Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 52
یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَ تَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَوْمَ : جس دن يَدْعُوْكُمْ : وہ پکارے گا تمہیں فَتَسْتَجِيْبُوْنَ : تو تم جواب دو گے (تعمیل کروگے) بِحَمْدِهٖ : اسکی تعریف کے ساتھ وَتَظُنُّوْنَ : اور تم خیال کروگے اِنْ : کہ لَّبِثْتُمْ : تم رہے اِلَّا : صرف قَلِيْلًا : تھوڑی دیر
جس روز وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کریت ہوئے اس کی پکار کے جواب میں نکل آئو گے اور تمہارا گمان اس وقت یہ ہوا کہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اس حالت میں پڑے رہے ہیں
یوم یدعو کم فتستحیبون بحمدہ وتظنون ان لبثتم الا قلیلا (71 : 25) ” جس روز تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس پکار کے جواب میں نکل آئو گے “۔ یہ ان لوگوں کا منظر ہے جو وقع قیامت کے منکر تھے۔ آج وہ لبیک کہتے ہوئے میدان حشر میں چلے آرہے ہیں۔ ان کی زبانوں پر بےساختہ حمدو ثنا جاری ہے ، اور اس کے سوا ان کے ساتھ کوئی سو ال و جواب نہیں ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے سوالات کا یہ عجیب جواب دیا ہے ، یہ لوگ تو اس بات کا انکار کررہے کہ قیامت ہوگی۔ لیکن آج وہ الحمد اللہ ، الحمد اللہ کہتے ہوئے دورے آرہے ہیں۔ آ ج پوری زندگی کی اسکرین اس طرح لپیٹ دی جائے گی جس طرح سایہ سمٹ آتا ہے۔ وتظنون ان لبثتم الا قلیلا (71 : 25) ” اور تمہارا گمان اس وقت یہ ہوگا کہ ہم بس تھوڑی دیر اسی اس حالت میں پڑے رہے ہیں “۔ دنیا میں زندگی کے طویل ایام کی چادر کو اور پھر برزخ میں صدیوں کے عرصے کو یوں لپیٹ کر رکھ دینا یہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا ، اس کی زندگی اور عالم برزخ میں صدیاں کس قدر مختصر عرصہ ہیں ، یہ سب کچھ چند لمحات ہیں۔ طویل زندگی کے لمحات اور تاثرات انسانی احساس میں نہایت مختصر ہوتے ہیں۔ یہ ایک وقت ہوتا ہے جو گزر جائے۔ ایک زمانہ ہوتا ہے جو بیت جائے اور ایک سایہ ہوتا ہے جو لپیٹ لیا جائے اور سازوسامان دنیا ہوتا ہے جو فنا ہوجائے۔ اب وقوع قیامت کا انکار کرنے والوں کو ، اللہ کے اس پختہ عہد کو جھٹلانے والوں اور اس کے ساتھ مذاق کرنے والوں ، سر ہلانے والوں اور مذاق مذاق میں اعتراض کرنے والوں کو چھوڑ کر ، اللہ کے مومن بندوں کے ساتھ مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ حضور اللہ ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ میرے بندوں سے یہ کہو کہ وہ ہمیشہ اچھی بات کریں۔
Top