Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 67
فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًاۙ
فَجَعَلْنٰهُنَّ : تو بنایا ہم نے ان کو اَبْكَارًا : کنواریاں
حرام کردی گئیں تم پر تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہاری بیویوں کی وہ لڑکیاں جو تمہاری پرورش میں ہوں، تمہاری ان بیویوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو، پس اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو (ان کے بارے میں) تم پر کوئی گناہ نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشت سے ہوں، اور یہ کہ تم جمع کرو (نکاح میں) دو بہنوں کو، مگر جو ہوچکا (کہ وہ بہرحال ہوچکا) بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔
53 حرمت رضاعت کا بیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم پر حرام کردیا گیا تمہاری ان ماؤں کو جنہوں نے تم کو دودھ پلایا۔ اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، مگر ہو زمانہ رضاعت کے دوران، نہ کہ اس کے بعد کا۔ چناچہ صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا یعنی رضاعت وہی معتبر ہوتی ہے جو بھوک مٹائے۔ یعنی یہ زمانہ رضاعت کے دوران ہو جبکہ بچے کی بھوک مٹانے کا ذریعہ رضاعت ہی ہوتی ہے، اس کے علاوہ وہ کسی اور خوراک سے بھوک نہ مٹاتا ہو۔ پس رضاعت وہی معتبر ہوتی ہے جو زمانہ رضاعت میں اور قبل الفطام یعنی دودھ چھڑانے سے پہلے ہو۔ یعنی دو سال کی مدت کے اندر ہو، جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ رضاعت وہی معتبر ہے جو کہ دو سال کے اندر ہو، (محاسن التاویل للقاسمی (رح) ) ۔ بہرکیف محرمات نسبیہ کے بعد یہ محرمات رضاعیہ کا بیان فرمایا گیا ہے کہ رضاعت سے بھی وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو کہ نسب سے حرام ہوتے ہیں، جیسا کہ مشہور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا۔ (معارف وغیرہ) ۔ بہرکیف یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ رضاعت کے رشتے کی مادرانہ رشتے کے ساتھ بڑی گہری مناسبت ہے۔ جو بچہ جس ماں کی آغوش میں رہتا اور اس کی چھاتیوں سے دودھ پیتا، اور پلتا بڑھتا ہے وہ اس کی پوری نہیں تو آدھی ماں تو ضرور بن جاتی ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ جس کا دودھ اس کے رگ و پے میں سرایت کر جائے اس سے اس کے جذبات متاثر ہوں۔ اگر متاثر نہ ہوں تو یہ فطرت کا بناؤ نہیں بگاڑ ہے اور اسلام دین فطرت ہے اس لئے ضروری تھا کہ وہ اس بگاڑ کو درست کرتا۔ سو اس نے اس کی اصلاح فرمائی اور بدرجہ تمام و کمال فرمائی۔
Top