Tafseer-e-Usmani - Az-Zumar : 18
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اجْتَنَبُوا : بچتے رہے الطَّاغُوْتَ : سرکش (شیطان) اَنْ : کہ يَّعْبُدُوْهَا : اس کی پرستش کریں وَاَنَابُوْٓا : اور انہوں نے رجوع کیا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف لَهُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰى ۚ : خوشخبری فَبَشِّرْ : سو خوشخبری دیں عِبَادِ : میرے بندوں
جو سنتے ہیں بات پھر چلتے ہیں اس پر جو اس میں نیک ہے1 وہی ہیں جن کو راستہ دیا اللہ نے اور وہی ہیں عقل والے2
1  یعنی سب طرح کی باتیں سنتے ہیں۔ پر ان میں جو بات اچھی ہو اس پر چلتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ خدا کی بات سنتے ہیں اور اس میں جو ہدایات اعلیٰ سے اعلیٰ ہوں ان پر عمل کرتے ہیں۔ مثلاً ایک چیز رخصت واباحت کی سنی، دوسری عزیمت کی، تو عزیمت کی طرف جھپٹتے ہیں۔ رخصتوں کا تتبع نہیں کرتے۔ یا یوں ترجمہ کرو کہ اللہ کا کلام سن کر اس کی بہترین باتوں کا اتباع کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کی ساری باتیں بہتر ہی ہیں۔ کذا قال المفسرون۔ حضرت شاہ صاحب نے ایک اور طرح اس کا مطلب بیان کیا ہے۔ " چلتے ہیں اس کے نیک پر، یعنی حکم پر چلنا کہ اس کو کرتے ہیں۔ اور منع پر چلنا کہ اس کو نہیں کرتے۔ اس کا کرنا نیک ہے اس کا نہ کرنا نیک ہے۔ " 2  یعنی کامیابی کا راستہ ان ہی کو ملا ہے کیونکہ انہوں نے عقل سے کام لے کر توحید خالص اور انابت الی اللہ کا راستہ اختیار کیا۔
Top