Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 12
وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ١ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ۙ غَیْرَ مُضَآرٍّ١ۚ وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌؕ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے نِصْفُ : آدھا مَا تَرَكَ : جو چھوڑ مریں اَزْوَاجُكُمْ : تمہاری بیبیاں اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّھُنَّ : ان کی وَلَدٌ : کچھ اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو لَھُنَّ وَلَدٌ : ان کی اولاد فَلَكُمُ : تو تمہارے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا تَرَكْنَ : اس میں سے جو وہ چھوڑیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْنَ : وہ وصیت کرجائیں بِھَآ : اس کی اَوْ دَيْنٍ : یا قرض وَلَھُنَّ : اور ان کے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا : اس میں سے جو تَرَكْتُمْ : تم چھوڑ جاؤ اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّكُمْ وَلَدٌ : تمہاری اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَكُمْ : ہو تمہاری وَلَدٌ : اولاد فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے الثُّمُنُ : آٹھواں مِمَّا تَرَكْتُمْ : اس سے جو تم چھوڑ جاؤ مِّنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت تُوْصُوْنَ : تم وصیت کرو بِھَآ : اس کی اَوْ : یا دَيْنٍ : قرض وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو رَجُلٌ : ایسا مرد يُّوْرَثُ : میراث ہو كَلٰلَةً : جس کا باپ بیٹا نہ ہو اَوِ امْرَاَةٌ : یا عورت وَّلَهٗٓ : اور اس اَخٌ : بھائی اَوْ اُخْتٌ : یا بہن فَلِكُلِّ : تو تمام کے لیے وَاحِدٍ مِّنْهُمَا : ان میں سے ہر ایک السُّدُسُ : چھٹا فَاِنْ : پرھ اگر كَانُوْٓا : ہوں اَكْثَرَ : زیادہ مِنْ ذٰلِكَ : اس سے (ایک سے) فَھُمْ : تو وہ سب شُرَكَآءُ : شریک فِي الثُّلُثِ : تہائی میں (1/3) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصٰى بِھَآ : جس کی وصیت کی جائے اَوْ دَيْنٍ : یا قرض غَيْرَ مُضَآرٍّ : نقصان نہ پہنچانا وَصِيَّةً : حکم مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَلِيْمٌ : حلم والا
اور تمہارے لیے اس ترکہ کا نصف ہے، جو تمہاری بیویاں چھوڑیں اگر ان کے اولاد نہیں ہے اور اگر ان کے اولاد ہے تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے لیے چوتھائی ہے، بعد اس وصیت کی تعمیل اور ادائے قرض کے جو وہ کر جائیں اور ان کے لیے چوتھائی ہے تمہارے ترکہ کا اگر تمہارے اولاد نہیں ہے اور اگر تمہارے اولاد ہے تو ان کے لیے آٹھواں حصہ ہے تمہارے ترکہ کا اس وصیت کی تعمیل اور ادائے قرض کے بعدجو تم کر جائو اور اگر وہ مرد جس کی میراث ہے ایسا ہو جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع اور اس کے ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اور اگر یہ لوگ اس سے زائد ہوں تو وہ ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔ بعد وصیت کے جس کی وصیت کردی جائے یا ادائے قرض کے بعدبغیر کسی کو نقصان پہنچائے۔ یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا علم والا ہے اور بڑا بردبار ہے
وَلَکُمْ نِصْفُ مَاتَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَـکُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ ج فَاِنْ کَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَـکُمُ الرُّبُعُ مِمَّاتَرَکْنَ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَـآ اَوْدَیْنٍ ط وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّـکُمْ وَلَـدٌ ج فَاِنْ کَانَ لَـکُمْ وَلَـدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَـآ اَوْدَیْنِ ط (اور تمہارے لیے اس ترکہ کا نصف ہے، جو تمہاری بیویاں چھوڑیں اگر ان کے اولاد نہیں ہے اور اگر ان کے اولاد ہے تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے لیے چوتھائی ہے، بعد اس وصیت کی تعمیل اور ادائے قرض کے جو وہ کر جائیں اور ان کے لیے چوتھائی ہے تمہارے ترکہ کا اگر تمہارے اولاد نہیں ہے اور اگر تمہارے اولاد ہے تو ان کے لیے آٹھواں حصہ ہے تمہارے ترکہ کا اس وصیت کی تعمیل اور ادائے قرض کے بعدجو تم کرجاؤ) (النساء : 12) میاں بیوی کی میراث کی تفصیل انسانی زندگی میں جو رشتے بےحد اہمیت کے حامل ہیں وہ چار رشتے ہیں اور یہی حقیقت میں قرابت داری کے چار ستون ہیں۔ والدین، اولاد، شوہر اور بیوی۔ اولاد اور والدین کے احکامِ میراث کا ذکر ہوگیا۔ اب میاں بیوی کی میراث کے حوالے سے احکام دیئے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے شوہر کے بارے میں بتایا گیا کہ اگر بیوی مرجائے تو شوہر کو اس کی میراث میں کتنا حصہ ملنا چاہیے۔ یوں تو میاں بیوی کی میراث کے سلسلے میں کسی ایک کا ذکر پہلے آنا ناگزیر تھا، لیکن بعض اہل علم کا خیال ہے کہ شوہر کا ذکر پہلے کرنے کا سبب یہ ہے کہ بیوی اگر اپنے میکہ میں انتقال کرتی ہے تو بیوی کے میکہ سے تعلق شوہر کا بیوی کے واسطہ سے ہوتا ہے اور جب تک بیوی زندہ ہے اس کے میکہ والے بھی ہمیشہ اس کے شوہر کو اپنے بیٹے کا درجہ دیتے ہیں۔ لیکن بیوی کے مرنے کے بعد شوہر اس گھر کے لیے غیر ہوجاتا ہے۔ عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ اب بیوی کے گھر والوں کارویہ یکسر بدل جاتا ہے۔ اولاً تو وہ اپنے داماد کی پرواہ ہی نہیں کرتے اور اگر کچھ شرماشرمی خیال کریں بھی تو بیٹی کے ترکہ میں سے اس کے شوہر کو کچھ دینا ان کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کا حصہ دینے سے ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے پروردگار نے اس زیادتی کی اصلاح کے لیے شوہر کے حصے کا پہلے ذکر فرمایا ہو تاکہ اس کے سسرال کو اس کی اہمیت کا احساس ہوسکے۔ شوہر کے حصے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اس کی مرحومہ بیوی نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی، نہ اس شوہر سے نہ پہلے کسی شوہر سے تو پھر شوہر کو مرحومہ کے قرض کی ادائیگی اور وصیت کے نفاذ کے بعد کل ترکہ کا نصف ملے گا اور باقی نصف میں دوسرے ورثامثلاً مرحومہ کے والدین، بھائی بہن، شریعت کے اصول کے مطابق اپنا اپنا حصہ پائیں گے۔ اگر مرنے والی بیوی نے اولاد چھوڑی ہو ایک ہوں یا دو ہوں یا اس سے زائد ہوں لڑکا ہو یا لڑکی ہو، اس شوہر سے ہو جس کو چھوڑ کر وفات پائی ہے یا اس سے پہلے کسی اور شوہر سے ہو، تو اس صورت میں موجودہ شوہر کو مرحومہ کے مال سے ادائے دین اور انفاذ وصیت کے بعد کل مال کا چوتھائی ملے گا اور بقیہ تین چوتھائی حصے دوسرے ورثا کو ملیں گے۔ اگر میاں بیوی میں سے مرنے والا شوہر ہے تو پھر دیکھا جائے گا کہ اس نے اپنے پیچھے کوئی اولاد چھوڑی یا نہیں اور اگر اس نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تو سب سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا اگر کوئی اس کے ذمہ ہے اور پھر اگر اس نے کوئی وصیت کی ہے تو ایک تہائی تک اس کی وصیت نافذ کی جائے گی، اس کے بعد کل ترکہ کا چوتھائی اس کی بیوی کو ملے گا۔ اگر اس نے کوئی اولاد چھوڑی ہو، چاہے وہ اس بیوی سے ہو یا کسی دوسری بیوی سے، تو قرض کی ادائیگی اور وصیت کے انفاذ کے بعد اس بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ اگر بیویاں ایک سے زیادہ ہوں تو وہی آٹھواں یا پہلی صورت میں چوتھا حصہ تمام بیویوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ان دونوں حالتوں میں جو ترکہ بچے گا وہ ان کے دوسرے وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ یہ یاد رہے کہ شوہر کے مرنے کی صورت میں جہاں یہ دیکھا جائے گا کہ اس کے ذمہ کوئی قرض ہے یانھیں وہیں سب سے پہلے یہ بھی دیکھا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی کا مہر ادا کیا تھا یا نہیں اور اگر اس نے ادا نہیں کیا تو دوسرے قرضوں کی طرح یہ مہر بھی ادا کیا جائے گا۔ بیوی باقی ترکہ میں بھی اپنا حصہ پائے گی اور اپنا مہر بھی قرض کے طور پر وصول کرے گی۔ فرض کیجیے کہ قرض کی ادائیگی میں سارا مال میراث کام آجاتا ہے تو پھر تمام وارث وراثت سے محروم رہیں گے اور قرض کی ادائیگی بہر صورت کی جائے گی۔ اندازہ فرمائیے ! اسلام کی نگاہ میں قرض کی ادائیگی کی کس حد تک اہمیت ہے کہ آدمی مرجائے تو اس کی وراثت سے قرض ادا کیا جائے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص کا جنازہ آیا آنحضرت ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھے پھر پلٹ کر پوچھا کہ یہ شخص مقروض تو نہیں تھا یعنی کسی شخص کا قرض تو اس کے ذمہ نہیں۔ بتایا گیا کہ مرنے والا کئی لوگوں کا مقروض تھا۔ آنحضرت ﷺ نے حاضرین کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا کہ کوئی شخص اپنے بھائی کا قرض ادا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ سب چپ رہے کیونکہ مسلمانوں کے مالی حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے۔ جب دیکھا کہ کوئی قرض ادا کرنے کے لیے تیار نہیں تو حضور پیچھے ہٹ گئے فرمایا کہ میں مقروض آدمی کی نماز جنازہ نہیں پڑھائوں گا۔ وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰـلَۃً اَوِامْرَاَۃٌ وَّلَـہٗٓ اَخٌ اَوْاُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ ج فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَـآئُ فِی الثُّـلُثِ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَـآ اَوْدَیْنٍ لا غَیْرَ مُضَارٍّ ج وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ ط ( اور اگر وہ مرد جس کی میراث ہے ایسا ہو جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع اور اس کے ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اور اگر یہ لوگ اس سے زائد ہوں تو وہ ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔ بعد وصیت کے جس کی وصیت کردی جائے یا ادائے قرض کے بعدبغیر کسی کو نقصان پہنچائے۔ یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا علم والا ہے اور بڑا بردبار ہے) (النساء : 12) کلالہ کی میراث کا بیان ان سطور میں کلالہ کی میراث بیان کی گئی ہے۔ کلالہ کی تعریفیں تو مختلف کی گئی ہیں لیکن جو تعریف اہل علم کے نزدیک بہت مقبول ہے وہ یہ ہے کہ کلالہ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع۔ یعنی نہ اس کے باپ دادا ہوں اور نہ اس کی اولاد ہو۔ البتہ اس کا ایک بھائی یا بہن ہو۔ تو اس کی وراثت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر اس کا بھائی ہو تو اس کو چھٹاحصہ ملے گا اور اگر بھائی نہیں تو بہن کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر یہ بھائی ایک سے زیادہ ہوں، مثلاً ایک بھائی ایک بہن ہوں یا دو بھائی یا دو بہنیں ہوں تو سب مرنے والے کے کل مال کے تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔ لیکن اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ایک تو یہ کہ ان بھائی بہنوں میں تہائی حصہ اس طرح تقسیم ہوگا کہ سب کا حصہ برابر ہوگا۔ اصولی طور پر تو مرد کو دوگنا ملتا ہے لیکن یہ واحد جگہ ہے جہاں سب کو یکساں دینے کا حکم ہے۔ دوسری یہ بات یاد رہے کہ اس آیت میں جن بھائی بہنوں کا حصہ بیان کیا گیا ہے، وہ بھائی بہن اخیافی ہیں یعنی ماں شریک بھائی اگر وہ حقیقی بہن بھائی ہوں یا باپ میں شریک ہوں تو پھر ان کے حصے کی تفصیل اور ہے۔ جسے سورة النساء کے آخر میں بیان کیا گیا ہے۔ وہاں بتایا گیا ہے کہ اگر ایک بہن ہو تو اس کو آدھا ملے گا اور اگر ایک بھائی ہو تو اپنی بہن کے پورے مال کا وارث ہوگا اور اگر دو بہنیں ہوں تو دو تہائی مال پائیں گی اور اگر متعدد بھائی بہن ہوں تو مذکر کو مونث سے دونا دیا جائے گا۔ ہم اس بحث کے آغاز میں وصیت کے بارے میں عرض کرچکے ہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ آپ نے اس رکوع میں دیکھا کہ میراث کے مسائل بیان کرتے ہوئے پروردگار نے تین مرتبہ وصیت اور دین کا ذکر فرمایا۔ اور ہر جگہ وصیت کودین سے پہلے ذکر کیا۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ شائد وصیت پر عمل کرنا دین کی ادائیگی سے زیادہ ضروری اور مقدم ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ تقسیم میراث کے سلسلے میں سب سے پہلے مرنے والے کے قرض کی ادائیگی کی جاتی ہے اور اس کے بعد وصیت کے نفاذ کے بارے میں دیکھا جاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرمایا : انکم تقرء ون ھذہ الایۃ من بعد وصیۃ توصون بھا اودین وان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قضٰی بالدین قبل الوصیۃ (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی ص 264) آپ حضرات ..... یہ آیت تلاوت کرتے ہیں۔ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَـآ اَوْدَیْنٍاس میں گو لفظ وصیت مقدم ہے لیکن عملی طور پر حضور اقدس ﷺ نے اس کو دین کے بعد ہی رکھا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس وصیت کے نفاذ میں میراث کے وارث عام طور پر لاپرواہی کا ثبوت دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور دین اور قرض کے مطالبہ کرنے والے قرض خواہ چونکہ مطالبے کے لیے موجود ہوتے ہیں اس لیے اسے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوتا۔ البتہ وصیت لاوارث سمجھ کر نظر انداز کردی جاتی ہے۔ اس لیے پروردگار نے بطور ِ خاص تینوں جگہ وصیت کا پہلے ذکر فرمایا۔ کلالہ کی میراث کے ضمن میں آپ نے دیکھا غیر مضار کا لفظ آیا ہے۔ یعنی وصیت کرنے والا اس طرح وصیت نہ کرے جس سے وارثوں کو نقصان پہنچے۔ اس کا ذکر اگرچہ کلالہ کی میراث کے ضمن میں ہی آیا ہے شائد اس لیے کہ کلالہ سے سب سے زیادہ اس غلطی کا امکان ہے۔ ورنہ ہر شخص جو وصیت کرتا ہے اس کے لیے یہ لازمی شرط ہے۔ اسے نہ وصیت کے ضمن میں نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ دین کے ضمن میں۔ اس لیے جو وصیت کرنے والا یا اپنے اوپر فرضی قرض تسلیم کرنے والا یسا کرتا ہے وہ سخت گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس قسم کی حرکت کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ وصیت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں میں سے ہے اور ایک دوسری حدیث میں آپ کا ارشاد ہے : (آدمی تمام عمر اہل جنت کے سے کام کرتارہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ضرررسانی کرکے اپنی کتاب زندگی کو ایسے عمل پر ختم کرجاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے ) دَین یا وصیت کے ذریعہ ضرر پہنچانے کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ مثلاً یہ کہ قرض کا جھوٹا اقرار کرلیا جائے، کسی دوست وغیرہ کو دلانے کے لیے یا اپنے مخصوص مال کو جو اس کا اپنا ذاتی ہے یہ ظاہر کیا جائے کہ فلاں شخص کی امانت ہے تاکہ اس میں میراث کے احکام جاری نہ ہوں۔ یا ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت کرے۔ یا کسی شخص پر اپنا قرض ہو اور وہ وصول نہ ہوا ہو لیکن جھوٹ یہ کہہ دیا جائے کہ اس سے قرض وصول ہوگیا تاکہ وارثوں کو نہ مل سکے یا مرض الموت میں ایک تہائی سے زیادہ کسی کو ہبہ کردے۔ یہ صورتیں ضرر پہنچانے کی ہیں، ہر مورث جو دنیا سے جارہا ہے اسے زندگی کے آخری لمحات میں اس طرح کے ضر رپہنچانے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تکملہ احکامِ میراث مسلمان، کافر کا وارث نہیں بن سکتا :۔ اگرچہ میراث کی تقسیم نسبی قرابت پر رکھی گئی ہے۔ لیکن اس میں سے بعض چیزیں مستثنیٰ ہیں۔ اول یہ کہ مورث اور وارث دومختلف دین والے نہ ہوں لہٰذا مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوگا خواہ ان میں آپس میں کوئی بھی نسبی رشتہ ہو۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم (مشکوٰۃ : ص 263) ” مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا “ یہ حکم اس صورت سے متعلق ہے جب کہ پیدائش کے بعد ہی سے کوئی شخص مسلم یا کافر ہو لیکن اگر کوئی شخص پہلے مسلمان تھا، پھر العیاذ باللہ اسلام سے پھر گیا اور مرتد ہوگیا، اگر ایسا شخص مرجائے یا مقتول ہوجائے تو اس کا وہ مال جو اسلام کے زمانہ میں کسب کیا تھا، اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گا اور جو ارتداد کے بعد کمایا ہو وہ بیت المال میں جمع کردیا جائے گا۔ لیکن اگر عورت مرتد ہوگئی تو اس کا کل مال خواہ زمانہ اسلام میں حاصل ہوا ہو یا زمانہ ارتداد میں اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گا۔ لیکن خود مرتدمر دہویا عورت اس کو نہ کسی مسلمان سے میراث ملے گی نہ کسی مرتد سے۔ قا تل کی میراث : اگر کوئی شخص ایسے آدمی کو قتل کردے جس کے مال میں اس کو میراث پہنچتی ہو تو یہ قاتل اس شخص کی میراث سے محروم ہوگا حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے : القاتل لایرث (مشکوٰۃ، ص 263) ” قاتل وارث نہیں ہوگا “۔ البتہ قتل خطا کی بعض صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے ) پیٹ میں جو بچہ ہے اس کی میراث : اگر کسی شخص نے اپنی کچھ اولاد چھوڑی اور بیوی کے پیٹ میں بھی بچہ ہے، تو یہ بچہ بھی وارثوں کی فہرست میں آئے گا۔ لیکن چونکہ یہ پتہ چلانا دشوار ہے کہ پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی، یا ایک سے زیادہ بچے ہیں۔ اس لیے بچہ پیدا ہونے تک تقسیمِ میراث ملتوی رکھنا مناسب ہوگا اور اگر تقسیم کرنا ضروری ہی ہو تو سرِ دست ایک لڑکا یا ایک لڑکی فرض کرکے دونوں کے اعتبار سے دو صورتیں فرض کی جائیں ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں ورثہ کو کم ملتاہو وہ ان میں تقسیم کردیا جائے اور باقی اس حمل کے لیے رکھا جائے۔ معتدّہ کی میراث : جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور طلاق رجعی ہے پھر طلاق سے رجوع یا عدت ختم ہونے سے پہلے وفات پا گیا تو یہ عورت میراث میں حصہ پاوے گی، اس لیے کہ نکاح باقی ہے۔ اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات میں بیوی کو طلاق دی، اگرچہ طلاق بائن یا مغلظہ ہی ہو اور عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مرگیا تب بھی وہ عورت اس کی وارث ہوگی اور عورت کو وارث بنانے کی وجہ سے دو عدتوں میں سے جو سب سے زیادہ دراز ہو اسی کو اختیار کیا جائے گا، جس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ : عدت طلاق تین حیض ہے اور عدت وفات چار مہینہ دس دن ہے ان دونوں میں جو عدت زیادہ دنوں کی ہو اسی کو عدت قرار دیا جائے تاکہ جہاں تک ممکن ہو عورت کو حصہ مل سکے۔ اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات سے پہلے بائن یا مغلظہ طلاق دی اورا سکے چند دن بعد عورت کی عدت میں وہ فوت ہوگیا تو اس صورت میں اس کو میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ البتہ اگر طلاق رجعی دی ہے تو وہ وارث ہوگی۔ مسئلہ : اگر کسی عورت نے شوہر کے مرض وفات میں خود خلع کرلیاتو وارث نہیں ہوگی، اگرچہ اس کا شوہر اس کی عدت کے دوران مرجائے۔ عصبات کی میراث : فرائض کے مقررہ حصے بارہ ورثہ کے لیے طے شدہ ہیں اور ان وارثوں کو اصحاب الفروض کہا جاتا ہے۔ جن کی تفصیل کسی قدر اوپر گذر چکی، اگر اصحاب الفروض میں سے کوئی نہ ہو یا اصحاب الفروض کے حصے دیدینے کے بعد کچھ مال بچ جائے تو وہ عصبہ کو دیدیا جاتا ہے اور بعض مرتبہ ایک ہی شخص کو دونوں حیثیتوں سے مال مل جاتا ہے، بعض صورتوں میں میت کی اولاد اور میت کا والد بھی عصبہ ہوجاتے ہیں، دادا کی اولاد یعنی چچا اور باپ کی اولاد یعنی بھائی بھی عصبہ ہوجاتے ہیں۔ عصبات کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل فرائض کی کتابوں میں موجود ہے، یہاں ایک مثال لکھی جاتی ہے۔ مثلاً زید فوت ہوگیا اور اس نے اپنے پیچھے چار وارث چھوڑے، بیوی، لڑکی، ماں اور چچا۔ تو اس کے مال کے کل چوبیس حصے کیے جائیں گے جن میں سے آدھا یعنی بارہ حصے لڑکی کو 1/8 کے حساب سے تین حصے بیوی کو 1/6 کے حساب سے چار حصے ماں کو اور بقیہ پانچ حصے جو بچے وہ عصبہ ہونے کی حیثیت سے چچا کو ملیں گے۔ مسئلہ : عصبات اگر نہ ہوں تو اصحابِ فروض سے جو مال بچے وہ ان کے حصوں کے مطابق انہی کو دیدیا جاتا ہے۔ اور اس کو علم فرائض کی اصطلاح میں رد کہتے ہیں۔ البتہ شوہر اور بیوی پر رد نہیں ہوتا، کسی حال میں ان کو مقررہ حصے سے زیادہ نہیں جاتا۔ مسئلہ : اگر اصحاب فروض میں سے کوئی نہ ہو اور عصبات میں بھی کوئی نہ ہو تو ذوی الارحام کو میراث پہنچ جاتی ہے۔ ذوی الارحام کی فہرست طویل ہے، نواسے، نواسیاں، بہنوں کی اولاد، پھوپھیاں، ماموں، خالہ، یہ لوگ ذوی الارحام کی فہرست میں آتے ہیں اور اس مسئلہ میں تفصیل ہے، جس کا یہ محل نہیں، یہاں اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ (ماخوذ از معارف القرآن)
Top