Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 78
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں أُمِّيُّوْنَ : ان پڑھ لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے الْكِتَابَ : کتاب اِلَّا اَمَانِيَّ : سوائے آرزوئیں وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَظُنُّوْنَ : گمان سے کام لیتے ہیں
اور بعض ان میں سے ان پڑھ ہی ہیں جن کو اپنے دلی منصوبوں کے سوا کتاب کا علم نہیں اور وہ محض اٹکل پچو باتیں بنایا کرتے ہیں۔
ترکیب : امیون مبتدا موصوف لایعلمون الکتاب صفت منہم خبر مقدم الا امانی استثنا منقطع ہے بمعنی لاکن امانی امنیہ کی جمع ہے جس کے معنی دلی منصوبہ ہیں اور اس لیے اس کا اطلاق جھوٹ اور آرزو اور جو پڑھنے میں آتا ہے اس پر ہوتا ہے۔ ان بمعنی مابقرینہ الاو التقدیر ان ھم الاقوم یظنون فویل 2 ؎ للذین یکتبون مبتداء و خبر ہیں۔ الکتاب مفعول بہ ہے بمعنی مکتوب اور جس نے مصدر سمجھا ضعیف کو اختیار کیا بایدیہم اید کی جمع ہے جس کی اصل میں یدی کفلس ہے اور جمع قلت ہے باوجودیکہ ہاتھوں سے لکھتے ہیں نہ پائوں سے پھر اس کو جو ذکر کیا تو تاکید کے لیے جیسا کہ بولتے ہیں اپنی آنکھ سے دیکھا لیشتروا میں لام یقولون کے متعلق ہے مماکتبت میں مابمعنی الذی یا نکرئہ موصوفہ یا مصدریہ ہے اور اسی طرح مما یکسبون میں قالوا فعل ھم ضمیر فاعل لن تمسنا الخ جملہ مفعول بہ الا ایام میں ایام کو بوجہ ظرف ہونے کے نصب ہے نہ الا کی وجہ سے کس لیے کہ فعل اس ظرف سے پہلے کسی اور ظرف کی طرف متعدی نہیں ہوا (تبیان) ایام اصل میں ایوام یوم کی جمع تھا وائو کو یا بنالیا اوری کو ادغام کردیا۔ أتخذتم ہمزہ واسطے استفہام کے ہے اور ہمزہ وصل محذوف ہے بلی کلمہ ایجاب ہے من بمعنی الذی اور ممکن ہے کہ شرطیہ ہو اور دونوں تقدیر پر یہ مبتدا اصحاب النار خبر جملہ جواب شرط یا خبر من۔ ام ہمزہ استفہام کے معنی میں ہے ای الامرین کائن یعنی ام متصلہ یا اس کو منقطعہ کہا جاوے بمعنی بل ہے۔ تفسیر : یعنی ان کے حامیوں کی یہ کیفیت ہے کہ تورات یا کسی اور کتاب کو تو جانتے نہیں صرف چند خیالی ڈھکوسلے اپنے دل میں جما رکھے ہیں : اول یہ کہ تمام مخلوق سے علیحدہ خدا کو ہم سے ایک اختصاص خاص ہے کیونکہ اس نے ہم کو بیٹا کیا ہے اور محبوب بنایا ہے پس ہمارا ہر گناہ معاف ہے۔ دوم یہ کہ ہمارے باپ دادا انبیاء تھے ان کو قدرت ہے کہ بغیر مرضی خدا ہم کو دوزخ سے چھڑا لیں گے (جیسے کہ آج کل جاہل پیرزادوں کے خیالات فاسد ہیں) ۔ سوم یہ کہ یہود کو اگر عذاب بھی ہوا تو چند روز کا ہوگا۔ چہارم استحقاق نبوت ہمارے خاندان کو حاصل ہے اور کسی خاندان کا شخص نبی نہیں ہوسکتا (جیسے ہندوئوں میں برہمنوں کے خیالات فاسدہ ہیں) ۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بےاصل خیالات ہیں ان کے علماء کا یہ حال ہے کہ غلط مسائل اور امراء کی خواہش کے موافق روپیہ لینے کے لیے اپنے ہاتھوں سے جھوٹی روایات لکھ کر پیش کردیا 1 ؎ ویل۔ زبان عرب میں ناراضی کے موقع پر استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ہماری زبان میں تف اور پھٹے منہ بولتے ہیں۔ پس وہ جو امام احمد اور ترمذی اور ابو یعلی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ ویل جہنم میں ایک کنواں اور ابن جریر نے روایت کیا ہے کہ وہ جہنم میں پہاڑ ہے سو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ چیزیں خدا کے کلمہ ویل کا مظہر ہے یعنی اس کی ناراضی ان صورتوں میں ظہور کرے گی سو یہ سب سچ ہے۔ 2 ؎ اس آیت سے بعض نے استدلال کیا ہے کہ قرآن مجید کی اجرت کتابت اور لکھ کر بیچنا جائز نہیں مگر صحیح یہ ہے کہ جائز ہے اور اسی پر علماء کا فتویٰ ہے (تفسیر عزیزی) کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے یعنی تورات کی عبارت ہے۔ اگر کسی پرانے نوشتے کو حسن ظن سے من اللہ کہہ دیتے تو ایک بات تھی غضب یہ کہ خاص اپنے ہاتھ کے نوشتہ کو من اللہ کہتے ہیں۔ اس لیے یکتبون بایدیہم کی قید لگائی ورنہ لکھا تو ہاتھوں سے ہی کرتے ہیں اور آنکھوں اور کانوں سے کون لکھتا ہے ؟ فرماتا ہے۔ تف ہے اس لکھنے پر اور تف ہے اس کمائی پر اس کے بعد وقالوا لن تمسنا النار الخ ان کے امانی اور خیالی منصوبوں کو بیان فرما کر اس کا رد کرتا ہے کہ کیا خدا نے تم سے اس کا کوئی عہد کرلیا ہے کہ وہ تمہارے گناہوں پر عذاب بھی دے گا تو چند روز کے لئے، ہرگز نہیں جزا و سزا کا عام قاعدہ ہے کوئی ہو جو ہر طرح سے گناہوں میں آلودہ ہوگا وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جو ایمان لاوے گا نیک کام کرے گا ہمیشہ جنت میں رہے گا۔
Top