Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 62
قَالَ اَرَءَیْتَكَ هٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ١٘ لَئِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلًا
قَالَ : اس نے کہا اَرَءَيْتَكَ : بھلا تو دیکھ هٰذَا : یہ الَّذِيْ : وہ جسے كَرَّمْتَ : تونے عزت دی عَلَيَّ : مجھ پر لَئِنْ : البتہ اگر اَخَّرْتَنِ : تو مجھے ڈھیل دے اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَاَحْتَنِكَنَّ : جڑ سے اکھاڑ دوں گا ضرور ذُرِّيَّتَهٗٓ : اس کی اولاد اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند ایک
کہنے لگا بھلا دیکھ لو یہ شخص جس کو تو نے مجھ سے بڑھا دیا اگر تو مجھ کو ڈھیل دیوے قیامت کے دن تک تو میں اس کی اولاد کو ڈھانٹی دے لوں مگر تھوڑے سے
معارف و مسائل
لَاَحْتَنِكَنَّ احتناک کے معنی ہیں کسی چیز کا استیصال اور فنا کردینا یا پوری طرح اس پر غالب آنا (قرطبی) وَاسْتَفْزِزْ استفزاز کے اصلی معنی قطع کرنے کے ہیں مراد اس جگہ حق سے قطع کردینا ہے بِصَوْتِكَ صوت بمعنے آواز معروف ہے اور شیطان کی آواز کیا ہے اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ گانے اور مزا میرا اور لہو و لعب کی آوازیں یہی شیطان کی آواز ہے جس سے وہ لوگوں کو حق سے قطع کرتا ہے (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ مزامیر موسیقی اور گانا بجانا حرام ہے (قرطبی)
ابلیس نے حضرت آدم ؑ کو سجدہ نہ کرنے کے وقت دو باتیں کہی تھیں اول یہ کہ آدم ؑ مٹی سے پیدا کئے گئے اور میں آگ کی مخلوق ہوں آپ نے مٹی کو آگ پر کیوں فوقیت اور فضیلت دے دییہ سوال امر الہی کے مقابلہ میں حکم کی حکمت معلوم کرنے سے متعلق تھا جس کا کسی مامور کو حق نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کو تو طلب حکمت کا حق کیا ہوتا دنیا میں خود انسان اپنے نوکر کو اس کا حق نہیں دیتا کہ وہ کسی کام کو کہے تو خادم وہ کام کرنے کے بجے آقا سے پوچھے کہ اس کام میں کیا حکمت ہے اس لئے اس کا یہ سوال ناقابل جواب قرار دے کر یہاں اس کا جواب نہیں دیا گیا اس کے علاوہ جواب ظاہر یہی ہے کہ کسی چیز کو کسی دوسری چیز پر فوقیت دینے کا حق اسی ذات کو ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور پالا ہے وہ جس وقت جس چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دیدے وہی افضل ہوجاوے گی۔
Top