Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 62
قَالَ اَرَءَیْتَكَ هٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ١٘ لَئِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلًا
قَالَ : اس نے کہا اَرَءَيْتَكَ : بھلا تو دیکھ هٰذَا : یہ الَّذِيْ : وہ جسے كَرَّمْتَ : تونے عزت دی عَلَيَّ : مجھ پر لَئِنْ : البتہ اگر اَخَّرْتَنِ : تو مجھے ڈھیل دے اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَاَحْتَنِكَنَّ : جڑ سے اکھاڑ دوں گا ضرور ذُرِّيَّتَهٗٓ : اس کی اولاد اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند ایک
پھر بولا :” دیکھ تو سہی ، کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی ؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں ، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے
قال ارائیتک ھذا الذی کر مت علی (71 : 26) ” ذرا دیکھ تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی “۔ اس پر نظر تو ڈالو ! کیا اس کو تو نے مجھ سے برتر قرار دیا ، اور لقد کرمنا بنی ادم کہا۔ لئن اخرتن الی یوم القیمۃ لا حتنکن ذریتہ الا قلیلا (71 : 26) ” اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں ، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے “۔ میں ان پر حاوی ہوجائوں گا اور ان کو اپنی گرفت میں لے لوں گا ، ان کی لگام میرے ہاتھ میں ہوگی ، بلکہ یہ میری مٹھی میں ہوں گے اور جس طرح چاہوں گا ان کے معاملات میں تصرف کردوں گا۔ شیطان کے دہن میں چیلنج دیتے وقت یہ حقیقت نہ تھی کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جس طرح گمراہی کی استعداد رکھی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ہدایت اور قبولیت خیر کی استعداد بھی رکھی ہے۔ جب انسان ایسے حالات میں ہو کہ اس کا تعلق باللہ قائم ہو تو وہ بلند ہوگا اور اعلیٰ مدارج کی طرف اٹھنے والا ہوگا اور ایسے حالات میں وہ شر اور گمراہی سے بچ جائے گا ، شیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ بلا ارادہ چلنے والے حیوانات کی طرح نہیں ہے بلکہ انسان کو قوت ارادی دی گئی ہے جو اسے دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ ارادہ اور پختہ ارادہ ہی اس مخلوق کی بڑی امتیازی خصوصیت ہے اور اس کے اندر اس مخلوق کا راز پنہاں ہے۔ اللہ کا یہ ارادہ ہوگیا کہ شرو گمراہی کے اس پیغامبر کو کھلا میدان دے دیا جائے اور جس طرح چاہے انسان کو گمراہ کرنے کی سعی کرے۔
Top