Tafseer-e-Baghwi - Al-Furqaan : 48
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَرْسَلَ الرِّيٰحَ : بھیجیں ہوائیں اس نے بُشْرًۢا : خوشخبری بَيْنَ يَدَيْ : آگے رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً طَهُوْرًا : پانی پاک
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت کے (مینہ کے) آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک (اور نتھرا ہوا) پانی برساتے ہیں
48۔ وھوالذی ارسل الریاح،۔۔ رحمت سے مراد بارش ہے۔ وانزلنا من السماء ماء طھورا۔ ماء طھورا کی تفسیر۔ طہور کہتے ہیں جو فی نفسہ پاک ہو اور دوسری چیز کو پاک کرنے والی ہو۔ یہ نام ہے جس کے ساتھ پاک کیا جاتا ہے جیسے سحور، نام ہے جس کو سحری کے وقت کھایاجاتا ہے۔ فطور نام ہے افطار کی چیز کو۔ اس پر دلیل وہ روایت ہے جو نبی کریم نے سمندر کے بارے میں فرمائی تھی کہ اس کا پانی پاک ہے۔ اور اس کامردار حلال ہے۔ یہاں مطہر سے مراد پانی کا مطہرہونا ہے۔ کیونکہ انسان اس کے ذریعے سے حدث اور نجاست کو دور کرتا ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے ، وینزل علیکم من السماء ماء لیطھرکم بہ، اس آیت سے ثابت ہوگیا کہ طہارت صرف پانی ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اصحاب الرئے اس طرح گئے ہیں کہ طہور وہ چیز ہے جو طاہر اور اس سے نجاست کا زائل کرنا جائز ہے۔ ان کے نزدیک ہر مائع چیز جو پاک ہو اس سے نجاست دور کی جاسکتی ہے۔ جیسے سرکہ، گلاب کا پانی، اور اس جیسا۔ اگر اس کے ذریعے سے ازالہ نجاست جائز ہے تو اس سے ازالہ حدث بھی جائز ہے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ طہور اس چیز کو کہتے ہیں جو بار بار پاک کرے جیسے صبورہ وہ چیز جس کے ذریعے سے بار بار صبر کا ظہور ہو اور شکور وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے بار بار شکر کا حصول ہو۔ اسی قول کی بنیاد پر امام مالک کے نزدیک اس پانی سے جس کو وضو میں ایک بار استعمال کرلیا گیا، ہو وضو کرنا جائز ہے اور اگر پانی میں کوئی چیز گرجائے جس کے ذریعے سے اس پانی کا ذائقہ رنگ یابو زائل ہوجائے تو کیا اس کی طہوریت زائل ہوگی یا نہیں ؟ پانی ماء مستعمل کب ہوتا ہے۔ اگر پانی میں ایسی چیز گرجائے جو عام طور پر پانی میں موجود ہوتی ہے اس سے پانی نجس نہیں ہوگا۔ مثلا متی کا پانی میں گرجانا، درخت کے پتوں کا گرجانا اور اسی طرح اگرپانی ایک جگہ کھڑے کھڑے اس کا رنگ بدل جائے تو وہ نجس نہیں ہوگا، اور اسی طرح پانی کے اندر کوئی ایسی چیز کامل جاناجو اس میں مل نہ سکتی ہو۔ مثلا تیل کامل جانا اس کی بو کی وجہ سے وہ نجس نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس کے اندر تغیر مجاورۃ کی وجہ سے آیا ہے مخالطت کی وجہ سے نہیں آیا۔ ایسی چیز پانی کے ساتھ مل جائے جس سے عام طور پر پانی کو بچایاجاتا ہے، مثلا سرکہ، زعفران کا پانی اور اس جیسے تو اس صورت میں اس سے پاکی حاصل کرنا جائز نہیں۔ اگرچہ اس کا ایک وصف بھی متغیر نہ ہوا ہو۔ اور اگر اس پانی میں کوئی پاک چیز ملی ہوتوپھروہ پانی نجس نہیں ہوگا۔ اس سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے۔ خواہ وہ پانی قلیل ہو یا کثیر اگر اس پانی کے اندر کوئی نجس چیز گری ہوتوپھر دیکھیں گے پانی کتنی مقدار میں ہے۔ اگرپانی دوقلوں سے کم ہوتوپھروہ نجس ہوگا اور اگر دوقلے یا اس سے زائد مقدار میں ہوتوپھروہ نجس نہیں ہوگا۔ قلتان کا وزن پانچ گھڑے (قرب) ہیں جس کا وزن پانچ سورطل ہے۔ ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم سے جنگلی حوضوں کے متعلق پوچھا گیا جن حوضوں پر دواب اور چوپائے وغیرہ آتے رہتے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب پانی دوقلے ہوں تو وہ نجاست کو نہیں اٹھاتا۔ یہ قول امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا قول ہے۔ کہ جب پانی اس مقدار تک پہنچ جائے تونجاست کے گرنے سے وہ پانی نجس نہیں ہوگا۔ جب تک اس کے اوصاف ثلاثہ می سے کوئی وصف نہ بدل جائے اور ایک جماعت کا قول ہے کہ قلیل پانی نجاست کے گرنے سے نجس نہیں ہوگا، جب اس کے اوصاف ثلاثہ میں سے کوئی ایک وصف بدل جائے۔ یہ قول حسن ، عطاء نخفی ، اور زہری کا ہے اور انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ کہا گیا اے اللہ کے رسول۔ کیا ہم بئر بضاعۃ سے وضو کریں اور وہ ایسا کنواں ہے جس میں حیض کے کپڑے، کتوں کا گوشت، اور بدبودار چیزیں پھینکی جاتی ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کا پانی پاک ہے اس کو کوئی چیز نجس نہیں کرسکتی۔
Top