Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 51
اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَكْبُرُ فِیْ صُدُوْرِكُمْ١ۚ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا١ؕ قُلِ الَّذِیْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ۚ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْكَ رُءُوْسَهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هُوَ١ؕ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَرِیْبًا
اَوْ : یا خَلْقًا : اور مخلوق مِّمَّا : اس سے جو يَكْبُرُ : بڑی ہو فِيْ : میں صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینے (خیال) فَسَيَقُوْلُوْنَ : پھر اب کہیں گے مَنْ : کون يُّعِيْدُنَا : ہمیں لوٹائے گا قُلِ : فرمادیں الَّذِيْ : وہ جس نے فَطَرَكُمْ : تمہیں پیدا کیا اَوَّلَ : پہلی مَرَّةٍ : بار فَسَيُنْغِضُوْنَ : تو وہ بلائیں گے (مٹکائیں گے) اِلَيْكَ : تمہاری طرف رُءُوْسَهُمْ : اپنے سر وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہیں گے مَتٰى : کب هُوَ : وہ۔ یہ قُلْ : آپ فرمادیں عَسٰٓي : شاید اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : وہ ہو قَرِيْبًا : قریب
یاس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز جو تمہارے ذہن میں قبول حیات سے بعید تر ہو “ (پھر بھی تم اٹھ کر رہو گے) ۔ وہ ضرور پوچھیں گے ” کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا ؟ “ جواب میں کہو :” وہی جس نے پہلی بات تم کو پیدا کیا “۔ وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے :” اچھا ، تو یہ ہوگا کب ؟ “ تم کہو :” کیا عجب کہ وہ وقت قریب ہی آلگا ہو۔
فسیقولون من یعیدنا (71 : 15) ” وہ ضرور پوچھیں گے کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا لائے گا ؟ “ یعنی جب ہم مٹی ہوگئے ، بوسیدہ ہدیاں ہوگئیں ، تو کون ہے وہ جو ہمیں دوبارہ حیات دے گا۔ یا جب ہم پتھر اور لوہا بن گئے تو پھر کون حیات دے گا ؟ قل الذین فطرکم اول مرۃ (81 : 15) ” کہہ دو ، وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا “۔ ان کے سوال کا یہ نہایت ہی سادی اور صاف اور دل لگتا جواب ہے۔ کیونکہ جس ذات سے پہلی مرتبہ ان کو زندگی دی وہ دوبارہ بھی دے سکتا ہے لیکن وہ اس سادہ جواب سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور نہ اطمینان ان کو ہوتا ہے۔ فسیتغضون الیک رء وسھم (71 : 15) ” وہ سر ہلا کر پوچھیں گے “۔ یعنی سر کو اوپر نیچے کر کے سوالیہ انداز اختیار کریں گے ، یہ حرکت وہ اس لئے کریں گے کہ وہ اس بات کو بعید از امکان سمجھتے ہیں یا غرور کے طور پر سر ہلائیں گے۔ و یقولون متی ھو (71 : 15) ” اچھا تو یہ ہوگا کب ؟ “ یہ بھی وہ نہایت ہی لاپرواہی سے وقوع قیامت کو بعید از امکان سمجھتے ہوئے کہیں گے۔ قل عسی ان یکون قریبا (71 : 15) ” آپ جواب دیں ، کیا عجب کہ وہ وقت قریب ہی آلگا ہو “۔ وقوع قیامت کے وقت کا علم تو رسول اللہ ﷺ کو بھی نہیں دیا گیا لیکن شاید یہ وقت ان لوگوں کے گمان اور ظن وتخمین سے قریب تر ہو۔ مناسب تو یہی ہے کہ وہ اس کے وقع سے ڈریں کیونکہ یہ اس حال میں واقع ہوگا کہ لوگ غفلت میں ہوں گے۔ تکذیب کر رہے ہوں گے ، مذاق کر رہے ہوں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی۔ اور قرآن اپنے مخصوص انداز کے مطابق اچانک قیامت کے مناظر کا بیان شروع کردیتا ہے۔
Top