Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fahm-ul-Quran - Al-An'aam : 95
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰى١ؕ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
فَالِقُ
: چیرنے والا
الْحَبِّ
: دانہ
وَالنَّوٰى
: اور گٹھلی
يُخْرِجُ
: نکالتا ہے
الْحَيَّ
: زندہ
مِنَ
: سے
الْمَيِّتِ
: مردہ
وَمُخْرِجُ
: اور نکالنے والا ہے
الْمَيِّتِ
: مردہ
مِنَ
: سے
الْحَيِّ
: زندہ
ذٰلِكُمُ
: یہ ہے تمہارا
اللّٰهُ
: اللہ
فَاَنّٰى
: پس کہاں
تُؤْفَكُوْنَ
: تم بہکے جارہے ہو
” بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے یہی اللہ ہے پھر تم کہاں بہکائے جاتے ہو ؟ “ (95)
فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو اگاتا اور نکالتا ہے۔ اسی طرح وہ مردہ انسان کو قبر سے زندہ کرکے نکالے گا۔ اب مسلسل آیات میں نباتات، آفاق اور دیگر حوالوں سے توحید باری تعالیٰ کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ زندگی کی پیدائش اور حرکت ایک معجزہ ہے جسے پیدا کرنا ایک طرف، اس کے بھید کو بھی کوئی نہیں پاسکتا۔ زمین میں ہر لحظہ دانوں سے پھوٹ پھوٹ کر تنا ور اور پھلنے پھولنے والے درخت نکلتے ہیں۔ خاموش، ساکن، اور سوکھی گٹھلیوں سے بلند کھجوریں پھوٹتی ہیں۔ جو زندگی دانے اور گٹھلی میں پوشیدہ ہے وہ پودے اور کھجور میں آکرظاہر اور متحرک ہوجاتی ہے۔ اس کا بھید ایک سر بستہ راز ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ حیات کی حقیقت اور اس کا مصدر صرف خالق کو معلوم ہے۔ انسان آج بھی پہلے انسان کی مانند ظواہر و اشکال کے سامنے کھڑا ہو کر اس کے خصائص واطوار کا مشاہدہ تو کرسکتا ہے مگر اس سے پہلے انسان کی طرح اس کے غیب سے پردہ نہیں اٹھا سکتا۔ حرکت و نشو و نما کو دیکھتا ہے مگر مصدر اور جو ہر سے ناواقف ہے۔ لیکن زندگی اپنی راہ پر رواں دواں ہے، اور معجزہ ہر لحظہ واقع ہو رہا ہے۔ زندہ کا مردہ سے نکلنا شروع سے چلا آیا ہے، یہ کائنات تھی، زمین تھی مگر اس میں حیات نہ تھی۔ پھر زندگی آئی جس کو موت میں سے نکالا گیا کیسے نکالا گیا ؟ ہم نہیں جانتے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، کہ زندگی موت سے اور زندہ مردہ سے نکل رہا ہے ! ہر لحظہ ذرات زندوں کے اجسام و اعضا کا حصہ بن رہے ہیں اور زندہ خلیوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ پھر اس کے برعکس ہر لحظہ زندہ خلیے مردہ ذروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ حتی کہ ایک دن پورا زندہ جسم مردہ ہوجاتا ہے۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قادر نہیں۔ ابتدا میں موت سے زندگی نکالنے والا وہی تھا، پھر مردہ ذرات کو انسانی اجسام کا حصہ بنا کر زندہ کرنے والا بھی وہی ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس کی ابتداء و انتہا اور اس کی کیفیت و نتائج کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ اس میں کسی کا ذرہ بھر دخل نہیں ہے۔ سب کچھ اسی قادر وعلیم کی قدرت و علم سے ہو رہا ہے۔ زندگی اللہ کی صفت خلق سے وجود میں آئی۔ اس کے سوا اس کی جو تعبیر بھی کی جائے وہ غلط اور باطل ہے۔ یورپ کے لوگ جب سے کلیسا سے بھاگے ہیں ’ ’ گویا کہ وہ گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں “ اسی دن سے وہ کائنات کی موت وحیات کی پیدائش کا راز معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے اللہ کے وجود کا اعتراف کرنا چھوڑ دیا۔ جس کی وجہ سے ان کوششوں کا نتیجہ صفر ہے۔ حیات پر جدید تحقیق کے نتائج : ڈاکٹر فرینک ایلن جو کینیڈا کی ایک یونیورسٹی کا بیالوجی کا پروفیسر ہے کہتا ہے : (مقالہ): ” علم کی نشو ونما اتفاقاً ہوئی ہے یا قصداً ؟ “ اس کا ترجمہ ڈاکٹر ترشاش عبدالمجید سرمانی ” اگر زندگی کسی حکمت سے اور کسی سابق منصوبے سے پیدا نہیں ہوئی تو، پھر یہ اتفاقاً پیدا ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ اتفاق کونسا ہے ؟ تاکہ ہم اس پر غور کریں اور زندگی کی پیدائش کا پتہ چلائیں۔ اتفاق اور احتمال کے نظریات کی اب کچھ درست حسابی بنیادیں موجود ہیں۔ جو انھیں ان معاملات پر منطبق کرتی ہیں۔ جہاں مطلق صحیح حکم نہ لگایا جاسکے۔ یہ نظریات ہمیں ایسے فیصلے پر پہنچاتے ہیں جو درستی سے قریب تر ہو، ریاضی کے طریقے سے اتفاق اور احتمال کا نظریہ تحقیق کے لحاظ سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ حتی کہ ہم بعض ظواہر کی پیشگوئی پر قادر ہوچکے ہیں۔ جن کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ اتفاق سے واقع ہوتے ہیں۔ بعض ایسی چیزیں جن کے وقوع کی ہم کوئی اور تفسیر نہیں کرسکتے۔ ان تحقیقات کی ترقی کے باعث ہم اس پر قادر ہیں کہ اتفاقاً واقع ہونے والی چیزوں میں اور ان میں جن کا اس طرح وقوع ناممکن ہے، تمیز کرسکیں۔ ہم زمانے کی ایک معین مدت میں اس وقوع کا احتمال ظاہر کرسکتے اب ہم اس چکر کو دیکھتے ہیں جو زندگی کی پیدائش میں اتفاقات کے کھیل سے ہوتا ہے۔ (معلوم رہے کہ یہ ڈاکٹر فرینکلن کا خیال ہے ورنہ اسلامی نقطۂ نظر سے کائنات میں کوئی چیز بھی اتفاقیہ طور پر نہیں ہوتی۔ ہر ایک ضابطہ، قانون وقوت، جگہ وغیرہ خدا کے ہاں مقرر ہے اور سب کچھ لگے بندھے قوانین کے مطابق ہو رہا ہے۔ ) تمام زندہ خلیوں میں پرو ٹین بنیادی مرکب ہے اور اس میں پانچ عناصر ہوتے ہیں : کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن اور سلفر اور ایک جزء میں ذرات کی تعداد 4 لاکھ تک ہوتی ہے۔ چونکہ کیمیاوی عناصر کی تعداد 100 سے زائد ہے، ہر ایک کو اندازے کی غیر مرتب تقسیم پر بانٹا گیا ہے۔ پس ان پانچ عناصر کا اجتماع تاکہ وہ پروٹین کے جزئیات میں سے ایک جزیہ بن جائے، اس مادے کی کمیت کو معلوم کرنے کے لیے اس کا حساب معلوم کیا جاسکتا ہے۔ جس کو ہمیشہ کے لیے باہم ملایا جائے تاکہ وہ جزئی حاصل ہو سکے، پھر زمانے کا فاصلہ بھی معلوم ہوسکتا ہے تاکہ اس جزئی کے درجات میں اجتماع ہو سکے۔ مشہور ریاضی دان عالم شارنر یوجین نے تمام عوامل کا حساب کیا ہے اور معلوم کیا ہے کہ اتفاقیہ طور پر ایک پروٹین جزئی کا بننا 10؍1 کی نسبت سے ہوسکتا ہے۔ یعنی ایک کو دس تک ہر ہند سے میں فی نفسہ ضرب دینا 160 بار اور یہ ایک ایسی رقم ہے جس کا بولنا یا کلمات میں اس کی تعبیر کرنا ناممکن ہے۔ مناسب ہے کہ اس تفاعل کے لیے جتنا مادہ ضروری ہے تاکہ ایک جزئی پیدا ہو سکے۔ یہ اس ساری کائنات سے لاکھوں کروڑوں مرتبہ زیادہ ہوگا اور زمین پر صرف ایک جزئی کو پیدا کرنے کے لیے۔۔ یعنی اتفاقیہ طور پر پیدا کرنے کے لیے۔۔ لا انتہا سالوں کی ضرورت ہوگی۔ جسے اس عالم ریاضی نے اندازًا یہ بتایا ہے کہ دس کو اس کے نفس میں 243 بار ضرب دی جائے تو اتنے سال لگیں گے۔ پروٹین لمبے سلسلوں کے ساتھ اپنی کھٹائیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ سو ان جزئیات کے ذریعے کس طرح تالیف پاتے ہیں ؟ جب وہ اس طریقے کے علاوہ مرکب ہوں جس سے وہ ہوتے ہیں تو زندگی کے قابل نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ زہربن جاتے ہیں۔ جے بی سیتھر نے وہ طریقے شمار کیے ہیں جن سے کہ ذرات کا پروٹین کے ایک بسیط جزئی میں مرکب ہونا ممکن ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ دس کو اسی طرح فی نفسہ 18 سے ضرب دیں تو اتنے ملین اس کی تعداد ہوگی۔ اس بنا پر یہ عقلاً محال ہے کہ یہ تمام اتفاقات ایک بھی پروٹین کو پیدا کرسکیں۔ لیکن پروٹین کیمیاوی مردہ مادہ ہے اور اس میں زندگی اس وقت رینگتی ہے جب وہ عجیب بھید اس میں داخل ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت کو ہم نہیں جانتے۔ وہ ایک غیر محدود عقل ہے (اس سے اس کی مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور یہ ایک فلسفیانہ نام ہے) اور وہ اکیلا خدا ہے جو اپنی حکمت کے ساتھ یہ پاسکتا ہے کہ یہ پروٹینی جزئی زندگی کا مسکن بن سکتی ہے، سو اس نے اس کو بنایا، اس کی تصویر کھینچی، اور اس پر زندگی کا بھید انڈیل دیا۔ مشی گن یونیورسٹی کا علوم طبیعات کا پروفیسر ڈاکٹر ایرفنگ ولیم اپنے مقالے :” مادیت تنہا کافی نہیں “ (جو اسی نام کی کتاب میں وارد ہے ! ) میں لکھتا ہے : ” سائنس ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ وہ نہایت چھوٹے چھوٹے غیر محدوددقائق کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ اور انھی سے تمام مادے بنتے ہیں۔ اسی طرح سائنس ہم پر یہ کھولنے سے بھی قاصر ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے ذرے کیونکر جمع ہوتے ہیں اور ان میں زندگی کیونکر آتی ہے۔ اس کا مدار محض اتفاقات پر ہے۔ بیشک یہ نظریہ جو دعویٰ کرتا ہے کہ ترقی یافتہ حیات کی تمام صورتیں موجودہ ترقی کی حالت تک محض اندھا دھند چھلانگوں اور اجتماعات کے باعث پہنچی ہیں بلاشبہ ایک نظریہ ہے مگر اسے قبول نہیں کیا جاسکتا، صرف فرض کیا جاسکتا ہے۔ پس یہ منطق اور دلیل کی بنیاد پر قائم نہیں ہے۔ ڈاکٹر مالکوم ونسٹر پروفیسر زوالوجی بائلر یونیورسٹی اپنے مقالے : ” سائنس میرے ایمان کو مضبوط کرتی ہے “ میں لکھتا ہے کہ : میں زوالوجی کے مطالعہ میں مشغول ہوا۔ جو ان وسیع علمی میدانوں میں سے ہے جو علم الحیاۃ سے بحث کرتے ہیں۔ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اللہ کی ساری مخلوقات میں کائنات میں بسنے والی کوئی چیز زندوں سے زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ تم کسی راستے کے کنارے پر اگی ہوئی کمزور سی برسیم کو دیکھو، کیا تمہیں انسان کی بنائی ہوئی تمام چیزوں اور آلات میں اتنی تابناک چیز نظر آتی ہے ؟ یہ ایک زندہ آلہ ہے جو دن رات ایک دائمی صورت میں کھڑا رہتا ہے۔ اس میں ہزار ہا کیمیاوی اور طبیعی عمل پائے جاتے ہیں۔ اور یہ سب پروٹو پلازم کی قوت کے تحت پورے ہوتے ہیں۔ یہ وہی مادہ ہے جو تمام زندہ کائنات کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ پیچ در پیچ زندہ آلہ کہاں سے آیا ہے ؟ اللہ نے اس کو یوں اکیلا نہیں بنایا۔ بلکہ اس نے حیات کو پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کی حفاظت پر اسے قادر بنایا ہے۔ یہ کہ وہ ایک نسل سے دوسری نسل تک برابر چلتا ہے اور ان تمام خاصیتوں اور امتیازات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جو ہمیں ایک نبات اور دوسری میں تمیز کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ زندہ چیزوں میں کثرت کا مطالعہ کرنا نہایت عجیب اور چونکا دینے والا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قدرت ظاہر ہوئی ہے۔ جدید نبات جس تناسلی خلیے سے بار آور ہوتی ہے وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ طاقتور خورد بین کے بغیر نظر نہیں آسکتا۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ نباتات کی صفات میں سے ہر صفت، ہر رگ، و ریشہ، ہر شاخ، ہر بیج یا پتہ ان انجینئروں کے زیر نگرانی بنتا ہے جو نہایت چھوٹے ہیں۔ وہ اس خلیے کے اندر رہ سکتے ہیں جس سے نبات پیدا ہوتی ہے۔ انجینئروں کا یہ فرقہ کروموسوم کہلاتا ہے۔ (یعنی وراثت کو نقل کرنے والے) حیات اور حیاتیات پر اسی قدر بات چیت کے بعد اب ہم قرآنی آیات کی طرف لوٹتے ہیں۔ (ذلکم اللّٰہ ربکم)[ الانعام : 102] ” یہ ہے تمہارا اللہ تمہارا رب “ جو اس دائمی مسلسل و متواتر معجزے کا موجد ہے۔ وہی اس کا حق دار ہے کہ تم اس کے آگے جھکو۔ اس کی عبودیت، خضوع، خشوع اور اتباع کا اقرار و اعلان کرو۔ پھر فرمایا : ” پھر تم کہاں اور کیونکر پھرائے جاتے ہو ؟ “ (ظلال القرآن) مسائل 1۔ اللہ تعالیٰ ہی بےجان سے جاندار چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔ 2۔ زندگی وموت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دیکھتے ہی اپنا ایمان پختہ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ نباتات اگانے والا ہے : 1۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ ( النحل : 11) 2۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنوں : 19) 3۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ ( یٰسٓ: 34) 4۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ ( الانعام : 99) 5۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جو ذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ ( الانعام : 141)
Top