Dure-Mansoor - Az-Zumar : 17
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اجْتَنَبُوا : بچتے رہے الطَّاغُوْتَ : سرکش (شیطان) اَنْ : کہ يَّعْبُدُوْهَا : اس کی پرستش کریں وَاَنَابُوْٓا : اور انہوں نے رجوع کیا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف لَهُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰى ۚ : خوشخبری فَبَشِّرْ : سو خوشخبری دیں عِبَادِ : میرے بندوں
اور جن لوگوں نے اس بات سے پرہیز کیا کہ شیطان کی عبادت کریں اور وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے ان کے لئے خوشخبری ہے سو آپ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنادیجئے
1:۔ ابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والذین اجتنبوا الطاغوت ان یعبدونھا “ (اور جو لوگ بتوں کی عبادت کرنے سے بچ گئے) یعنی یہ دونوں آیتیں تین آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو زمانہ جاہلیت میں لا الہ الا اللہ “ کہتے تھے ان میں سے زید بن عمر و بن نفیل، ابوذر غفاری اور سلمان فارسی ؓ ہیں۔ 2:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ سعید بن زید ؓ ، ابوذر ؓ اور سلیمان ؓ جاہلیت میں بھی اچھی بات کا اتباع کرتے تھے اور احسن القول سے ” لا الہ الا اللہ مراد ہے۔ انہوں نے یہ بات کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ پر اس آیت کو اتارا (آیت ) ” یستمعون القول فیتبعون احسنہ “ (وہ لوگ بات کو سنتے ہیں اور اس کی اچھی بات کی تابعداری کرتے ہیں۔ 3:۔ ابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” الطاغوت “ سے مراد ہے شیطان یہاں واحد ہے جبکہ وہ ایک جماعت ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت ) ” یایھا الانسان ما غرک “ (الانفطار آیت 6) یہ سارے لوگوں کے لئے ہے جن کو یہ ارشاد فرمایا انسان واحد ہے۔ 4:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والذین اجتنبوا الطاغوت “ سے مراد ہے شیطان۔ 5:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانابوا الی اللہ لھم البشری “ (اور اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں) یعنی اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں (آیت ) ” فبشرعباد (17) (آیت ) ” الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ “ (سو آپ میرے بندوں کو خوشخبری سنادیجئے جو اس کلام الہی کا کان لگا کر سنتے ہیں پھر اس کی اچھی اچھی باتوں پر چلتے ہیں) یعنی ” احسنۃ “ سے مراد ہے اللہ کی اطاعت۔ 6:۔ الحکیم ترمذی (رح) نے نوادرالاصول میں ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فیتبعون احسنہ “ سے مراد ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے نبو وں کو (اپنی) اطاعت کا حکم فرمایا۔ 7:۔ سعید بن منصور (رح) نے کلبی (رح) سے (آیت ) ” یستمعون القول فیتبعون احسنہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اگر تین چیزیں نہ ہوتیں تو مجھے پہلے ہی مرجانا اچھا لگتا اگر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوتا اور اگر میں نہ بیٹھتا ایسے لوگوں کے ساتھ جو پاکیزہ کلمات (یعنی گفتگو) کو اسی طرح لیتے ہیں جیسے وہ پاکیزہ پھل کو لیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد نہ ہوتا۔ 8:۔ جو یبر (رح) نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ جب (یہ آیت) ” لھا سبعۃ ابواب “ (الحجر آیت 44) نازل ہوئی۔ تو انصار میں سے ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میرے ساتھ غلام ہیں اور میں ان میں سے ہر ایک دروازہ کے لئے ایک غلام کو آزاد کرتا ہوں اس پر یہ آیت (آیت ) ” فبشر عاد (17) (آیت ) ” یستمعون القول فیتبعون احسنہ “ نازل ہوئی۔ 9:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ (آیت ) ” فبشر عاد (17) (آیت ) ” یستمعون القول فیتبعون احسنہ “ نازل ہوئی۔ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ایک آواز لگانے والے کو بلایا جس نے آواز لگائی کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذرا بھی اس نے شرک نہیں کیا تو جنت میں داخل ہوگا۔ عمر ؓ اس قاصد کو ملے اور اس کو واپس لوٹا دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے ڈر ہے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کرلیں گے اور عمل نہیں کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر لوگ اللہ کی رحمت کی قدر کو جانیں گے تو اسی پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھیں گے اور اگر وہ لوگ اللہ کے غصہ اور اس کے عذاب کو جانیں گے تو اپنے اعمال کو چھوٹا سمجھنے لگ جائیں گے۔
Top