیے۔ (32) ابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ لوگ تہائی حصہ کی بجائے چوتھائی حصہ صدقہ کیا کریں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تہائی زیادہ ہے۔ (33) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے پاس وصیت میں ایک تہائی مال کا ذکر کیا گیا آپ نے فرمایا ایک تہائی (درمیانہ) ہے کم ہے نہ زیادہ ہے۔ (34) ابن ابی شیبہ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں پانچویں حصہ کی وصیت کروں یہ مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میں تہائی حصہ کی وصیت کروں اور جس نے چوتھائی کی وصیت کی تو گویا اس نے (ورثاء کے لیے) نہیں چھوڑا۔ (35) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ کہتے تھے جو آدمی پانچویں حصہ کی وصیت کرتا ہے یہ افضل ہے اس آدمی سے جو چوتھے حصہ کی وصیت کرتا ہے اور جو آدمی چوتھے حصہ کی وصیت کرتا ہے یہ افضل ہے اس آدمی سے جو ایک تہائی کی وصیت کرتا ہے۔ (36) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ کہا جاتا تھا چھٹا حصہ بہتر ہے تہائی سے وصیت کرنے میں۔ (37) ابن ابی شیبہ نے عامر شعبی (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے وصیت کی نہ اس میں ظلم کرتا ہے اور نہ کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس کے لیے ایسا اجر ہوگا گویا اس نے اپنی زندگی اور صحت کے زمانہ میں صدقہ کیا ہو۔ (38) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ میراث کی آیت نازل ہونے سے پہلے لوگ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی وصیت کرنے سے پہلے مرجائے۔
Top