Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 136
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
: اور اعلان کر دو کہ ” حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، باطل تو مٹنے ہی والا ہے
وقل ……(71 : 18) ” اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، باطل تو مٹنے ہی والا ہے “۔ یعنی اللہ کی جانب سے جو اقتدار نبی اور داعیوں کو ملتا ہے اس کی بدولت۔ اے نبی ﷺ اعلان کردو کہ یہ اقتدار اب آہی گیا اور اس کی وجہ سے باطل گویا مٹ ہی گیا کیونکہ حق اپنے اندر قوت ، سچائی اور ثبات رکھتا ہے۔ اور باطل کے مزاج میں کمزوری اور مٹنا ہے۔ سچائی کا مزاج یہ یہ کہ وہ زندہ رہے ، پھلے پھولے اور قائم و دوائم رہے اور باطل کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ مٹ جائے ، ختم ہوجائے اور اس کا نام و نشان تک نہ رہے۔ ” باطل مٹنے والا ہے “۔ یہ ایک الٰہی حقیقت ہے اور اللہ اسے نہایت ہی تاکیدی الفاظ میں بیان فرما تا ہے۔ اگرچہ بظاہر باطل رائج نظر آئے ، اس کی حکومت ہو اور اس کا رعب ہو ، کیونکہ باطل پھلا اور پھولا نظر آتا ہے لیکن اس کا موٹاپا بیماری کا موٹاپا ہوتا ہے۔ وہ چونکہ بےحقیقت ہوتا ہے اس لئے اس کے غبارے سے جلد ہی ہوا نکل جاتی ہے۔ اور اس پر کبھی کسی قوم کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن باطل ایسے ذرائع اختیار کرتا ہے کہ لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کرکے ان کو مرعوب کردے اور ایسے ذرائع اختیار کرتا ہے کہ وہ مستقل اور پختہ اور ایک عظیم نظام نظر آئے لیکن اسکی مثال ایسی خود روگھاس کی ہوتی ہے جو جلد ہی خشک ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ کسی خشک گھاس اور پھوس کو آگ لگ جائے تو یکدم شعلے آسمانوں تک پھیل جاتے ہیں لیکن جلد ہی وہ شعلے بیٹھ جاتے ہیں اور راکھ کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ جبکہ ایک مضبوط انگارہ دھکتا رہتا ہے اور اس کی چنگاریاں دیر تک راکھ میں بھی دبی رہتی ہیں یا اس طرح کہ وہ جھاگ کی طرح ہوتا ہے۔ یکدم پھول جاتا ہے لیکن جلدی بیٹھ جاتا ہے اور پانی جو ایک حقیقت رکھتا ہے اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ ان الباطل کان زھوقا (71 : 18) ” بیشک باطل مٹنے ہی والا ہے “۔ کیونکہ باطل کے اندر باقی رہنے والے عناصر ہی نہیں ہوتے۔ بعض خارجی عوامل ہوتے ہیں جن سے وہ وقتی طور پر فائدہ لیتا ہے۔ اس کا وجود غیر طبیعی ہوتا ہے۔ جب یہ خارجی عوامل ختم ہوتے ہے اور یہ خارجی سہارے دور ہوتے ہیں یا کمزور پڑتے ہیں تو یہ دھڑام سے گرتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔ جہاں تک حق اور سچائی کا تعلق ہے اس کی ذات کے اندر اس کے دوام کا سامان ہوتا ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ لوگوں کی خواہشات نفس سچائی کے خلاف ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ماحول سچائی کے خلاف ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات وقت کے اہل اقتدار سچائی کے خلاف ہوتے ہیں۔ لیکن حق کا ثبات اس کا سکون و اطمینان آخر کار اسے فتح سے ہمکنار کرتا ہے اور اس کے بقاء کا ضامن ہوتا ہے اس لئے کہ یہ حق اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کا نام ہی حق ہے اور اللہ چونکہ زندہ باقی اور لازوال ہے اس لئے سچائی اور حق بھی لازوال ہے۔ ان الباطل کان زھوقا (71 : 18) ” بیشک باطل مٹنے والا ہے “۔ اس کے پیچھے بعض اوقات بڑی قوت ہوتی ہے اور وقت کا اقتدار بھی اس کا حامی ہوتا ہے لیکن اللہ کا وعدہ سچا ہے ور اللہ کی قوت اور سلطنت اور اقتدار بزرگ و برتر ہے۔ جن اہل ایمان نے ایمان کا حقیقی ذائقہ چکھ لیا ہوتا ہے وہ اللہ کے وعدے کی مٹھاس اور اللہ کے اس وعدے کی سچائی کو محسوس کرتے ہیں۔ کون ہے جو اللہ سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والا ہے اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ سچی بات کرنے والا ہے۔
Top